عبداللطیف خالد چیمہ
تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت مارچ۱۹۵۳ ء میں دس ہزار نفوس قدسیہ منصب رسالت (ﷺ) پر قربان ہوگئے، لاہور کے مال روڈ کو شہیدوں کے خون نے ترکردیا، ان پاک طینت شہیدوں کی لاشوں کوراوی میں بہایا گیا یا پھر چھانگا مانگا میں جلایا گیا، بالآخر لاہوری وقادیانی مرزائی اسمبلی کے فلور پر غیر مسلم اقلیت قرار پائے، اس مہینے میں ہم ہرسال شہداء ۵۳ ء کو بطور خاص یاد کرتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ۹؍ مارچ، جمعۃ المبارک کو بعد نمازِ مغرب ایوان اقبال لاہور میں ’’امیر شریعت کانفرنس‘‘ کے انعقاد کا اعلان آپ بار بار پڑھ چکے ہیں، امیر شریعت، احرار اور تحفظ ختم نبوت دراصل ایک ہی کام کے مختلف نام ہیں ۔حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی مستعار زندگی، قرآن سے محبت، انگریز سے نفرت اور عقیدہ ٔ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے وقف کررکھی تھی، اپنی بہترین خداداد صلاحیتوں سے انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں سے برٹش ایمپلائرکا خوف نکال باہر کیا۔ پاکستان بن جانے کے بعد انہوں نے انتخابی سیاست سے علیحدگی اختیار کی اور دفاع پاکستان کے نام سے فقید المثال اجتماع کیا،جس میں فرمایا کہ ’’اب ہماری توانائیاں اسلام، پاکستان اور عقیدہ ٔ ختم نبوت کے لئے وقف رہیں گی، ہم نیکی کے ہرکام میں حکومت سے تعاون اور برائی کے ہرکام میں مخالفت کریں گے ‘‘۔
مارچ ۱۹۵۳ ء میں تحریک ختم نبوت کی پاداش میں احرار کو خلاف قانون قرار دیا گیا، دفاتر سیل اور رہنما جیلوں میں جھونک دیے گئے، لیکن احرار لحظہ بھر بھی اپنے مؤ قف سے پیچھے نہ ہٹے۔ ۱۹۵۸ ء میں احرار سے پابندی اٹھی تو حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے سرخ قمیض پہن کر، احرار کا بیج سجا کر، کلہاڑی ہاتھ میں پکڑ کر، ملتان میں بحالی ٔ احرار کا اعلان فرمایا، کچھ بزرگوں کو یہ اچھا نہ لگا اور کچھ کے دلوں میں گھر کرگیا۔ شیخ حسام الدین، ماسٹر تاج الدین انصاری، مولانا عبید اﷲ احرار، سید ابوذر بخاری، چودھری ثناء اﷲ بھٹہ، ملک عبدالغفور انوری، مرزا محمد حسن چغتائی، سید عطاء المحسن بخاری، قاری عبدالحی عابد، پیر جی عبدالعلیم رائے پوری، پروفیسر خالد شبیر احمد اور دیگر بزرگوں نے ملک بھر میں احیائے احرار میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ۔
آج بھی فرزندان امیر شریعت حضرت مولاناسید عطاء المومن بخاری مدظلہ اور حضرت پیر جی سید عطاء لمہیمن بخاری مدظلہ نے اپنی تمام تر توانائیاں احرارکے استحکام کے لیے وقف کررکھی ہیں، اس دوران بہت سے نشیب وفراز بھی آئے، دشمنوں کو تو ہم بھاتے نہیں پراپنوں نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور اس زعم میں مبتلاء ہوگئے، کہ ’’احرار ‘‘ تو ختم ہوگئی ہے۔
میں کھٹکتا ہوں دلِ ’’شیطاں‘‘ میں کانٹے کی طرح
شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ کی کرامت ہے کہ الحمد اﷲ احرار نئی صف بندی کرکے پھر سے اپنی ہمت کے مطابق میدان میں ہیں۔ احرار، شاہ جی کی جماعت ہے۔ انھوں نے اپنے رفقاء کے ساتھ اس کوخون جگر دیا، شہدأ ختم نبوت کا مقدس خون ہمارا اثاثہ ہے، ہمیں ختم کرنے والوں کی خوش فہمی ختم ہوجانی چاہیے، پوری دنیا میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد احرار کا صدقہ جاریہ ہے، ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی تمام جماعتیں اور کارکنان ہمارے اپنے ہیں، ہم ان سے جدا نہیں، ۹؍مارچ ۲۰۱۸ ء کو ایوان اقبال لاہور میں’’امیر شریعت کانفرنس ‘‘ دراصل شاہ جی کے کردار کو زندہ کرنے کی سعی کا حصہ ہے ۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے۱۰ ؍مارچ، ہفتہ کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام بادشاہی مسجد میں عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس اور پھر ۱۱ ؍مارچ اتوار کو انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیر اہتمام ایوان اقبال لاہور میں ہی ختم نبوت کانفرنس، دراصل کانفرنسوں کا خوب صورت’’ سہ روزہ‘‘ بن گیا ہے، ان تینوں اجتماعات میں شاہ جی کا تذکرہ ہوگا اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی بات کی جائے گی، تمام مکاتب فکر کی قیادت کا خوب صورت گلدستہ ہوگا، جوشاہ جی کی بصیرت کی عکاسی کرے گا اور فتنہ ٔ ارتداد مرزائیہ کے تار پور بکھیر کر رکھ دے گا، اﷲ تعالیٰ نظر بد سے محفوظ رکھیں اور ہم سب کو مل جل کر شاہ جی، ان کی جماعت احرار، اورچراغ مصطفویﷺ کو جلائے رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین،یا رب العالمین!
قانون توہین رسالت، مسلسل عالمی ایجنڈے کی زد میں !
آئین کی اسلامی دفعات خصوصاََ قانون توہین رسالت اور قانون تحفظ ختم نبوت مسلسل عالمی کفریہ ایجنڈے کی زد میں ہیں اور یہ سب کچھ انسانی حقوق کے تحفظ اور قوانین کی اصلاح کے نام پر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ۹؍ فروری ۲۰۱۸ ء کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہیومن رائٹس میں توہین رسالت سے متعلق مجوزہ ترمیمی بل کا مسودہ پیش کرنے پر حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر مفتی عبدالستار (مستونگ، بلوچستان)نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہاکہ: ’’ توہین رسالت کا مرتکب واجب القتل ہے،اِسے تبدیل کرنے کا قانون قبول نہیں کریں گے، وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کی طرح مزید بحران پیدا ہوگا،توہین رسالت قانون میں تبدیلی کی گئی تو کوئی نہیں بچے گا،کمیٹی نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کا بل ۲۰۱۷ ء اتفاق رائے سے منظور کرلیا، کمیٹی کی چیئر پرسن نسرین جلیل نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش پر توہین رسالت ترمیمی بل کو ملتوی کردیا، سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہیومن رائٹس کا اہم اجلاس پارلیمنٹ ہاؤ س میں ہوا، جس کی صدارت سینیٹر نسرین جلیل نے کی، اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر مفتی عبدالستار نے ابتدا میں ہی احتجاج شروع کردیا، انہوں نے توہین رسالت کے ترمیمی بل کا مسودہ اجلاس میں شامل کرنے پر سخت تنقید کی، پی پی پی کی سینیٹر سحر کامران خان نے مفتی عبدالستار سے سوال کیا کہ پشاور میں مشال خان قتل کیس کی آپ کیا تشریح کرتے ہیں، تو مولانا نے کہا کہ ۲ گواہوں کے بیانات کے بعد توہین رسالت کا مرتکب شخص واجب القتل ہے، ۱۹۷۳ء کے آئین نے توہین رسالت کے مرتکب شخص