پروفیسر عبد الواحد سجاد
درد سے، یادوں سے اشکوں سے شناسائی ہے کتنا آباد مرا گوشۂ تنہائی ہے
خار تو خار ہیں کچھ گل بھی خفا ہیں مجھ سے میں نے کانٹوں سے الجھنے کی سزا پائی ہے
میرے پیچھے تو ہے ہر آن یہ خلقت کا ہجوم اب خدا جانے یہ عزت ہے کہ رسوائی ہے
¯لوح حافظ پہ ان اشعار کی دستک اس پس منظر میں ہوئی کہ طالبانِ افغانستان نے دوعشروں پر محیط جنگ میں امریکا کو نا کوں چنے چبوائے، ہمارے دانشوروں کی وہ لاٹ جو ٹیکنالوجی کی دنیا میں سانس لیتی اور اس کو عملاً خدا مانے ہوئے تھی۔ وہ طالبان کی کامیابیوں کو نوک قلم پر لانا گناہ سمجھتے تھے۔ عقیدے اور ٹیکنالوجی کی جنگ میں وہ ظالم کی صفوں میں کھڑے اس ظلم کو رحم بنا کر پیش کیا کرتے تھے۔ ایک طرف 48سے زائد ممالک ہوں اور ان کی قیادت سپر پاور کر رہی ہو اور وہ جدید ترین بموں، ہتھیاروں، میزائلوں اور دوسرے حربی آلات سے لیس ہوں تو ان کے نزدیک پگڑی، ٹوپی اور شلوار قمیض پہننے والے نہتے کیسے ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
ماضی میں افغانستان میں مجاہدین کی کامیابیوں کووہ امریکا اور مغربی ممالک کی امداد کا نتیجہ قرار دیتے رہے اور پاکستان کے عسکری اشرافیہ کی ’’ڈبل گیم‘‘ کا مرہون منت قررار دینا ان کا معمول تھا۔ اس بار وہ سب کچھ نہ تھا، پرویز مشرف کے یوٹرن نے محسنوں کو مجرموں کی صف لا کھڑا کیا تو یہ زرد صحافت کے علم بردار دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں ڈالروں اور پونڈوں کی چمک سے جن کی آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں، ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے پرویزی نعرے کو حکمت سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ طالبان کے ساتھ جس طرح ذلت آمیز برتاؤ کیا گیا، اس پر کسی کا ضمیر جاگا نہ کوئی خامہ فرسائی دیکھنے کو ملی۔ ملا عبدالسلام ضعیف جیسے سفارت کار کے ساتھ برتا جانے والا رویہ بھی ان کے ضمیر کو نہ جھنجھوڑ سکا۔ عافیہ صدیقی اور اس قبیل کے لوگوں پر جو ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کیا گیا، کسی کو بھی انسانی حقوق یاد نہ آئے۔ مکافاتِ عمل سے کوئی نہیں بچ سکتا، پرویز مشرف دبئی کے ہسپتال میں بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنا ہوا ہے اور اس کا ممدوح امریکا جس انداز سے بگرام ائیر بیس سے رات کی تاریکی میں جس طرح نکلا، وہ اب تاریخ عالم کا حصہ ہو گا۔ اسے افغانستان کی لوک داستانوں میں ذلت کے عنوان سے ہی یاد کیا جائے گا۔
ڈیڑھ لاکھ اتحادی افواج، پاکستان کے ہوائی اڈوں اور زمینی امداد، بلیک واٹر کی تعیناتی سے ظلم و ستم کا جو بازار گرم کیا، قیدیوں پر تشدد اور ان کی گردنیں کاٹ کر ان کے جسموں کو تڑپتے ہوئے دیکھ کر اپنی تفریح کا سامان کیا، ان کے سروں کی ٹرافیاں تک بنائی گئیں، جنازوں پر حملے، شادی کی تقریبات میں میزائل داغے گئے، گلی میں کھیلتے بچوں کو کھلونا بموں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا۔ 