انصار عباسی
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو اسی سی آئی آر ایف) نے اپنی سالانہ رپورٹ برائے ۲۰۱۶ء میں امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیاہے کہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر توہین مذہب کا قانون اور قانون میں موجود قادیانی مخالف شقوں کو ختم کرایا جائے۔ کچھ ماہ قبل جاری کی جانے والی رپورٹ کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں ۱۸؍سال سے کم عمر کی لڑکیوں کو جبری مسلمان بنانے کے معاملے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ سندھ اسمبلی نے حال ہی میں ایک متنازع قانون منظور کیا ہے جس میں اپنی مرضی سے بھی اسلام قبول کرنے والے اٹھارہ سال سے کم عمر شخص کو ایسا کرنے سے روکا گیا ہے۔ تاہم ، ملک کے مذہبی حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت نے متعلقہ قانون کی متنازع شقوں میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔ معاشرے کے مذہبی حلقوں کی جانب سے اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اسلام جبری مذہب تبدیل کرنے کی تعلیم نہیں دیتا اور اسے جرم تصور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کوئی ایسا شخص جو اٹھارہ سال سے کم عمر ہے لیکن وہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتا ہے تو اسے اس اقدام سے روکنا غیر اسلامی ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے ایک اور رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس نے پاکستان میں اسکول کی نصابی کتب میں تبدیلیوں کے لیے کام کیا ہے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ برائے ۲۰۱۶ء میں کہا ہے کہ مسیحی اور ہندو لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو جبراً مسلمان بنانے اور ان کی زبردستی شادیاں کرانے کا معاملہ ایک منظم مسئلہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر ۲۰۱۴ء میں پاکستان کی ایک تنظیم عورت فاؤنڈیشن کا کہنا تھا کہ تقریباً ایک ہزار لڑکیوں ، جن کی اکثریت اٹھارہ سال سے بھی کم عمر ہوتی ہے ، کو ہر سال جبری مشقت یا زبردستی شادیوں کے ذریعے مسلمان بنایا جاتا ہے رپورٹ کیمطابق ان مقدمات میں پولیس پر عوام کے دباؤ کی وجہ سے اکثر تحقیقات کا معاملہنا مناسب رخ اختیار کر لیتا ہے یا اس میں تعصب کا عنصر شامل ہو جاتا ہے اور لڑکیوں اور ان کے خاندان پر زبردست دباؤ ہوتا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ انھوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فروری ۲۰۱۶ء میں سندھ اسمبلی نے ایک قانون منظور کیا جسمیں ہندو برادری کو باضابطہ طور پر اپنی شادیوں کی رجسٹریشن کرانے کی اجازت دی گئی ۔ یہ قانون اس حد تک موثر بہ ماضی ہے جس کی وجہ قانون کی منظوری سے قبل شادی کرنے والے جوڑے بھی اپنی رجسٹریشن کراسکتے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ قومی اسمبلی میں ایک ایسے قانون پر غور کیا جارہا ہے جس کا اطلاق ملک بھر میں ہندو کمیونٹی کی شادیوں پر ہوگا۔ مسیحی برادری پر میریج ایکٹ مجریہ ۱۸۷۲ء کا اطلاق ہوتا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کے توہین مذہب کے قانون اور قادیانیوں کوغیر مسلم قرار دینے کی شقوں کے حوالے سے رپورٹ میں امریکی انتظامیہ کو تجویز پیش کی گئی ہے کہ یہ دونوں قوانین ختم کرانے کا مطالبہ کیا جائے اور جب تک یہ دونوں اقدام ہوں اس وقت تک حکومت پاکستان سے کہا جائے کہ توہین مذہب کو قابل ضمانت جرم قرار دیا جائے اور یا جھوٹا الزام عائد کرنے والے کے لیے سزائیں متعارف کرائی جائیں۔ رپورٹ میں امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ عقائد یا مذہب کی قابل اعتراض حد تک اور منظم انداز میں خلاف ورزی میں ملوث ہونے کی وجہ پاکستان کو خاص تشویش کا باعث ملک (کنٹری آف پر ٹیکیولر کنسرن) قرار دیا جائے۔ واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے کسی ملک کو کنٹری آف ٹیکیولر کنسرن کا درجہ دیئے جانے کا مطلب مذہبی آزادی کے بین الاقوامی قانون کے تحت اس ملک کو خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینا ہے۔ رپورٹ میں یہ امریکی انتظامیہ کو بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان پر دباؤ ڈال کر اسے اپنی سپریم کو یہ بھی مشور ہ دیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان پر دباؤ ڈال کر اسے اپنی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے مجبورپر کیا جائے تاکہ مذہبی گروہوں کو شدت پسندی سے روکنے کے لیے خصوصی پولیس فورس تشکیل دی جاسکے جو موثر انداز سے مذہبی خلاف ورزیوں میں ملوث افراد اور شدت پسند گروپس کے ارکان کے خلاف قانونی کارروائی کر سکے، وفاقی وصوبائی سطح پر مختلف سرکاری اداروں کی نشاندہی کر کے وہاں مذہبی آزادی پر مباحثے منعقد کرائے جائیں یا پھر سرکاری سرپرستی میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے خصوصی طریقہ کار اختیار کیے جائیں بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر مذہبی آزادی کو در پیش مسائل سامنے لائے جائیں اور حکومت پاکستان کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ مذہبی آزادی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے نمائندے کو مدعو کرے، قومی نصابی کتب اور مدارس نے نصاب میں برداشت کا درس دینے کی حوصلہ افزائی کی جائے، حکومت پاکستان کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ ملک میں اقلیتوں کی جانب سے ادا کیے گئے تاریخی کردار اور ان کی جانب سے معاشرے کی خدمت کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور اقلیتوں کے حقوق کو اجاگر کرنے کے لیے مہم چلاے، امریکی پبلک سفارتکاری کے ذریعے بھی اس طرح کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے، حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں سے اپیل کی جائے کہ توہین مذہب کے مقدمات میں ملوث قرار دیئے گئے تمام افراد کے کیسز پر نظر ثانی کی جائے اور ان کی رہائی کے لیے اقدامات کیے جائیں جیساکہ پنجاب میں ہورہا ہے ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایسے افراد کی غیر مشروط رہائی کے لیے بھی اقدامات ہونا چاہئیں جن پر قادیانی مخالف قوامین کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انھیں جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی پارلیمنٹ کے ساتھ مل کر ہندوؤں اور مسیحی برادری کی شادیوں کو قانوناً تسلیم کیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سیکورٹی کے مقاصد کے لیے امریکا کی جانب سے دی جانے والی امداد کا ایک مخصوص حصہ اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے موثر پلان مرتب کرنے پر خرچ ہو اور یو ایس ایڈ کی جانب سے صلاحیتوں میں اضافے کے لیے صوبائی وزارت برائے اقلیتی امور کو فنڈ ز فراہم کیے جائیں اور حکومت پاکستان اور اقلیتی برادری کے ساتھ مل کر ایک ایسے معاہدے کے لیے کام کیا جائے جو ان کے حقوق اور ان کی سلامتی کا ضامن ہو۔
(مطبوعہ:روز نامہ ’’جنگ‘‘۲۳؍ دسمبر ۲۰۱۶ء)