علامہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اﷲ علیہ
نام ، نسب خاندان:
عائشہ رضی اﷲ عنہا نام، صدیقہ لقب، ام المؤمنین خطاب ام عبداﷲ کنیت اور حمیرا لقب ہے[۱]۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنت الصدیق سے خطاب فرمایا ہے [۲]۔
عبداﷲ ، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے بھانجے یعنی آپ کی بہن حضرت اسماء رضی اﷲ عنہا کے صاحبزادے تھے، جو زیادہ تر اپنے باپ کی نسبت سے عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ کے نام سے مشہور ہیں۔ عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے، چونکہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی اولاد نہ تھی، اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے حسرت کے ساتھ عرض پرداز ہوئیں کہ اور بیبیوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر اپن ی اپنی کنیت رکھ لی ہے میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ فرمایا ’’اپنے بھانجے عبداﷲ کے نام پر[۳]‘‘ چنانچہ اسی دن سے اُمِ عبداﷲ ، عائشہ رضی اﷲ عنہا کی کنیت قرار پائی۔
مناقب:
اہل بیت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو خاص مرتبہ حاصل تھا اس بناء پر کتاب اﷲ کا ترجمان، سنت رسول کا معبر اور احکام اسلامی کا معلم ان سے بہتر کون ہوسکتا تھا اور لوگ پیغمبر کو صرف جلوت میں دیکھتے تھے اور یہ خلوت و جلوت دونوں میں دیکھتی تھیں، اسی بناء پر وحی کی زبان وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی [۵۳/النجم:۳] نے فیصلہ کیا:
فَضْلُ عَائِشَۃَ عَلَی النِّسَاءِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلیٰ سَائِرِ الطَّعَام۔[۴]
’’عائشہ رضی اﷲ عنہا کو عام عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح ثرید کے کھانے کو عام کھانوں پر۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے بستر کے سوا کسی دوسری اُمّ المؤمنین کے بستر پر وحی نازل نہیں ہوئی[۵]، جبریل امین نے ان کے آستانہ پر اپنا سلام بھیجا[۶]،دو بار ناموس اکبر کو ان مادی آنکھوں سے دیکھا[۷]، عالم ملکوت کی صدائے بے جہت نے ان کی عفت و عصمت پر شہادت دی، نبوت کے الہامِ صادق نے ان کو آخرت میں پیغمبر کی چہیتی بیویوں میں ہونے کی بشارت سنائی[۸]۔
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ میں فخر نہیں کرتی، بلکہ بطور واقعہ کے کہتی ہوں کہ خدا نے مجھ کو نو باتیں ایسی عطا کی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی اور کو نہیں ملیں، خواب میں فرشتے نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے میری صورت پیش کی، جب میں سات برس کی تھیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے نکا ح کیا، جب میرا سن نو برس کا ہوا تو رخصتی ہوئی، میرے سوا کوئی اور کنواری بیوی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جب میرے بستر پر ہوتے، تب بھی وحی آتی تھی میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی تھی، میری شان میں قرآن کی آیتیں اتریں میں نے جبریل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے میری ہی گود میں سر رکھے ہوئے وفات پائی[۹]۔
فضل و کمال:
