ڈاکٹر اسامہ قاری
جدہ میں ایک ساتھی کے بچے کی تقریب ختم قرآن تھی کافی علماء جمع تھے، کھانا کھانے کے بعد والد صاحب (قاری رفیق صاحب) کے ساتھ کچھ علماء کا مجمع بیٹھا تھا جن میں مولانا عزیر الرحمان شاہد صاحبزادہ امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر (رحمہ اﷲ) بھی تھے، علمائے دیوبند کا ذکر چل رہاتھا تو وہ کہنے لگے کے گھگڑ منڈی میں ایک بزرگ رہتے تھے غیر مقلد تھے مگر والد صاحب اور اکابر علماء دیوبند سے بہت تعلق تھا۔
ایک دن وہ غیر مقلد بزرگ رات کو اچانک گھر آئے، والد صاحب کو بہت تعجب ہوا اس وقت خیریت تو ہے؟کہنے لگے میں ابھی ٹرین کے سفر سے واپس آیا ہوں اور گھر جارہاتھا راستے میں میں نے کسی شخص کو پولی (کوی روڈ پر جگہ ہے) پر چادر اوڑھے سوتے دیکھا، منہ ڈھکا ہوا تھا میں نے سمجھا کہ شاید کوئی مسافر غریب ہوگا اس سے پوچھ لوں کہ کھانا کھایا یا نہیں اور اسکو اپنے ساتھ لے جاؤں، میں نے جب اسکے پاؤں ہلکے سے دبائے اور پوچھا کہ کون ہو اور کھانا کھایا؟
اسنے جواب دیا کہ میں مسافر ہوں اور کھانا کھایا ہے، آواز سنی تو میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی وہ توحضرت امیر شریعت مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری کی آواز تھی میری تو ہمت نہ ہوئی آگے بات کرنے کی تو میں فوراً آپ کے پاس آیا ہوں، آپ جلدی سے چلیں اور ان کو لے کر آئیں۔ والد صاحب نے فوراً کپڑے پہنے، خود تشریف لے گئے اور شاہ جی کو لے کر آئے۔ شاہ جی غالباً ٹرین سے پہنچے ہونگے اور غیر مناسب وقت سمجھ کر کسی کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا ہوگا شاہ جی کا اس روز گوجرانوالہ میں جلسہ تھا۔ سبحان اﷲ کیا اخلاق تھے ہمارے ان بزرگوں کے …… رحمہ اﷲ رحمتہً واسِعۃً