سید محمد کفیل بخاری
عام انتخابات کے انعقاد کاوقت قریب ترہورہاہے ،ملک کی بڑی چھوٹی سیاسی جماعتیں انتخابی اکھاڑے میں اترچکی ہیں،سیاسی سرگرمیاں عروج پراورانتخابی مہم زوروں پرہے ۔دنیامیں حکومتوں کی تشکیل وقیام کے جونظام رائج ہیں ان میں پارلیمنٹ کوسب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔لیکن پارلیمنٹ کی تشکیل کیسے ہو؟اس کے لیے دوطریقے زیادہ معروف ہیں۔برطانوی پارلیمانی اورامریکی صدارتی نظام ۔پاک وہند چونکہ برطانوی غلام رہے اس لیے یہاں پارلیمانی نظام ہی رائج ہے ۔افسوس ناک امریہ ہے کہ امریکہ وبرطانیہ اوردیگر مغربی ممالک نے اپنے معروضی حالات اورتہذیب وثقافت کوپیش نظررکھتے ہوئے ملک وقوم کی بہتری کے لیے اپنے حکومتی ،انتظامی وسیاسی نظام میں بہت سی تبدیلیاں کیں اور مسلسل کررہے ہیں لیکن ہماری صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے کہ:
’’جہاں روزاول کھڑے تھے کھڑے ہیں‘‘
پاکستان میں سیاسی وانتخابی عمل کو صحیح معنوں میں چلنے ہی نہیں دیاگیا۔طاقتور ریاستی ادارے ستربرس سے سیاسی عمل میں بے جامداخلت کرکے اسے سبوتاژ کرتے چلے آرہے ہیں۔منتخب حکومتوں کوبیک جنبش ابرو ختم اور پوری پارلیمنٹ کوجبراًگھر بھیج کر مارشل لاء کی حکومتیں قائم ہوتی رہیں۔جنرل ایوب ،جنرل یحی،جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویزمشرف تک سب نے یہی کچھ کیا۔اس کے پس منظرمیں عالمی استعماری خواہشیں اورسازشیں دونوں اپنابھرپور کرداراداکرتی رہیں۔2013ء کے انتخابات کے بعد نئی ڈاکٹرائن یہ ہے کہ اب منتخب پارلیمنٹ اورحکومت میں من پسند افراد لائے جائیں انہی کے ذریعے من مرضی کے فیصلے کراکر پوری قوت سے مسلط کیے جائیں اورانہیں مکمل آئینی تحفظ بھی فراہم کیاجائے ۔پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اوراس کاقیام بھی اسلام کے نام پرہوا ۔لیکن جونظام یہاں رائج ہواوہ آدھا تیتر اورآدھا بٹیر ہے ۔نہ برطانوی پارلیمانی نہ اسلامی ۔نتیجۃً گزشتہ ستر برس سے ملک وقوم سیاسی ومعاشی بحرانوں کے بھنور میں ہی پھنسے ہوئے ہیں ۔سیاسی جماعتیں جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کے چند خاندانوں کی ملکیت ہیں اوروہی پشت درپشت حکمرانی کوپیدائشی حق سمجھ کر قوم پرمسلط ہوتے چلے آرہے ہیں۔مسلم لیگ اورپیپلز پارٹی پاکستان کی دوبڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔جوباریاں بدل بدل کر حکومت کرتی آرہی ہیں۔درمیان میں تحریک انصاف اس نعرے کے ساتھ ابھری کہ وہ مروجہ خاندانی وموروثی سیاسی نظام کوتبدیل کرکے عوامی حکومت بنائے گی اور اس فرسودہ نظام سے قوم کونجات دلائے گی۔ لیکن افسوس صدافسوس تحریک انصاف نے بھی بالآخر اسی سرمایہ دارانہ فرسودہ نظام کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ۔پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ کا استعمال شدہ فضلہ قبول کیااور2018ء کے انتخابات میں انہی کرپٹ لوگوں کوٹکٹ دے دیے جن کے خلاف آوازبلند کی تھی ۔نوازشریف ،آصف زرداری اورعمران خان اربوں کھربوں کے اثاثوں کے مالک ہیں۔مسلم لیگ ،پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف کی تقریباًساری قیادت کایہی حال ہے ۔حتیٰ کہ ہمارے نگران وزیراعظم جناب ناصرالملک نے اپنے جواثاثے ظاہرکیے ہیں وہ بھی اس دوڑمیں بہت آگے ہیں۔ہمیں موجودہ سیاسی نظام سے سوفیصد خیرکی توقع توہرگز نہیں لیکن اگر انتخابی نظام کوصاف شفاف اورتسلسل کے ساتھ چلنے دیاجائے توکچھ نہ کچھ بہتری کی امیدکی جاسکتی ہے ۔