انتخابات 2018ء …… نیا پاکستان، نتائج، وعدے اور توقعات
سید محمد کفیل بخاری
25؍ جولائی 2018ء کو پاکستان میں عام انتخابات کا مرحلہ اپنے تمام تر نقائص کے ساتھ مکمل ہوا۔ نتائج کے اعتبار سے پاکستان تحریک انصاف بڑی جماعت بن کر اُبھری۔ مسلم لیگ ن دوسری اور پیپلز پارٹی تیسری پوزیشن پر جا پہنچی، جبکہ متحدہ مجلس عمل نے اپنی سابقہ پوزیشن برقرار رکھی۔ اس نقصان کے ساتھ کہ مولانا فضل الرحمن پارلیمنٹ سے باہر ہیں۔
مجموعی طور پر انتخابات پر امن ہوئے لیکن پشاور میں انتحابی امیدوار ہارون بلور، مستونگ میں سراج رئیسانی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں اکرام اﷲ گنڈہ پور کے قتل نے فضا مغموم کر دی۔ سانحۂ مستونگ میں تقریباً دوسو افراد شہید ہوئے جبکہ عین انتخابات کے دن کوئٹہ بم دھماکے میں اکتیس افراد شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں تشدد کے اِکا دُکّا واقعات میں چند افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ واقعات قومی سلامتی کے اداروں کے دہشت گردی ختم کرنے کے دعووں پر بہرحال سوالیہ نشان ہے۔
دھاندلی کے الزامات تو ماضی میں ہر انتخاب کے موقع پر لگے اور کچھ نہ کچھ ہوتی بھی رہی۔ حالیہ انتخابات میں بھی بعض حلقوں سے شکایات ملی ہیں۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ صرف تحریک انصاف انتخابات کے شفاف ہونے پر مطمئن، فرحاں و شاداں ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور ایم کیو ایم نے انتخابات کو غیر شفاف اور دھاندلی زدہ قرار دیا ہے۔ یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ پوری مذہبی قیادت اور ’’ناپسندیدہ‘‘ سیاسی قیادت کو بھی پارلیمنٹ سے باہر بٹھا دیا گیا ہے۔
متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن نے انتخابات میں دھاندلی پر سب سے زیادہ سخت احتجاج کیا ہے۔ انھوں نے اے پی سی بھی منعقد کی، مولانا کا مؤقف ہے کہ عوامی مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے اور عوام کے حق رائے دہی پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ ہم انتخابات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، انھیں کالعدم قرار دے کر نئے انتخابات کرائے جائیں۔ہم اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ ارکانِ اسمبلی حلف نہ اٹھائیں اور ایک بھرپور احتجاجی تحریک چلائیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دھاندلی پر احتجاج کی حد تک تو مولانا کی حامی ہیں لیکن اسمبلی سے باہر رہنا اپنی سیاسی موت تصور کرتی ہیں۔ اس موقع پر وہ اپنے لیے ایک مضبوط اپوزیشن کے کردار کو ہی پسند کریں گی۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ارکان سیاہ پٹیاں باندھ کر حلف اٹھائیں گے۔
وزارتِ عظمیٰ، عمران خان کا پرانا سہانا خواب تھا۔ جسے تعبیر دینے کے لیے روایتی جوڑ توڑ شروع ہے۔ چھوٹی جماعتوں اور آزاد ارکان سے ’’روایتی جمہوری معاملات‘‘ طے کر کے انھیں اقتدار کے ’’جہاز‘‘ میں بٹھاکر دھڑا دھڑ بنی گالہ پہنچایا جا رہا ہے۔ آئندہ چند روز میں یہ ’’عظیم کام‘‘ بھی مکمل ہو جائے گا۔
اقتدار امانت بھی ہے اور بڑی ذمہ داری بھی۔ مسلّمہ حقیقت ہے کہ خیانت اور غفلت کا نتیجہ نقصان اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ عمران خان نے بڑی چاہت کے ساتھ یہ مقام اور کامیابی حاصل کی ہے، انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو قوتیں انھیں یہاں تک لے کر آئی ہیں وہ انھیں آزاد اور کھلا نہیں چھوڑیں گی۔ جن کو پانچ سال تک انھوں نے آرام سے نہیں بیٹھنے دیا وہ بھی ان کے ناک میں دم کرتے رہیں گے۔ عمران کا امتحان تو اب شروع ہوا ہے۔ انتخابات سے قبل انھوں نے عوام سے تبدیلی کے جو پرزور وعدے کیے انھیں بہرحال پورا کرنا ہو گا۔ انتخابات کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں انھوں نے کہا:
’’مجھے شرم آئے گی کہ پرائم منسٹر ہاؤس کے شاہانہ محل میں رہوں۔ حکمران عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر عیاشیاں کرتے رہے ہیں۔ میں وزیر اعظم ہاؤس اور چاروں گورنر ہاؤسز کو تعلیمی اداروں یا کسی آمدن کے مراکز میں تبدیل کر دوں گا‘‘۔
یہ بات انھوں نے کس ترنگ میں کہی، وہی بتا سکتے ہیں لیکن ہم اتنا عرض کریں گے کہ وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز کو یونیورسٹی بنانے سے پہلے وہ بنی گالہ میں 360کنال کے اپنے ’’غریبانہ محل‘‘ کو غریب عوام کے لیے وقف کریں۔ یقینا سابقہ حکمران باریاں بدل بدل کر قومی خزانے کو بے دریغ لوٹتے اور عیاشیاں کرتے رہے ہیں۔ امید ہے کہ عمران خان وہ آموختہ نہیں دہرائیں گے۔ انھوں نے اپنی متعدد تقاریر میں ریاستِ مدینہ کو اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے۔یہ تو ناممکن ہے کہ عمران خان کا نیا پاکستان ریاستِ مدینہ سے مماثل ہو گا لیکن اگر وہ آئین کے مطابق ہی ملک کو چلا لیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
قطع نظر اس کے کہ انتخابات شفاف ہوئے یا ان میں دھاندلی ہوئی عمران کو اپنے وعدے پورے کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ ہم کسی خوش فہمی میں ہرگز مبتلا نہیں لیکن اگر وہ ملک سے بددیانتی، دہشت گردی اور بدامنی کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہو گا۔ بارش کا پہلا قطرہ تو یہ ہے کہ مستقبل کی حکمران پارٹی آئی ایم ایف سے سودی قرضوں کی بھیک مانگنے کے لیے پرعزم ہے، سوال یہ ہے کہ پہلا قرضہ کیسے اترے گا؟
پاکستان کی دینی قیادت کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے کہ ’’نئے پاکستان‘‘ میں ان کا کیا کردار ہو گا۔ انتخابی نتائج پر یقینا وہ بہت کچھ سوچ رہے ہوں گے، سوچنا بھی چاہیے اور نئی صف بندی کرنی چاہیے۔ ناکامی اور شکست کے جو بھی اسباب ہیں اُن پر غور کرنا چاہیے۔ دینی طبقات کا پہلے ہی بہت نقصان ہو چکا، اب مزید نقصان کے ہرگز متحمل نہیں۔ پہلے کی تلافی تو بہت مشکل ہے لیکن آئندہ کے نقصانات سے بچنے کی تدابیر تو بہر صورت اختیار کرنی چاہئیں۔
قائدِ اعظم کا پرانا پاکستان تو ہم ستر برس سے دیکھ ہی رہے ہیں، اب دیکھتے ہیں عمران خان کا ’’نیا پاکستان‘‘