محمد اسامہ قاسم
عقیدہ ختم نبوت ایک بدیہی عقیدہ ہے جس پر کسی بھی دلیل کی ضرورت نہیں، ہرسلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ حضورت خاتم النبیین ﷺ اللہ کے آخری رسول و نبی ہیں ۔آپ ﷺ کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا۔اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ دجال اور کذاب تو ہوسکتا ہے نبی نہیں ہوسکتا۔ ایک سو آیات ِ قرآنیہ اور سینکڑوں احادیث مبارکہ عقیدہ ختم نبوت پر دال ہیں۔ اس کے باوجود ہر دور میں کچھ خبیث الفطرت عقل و شعور سے عاری لوگوں نے اس عقیدہ پر نقب لگانے کی کوشش کی تو شمع ختم نبوت کے پروانوں نے اس فتنہ کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے انجام بد سے دوچار کیا۔
جب سے قادیانیوں کو آئین پاکستان کی رو سے غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے تب سے اب تک مسلسل پاکستان میں اپنی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے تگ ودو کر رہے ہیں۔
موجودہ حکومت نے پہلے کی طرح ایک بار پھر قادیانیت نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے قومی اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کی شمولیت کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے مختلف مکاتب فکر کر کی سرکردہ شخصیات نے مذمتی بیان دیے ہیں
پاکستان میں میں ختم نبوت کے محاذ پر چند مستند شخصیات کے تازے بیانات آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں
شاہین ختم نبوت مولانا اللہ وسایا صاحب نے اپنے ویڈیو بیان میں فرماتے ہوئے کہا کہ
حکومت نے ایک اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو بھی بطور ممبر کے لے لیا ہے یا لے لینے کا اعلان کیا ہے اس خبر سے ہمیں بہت ہی تشویش ہوئی اس لیے کہ قادیانیوں کی آئین نے حیثیت متعین کی ہے قادیانی اس حیثیت کو تسلیم نہ کر کے بغاوت کا ارتکاب کر رہے ہیں
جب قادیانیوں سے ان کے غیر مسلم ہونے کی وہ خود اپنی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے اس وقت ان کو کسی کمیشن میں لے یہ ایک آئین شکن گروہ کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہوگا اور ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والی حکومت کے لیے یہ بالکل زیبا نہیں
ہاں وہ قادیانیوں کو اس اقلیتی کمیشن میں شامل کرنا چاہتی ہے اور قادیانی بھی اپنے آپ کو غیرمسلم تسلیم کرکے کمیشن میں آنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلےہم اس کا خیر مقدم کریں گے کہ انہیں ضرور اس کمیشن کے اندر لیا جائے لیکن جب تک وہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم نہیں کرتے اپنی آئینی حیثیت تسلیم کرتے انہیں کسی کمیشن میں نہ لیا جائے آج کمیشن میں لیا جارہاہے کل ان کو امن کمیٹیوں کے اندر لیا جائے گا اور پھران کو علماء بورڈمیں اس سے اگلے دن ان کو مکالمہ بین المذاہب میں شامل کر لیا جائے گا۔ تو قادیانیوں کو پروموٹ کرنے کے لئے گورنمنٹ ایک سوچی سمجھی سکیم اور سازش کے تحت قادیانیوں کی حمایت اور قادیانیت نوازی کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم سرکاری سطح پر مہیا کر رہی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے قادیانیوں کو کمیشن میں شریک کرنا ہے تو پہلے وہ اپنی آئینی حیثیت کو تسلیم کریں بطورغیر مسلم کمیشن میں شریک ہوں ہم ان کا خیر مقدم کریں گے لیکن اگر وہ خود کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے تو کسی بھی کمیشن میں ان کو لینا وہ آئین پاکستان کی اہانت کرنے کے مترادف ہوگا
علامہ زاہد الراشدی صاحب نے اپنے وائس میسیج میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ
حکومت پاکستان نے قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے اور کسی کو ان کا نمائندہ نامزد کیا جارہا ہے۔یہ بات اصولی طور پر تو ٹھیک ہے۔ لیکن زرا ماضی پر نظر ڈال لیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟
1974ء میں جب پارلیمنٹ نے دستوری ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا تھا۔ تو اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اس بات کا اہتمام بھی کیا تھا۔ کہ ایک قادیانی کو قومی اسمبلی میں ایک کو پنجاب اسمبلی میں رکن منتخب کروایا تھا۔ان کی نمائندگی کے لیے قادیانیوں نے انکار کر دیا تھا۔کہ وہ اپنی دستور کی طے کردہ حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔اس لیے وہ ان کے نمائندے نہیں ہیں۔اس لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ان کی نمائندگی نہ ہونا اس کی ذمہ داری خود ان کے انکار پر ہے۔جو اس وقت سے اب تک چلی آرہی ہے۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ جس دستور کے کسی فورم پر قادیانیوں کو نمائندگی دی جا رہی ہے۔اس دستور کو تو وہ تسلیم نہیں کر رہے۔ تو ان کو کس اصول کے تحت نمائندگی دی جا رہی ہے۔پہلے قادیانیوں سے تقاضا کیا جائے، ان کو آمادہ کیا جائے، کہ وہ دستوری فیصلے کو، پارلیمنٹ کے فیصلے کو، عدالت عظمی کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔کہ جو ان کی معاشرتی حیثیت ملک کا دستور طے کر چکا ہے۔اس کو تسلیم کرتے ہیں۔اس کے بعد کسی بھی فورم پر ان کی نمائندگی پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔لیکن دستور سے ان کا انکار قائم رہے، اور دستوری اداروں میں ان کی نمائندگی حکومت کی طرف سے کی جائے۔یہ کنفیوژن بڑھانے والی بات ہو گی۔ معاملات کو بگاڑنے والی بات ہو گی۔اور مسئلے کو مزید پچیدگی کی طرف لے جائے گی۔ حکومت پاکستان کو اس اقدام سے گریز کرنا چاہیے۔ اور ان کو کسی بھی فورم میں نمائندگی سے پہلے ان کی حیثیت کا ان سے اعلان کروانا چاہیے۔
اگر قادیانی اپنی اقلیتی حیثیت تسلیم کرتے ہیں۔ دستور کے مطابق عدالت عظمی کے فیصلے کے مطابق، تو ہمیں کسی بھی فورم پراس حیثیت سے ان کی نمائندگی سے انکار نہیں ہو گا۔لیکن کنفیوژن کی فضا میں، انکار کی فضا میں، اور گومگو کی فضا میں یہ بات تسلیم نہیں کی جائے گی۔ اور حکومت کو اس سلسلے میں دینی حلقوں اور عوامی حلقوں کی مخالفت کا بلکہ ہو سکتا ہے، کہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔اس لیے معاملے کو خراب نہ کریں معاملے کو صحیح طریقے سے سلجھائیں۔جو یہ ہے کہ قادیانی سے کہا جائے کہ وہ دستوری اسٹیٹس کو تسلیم کریں تو اس کے بعد ان کو کسی بھی فورم نمائندگی دے دی جائے۔اس کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہو گا مزید بگڑے گا۔
ان کے علاوہ ملک کی سیاسی اور مذہبی شخصیات نے بھی اپنے بیانات اور پیغامات جاری کیے ہیں جن میں بالخصوص چودھری پرویزالٰہی ، چوہدری شجاعت ، مجاہد ختم نبوت عبداللطیف خالد چیمہ ،علامہ ابتسام الٰہی ظہیر ،جناب قاسم چیمہ اور حفیظ چودھری صاحب شامل ہیں