کی سزا بیان کردی ہے، یہ مرزائیوں کی سازش ہے، حکمران اﷲ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں، قانون میں تبدیلی تو درکنار اس کا سوچا بھی گیا تو کروڑوں عوام سڑکوں پر آجائیں گے، ملکی نظام جام ہوجائے گا، دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا، حکمران سازش کررہے ہیں کہ واجب القتل شخص کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کیا جائے، مگر ایسا نہیں ہونے دیں گے، جانوں کا نذرانہ پیش کریں گے، مولانا عبدالستار نے سخت لہجے میں تقریر شروع کردی اور اجلاس کے بائیکاٹ کی دھمکی دی تو اجلاس کے شرکاء اور چیئر پرسن نسرین جلیل اپنی نشست پر کھڑی ہوگئیں اور کہا کہ ہم اس ایجنڈے کو مؤ خر کرنے پر تیا رہیں، اس کو ایجنڈے میں شامل نہیں کریں گے، جس پر مولانا اپنی نشست پر بیٹھ گئے، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے تجویز پیش کی کہ اس معاملے کو اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد کیا جائے، تاہم اس معاملے کو موخر کردیا گیا، کمیٹی کی چیئر پرسن نسرین جلیل نے کہا کہ توہین رسالت قانون کی آڑ میں ذاتی دشمنیاں نکالی جاتیں ہیں، ہم اس قانون میں ترمیم نہیں کررہے صرف اس پر بحث ہورہی ہے، توہین عدالت کے غلط استعمال پر وہی سزا دی جائے جو توہین عدالت پر سزا ہے، جس پر مولانا عبدالستار نے کہا کہ حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہیں لیے، زاہد حامد کے استعفے سے انہیں سمجھ آجانی چاہیے کہ یہ ملک نبی (ﷺ) کے چاہنے والوں کا ہے اور ہم اس قانون میں ترمیم برداشت نہیں کریں گے، کسی بھی اقدام کے خلاف سخت ایکشن ہوگا جس کے بعد اجلاس ملتوی کردیا گیا‘‘ (روزنامہ اسلام لاہور، ہفتہ، ۱۰؍ فروری ۲۰۱۸ء)
آزاد کشمیر اسمبلی کا فیصلہ !
آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے ۶ ؍فروری ۲۰۱۸ ء کو ایک بل متفقہ طور پر منظور کرلیا جس کے مطابق آزاد کشمیر میں پاکستان کی ہی طرز پر لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے، اس پر پوری اسمبلی، حکومت، اپوزیشن سبھی مبارک باد کے مستحق ہیں اور اس کے لئے تحریک تحفظ ختم نبوت آزاد کشمیر کے امیر جناب قاری عبدالوحید قاسمی، نائب امیر مولانا شبیر احمد کشمیر ی،حافظ مقصود احمد کشمیری اور ان کے رفقاء بھی لائقِ تبریک ہیں جنہوں نے جہد مسلسل کے ساتھ اس محنت کو جاری رکھا اور مقتدر قوتوں کو باور کرایا کہ ۲۹ ؍اپریل ۱۹۷۳ ء کو مجاہد اول سردار محمدعبدالقیوم خاں مرحوم کے دورِ اقتدار میں میجر محمد ایوب مرحوم نے جو قرار داد اقلیت پیش کی تھی وہ کئی نشیب وفراز سے گزر کر بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی، ہمیں یاد ہے کہ ۲۹ ؍اپریل ۱۹۷۳ ء کو آزاد کشمیر اسمبلی میں قرار داد کی منظوری کے بعد مجلس احرار اسلام نے پنجاب کے کئی شہروں میں اجتماعات کیے، ملتان قلعہ کہنہ قاسم باغ میں خیر مقدمی جلسہ کے لیے رکشے پر اعلان ہمارے پرانے رفیق جناب رانا گل ناصر ندیم اور راقم نے کیا۔ جبکہ عین جلسے کے وقت نہ صرف جلسے پر پابندی لگادی گئی بلکہ پہلے پہل پہنچنے والے منتظمین اجتماع اور شرکاء پر پولیس نے تشدد بھی کیا، لاہور میں بھی جلسے کی اجازت نہ ملی، ہم نے مرکز اور چیچہ وطنی سے آزاد کشمیر حکومت کے تاریخی فیصلے پر ۳۰x۲۰ فل سائز کے اشتہار بھی چھاپے، قائد احرار سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اور رانا گل ناصر ندیم نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا اور کئی روز تک مظفر آباد میں قیام کیا ۔