علمی حیثیت سے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو نہ صرف عام عورتوں پر نہ صرف امہات المؤمنین رضی اﷲ عنہن پر، نہ صرف خاص خاص صحابیوں پر بلکہ چند بزرگوں کو چھوڑ کر تمام صحابہ پر فوقیتِ عام حاصل تھی، صحیح ترمذی میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے:
مَااَشْکَلَ عَلَیْنَا اَصْحَاب مُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حَدیِثٌ قَطُّ فَسَأَ لْنَا عَائِشَۃَ اِلَّا وَجَدْنَا عِنْدَھَا مِنْہُ عِلْمًا[۱۰]۔
’’ہم صحابیوں کو کوئی ایسی مشکل بات کبھی نہیں پیش آئی کہ جس کو ہم نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے متعلق کچھ معلومات ہم کو نہ ملی ہوں‘‘۔
عطا ابن ابی الرباح تابعی جن کو متعدد صحابیوں کے تلمذ کا شرف حاصل تھا کہتے ہیں: کَانَتْ عَائِشَۃُ اَفْقَہَ النَّاسِ وَاَعْلمَ النَّاسِ وَاَ حْسَنَ رَأ یًا فِیْ الْعَامَّۃِ[۱۱]۔
’’سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سب سے زیادہ فقیہ، سب زیادہ صاحبِ علم اور عوام میں سب سے زیادہ اچھی رائے والی تھیں۔‘‘
امام زہری جو تابعین کے پیشوا تھے جنھوں نے بڑے بڑے صحا بہ رضی اﷲ عنہم کے آغوش میں تربیت پائی تھی، کہتے ہیں:
کَانَتْ عَائِشَۃ اَعْلَمَ النَّاسِ یَسْئَلُھَا الْاَ کَابِرُ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم[۱۲]۔
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں، بڑے بڑے صحابہ رضی اﷲ عنہم ان سے پوچھا کرتے تھے۔‘‘
حضرت عبدالرحمن بن عوف کے صاحبزادے ابوسلمہ کہ وہ بھی جلیل القدر تابعی تھے، کہتے ہیں۔
ما رَایْتُ اَحَدًا اَعْلَمَ بِسْنَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہِ علیہ وسلم وَلَا اَفْقَہَ فِیْ رَأیِ اِنْ اُحْتِیْجَ اِلیٰ رَایِہٖ وَلَا اَعَلَمَ بِآیَۃٍ فِیْمَا نَزَلَتْ وَلَا فَرِیْضَۃٍ مِنْ عَائِشَۃَ[۱۳]۔
’’میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنتوں کا جاننے والا اور رائے میں اگر اس کی ضرورت پڑے، ان سے زیادہ فقیہ اور آیتوں کے شانِ نزول اور فرائض کے مسئلہ کا واقف کار حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘
حواریٔ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے لختِ جگر عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہ کا قول ہے:
مَارَایْتُ اَحَدً اَعْلَم بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ، وَالْعِلْمِ وَالشِّعْرِ وَالطِّبِّ مِنْ عَائِشَۃَ اُمُِّ الْمُؤمِنِیْنَ[۱۴]۔
’’میں نے حلال و حرام و علم و شاعری اور طب میں ام المؤمنین عائشہ رضی اﷲ عنہا سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘
ایک اور روایت یہ الفاظ اس طرح ہیں:
مَارَایْتُ اَحَدً اَعْلَمَ بِالْقُرْآن وَلَا بِفَرِیْضَۃٍ وَلَا بِحَلَالِ وَلَا بِفِقْہٍ وَلَا بِشِعْرِ وَلَا بِطِبِّ وَلَا بِحَدِیْثِ الْعَرَبِ وَلَا نَسَبٍ مِنْ عَائِشَۃ[۱۵]۔
’’قرآن ، فرائض، حلال، فقہ، شاعری، طب، عرب کی تاریخ نسب کا حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے بڑھ کر عالم کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘
ایک شخص نے مسروق تابعی سے جو تمام تر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے تربیت یافتہ تھے، دریافت کیا کہ کیا، ام المؤمنین فرائض کا فن جانتی ہیں؟ جواب دیا۔
