عبداللطیف خالد چیمہ
صدر مملکت عارف علوی،وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہاہے کہ ’’ملک میں کسی بھی طرز پر انتہا پسندی اور تشدد کو برداشت نہیں کریں گے ۔‘‘(روزنامہ ’’جنگ‘‘لاہور ،17 ۔ دسمبر2018 ء)
ہم تینوں شخصیات اور مقتدر حلقوں کے اِس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں دینی حلقوں کا تعاون اظہر من اشمس ہے ،اب سوال پیدا ہوتا ہے اِنتہا پسندی کا مرتکب کون یا کون سے حلقے ہورہے ہیں ،ابھی تک اس بات کا معروف معنوں میں تعین نہیں کیا گیا۔جہاں تک انتہا پسندی ،شدت پسندی اور دہشت گردی کا تعلق ہے تو اسلامی تعلیمات نہ صرف یہ کہ اس کی اجازت نہیں دیتی بلکہ اِس کی مکمل نفی کرتی ہیں ،اسلام امن وآشتی کا دین ہے جو لوگ دین کا لبادہ اوڑھ کر منفی سرگرمیوں کے مرتکب ہوتے ہیں ،ان کو یہ راہ دکھانے والے عناصر سے ’’ادارے ‘‘ خود بھی واقف ہیں اور ان کے اصل کرداروں کو بھی خوب جانتے ہیں ،اس لیے بدامنی کے مرتکبین تک پہنچنا زیادہ مشکل کام نہیں، بے گناہ شہریوں کو دہشت گردی سے جبراََ جوڑنا منفی رد عمل کا موجب بنتاہے ،جبکہ شراب خانہ خراب کو ممنوع قرار دینے سے متعلق ارکان اسمبلی کا رویہ بسنت کے نام پر بے حیائی اور بدکاری کو عام کرنے کا راستہ دکھانے اور سرکاری سر پرستی میں جنسی اشتہاسے لبریز ڈراموں ،تھیٹر اور ٹی وی پروگراموں کی وجہ سے جو ہولناک نتائج سامنے آرہے ہیں ،ان کو روکنے کا کوئی سا بندوبست نظر نہیں آرھا۔
کتنی شرمناک صورتحال ہے کہ ایک ہندو اقلیتی ایم این اے رمیش کمار قومی اسمبلی میں ایک آئینی ترمیمی بل پیش کرتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ’’اسلام ہویا کوئی دوسرا مذہب،شراب پینے کی کوئی بھی اجازت نہیں دیتا ‘‘لیکن اس کے باوجود شراب کو اقلیتوں کے نام پر سرعام فروخت کیا جاتا ہے ،جبکہ شراب پینے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے ،کتنی شرم کی بات ہے کہ قومی اسمبلی نے شراب اُم الخبائث کو ممنوع قرار دینے کے آئینی ترمیمی بل کو مسترد کردیا ۔
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
اب بسنت جیسے تہوار جس کی وجہ سے ہرسال جانی نقصان بھی ہوتاہے اور یہ اخلاق باختہ کلچر کا آئینہ دار بھی ہے، کے لیے پیشگی سرکاری انتظامات کی خبریں سامنے آرہی ہیں،جو تحریک انصاف کے غیر اسلامی اور غیر قومی پولیسیوں اور رجہانات کا پتہ دیتی ہیں ،ایسے میں مقتدر حلقوں کو جنسی دہشت گردی سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار اور اس پر عمل درآمد بے حد ضروری ہے۔
مدارس دینیہ کے خلاف اقدامات اور حالیہ صورتحال
دینی مدارس اور دینی جماعتوں کے خلاف استعماری ایجنڈا ،ایک عرصے سے بتدریج آگے بڑھایا جا رہاہے اور دن بدن دینی اداروں کو پریشان کرنے کا عمل تیز ہو رھاہے ، عید الاضحی کے موقع پر قربانی کی کھالوں کے اکٹھا کرنے پر پابندی ،رجسٹریشن کے مسائل اور کوائف حاصل کرنے کے نام پر جو کچھ ہو رہاہے ،یہ کسی صورت نہ تو قرین قیاس ہے اور نہ ہی قرین انصاف ،دینی مدارس کے ذرائع آمدن کو ختم کرنے کے لیے حکومتی وسائل استعمال ہو رہے ہیں ،رجسٹریشن کی ضابطے کی کارروائی میں اِس طرح کی رکاوٹیں موجود ہیں کہ یہ ہو نہ پائے ، نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ضلع منڈی بہاء الدین کے علاقے ’’ریکے ‘‘ میں واقع مدرسہ انوارالعلوم کو سیل کردیا گیا ہے۔ ایسے میں ہم تنظیمات مدارس دینیہ خصوصاََ وفاق المدارس العربیہ کے اکابر سے گزارش کریں گے کہ وہ مدارس کا مقدمہ عوام کی عدالت میں لائیں اور تمام مکاتب فکر متفق ومتحد ہو کر بیرونی ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کریں ، حکمرانوں سے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ وہ ریاست مدینہ کے لیے سیاست مدینہ کا ماحول پیدا کریں ،بصورت دیگر سابقہ حکمرانوں کے انجام بد کو دیکھ لیں!
ختم نبوت کا نفرنس چناب نگر کی غیر معمولی پذیرائی
12,11ربیع الاوّل کو چناب نگر میں ہونے والی قدیمی سالانہ ختم نبوت کانفرنس اﷲ تعالیٰ کے کرم وفضل سے غیر معمولی طور پر کامیابی سے ہمکنار ہوئی ،ملک بھر سے ہزاروں فرزندان اسلام ، مجاہدین ختم نبوت اور سرخ پوشان احرار نے شرکت کی اور ایک نئے حوصلے کے ساتھ کارکنان احرار واپس گئے ،قائد احرار حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہ العالیٰ انتہائی علالت کے باوجود کانفرنس کے لیے چنا ب نگر مقیم رہے ،کانفرنس کے دوسرے روز بعد نماز ظہر شرکاء کانفرنس نے فقیدالمثال دعوتی جلوس نکالا ، ایوان محمود کے سامنے جلوس بڑے جلسہ ٔ عام کی شکل اختیار کرگیا ،جہاں تمام شرکاء نے قائد احرار حضرت پیر جی مدظلہ العالیٰ کے ساتھ اِس بات کا عہد مصمم کیا ،کہ وہ زندگی بھر عقیدۂ ختم نبوت کی پرامن جدوجہد جاری رکھیں گے ،قارئین کرام سے درخواست ہے کہ مرکز احرار و ختم نبوت چناب نگر کے لیے مزید جگہ کے لیے بھر پور کوشش جاری ہے ،آپ دعاؤں میں یاد رکھیں ۔وماعلینا الالبلاغ!