۲۹ ؍اپریل ۱۹۷۳ ء سے لے کر ۶ ؍فروری ۲۰۱۸ ء تک ۴۵ سال میں یہ آئینی وقانونی مرحلہ کیسے طے ہوا۔ اسی بابت جناب حافظ مقصود احمد کشمیری کی رپورٹ شامل اشاعت ہے، ہم نے اس فیصلے کے بعد وزیر اعظم آزاد کشمیر جناب راجہ فاروق حیدر خاں، قرار داد کے محرک راجہ محمد صدیق خاں اور پیر علی رضا بخاری کو مبارک باد کے پیغامات ارسال کیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے سے تحریک ختم نبوت کی پر امن آئینی جدوجہد آگے بڑھی ہے اور عالمی سطح پر اس مقدس کام کو جلا ملی ہے۔ متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی کی اپیل پر آزاد کشمیر اسمبلی میں اس بل کی متفقہ منظوری پرملک بھر میں یوم تشکر منایا گیا، اور تمام مکاتب فکر کے قائدین، رہنماؤں، علماء کرام اور ائمہ مساجد نے اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔
عاصمہ جہانگیر کے نام پر لاء کالج !
عاصمہ جہانگیر کا انتقال ہوا تو انسانیت کے حوالے سے اس کی خدمات کا تذکرہ بھی ہوا، بلاشبہ وہ اپنے عزم کی پکی، نڈر اور بیباک شخصیت کی حامل تھیں ! لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ ایک کھلم کھلا قادیانی کی بیوی اور قادیانیوں کی بہو تھیں، عمر بھر دین، وطن، اسلامی سزاؤں، اسلامی شعائر کا مذاق اڑا کر خوش ہوتی تھیں، انڈیا نے ایٹمی دھماکہ کیا تو ان کو کچھ نہ ہوا پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو خفا ہوگئیں، لڑکیوں کو پسند کی شادی کے نام پہ گھروں سے بھاگتے اور والدین کی عزت وآبرو تار تار ہوتے دیکھتیں تو اس کو ’’آزادی ‘‘ سے تعبیر کرتیں، نمازِ جنازہ کے لئے بھی فاروق حیدر مودودی کے سوا کوئی نہ ملا، نمازِ جنازہ میں بے پردہ خواتین جس کھلے انداز کے ساتھ شریک ہوئیں، یہ انھی کا خاصہ تھا۔ اب پنجاب اسمبلی میں ن لیگی رکن اسمبلی حنا پرویز بٹ نے یہ قرارداد پیش کی کہ پنجاب یونیورسٹی کے لاء کالج کو عاصمہ جہانگیر کے نام سے منسوب کیا جائے، ن لیگ کی اس جرأ ت رندانہ پر ہمیں ذرا حیرت نہیں ہوئی، اس لئے کہ مسلم لیگ کی تاریخ ایسے اقدامات سے بھری پڑی ہے، مگر ان سطور کے ذریعہ ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ کچھ تو خدا کا خوف کریں، کیا وزارت عظمیٰ سے نااہل ہونے کے بعد پارٹی صدارت کی نااہلی بھی کافی نہیں۔
راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ
انتخابی حلف نامے سے عقیدہ ٔ ختم نبوت والی عبارت حذف ہونے کے بعد بحال ہوگئی، اس دوران حالات زیر وزبر بھی ہوتے رہے، حکومت راجہ ظفر الحق تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر نہ لانے کے لئے بضد رہی۔ آخر کار اسلام آباد ہائی کورٹ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما مولانا اﷲ وسایا نے جودرخواست گزاری تھی اس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ختم نبوت کیس میں وزیراعظم کو طلب کرنے کی بات کی توحکومت نے سر بمہر رپورٹ حوالۂ عدالت کر دی، اس درخواست کی سماعت جاری ہے اور رپورٹ کو بعد میں کھولا جائے گا، تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