ایْ و الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیْدِہِ لَقَدْ رَأیْتُ مَشِیْخَۃَ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَسْئَلُوْنَھَا عَنِ الْفَرَائِضِ[۱۶]۔
’’خدا کی قسم میں نے بڑے بڑے صحابہ کو ان سے فرائض کے مسئلے دریافت کرتے دیکھا۔‘‘
اخلاق و عادات:
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذات اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت میں بسر کیا جو دنیا میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے آئی تھی اور جس کے روئے جمال کا غازہ ’’اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقِ عَظِیْم‘‘ [۶۸/القلم:۴] ہے۔ اس تربیت گاہِ روحانی یعنی کاشانۂ نبوت نے پروگیانِ حرم کو حسنِ اخلاق کے اس رتبہ تک پہنچادیا تھا جو انسانیت کی روحانی ترقی کی آخری منزل ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا اخلاق نہایت بلند تھا، وہ نہایت سنجیدہ، فیاض قانع عبادت گزار اور رحم دل تھیں۔
قناعت پسندی:
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے کھانا طلب کیا پھر فرمایا میں کبھی سیر ہو کر نہیں کھاتی کہ مجھے رونا نہ آتا ہو، ان کے ایک شاگرد نے پوچھا یہ کیوں؟فرمایا مجھے وہ حالت یاد آتی ہے جس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا کو چھوڑا ، خدا کی قسم! دن میں دو دفعہ کبھی سیر ہو کر آپ نے روٹی اور گوشت نہیں کھایا۔
(ترمذی، زہد)
شوہر کی اطاعت:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسرت و رضا کے حصول میں شب وروز کوشاں رہتیں، اگر ذرابھی آپ کے چہرے پر حزن و ملال و کبیدہ خاطری کا اثر نظر آتا، بیقرار ہوجاتیں[۱۷]۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا اتنا خیال تھا کہ ان کی کوئی بات ٹالتی نہ تھیں، ایک دفعہ عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ سے خفا ہو کر ان سے نہ ملنے کی قسم کھا بیٹھی تھیں، لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ننہالی رشتہ داروں نے سفارش کی تو انکارکرتے نہ بنا[۱۸]۔
فیاضی:
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے اخلاق کا سب سے ممتاز جوہر ان کی طبعی فیاضی اور کشادہ دستی تھی دونوں بہنیں حضرت عائشہ اور حضرت اسماء رضی اﷲ عنہما نہایت کریم النفس اور فیاض تھیں، حضرت عبداﷲ ابن زبیررضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ان دونوں سے زیادہ سخی اور صاحبِ کرم میں نے کسی کو نہیں دیکھا، فرق یہ تھا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا ذرا ذرا جوڑ کر جمع کرتی تھیں، جب کچھ رقم اکٹھی ہوجاتی تھی، بانٹ دیتی تھیں اور حضرت اسماء رضی اﷲ عنہا کا یہ حال تھا کہ جو کچھ پاتی تھیں، اس کو اٹھا نہیں رکھتی تھیں[۱۹]اکثر مقروض رہتی تھیں اور ادھر ادھر سے قرض لیا کرتی تھیں، لوگ عرض کرنے لگے کہ آپ کو قرض کی کیا ضرورت ہے فرماتیں کہ جس کی قرض ادا کرنے کی نیت ہوتی ہے خدا اس کی اعانت فرماتا ہے میں اس کی اسی اعانت کو ڈھونڈتی ہوں[۲۰]۔
خیرات میں تھوڑے بہت کا لحاظ نہ کرتیں، جو موجود ہوتا سائل کی نذر کر دیتیں۔