7اکتوبر 2002ء سے اپریل 2021ء تک افغانستان میں دو لاکھ اکتالیس ہزار مصدقہ اموات ہوئیں، ان میں سے اکہتر ہزار 344عام شہری کی اموات ہوئی، ان میں 47245افغانستان اور 24099پاکستان میں مارے گئے۔ ان میں 69000 اہل کار افغانی اور 9314 پاکستانی تھے۔ 84191حکومت مخالف لوگوں کی اموات ہوئیں جن میں 51101افغانستان میں اور 33000 پاکستان میں ہوئیں۔ 3586غیر ملکی فوجی ہلاک ہوئے، ان میں سے 2442امریکی اور ایک ہزار 144دیگر ممالک کے فوجی تھے۔ اقوام متحدہ کے محتاط ترین اندازے کے مطابق 7792بچے اس جنگ میں مارے گئے اور 18662زخمی ہوئے۔ 3219خواتین جنگ کا ایندھن بنیں اور 7000زخمی ہوئیں، افغانستان کی تین کروڑ 80لاکھ آبادی میں سے 40لاکھ افغانی اندرون ملک دربدر اور 27لاکھ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ یورپ سے باہر نیٹو اتحاد کی یہ طویل ترین فوجی مہم تھی اور امریکا کی دو سو سالہ تاریخ میں یہ سب سے طویل جنگ تھی، چار امریکی صدور اور چھے امریکی حکومتیں اس بیس سالہ جنگ کے دوران تبدیل ہوئے۔ ایک لاکھ 40ہزار اتحادی فوجی افغانستان کی جنگ میں شامل رہے۔ 22ہزار 562امریکی کنٹریکٹرز (کرائے کے فوجی) اس کے علاوہ تھے۔
ان نقصانات کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس افغان جنگ میں افغانیوں کا جو جانی ومالی نقصان ہوا وہ ہوا، مگر پرویز مشرف کی غلامانہ حکمت عملی نے پاکستان کو نقصان پہنچایا وہ بھی طالبان کے کھاتے میں ڈالا گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ افغانستان کے نئے خیر خواہوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا کنونشن، حقوق انسانی کے عالمی ضوابط کی پامالی اور دوسرے عالمی پروٹوکول کی دھجیال اڑانے پر کوئی ایک حرف بھی لکھا؟ انخلاء کے اعلان کے بعد بھی امریکا سے نہ جانے کی فریاد کرتے رہے۔ ٹیکنالوجی کی برتری پر اتنا بھروسہ تھا کہ اور کوئی راہ نہیں سجھائی دے رہی تھی، وہ امریکہ کی وظیفہ خواری میں بھول گئے کہ خدا کی طاقت کے سامنے ہر طاقت بے بس ہے مگر انھیں خدا پر یقین ہوتا تو وہ صرف امریکی ٹوکری میں ہی انڈے نہ دیتے۔
بگرام ائیر بیس سے امریکا نے جیسے انخلا کیا، وہ ان عاشقان زار کے لیے سوہانِ روح ہے، وہ شکوہ کنا ہوں بھی تو کس سے؟ وہ اب حق نمک ادا کرتے ہوئے طالبان کے اقتدار کو ’’خانہ جنگی‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں، لڑنے والے طالبان تھے، تو امن کی چابی بھی انھی کے پاس ہے، افغانستان کے غم میں ان نومولود دانش ورں کو گھلنے کی ضرورت نہیں۔ ایران میں طالبان افغان حکومت کے ساتھ بیٹھ کر پُرامن حل کی بات کر رہے ہیں تو مستقبل کا ناک نقشہ بھی انھی کے ہاتھوں تشکیل پائے گا۔ باقی طالبان کو ایسے خیر خواہوں کی ضرورت تھی نہ ہے، کیونکہ
سب ہماری خیر خواہی کے علم بردار تھے
سب کے دامن پر ہمارے خون کی چھینٹیں ملیں
جاں تک دی وفا کی راہ میں ہم نے حفیظؔ
کیا کریں پھر بھی اگر ہم کو نہ پہچانے کوئی