عوام میں سیاسی شعور کی بیداری ،کھرے کھوٹے کی تمیز اورملک کے لیے بہترقیادت کے انتخاب کی صلاحیت ضرور پیداہوگی۔ جس کی بہترین اورتازہ ترین مثال ترکی کے انتخابات میں طیب اردوان اوران کی پارٹی کی شاندار کامیابی ہے جوانہیں جہدمسلسل کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے ۔یہاں سیاست پیسے کاکھیل بن چکی ہے ،اربوں کھربوں کے اثاثوں کے مالک سیاست دانوں کے مقابلے میں غریب مولوی کے لیے یہ ایک مشکل میدان اورسخت امتحان ہے ۔لیکن سیاسی میدان کوسیکولر قوتوں کے لیے کھلا چھوڑ دینا بھی دانشمندی نہیں،پارلیمنٹ میں دینی قوتوں کی موجودگی ورہنمائی ازحد ضروری ہے ۔آئین میں قرار داد مقاصد سے لے کر عقیدہ ٔ ختم نبوت تک اور دیگر اسلامی دفعات کا شامل ہوناپارلیمنٹ میں دینی قوتوں کی موجودگی اورجدوجہد کاثمرہ ہے ۔اس وقت دینی جماعتوں کے انتخابی اتحاد پرمشتمل ’’متحدہ مجلس عمل ‘‘بھی انتخابی میدان میں معرکہ آراہے جس کی قیادت مولانافضل الرحمن کررہے ہیں ۔اگرچہ متحدہ مجلس عمل کا اثرروسوخ اوردائرہ عمل پنجاب،سندھ کے مقابلے میں خیبرپختونخوااوربلوچستان میں زیادہ ہے ۔پنجاب اورسندھ کے بعض حلقوں میں بھی ان کے امیدوار میدان میں اترے ہیں۔اگر دوصوبوں میں بھی مجلس عمل کی حکومت قائم ہوجائے اور قومی اسمبلی میں حوصلہ افزا نمائندگی مل جائے تو مستقبل میں بڑی کامیابی بھی حاصل ہوسکتی ہے۔
مجلس احراراسلام بنیادی طور پر ایک دینی سیاسی جماعت ہے جو 1929ء میں قائم ہوئی قیام پاکستان سے قبل 1936ء / 1946ء کے انتخابات میں حصہ لیا اور مختلف نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد احراربراہ راست انتخابی سیاست سے دستبردار ہوئے اور اپنی جدوجہد کو عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور محاسبہ قادیانیت کے محاذ پر مخصوص کیا کہ یہی اس وقت کا سب سے اہم تقاضا تھا ۔الحمد ﷲ احرار نے محاذ ختم نبوت پر زبردست کامیابی حاصل کی اورپارلیمنٹ کے ذریعے دینی قیادت نے آئین میں متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردلوایا ۔پاکستان میں منعقد ہونے والے تمام انتخابات میں دینی قوتوں کا ساتھ دیا ۔1977ء کے انتخابات میں حصہ بھی لیا ۔ مجلس احراراسلام دینی جماعتوں کی فطری حلیف ہے اورفی الحال انتخابات میں براہِ راست حصہ نہیں لے رہی لیکن انتخابی عمل سے بالکل الگ بھی نہیں رہ سکتی اس لیے موجودہ انتخابات میں احرار بحیثیت جماعت ،متحدہ مجلس عمل کی حمایت کرتے ہیں ۔مذہبی ووٹ کی بہرحال ایک اہمیت اوروزن ہے جن حلقوں میں مجلس عمل کے امیدوار کھڑے ہیں احرار کارکن انہیں ووٹ دیں۔باقی حلقوں میں شرافت ،حب الوطنی اوردین داری کے معیار پرجماعتی نہیں انفرادی حمایت کریں اورامیدواروں سے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ ،آئین کی اسلامی دفعات کی بقاونفاذ اورملک کی نظریاتی اساس ،اسلام کے تحفظ اورترویج واشاعت کا تحریری حلف لے کرانہیں ووٹ دیں۔اگرانتخابی عمل کاتسلسل جاری رہا اوردینی قوتیں اسی طرح متحد رہ کر اس میں شریک رہیں تو طیب رجب اردوان کی طرح ایک دن ضرور انہیں بھرپور کامیابی حاصل ہوگی ۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایاتھا’’اسلام کا مقصد اسلام کی حکومت کے سواکچھ نہیں‘‘۔مولانافضل الرحمن نے اسی کی روشنی میں درست فرمایاہے کہ نفاذاسلام کے لیے ہمیں اقتدار کی ضرورت ہے اورہم پرامن آئینی طریقے سے اقتدار حاصل کرناچاہتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ انہیں کامیابی سے سرفراز کرے ۔انتخابی عمل پرامن اورشفاف طریقے سے مکمل ہواور پاکستان کوصالح ومحب وطن قیادت میسرآئے ۔(آمین)