ایک دفعہ ایک سائلہ آئی جس کی گود میں دو ننھے ننھے بچے تھے، اتفاق سے اس وقت گھر میں کچھ نہ تھا، صرف ایک چھوہارا تھا، اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں میں تقسیم کردیا، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب باہر سے تشریف لائے تو ماجرا عرض کیا[۲۱]۔ ایک دفعہ سائلہ آئی سامنے کچھ انگور کے دانے پڑے تھے، ایک دانہ اٹھا کر اس کے حوالہ کیا، اس نے دانہ کو حیرت سے دیکھا کہا ایک دانہ بھی کوئی دیتا ہے، یہ دیکھو کہ اس میں کتنے ذرے ہیں[۲۲]۔یہ اس کی طرف اشارہ تھا۔
(فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًایَّرَہٗ) [۹۹؍الزلزال:۷]
’’جس نے ایک ذرہ بھر بھی نیکی کی وہ اس کو دیکھے گا‘‘
سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک لاکھ درہم بھیجے، شام ہوتے ہوتے ایک حبہ بھی پاس نہ رکھا، سب محتاجوں کو دے دلا دیا، اتفاق سے اس دن روزہ رکھا تھا، لونڈی نے عرض کی افطار کے سامان کے لیے تو کچھ رکھنا تھا، فرمایا کہ تم نے یاد دلا دیا ہوتا[۲۳]۔
ایک دفعہ اور اسی قسم کا واقعہ پیش آیا روزے سے تھیں گھر میں ایک روٹی کے سوا کچھ نہ تھا اتنے میں ایک سائلہ نے آواز دی لونڈی کو حکم دیا کہ وہ ایک روٹی بھی اس کی نذر کردو عرض کی کہ شام کو افطار کس چیز سے کیجئے گا ، فرمایا یہ تو دے دو شام ہوئی کسی نے بکری کا سالن ہدیہً بھیجا، لونڈی سے کہا دیکھو یہ تمہاری روٹی سے بہتر چیز خدا نے بھیج دی[۲۴]۔اپنے رہنے کا مکان امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ فروخت کردیاتھا، قیمت جو آئی وہ سب راہِ خدا میں صرف کردی[۲۵]۔
عبادتِ الٰہی:
عبادتِ الٰہی میں اکثر مصروف رہتیں، چاشت کی نماز پڑھا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ اگر میرے والد بھی قبر سے اٹھ کر آئیں اور مجھ کو منع کریں تو میں باز نہ آؤں[۲۶]۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ راتوں کو اٹھ کر نماز تہجد ادا کرتی تھیں[۲۷]۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اس قدر پابند تھیں کہ اگر اتفاق سے آنکھ لگ جاتی اور وقت پر نہ اٹھ سکتیں تو سویرے اٹھ کر نماز فجر سے پہلے تہجد ادا کرلیتیں، ایک دفعہ اسی موقع پر ان کے بھتیجے قاسم پہنچ گئے تو انھوں نے دریافت کیا کہ پھوپھی جان یہ کیسی نماز ہے؟ فرمایا میں رات کو نہیں پڑھ سکی اور اب اس کو چھوڑ نہیں سکتی ہوں[۲۸]۔
اکثر روزے رکھاکرتی تھیں اور بعض روایتوں میں ہے کہ ہمیشہ روزے سے رہتی تھیں[۲۹]۔ ایک دفعہ گرمی کے دنوں میں عرفہ کے روز روزے سے تھیں گرمی اور تپش اس قدر شدید تھی کہ سر پر پانی کے چھینٹے دیے جاتے تھے، عبدالرحمن آپ کے بھائی نے کہا کہ اس گرمی میں روزہ کچھ ضروری نہیں افطار کر لیجیے فرمایا کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبانی یہ سن چکی ہوں کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنا سال بھر کے گناہ معاف کرا دیتا ہے تو میں روزہ تو ڑ دوں گی[۳۰]۔حج کی شدت سے پابند تھیں، کوئی ایسا سال بہت کم گزرتا تھا جس میں وہ حج نہ کرتی ہوں[۳۱]۔
غلاموں پر شفقت:
