ڈاکٹرعمرفاروق احرار
امیرشریعت مولاناسیدعطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی انمول یادوں کے روح پرور تذکرے جس طرح اہلِ اسلام کے دلوں میں تازہ ہیں۔ محسوس ہوتاہے کہ شاہ صاحبؒ اب بھی ہم میں موجودہیں۔حالانکہ انہیں اِس عالم سے رخصت ہوئے نصف صدی سے زائدعرصہ بیت چکاہے،مگر اُن کی یادوں کی خوشبوآج بھی سروسمن کی وسعتوں سے دارورسن کی حدوں تک پھیلی ہوئی ہے۔
سیدعطاء ﷲ شاہ بخاری 23؍ستمبر1892ء میں صوبہ بہار(انڈیا) کے علاقہ پٹنہ میں پیداہوئے ۔خاندانی نجیب الطرفین ہونااُن کا مقدر بنا۔اوائل عمری میں ہی اردوزبان وبیان کے رموزسے بہرہ ورہوئے۔علم کی پیاس پٹنہ سے امرتسرکے مردم خیزخطّے میں لے آئی۔تعلیم تکمیل کو پہنچا ہی چاہتی تھی کہ ہندوستان میں تحریک خلافت کا آغازہوگیا۔امرتسر اُن دنوں سیاست کامرکزتھا۔شاہ صاحب بھی سیاست کی تپش سے محفوظ نہ رہ سکے۔تعلیم کا سلسلہ موقوف کیااورسامراج کے ترک مسلمانوں پرظلم وزیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔شعلہ بارخطابت کاملکہ قدرت نے اُنہیں وافر مہیاکررکھاتھا۔بس اسے آگ دکھانے ہی کی دیرتھی۔خلافت عثمانیہ کے نحیف ونزاروجود کو انگریزوں نے روند ڈالاتو سیدعطااﷲ شاہ بخاری برصغیرکے چپے چپے میں پہنچے اوراانہوں نے پنی آتشیں تقریروں سے فرنگی سرکارکے خلاف عوام الناس کے دلوں میں بغاوت کے شعلے بھڑکادیے۔اِسی تحریک خلافت ہی میں وہ پہلی مرتبہ عین عالم شباب میں جیل کی آزمائشوں سے دوچارہوئے ۔قیدوبندکایہ سلسلہ ایسامضبوط ہواکہ پھراُن کی ساری زندگی ’’ریل اورجیل‘‘ سے عبارت ہوگئی۔
1929ء میں اپنے ساتھیوں مولاناظفرعلی خان،چودھری افضل حق،شیخ حسام الدین،مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی،ماسٹر تاج الدین انصاری اورمولانامظہرعلی اظہرکے ساتھ مل کر برصغیرکی مقبول جماعت مجلس احراراسلام کی بنیادرکھی۔1930ء میں جب اُن کی عمرمبارک محض اڑتیس برس تھی۔تب اپنے وقت کی عظیم دینی شخصیت علامہ سیّدانورشاہ کاشمیریؒ کی تجویزپر پانچ سو جیّدعلماء کرام اورمشائخ نے ختم نبوت کے محاذپراُنہیں ’’امیرشریعت‘‘تسلیم کرتے ہوئے اُن کے ہاتھ پر بیعت کرلی اوریوں متحدہ پنجاب شاہ صاحب کی مضبوط قیادت میں آگیا۔پھر مجلس احراراسلام نے اُن کی رہنمائی میں بیسیوں معرکے سرکیے ۔جس کی تفصیلات تاریخ کا حصہ ہیں اورتاریخ کو ہم جیسے طالب علموں کی گواہی کی ضرورت نہیں ہے ۔