’’اسلام آباد (آن لائن) گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت درخواست گزار مولانا اﷲ وسایا کے وکیل نے دلائل کے لیے مہلت طلب کی، عدالت کی معاونت کے لیے ۴ معاونین نامزد کیے گئے، جن میں ڈاکٹر محسن نقوی، صاحبزادہ ساجد الرحمن، مفتی حسین بنوری اور ڈاکٹر حسن مدنی شامل ہیں، عدالت کی جانب سے چاروں معاونین کو درخواست کی کاپی اور متعلقہ دستاویزات فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، درخواست گزار کو کل دلائل پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ، عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی ‘‘ ۔
(روزنامہ اسلام لاہور، جمعرات،۲۲ فروری ۲۰۱۸ ء)
چیئرمین سینیٹ اور ختم نبوت والا حلف نامہ
وطن عزیز میں سول اور فوج میں اہم عہد وں پر اسلام ووطن دشمن عناصر کا براجمان ہونا یقینا بڑا خطرہ ہے اور ماضی میں پاکستان نے اسی حوالے سے کئی نقصان بھی اٹھائے، سینیٹ کے چیئر مین کے لئے عقیدہ ٔ ختم نبوت والے حلف نامے کا نہ ہونا بھی ایک خطرنا ک سوالیہ نشان ہے۔ سابق بیورو کریٹ اور ممتاز قانون دان جناب شیر افضل خان نے اس بابت یوں توجہ دلائی ہے کہ :
’’ اسلام آباد (سپیشل رپورٹ) اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق ڈائریکٹر وزارتِ قانون اور ممتاز قانون دان ایڈووکیٹ شیر افضل خان کی طرف سے ایک رٹ دائر کی گئی ہے جس میں مؤ قف اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان کے آئین میں غلطیوں کی بھر مار ہے، جن کی نشاندہی وہ مختلف مرحلوں پر وزارت قانون اور دوسرے متعلقہ اداروں کو کرچکے ہیں لیکن کسی نے ان غلطیوں کی طرف دھیان نہیں دیا۔ اس رٹ میں شیر افضل خان نے یہ مؤ قف اختیار کیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے حلف نامہ میں ختم نبوت پر یقین شامل کیا جانا چاہیے جبکہ اس وقت یہ عبارت موجود نہیں ہے، چیئرمین سینیٹ کا عہد ہ بہت اہم ہے، وہ ملک کے صدر کی عدم موجودگی میں مملکت کا قائم مقام صدر ہو تاہے، آئین یہ تقاضا کرتا ہے کہ صدر ہمیشہ مسلمان ہوگا، ایڈووکیٹ شیر افضل خان نے چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت کے حلف نامہ میں بھی غلطی کی نشاندہی کی ہے، انہوں نے یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ چونکہ قرار داد مقاصد کو آئین کا دیباچہ بنایا گیا ہے، اس لئے آئین کی متعلقہ شق کی درستگی بھی ضروری ہے، درخواست دہندہ نے اپنی رٹ میں یہ موقف بھی اختیار کیا ہے کہ آرٹیکل ۲۷۲؍ اے اور آرٹیکل ۵۴؍ ب بھی اس سے مطابقت نہیں رکھتے، درخواست دہندہ نے کہا کہ انہوں نے پہلے وزارت قانون کے سامنے ان غلطیوں کی نشاندہی کی تھی، لیکن ان غلطیوں کی درستی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، اس لئے مجھے مجبوراً رٹ دائر کرنا پڑی ہے‘‘۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور،جمعرات، ۲۲ فروری ۲۰۱۸ء)
مذکورہ شذرات میں جتنے موضوعات کا ذکر کیا گیا ہے اس پر دینی رہنماؤں اور ماہرین قانون سے حسب حالات وحسب ضرورت مشورے جاری ہیں اور آنے والے دنوں میں ان شاء اﷲ تحریک ختم نبوت آگے بڑھتی ہوئی نظر آئے گی ۔
وما علینا الا البلاغ المبین!