صرف ایک قسم کے کفارہ میں ایک دفعہ انھوں نے چالیس غلام آزاد کیے[۳۲]،آپ کے کل آزاد کیے ہوئے غلاموں کی تعداد ۶۷ تھی[۳۳]۔تمیم کے قبیلہ کی ایک لونڈی ان کے پاس تھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا کہ یہ قبیلہ بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی کی اولاد میں ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اشارہ سے اس کو آزاد کردیا۔ (بخاری کتاب العتق) بریرہ نامی مدینہ میں ایک لونڈی تھیں ان کے مالکوں نے ان کو مکاتب کیا تھا یعنی کہہ دیا تھا کہ اگر تم اتنی رقم جمع کردو آزاد ہو، اس رقم کے لیے انھوں نے لوگوں سے چندہ مانگا، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے سنا تو پوری رقم اپنی طرف سے ادا کر کے ان کو آزاد کردیا[۳۴]۔
وفات:
سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی خلافت کا آخری حصہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی زندگی کا آخری زمانہ ہے، اس وقت ان کی عمر سرسٹھ برس کی تھی، ۵۸ھ میں رمضان کے مہینہ میں بیمار پڑیں، چند روز تک علیل رہیں۔ کوئی خیریت پوچھتا، فرماتی: ’’اچھی ہوں‘‘[۳۵]۔جو لوگ عیادت کو آئے، بشارت دیتے، فرماتیں:’’اے کاش! میں پتھر ہوتی۔ اے کاش! میں کسی جنگل کی جڑی بوٹی ہوتی‘‘[۳۶]۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے اجازت چاہی تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو تامل ہوا کہ وہ آکر تعریف نہ کرنے لگیں، بھانجوں نے سفارش کی تو اجازت دی، حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے کہا:’’آپ کا نام ازل سے اُمّ المؤمنین تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سب سے محبوب بیوی تھیں، رفقا سے ملنے میں اب آپ کو اتنا ہی وقفہ باقی ہے کہ روح بدن سے پرواز کر جائے، خدا نے آپ ہی کے ذریعہ تیمم کی اجازت فرمائی۔ آپ کی شان میں قرآن کی آیتیں نازل ہوئیں جو اب ہر محراب و مسجد میں شب و روز پڑھیں جاتی ہیں۔ فرمایا : ابن عباس رضی اﷲ عنہ مجھے اپنی اس تعریف سے معاف رکھو،مجھے یہ پسند تھا کہ میں معدومِ محض ہوتی[۳۷]۔
۵۸ھ تھا اور رمضان کی سترہ تاریخ مطابق ۱۳؍جون ۶۷۸ء کی نماز وتر کے بعد شب کے وقت وفات پائی۔ جنازہ میں اتنا ہجوم تھا کہ لوگوں کا بیان ہے کہ رات کے وقت اتنامجمع کبھی نہیں دیکھا گیا، بعض روایتوں میں عورتوں کا اژدہام دیکھ کر روز عید کے ہجوم کا دھوکاہوتا تھا[۳۸]۔ حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا رونے کی آواز سن کر بولیں عائشہ رضی اﷲ عنہا کے لیے جنت واجب ہے کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سب سے پیاری بیوی تھیں۔ یہ حاکم کی روایت ہے۔ مسند طیالسی میں ہے کہ انھوں نے کہا : خدا ان پر رحمت بھیجے کہ اپنے باپ کے سوا وہ آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں[۳۹]۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ ان دنوں مدینہ کے قائم مقام حاکم تھے، انھوں نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔ قاسم بن محمد ابی بکر ، عبداﷲ بن عبدالرحمن بن ابی بکر ، عبداﷲ بن عتیق، عروہ بن زبیر اور عبداﷲ ابن زبیر رضی اﷲ عنہم، بھتیجوں اور بھانجوں نے قبر میں اتارا[۴۰] اور حسب وصیت جنت البقیع میں مدفون ہوئیں، مدینہ میں قیامت برپا تھی کہ آج حرمِ نبوت کی ایک اور شمع بجھ گئی۔ مسروق تابعی بیان کرتے ہیں کہ اگر ایک بات کا مجھ کو خیال نہ ہوتا تو ام المؤمنین رضی اﷲ عنہا کے لیے میں ماتم کا حلقہ قائم کرتا[۴۱]۔ ایک مدنی سے لوگوں نے پوچھا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی وفات کا غم اہلِ مدینہ نے کتنا کیا، جواب دیا جس جس کی وہ ماں تھیں (یعنی تمام مسلمان) اسی کو ان کا غم تھا[۴۲]۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے کچھ متروکات چھوڑے جن میں سے ایک جنگل بھی تھا، یہ ان کی بہن حضرت اسماء رضی اﷲ عنہا کے حصہ میں آیا، امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے تبرکاً اس کو ایک لاکھ درم میں خریدا۔ حضرت اسماء رضی اﷲ عنہ نے یہ کثیر رقم عزیزوں میں تقسیم کردی[۴۳]۔