قسّامِ ازل نے بخاری صاحب کو گوناں گوں امتیازی خصوصیات سے نوازاتھا۔وہ اپنی ذات میں بیک وقت بے مثل خطیب،برجستہ گوشاعراور شعرفہمی میں یکتائے فن،متبحرعالم دین،دُوراَندیش سیاست دان،اعلیٰ مدبر،نابغہ اورصاحبِ بصیرت انسان تو تھے ہی،مگر اِس کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی،مزاج شناسی،دوست داری،وضع داری، تحمل و رواداری جیسی صفات بھی اُن کی ذات میں بدرجہ اتم موجودتھیں۔یہی وہ بنیادی وجوہ تھیں کہ جن کی بناء پر وہ مرجع خلائق اورعام وخاص کی دلوں کی دھڑکن تھے۔برصغیرمیں شاہ صاحب جیسی کسی دوسری دلنوازشخصیت کا وجودعنقاتھا۔وہ اپنے دینی اصول وعقائد پر سختی کے ساتھ کاربندتھے اور ان میں کسی نرمی اورترمیم کے روادارہرگزنہ تھے، مگرذاتی حیثیت سے وہ ہردینی وسیاسی، علمی وادبی حلقوں،حتیٰ کہ ایک حدتک مذہب سے گریزپاطبقات میں بھی ہردلعزیزتسلیم کیے جاتے تھے۔اِسی سبب وہ جہاں علامہ سیّدانورشاہ کشمیریؒجیسی عظیم دینی ہستی کے منظورنظرتھے،وہیں وہ فیض احمدفیض،صوفی تبسم،ا خترشیرانی،جگرمرادآبادی، عبدالحمیدعدم، ساغرصدیقی جیسے رندانِ بلاکش کے ہاں میرمحفل مانے جاتے تھے۔
شاہ صاحب برصغیرکی وہ واحد شخصیت تھے کہ جن کا احترام ہرطبقہ میں پایاجاتاتھا۔وہ جہاں حضرت پیرسیّدمہرعلی شاہ گولڑویؒ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اورقطب الا قطاب حضرت شاہ عبدالقادررائے پوریؒ کی محبتوں کامرکزتھے، وہیں وہ شیخ الاسلام مولاناسید حسین احمدمدنی اورمفتی اعظم مولانا مفتی کفایت اﷲ دہلویؒکی آنکھوں کی ٹھنڈک بھی تھے۔شاہ صاحب یکساں طورپر مولانا ابولکلام آزاد،علامہ محمداقبال اورمولانا محمدعلی جوہر کی عنایات اوراُن کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے۔مولاناغلام رسول مہر،مولاناعبدالمجیدسالک، چراغ حسن حسرت جیسے کہنہ مشق صحافیوں،مرزاغلام قادرگرامی،حفیظ جالندھری،احسان دانش،احمدندیم قاسمی، سیف الدین سیف، حبیب جالب جیسے نامورشاعروں اور ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر،ڈاکٹرسیدمحمدعبداﷲ،پطرس بخاری،علامہ طالوت،نسیم حجازی جیسے ادیبوں کے شاہ صاحب کے ساتھ قریبی مراسم تھے۔ایک طرف وہ دینی حلقے کے محبوب تھے تو دوسری طرف اشتراکی رہنماؤں کامریڈمحمداشرف،منشی احمددین،سبط حسن،عبداﷲ ملک بھی شاہ صاحب کی محفلوں کے رکن تھے۔
مختلف النوع شخصیات کے شاہ صاحب کے ساتھ تعلقات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ عقائد ونظریات کے مابین واضح فرق کے باوجودیہ سب لوگ شاہ صاحب کے ساتھ پیارومحبت اورانس ومروت کیسے روارَکھتے تھے!درحقیقت یہ شاہ صاحب کی وسعت ظرفی، تحمل مزاجی، شفقت ورواداری کے علاوہ اُن کی انسان دوستی تھی،کیونکہ انہوں نے ایک دینی رہنماکی حیثیت سے اسلام کے اصولوں کے عین مطابق کسی فردسے اُس کے عقیدہ ونظریہ کی بناء پر نفرت نہیں کی،بلکہ ایک معالج کی طرح مرض سے نفرت ضرورکی، مگرمریض کوہمیشہ گلے لگایا۔اُن کے حسن سلوک سے بے شمارلوگوں کو ہدایت نصیب ہوئی۔انہوں نے ایک داعی کا کرداراداکیااورداعی کسی سے نفرت نہیں کیاکرتا۔