پروفیسر ابوطلحہ عثمان
علی رضی اﷲ عنہ اور نبی کے بھانجے اور نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوہرے داماد سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے جان دے دی مگر امت میں باہم د نگا فساد نہ ہونے دیا۔ خلافت اس لیے نہ چھوڑی کہ محبوب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے وعدہ لیا تھا کہ عثمان تمہیں (خلافت کا) قمیص پہنا یا جائے گا، لوگ تجھ سے اسے اتارنے کا مطالبہ کریں گے مگر تم نہ اتارنا، دوسری طرف اپنے وقت میں جانشین علی، نواسۂ نبی، سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ نے خلافت دے دی مگر امت میں جنگ وجدل نہ ہونے دیا۔ محبوب نبی علیہ السلام نے فرمایا تھا: میرا یہ نواسہ سردار ہے’’ مسلمانوں کی دوعظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘ سیدنا حسن کی خلافت سے دستبرداری اور حسنین کریمین رضی اﷲ عنہ کی دست معاویہ رضی اﷲ عنہ پر بیعت نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیش گوئی پوری فرمادی۔ اہل اسلام پھر سے ایک ہوگئے۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلاب اور فتوحات میں رکاوٹ آگئی تھی۔ اب پھر سے طوفانی فتوحات شروع ہوگئیں۔ اہل اسلام نے خوش ہو کر اس سال کا نام ہی ’’عام الجماعتہ‘‘ رکھ دیا۔
سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے آخر زمانہ میں جو عجمی فتنہ شروع ہوا اور ایک سازش کے تحت ذی النورین کو شہید کردیا گیا۔ بڑے بڑے ممالک مجاہدین اسلام نے فتح کر لیے تھے۔ ایرانی سطوت اور روم و شام کی شان و شوکت اصحاب رسول کے قدموں پر نچھاور ہوچکی تھی۔ سیدنا فاروق اعظم کو شہید کر کے معاندین خوش تھے کہ اب اسلام کا سیل رواں رک جائے گا، مگر ہوا کیا؟ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کا اسلامی سکہ ۲۲لاکھ مربع میل پر چل رہا تھا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی انتظامی صلاحیتوں اور مجاہدانہ سرگرمیوں سے وہ ۴۴لاکھ مربع میل تک رواں دواں ہوگیا۔ نصرانی اور یہود و مجوس کی سازشیں ناکام ہوئیں، بالآخر اس دشمن اسلام مثلث نے اندر گھس کر حملے کا سوچا۔ سوء اتفاق سے انھیں ایک عیار ’’ابن سباء‘‘ ہاتھ آگیا اس نے حبِ علی اور حبِ آلِ رسول کا چولا پہنا اور اہل مدینہ جب حج کے موقع پر مکہ چلے گئے سبائی سازشی ٹولہ حاجیوں کے لباس میں مدینہ پہنچا۔ مدینہ میں موجود چند گنتی کے صحابہ اور دوسرے لوگ موجود تھے جبکہ ان کو بھی سیدناعثمان نے دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت نہ دی۔ وہ فرماتے تھے اپنے تحفظ کے لیے حرم مدینہ میں خون کا قطرہ نہیں بہنے دوں گا ۔ مگر اعدائے اسلام تو سازش کے تحت آئے ہی خلیفۂ راشد اسلام کو شہید کرنے کے لیے تھے۔ انھوں نے چالیس روز محاصرے کے بعد نہایت بے دردی وسفاکی سے سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو شہید کر دیا اور جبراً سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اصل میں وہ سیدنا علی کو ڈھال بنا کر اپنا منشور پورا کرنا چاہتے تھے۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے عذر پر انھوں نے کہہ دیا تھا کہ اگر آپ بیعت نہیں لوگے تو ہم تمہیں بھی عثمان کے ساتھ ملا دیں گے۔ سیدنا علی کو خیال ہوا کہ چلو بیعت لے کر ہم اصلاح احوال کر لیں گے۔ دوسری طرف بزرگ اصحابِ رسول اور عشرہ مبشرہ کے ارکان حضرت طلحہ ، حضرت زبیر رضی اﷲ عنہما اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہانے بھی قصاص عثمان کا مطالبہ کر دیا اور ایک روایت کے مطابق انھوں نے اس شرط کے ساتھ بیعت کی کہ سیدنا عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے گا۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ بھی یہی چاہتے تھے، مگر ان کے سب سے پہلے بیعت کرنے والے قاتلان عثمان مالک اشتر وغیرہ ہی تھے۔ اب یہی مالک اشترسیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی سپاہ کا کمانڈر بن گیا تھا۔ سازشیوں نے قصاص عثمان کے مطالبہ میں پیش رفت نہ ہونے دی۔ اسی پر جنگ جمل اور پھر جنگ صفین پیش آئی۔ سازشیوں نے اب سیدنا علی رضی اﷲ عنہ ہی کو نشانہ بنایا۔ اس پورے عرصہ میں اسلام کا جھنڈا ایک انچ آگے نہ بڑھ سکا، ایک انچ زمین فتح نہ ہوسکی۔ سیدنا علی اورسیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہما میں مصالحت کی کوشش کی گئی مگر صلح میں تو اہل باطل، اعدائے اسلام، منافقین کو اپنی موت نظر آرہی تھی۔ انھوں نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ پر ہی کفر کا فتوی لگادیا۔ جنگ نہروان پیش آئی مگرمسئلہ کا حل نہ نکل سکا اور پھر انہی اہل فتنہ لوگوں نے سیدنا علی کو شہید کردیا۔ ولی عہد کے طور پر سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ نے نظام خلافت سنبھالا مگر مدعیان حب آل رسول نے ان پر بھی حملہ کردیا۔ وہ زخمی ہوئے اور پھر سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ بھی اپنے برادر بزرگوار کے ہمراہ بیعت کر چکے۔ اب سازشی مہروں کو چن چن کر الگ کیا گیا اور دامن اسلام وسیع تر ہوگیا۔ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے مقبوضہ اسلام گیارہ لاکھ مربع میل کو دوگنا کر کے بائیس لاکھ تک پہنچایا تھا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے فاروقی عدل سے متفید ہونے والے بائیس لاکھ مربع میل کو پھر سے دوگنا کردیا یعنی چوالیس لاکھ مربع میل تک حکمرانی اسلام پہنچ گئی۔ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد ڈھائی تین سال تک خلافت علی کے زمانہ میں اہل باطل نے ایک عارضی بند لگایا جو نواسۂ نبی سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ نے بیعت سیدنا معاویہ کر کے دوبارہ جاری کردیا۔ تقریباً چھیاسٹھ لاکھ مربع میل پر پھر سے امن و سلامتی کا جھنڈا، علم اسلام لہرانے لگا۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ خلافت کے مدعی نہ تھے مگر اصحاب رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی بیعت کر لی۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے بھی عرض کیا کہ ہمارے محبوب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کو ہمارا دین سونپا( یعنی مصلی نبوی حوالہ کیا) ہم نے اپنی دنیا (یعنی خلافت) بھی آپ کے حوالے کردی سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ خلافت کے مدعی نہ تھے مگر جانشین رسول سیدنا ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ نے ان کو مامزد کردیا۔ وصیت نامہ کھولنے سے پہلے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے اپنی طرف سے یوں اظہار کیا تھا کہ ہم صرف عمر بن خطاب کی خلافت پر راضی ہوں گے۔ اور یہ ان کی معصوم تمنا تھی۔ وصیت نامہ پڑھ کر سنایا گیا تو وہ پوری ہوچکی تھی۔ عجمی سازشیوں، کافروں نے سیدنا امیر المومنین، سیدنا عمر فاروق کو شہید کر دیا تو شہادت سے پہلے وہ ایک چھے رکنی خلافت کمیٹی نامزد کر چکے تھے۔ اس چھے رکنی خلافت کمیٹی نے دو محترم ارکان (عثمان اور علی) دونوں نبی کے داماد بھی تھے اور نبی علیہ السلام کے خاندان قریش کی عظیم شاخ بنی عبدمناف میں سے بھی تھے۔ اہل مدینہ اصحابِ رسول رضی اﷲ عنہم کی اکثریتی رائے کے مطابق سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو منصب خلافت سونپا گیا۔ سیدنا عثمان کی زبردست انتظامی صلاحیتوں اور مضبوط گرفت سے اسلام روز افروں ترقی کرتا رہا پھر سیدنا عثمان کو شہید کیا گیا اور ولائے علی کا دعویٰ کیا گیا مگر مقصد پورا نہ ہوا تو ان کو بھی شہید کردیا۔ نواسۂ رسول ابن علی سیدنا حسن دشمنانِ اسلام اور ان کی سازشوں کو بھانپ گئے۔ انھوں نے اسلام کی نمائندگی سیدنا امیر معاویہ کے سپرد کردی جبکہ خود وہ بھی بنی عبدمناف میں سے تھے اور نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہم زلف اور برادر نسبتی بھی تھے۔ قیادت کا عہدہ کئی پشتوں سے بنی عبدمناف کی شاخ بنی امیہ میں چلا آرہا تھا اور انھوں نے اپنے کو اس کا اہل ثابت کردیا تھا۔ دعویٰ خلافت سیدنا معاویہ نے کبھی نہیں کیا تھا۔ وہ کہتے تھے خلافت تو سیدنا علی ہی رکھیں مگر میں شہید مظلوم سیدنا عثمان کا عم زاد بھائی ہوں اور ان کی طرف سے مجھے ذمہ داری سونپی گئی ہے (یہ بات شاید اس طرف اشارہ ہے کہ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے ان کو اپنا وصی نامز کردیا تھا۔ [از مضمون نگار]) وہ کہتے تھے سیدنا عثمان کے بیٹے بھی میرے ساتھ ہیں اور اس طرح ہم سیدنا عثمان کے شرعی وارث ہیں۔ ہم ان کے خون کا بدلہ مانگتے ہیں۔ سیدنا قاتلان عثمان جو سید علی رضی اﷲ عنہ کے لشکر میں چھپے ہیں، ان کو قصاص کے لیے ہمارے حوالہ کیا جائے۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ہم اس پر قادر نہیں ہیں۔ عملی طور پر صلح کی ہر کوشش کی کامیابی سے پہلے فتنہ کھڑا کیا جاتا رہا۔ حکمین نے از خود نوٹس لے کر تافیصلہ سیدنا علی اورسیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہما کو اپنے زیر اختیار علاقوں میں حکم امتناعی (say order )دے کر صلح کی کوششیں جاری رکھیں مگر اہل فتنہ سازشی گروہ نے نماز فجر میں دونوں جگہ حملہ کردیا سیدنا معاویہ زخمی ہوئے۔ سیدنا علی نے شہادت کا جام نوش فرمایا اور شہادت کے وقت سیدنا حسن کو وصیت فرمائی کہ امیر معاویہ کی حکمرانی کو ناپسند نہ کرنا ورنہ حنظل کی طرح سرکٹ کٹ کر گریں گے۔ سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ نے خلافت سیدنا معاویہ کے سپرد کردی۔ دشمن کی امیدوں پر اوس پڑگئی مگر وہ کسی نئی سازش کی تیاری کرنے لگے ۔ سیدنا حسن کے لیے نبوی پیش گوئی پوری ہوئی۔ اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں پر لازم ہے کہ اپنی جاہ طلبی چھوڑ کر جماعت مسلمین کی خیر خواہی کر کے سبط نبی کی سنت پر عمل کریں اور حسنین کے نانا صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کا استحقاق اپنے نام ریزرو کروالیں ۔ سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ ایک ایسا کردار ہیں کہ ان کی پیروی کر کے قیامت تک اہل اسلام دوسروں کو امن و سلامتی دے سکتے ہیں۔
حوالہ جات
[۱]۔صحاح ستہ بشمول صحیح بخاری،[۲]۔سیرالصحابہ،[۳]۔رحماء بینھم چارو ں حصے،[۴]۔فوائد نافعہ ازمولانانافع،
[۵۔سیرت سیدنا علی، [۶]۔سیرت سیدنا معاویہ، [۷]۔خلفائے راشدین ندوہ، [۸]۔خلفائے راشدین ڈاکٹر خالد محمود،
[۹]۔خلفائے راشدین از محمود احمد ظفر سیالکوٹی،[۱۰]۔عادلانہ دفاع، [۱۱]۔امام مظلوم از سید نورالحسن بخاری، [۱۲]۔نہج البلاغہ، [۱۳]۔الامامہ والسیاستہ، [۱۴]۔سیدنا امیر معاویہ از مولانا تقی عثمانی، [۱۵]۔سیکڑوں تحقیقی مقالات بہ سلسلہ سیرالصحابہ رضی اﷲ عنہم