حواشی
[۱]جن روایتوں میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا لقب ’’عمیرا‘‘ (گوری) ہے محدثین کے نزدیک وہ سنداً ثابت نہیں ہیں جیسا کہ کتب موضوعات میں زیر حدیث ’’خذواشطر دینکم من الحمیراء‘‘ مذکور ہے۔ بعضوں نے لکھا کہ نسائی کی ایک روایت میں سند صحیح لقب یہ لقب مذکور ہے، لیکن مجھ کو تلاش پر بھی یہ روایت نہیں ملی،بلکہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ ہر وہ حدیث جس میں حمیرا ہے جھوٹی اور گھڑی ہوئی ہے۔ (کشف الخفا،مزیل الالباس مما اشتہر علی السنۃ الناس احمد عطاء حلبی جلد:۱، ص:۳۷۴) بہر حال مصنفین کتب رجال نے حمیرا آپ کا لقب لکھا ہے اور للغات الحدیث مثلاً مجمع البحار اور نہایہ وغیرہ میں بھی زیر لفظ حمرا، اس کی تصریح ملی ہے واﷲ اعلم،[۲]۔ ترمذی تفسیر سورۂ المومنون، [۳]۔ ابوداؤد کتاب الادب و مسند ابن حنبل مسند عائشہ رضی اﷲ عنہا ص:۹۳، ص:۱۰۷،[۴]۔ صحیح بخاری و ترمذی وغیرہ، مناقب عائشہ رضی اﷲ عنہا، [۵]۔صحیح بخاری مناقب عائشہ رضی اﷲ عنہ، [۶،۷،۸]۔ ایضاً، [۹]۔ مستدرک للحاکم والطبقات لابن سعد، [۱۰]۔جامع ترمذی مناقب عائشہ رضی اﷲ عنہا،[۱۱]۔مستدرک حاکم، [۱۲]۔طبقات ابن سعد جزء ثانی ، ص:۶، [۱۳]۔مسند مذکور، [۱۴]مستدرک حاکم، [۱۵]۔زرقانی جلد:۳، ص:۲۲۷ بحوالہ حاکم و طبرانی بہ سند صحیح، [۱۶]۔مستدرک حاکم وابن سعد جز ثانی ص:۱۲۶، [۱۷]۔مسند ص :۱۱، واقعہ حنا،مسند جلد:۴،ص:۵۸، مسند جلد۶ ص:۱۳۸، صحیح بخاری باب الجنائزذکر ماتم جعفر طیارہ نیز دیکھو ’’باب مناقب قریش‘‘، [۱۸]۔صحیح بخاری باب مناقب قریش، [۱۹]۔مسند ابن حنبل ج:۶، ص:۹۹،[۲۰]۔ابن سعد ذکر حجرات امہات المؤمنین،[۲۱]۔۔موطائے امام مالک باب الترغیب فی الصدقہ،[۲۲]۔طبقات ابن سعد جز نساء ص:۴۵،[۲۳]۔ابن سعد جزنساء ص:۴۶،[۲۴]۔موطائے امام مالک کتاب الجامع باب الترغیب فی الصدقہ،[۲۵]۔ابن سعد ذکر حجرات امہات المؤمنین،[۲۶]۔مسند احمد جلد:۶، ص:۱۳۸،[۲۷]۔ایضاً جلد:۶،ص:۹۲،[۲۸]۔دار قطنی کتاب الصلوٰۃ،[۲۹]۔ابن سعد جز نساء ،ص ۴۷،[۳۰]۔مسند احمد جلد:۶،ص:۱۲۸،[۳۱]۔صحیح بخاری باب حج النساء،[۳۲]۔صحیح بخاری باب الہجرۃ،[۳۳]۔شرح بلوغ المرام امیر اسماعیل کتاب العتق،[۳۴]۔صحیح بخاری ومسلم و مسند احمد وغیرہ،[۳۵]۔ابن سعد جز نساء ص:۵۱،[۳۶]۔ایضا، [۳۷]۔اس روایت کا صرف پہلا ٹکڑا بخاری مناقب عائشہ میں مذکور ہے او راس سے زیادہ تفسیر سورۂ نور میں ہے لیکن پوری روایت مستدرک حاکم میں ہے، علی شرط الصحیحین، امام احمد نے مستدرک میں بھی یہ پوری روایت نقل کی ہے، [۳۸]۔ابن سعد جز نساء ص:۵۲،[۳۹]۔طیالسی مسند ام سلمہ رضی اﷲ عنہا ص:۲۲۴،[۴۰]۔تمام واقعات حاکم کی مستدرک سے ماخوذ ہیں، حاکم نے ان میں سے اکثر روایتوں کی نسبت لکھا ہے کہ علی شرط الصحیحین ہیں، [۴۱]۔ابن سعد جزنساء ص:۵۴،[۴۲]۔ایضاً،[۴۳]۔صحیح بخاری باب ہبۃ الواحد للجماعۃ۔
٭……٭……٭