آج عمل کی جگہ خودساختہ نظریات کی شدت نے عموماًمذہبی رہنماؤں میں درشتی اورکرختگی پیداکردی ہے ۔بعض اوقات اُن کے نامناسب طرزسلوک سے دیگر طبقوں کے افراد اُن کے قریب آنے سے گریزکرتے ہیں۔ممتاز نعت گوشاعرحافظ لدھیانویؒ شاہ صاحب کو ملنے آئے ۔مغرب کی نمازکے لیے جماعت کھڑی ہوئی تو شاہ صاحب نے خود مصلیٔ امامت پر کھڑے ہونے کی بجائے فرمایاکہ آج ہم حافظ بیٹاکے پیچھے نمازپڑھیں گے۔یہ حکم سن کرداڑھی منڈے نوجوان حافظ لدھیانوی کے بقول اُن کا وجودکانپ کررہ گیا،لیکن چاروناچاراُن کو شاہ صاحب سمیت بہت سے علماء کرام کی امامت کرنا پڑی۔شاہ صاحب کے اِس برتاؤسے اگلے دن ہی سے حافظ لدھیانوی نے بغیرکسی کے کہنے کے داڑھی رکھ لی۔افسوس کہ اب یہ حسن سلوک کہیں نظرنہیں آتااورنئی نسل دین والوں سے دُورہوتی جارہی ہے۔
لوگوں کے عیبوں کی پردہ پوشی شاہ صاحب کاعمربھرشیوہ رہا۔وہ خوبیوں پر نگاہ رکھتے اورکمزوریوں سے درگزرفرماتے تھے۔ایک مرتبہ رندمشرب شاعرعبدالحمیدعدم،شاہ صاحب کی خدمت میں حاضرہوئے۔عدم نشے میں تھے،شاہ صاحب نے تاڑ لیا،مگراپنے رویے سے محسوس تک نہ ہونے دیاکہ انہیں عدم کے مدہوش ہونے کا پتاچل چکاہے۔چائے بناکر پلائی اورپھر عدم کی جھوٹی پیالی میں چائے ڈال کر خود نوش فرمالی۔جتنی دیر عدم حاضر رہے،منہ پر ہاتھ رکھ کربیٹھے رہے ۔تاکہ شاہ صاحب کو دُخت رزکی بُو نہ پہنچے اورشاہ صاحب نے بھی اُن سے اپنی دیرینہ محبت وشفقت میں بال برابرکمی نہ آنے دی،بلکہ عدم سے اُن کا کلام سنتے اورداد دیتے رہے۔عدم کے چلے جانے کے بعدکسی شریک محفل نے کہا کہ شاہ صاحب !آپ کو معلوم ہے کہ عدم نے شراب پی ہوئی تھی۔شاہ صاحب شدید غصے میں آگئے اورفرمایاکہ تم خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔یادرکھو! کسی کے عیبوں پر پردہ ڈالنے سے اﷲ تمہارے عیبوں پر بھی پردہ ڈال دے گا۔
ہرمکتبہ فکرنے شاہ صاحب کی وسعت ظرفی اوروسیع المشربی کی بدولت اُن کو اپنے سراورآنکھوں پر جگہ دی۔دل سے اُن کا احترام کیااوراس طرح وہ سب کے لیے عقیدت ومحبت کا روشن مینارتھے۔اپنی بے مثال قوت لسانی،فکرونظرکی پختگی اورانسانیت سے بے لوث محبت کے پیش نظروہ ہندوستان کی ہردلعزیزشخصیت تھے۔مشہورانگریزمصنف ڈبلیو، سی سمتھ نے شاہ صاحب کی ایسی ہی خصوصیات کے پیش نظر بجاطورپر لکھاتھاکہ:’’یہ غیرمعمولی انسان ہندوستان کی سب سے زیادہ اثرآفریں شخصیت ہونے کانہایت قوی دعویٰ کرسکتاہے۔‘‘(’’ماڈرن اسلام اِن انڈیا‘‘،صفحہ 266۔مطبوعہ لندن۔1946ء)
شاہ صاحب نے 21؍اگست1961ء کو ملتان میں رحلت فرمائی اوروہیں آسودۂ خاک ہیں۔اﷲ اُن کی قبر کو اپنی رحمتوں سے بھردے اوراُن کا سچانعم البدل عطا کرے جو اُنہی کی طرح تمام طبقات کو اتحادویگانگت کا آفاقی درس دے اوریہ دھرتی اسلام کی سچی اورسُچی تعلیمات کی بدولت امن وآشتی کا گہوارہ بن جائے ۔آمین