عبد اللطیف خالد چیمہ
سنہ ۷۹ء کے مارشل لاء میں جب آئین معطل کر دیا گیا تو قادیانیوں نے یہ تأثر دینے کی کوشش کی کہ سنہ ۷۴ء کی ترمیم بھی معطل ہو گئی ہے اور اب وہ اپنی ارتدادی سر گرمیاں بحال کرنے کے لیے پھر سے آزاد ہیں۔ اس پر کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمہ اﷲ کی سربراہی میں تحریک چلائی،۲۶؍ اپریل ۱۹۸۴ء کو اس وقت کے سربراہ مملکت صدر محمد ضیاء الحق مرحوم نے ’’امتناع قادیانیت آرڈیننس ـ‘‘جاری کرکے قادیانیوں کوہر قسم کے اسلامی شعائر اور مسلمانوں کی اصطلاحات کو دھوکے بازی کے لیے استعمال کرنے سے قانوناً روک دیا۔ ۳۵سال قبل جاری ہونے والے اس آرڈیننس کو محمدخان جونیجوکی منتخب اسمبلی نے قانونی شکل دی اوراب یہ تعزیرات پاکستان کا باضابطہ حصہ ہے لیکن ہمارے ہاں کی سیاسی جماعتوں میں قادیانی لابنگ ہونے کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس قانون کے نفاذ میں ہمیشہ حیل وحجت سے کام لیتے رہے۔ قادیانی سرگرمیوں کی آگاہی رکھنے والے قومی مذہبی اور سیاسی رہنما یہ مطالبہ مسلسل دہراتے چلے آرہے ہیں کہ اس قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ہونا ضروری ہے۔چنانچہ علامہ محمد یونس حسن اور ان کے محترم ساتھیوں نے کچھ عرصہ سے تحریک نفاذ امتناع قادیانیت آرڈیننس پاکستان کے نام سے ایک فورم تشکیل دے کر ایسے قوانین کے اطلاق کے لیے بیداری کا سلسلہ شروع کررکھاہے۔ اسی عنوان سے ۲۶؍ اپریل جمعۃ المبارک کو لاہور کے ہمدرد ہال میں ایک کل جماعتی مشاورتی اجلاس منعقد ہوا، جس میں احرار اسلام کی نمائندگی کے طور پر ڈاکٹرمحمد آصف اور راقم الحروف نے شرکت وخطاب کیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے با ضابطہ طور پر امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کر کے قادیانیوں کو مسلمانوں کی تمام اصطلاحات استعمال کرنے سے روکا گیا لیکن آج پورے ملک میں قادیانی اس قانون کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں مگر کوئی حکومتی ادارہ آئین پاکستان کے ساتھ اس غداری کا نوٹس لینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ کلمہ طیبہ ، اذان، نماز، قرآن مجید اوراحادیث مبارکہ کا غلط استعمال کرکے قادیانی اس قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ جس کو روکنا اور قانون پر عملدرآمد کروانا حکومت وانتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ اس عملدرآمد نہ ہونے سے قادیانی دھوکہ دہی سے سادہ لوح مسلمانوں کو مرتد بنارہے ہیں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟اور قادیانیوں کو ان ارتدادی سر گرمیوں سے کیوں نہیں روکا جاتا۔ آج کی یہ آل پارٹیز کانفرنس اہلِ اختیار سے پر زور مطالبہ کرتی ہے کہ قانون امتناع قادیانیت پر پوری طرح عمل درآمد کروایا جائے۔
راقم الحروف نے اسی روز نماز جمعۃ المبارک سے قبل قاری محمد یوسف احرار کی میزبانی میں جامع مسجد ختم نبوت چندرائے روڈ لاہور میں اسی موضوع پر قدرے تفصیل سے گفتگو کی جبکہ بعد نماز مغرب مرکزی دفتر نیومسلم ٹاؤن لاہور میں پندرہ روزہ تربیت المبلغین کو رس کی اختتامی تقریب تھی جس میں جناب سید محمدکفیل بخاری نے کورس مکمل کرنے والے شرکاء کو اسناد وکتب عطاکیں اس موقع پر گورنمنٹ وارث شاہ ڈگری کالج شیخوپورہ کے پروفیسر طاہر ڈار بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ جو ڈاکٹر محمد آصف کی دوسالہ گفتگو اور پر خلوص داعیانہ محنت کی وجہ سے اپنی فیملی سمیت قادیانیت ترک کر کے دو ماہ قبل حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں۔ تقریب میں انھوں نے بھی راقم کی دعوت پراپنی گفتگو سے حاضرین کو نوازا۔ انہوں نے کہا دعوت الی اﷲ کاکام جاری رکھاجائے ہماراکام تبلیغ کرنا ہے دلوں کا موڑ نا اﷲ پاک کا کام ہے تبلیغ کے لیے لہجہ نہایت نرم وشائستگی والا ہوکیونکہ متشدد رویے نے بہت نقصان دیاہے۔ گناہگار سے نفرت کرنے کی بجائے اس سے گناہ چھڑانے کی محنت کرنی چاہیے۔ ہمارے سامنے اگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسوہ ہوگا تو سب کام آسان اور بابرکت ہو جائیں گے۔