ڈاکٹرعمرفاروق احرار
31دسمبر کا سورج ڈوبتے ہی2016کا سال ماضی کی تاریک وادیوں میں اترگیا۔کہنے کو توسال پلک جھپکنے میں ہی بیت گیا،لیکن ہم نے کبھی یہ سوچنے کی ضرورت بھی محسوس کی ہے کہ کیایہ سال بھی گزشتہ سالوں کی ماننداچانک ہی گزرگیا ہے،یااِسے گزرنے میں کئی زمانے لگے ہیں!ہوسکتاہے کہ اُن لوگوں کے لیے 2016محض ایک لمحہ بن کر گزراہو،جن کے دل ودماغ فکروپریشانی اورجن کے تن غربت وافلاس،بیماریوں اوردکھوں سے آشنانہ ہوئے ہوں۔جن کے پیٹ رمضان المبارک کے روزوں میں بھی خالی نہ رہے ہوں۔جن کی اولادوں کے لیے بیروزگاری،تنگ دستی اورفاقہ کشی نامانوسیت کا درجہ رکھتے ہوں اورجن کی بیٹیاں جہیزکی کمی سے شادی نہ ہونے والی بچیوں کے تذکرہ کواَلف لیلائی داستانوں کاایک قصہ سمجھتی ہوں۔
اُن انسان نما ڈھانچوں اورزندگی کے نام پر تہمت آدم زادوں پر بھی نظر کرنی چاہیے جو جیتے جی بے گوروکفن میّت ہیں جو جسم ڈھانپناتو کجا ناسُوکھی روٹی کو ترستے رہے۔جنہوں نے جھونپڑوں میں رہتے ہوئے خوش حالی کے خواب دیکھے۔جن کی غربت میں پلی ہوئی بچیوں کے سروں میں جہیزنہ ہونے کی وجہ سے چاندی آگئی اوروالدین اُن کی شکم کی پیاس بجھاتے بجھاتے مفلوج اورمعذورہوگئے،لیکن اپنے جگرکے ٹکڑوں کو خوشیوں بھری زندگی نہ دے سکے۔شباب بڑھاپے میں ڈھل جائے تو جوانی کے چلے جانے کا احساس ہوتاہے،لیکن جن کے ہاں جسم وجان کارشتہ برقراررکھناہی مشکل ہو،انہیں کیاخبرکہ کب بچپن گیا،شباب آیااورکب بڑھاپے نے آدبوچا۔پُرکیف مناظر،بادِ صباکی اٹھکیلیاں اورجام وسبوسے مدہوشیاں اُنہی کے لیے مختص ہوتی ہیں جوکرب والم کی کلفتوں سے دُورہوتے ہیں۔
یہ سال لمحوں اورپلک جھپکتے ہی نہیں گزرا۔ یہ کہناآسان ہے کہ سال کے گزرنے کاپتانہیں چلا۔جانتاوہی ہے کہ جس کو لگی ہو۔زندگی عذاب بن جائے تو ہرلمحہ،ہرساعت اورہرگھڑی صدیوں پر محیط ہوجاتی ہے اورہرنفس قرنوں پرمشتمل ہوجاتاہے۔آسائشوں اورراحتوں میں پلنے والوں کو کیامعلوم کہ فاقہ کشوں کی رات کانٹوں پر کیسے بسرہوتی ہے اورنامرادیوں اورمحرومیوں کا اژدھا اُن کی تمناؤں اورآرزوؤں کو کیسے نگل لیتاہے؟خوش بختیوں اوراچھے دنوں کے خواب کیسے ٹوٹتے ہیں۔حسرتوں کے جنازے کیسے اٹھتے ہیں اورخوشیوں کا خون کیسے اورکیونکرہواکرتاہے!کوئی یہ حقیقت جان لے تو دنیاجنت بن سکتی ہے۔
سیاسی حالات کو دیکھاجائے تویہ سال حکمرانوں کے دلفریب وعدہ ہائے فردا اورحزبِ اختلاف کی طلبِ اقتدارکی لاحاصل محاذآرائیوں کے ناپسندیدہ مناظرلیے ہوئے ہے۔لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی خوش خبریاں،دھرنوں سے انقلاب کی نویدیں اوربلاول کے ذریعے ملک کی قسمت بدلنے کے لولی پاپ قوم کو دیے جاتے رہے ہیں۔فرقہ پرستوں،لسانی اورصوبائی تعصبات کے مارے طالع آزماؤں کے بلندبانگ انقلابی دعوے بھی خندۂ بے جادکھائی دیتے ہیں اورعوام ہیں کہ سب کچھ لُٹاکربھی چپ ہیں،مہربلب ہیں اورسخت جان اِتنے ہیں کہ جیتے ہیں ،نہ مرتے ہیں۔غربت،بے روزگاری،بدامنی،مہنگائی اورعدمِ تحفظ جیسے داخلی اوربنیادی مسائل سالِ گزشتہ میں گھٹنے کی بجائے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔اندرونی انتشار،علاقائی منافرت اورتعصبات کے کھلاڑی ،قومی وملکی وسائل کو شِیرمادرسمجھ کرڈکارنے والے سیاست دان اوربیوروکریٹ ملک کے نحیف ونزارڈھانچے کو چچوڑچچوڑکر بے خودی کی تانیں اڑاتے ،مسرتوں کی تال پر رقص کناں رہے۔
اسلام کی عمل داری جو تمام مسائل کی جڑکاٹ دیتی ہے ۔حسبِ سابق اہلِ اقتدارکی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہا۔دینی جماعتیں بھی اتحادکی تسبیح میں نہ پروئی جاسکیں اوراسلام بازی گرانِ کوئے ملامت کی ٹھوکروں کی زدمیں لرزاں وترساں جائے پناہ ڈھونڈتارہ گیااوراب وہ زخموں سے چُورچُورہوکردیدۂ حیراں سے چاروں اُوردیکھتاہے،لیکن یہاں اُس کا کوئی ساتھی ہے،نہ کوئی سجن۔سبھی مفادات کے راہی ہیں۔اسلام اُن کی منزل ہی نہیں ہے اوروہ اُن کے درمیان اجنبی اوربے وطن ہوکررہ گیاہے۔نامحرم اورمسافرکی طرح بے یارومددگار۔عالم اسلام میں بھی اسلام اوراہل اسلام کی زبوں حالی ناقابلِ بیان رہی۔عراق،شام،یمن،مصر،فلسطین،برما،کشمیر اورافغانستان میں خونِ مسلم کی ارزانی رہی،کہیں غیروں اوراکثراپنوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑٹوٹتے رہے۔مسلم حکمران مسلمانوں پر مظالم سے بے نیازہوکر اپنے اقتدارکے تحفظ کے تانے بانے بُنتے رہے۔
وقت کا پہیہ گھوم رہاہے۔2017کا سورج پوری آب وتاب سے طلوع ہوچکا۔گردشِ لیل ونہار اِسی طرح جاری رہے گی،لمحے،سال،قرن اورصدیاں اپنی رفتارسے گزرتی رہیں گی،مگرتاریخ کے اوراق اُنہی کے ذکرِ خیرسے روشن ہوں گے اوراُنہیں ہی نجاتِ اُخروی کا سندیسہ ملے گا۔جن کی بابت یہ لکھ دیاگیاہے کہ ’’وہ لوگ جو اِیمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے اورحق وصبرکی نصیحت کرتے رہے۔‘‘