تحریر: ڈاکٹرعمرفاروق احرار
پاکستان بنا تو ملک کو اُس کے اساسی نظریے یعنی اسلام پر اُستوارکرنے کی ضرورت پیش آئی،کیونکہ پاکستان کی پہلی دستورسازاسمبلی میں یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ پاکستان کا دستوراِسلامی ہوگا،یاسیکولر ؟جس پر تحریک پاکستان کے وہ رہنمامتفکرہوئے ،جنہوں نے اسلام کے نام پر اِس نوزائیدہ ملک کی بنیادرکھی تھی۔اُن ہی کے ایماء پر لیاقت علی خان قراردادِ مقاصدکی تیاری پرقائل ہوئے اور بالآخرملک کے ممتازعلماء نے دستورسازی کے راہنما اصول کے طورپر قراردادِمقاصدکا مسودہ تیارکیا۔جس میں پاکستان کو اسلامی ریاست قراردیتے ہوئے،اسلامی احکام اورقوانین کی معاشرہ میں ترویج اورعمل داری کا عہدکیاگیاتھا۔ قراردادِ مقاصدکو 7مارچ 1949کودستورسازاسمبلی میں پیش کیاگیا۔جسے کافی بحث وتمحیص کے بعد 12اپریل 1949کو اسمبلی نے منظورکرلیا۔یہ قراردادپاکستان کے آئندہ مرتب ہونے والے ہرآئین میں دیباچے کی حیثیت سے شامل رہی۔ قرارداد مقاصد دستورِ پاکستان میں بالاتر حیثیت کی حامل رہی اور اس میں ضمانت دی گئی تھی کہ ملک کے دستور و قانون کی کوئی شق قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہوگی۔اس کے باوجود ملکی آئین وقوانین کو اسلامی صورت میں منتقل کرنے کا مستقل کوئی آئینی ادارہ موجود نہیں تھا ۔اس خلاکو پُرکرنے کے لیے1962 میں اسلامی مشاورتی کونسل تشکیل دی گئی۔
1973میں پاکستان کا پہلامتفقہ آئین قومی اسمبلی نے منظورکرلیاتوآئین کی شق نمبر 227 میں یہ صراحت کی گئی کہ:’’پاکستان میں کوئی قانون، قران وسنت کے مخالف نہیں بنایا جائے گا۔‘‘تب یہ سوال پیداہواکہ اب ملکی قوانین کے اسلامی یاغیراسلامی ہونے کی گارنٹی کون ساادارہ دے گا؟تب اسلامی مشاورتی کونسل کو ترقی دے کر، آئین کی دفعہ نمبر 228، 229 اور 230 کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے 20 ؍اراکین پر مشتمل ایک آئینی ادارہ تشکیل دیا گیااوراس کے دائرہ کاراورذمہ داریوں میں اضافہ کردیاگیا۔ کونسل کا کا بنیادی فریضہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو اِسلامی قانون کی تدوین کے لیے سفارشات پیش کرنا ہے ،نیزمجلس شوریٰ (قومی اسمبلی،سینیٹ) کو ایسی سفارشات پیش کرناہے کہ جن پر عمل پیرا ہوکر مسلمان اپنی انفرادی و اِجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھال سکیں۔ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوں کی رہنمائی کے لیے مناسب شکل میں ایسے اسلامی اصولوں کو جمع کرناکہ جنہیں قانونی شکل دی جاسکے ،کونسل کے فرائض میں شامل ہے۔کونسل کو پابند کیا گیاہے کہ صدر، گورنر یا اسمبلی کی اکثریت کی طرف سے بھیجے جانے والے معاملے کی اسلامی حیثیت کا جائزہ لے کر 15 دنوں کے اندر اندر انہیں اپنی رپورٹ پیش کرے۔ دوسری طرف اگر صدر ، گورنر یا اسمبلی یہ سمجھے کہ یہ قانون انتہائی اہم نوعیت کا ہے تو اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے جواب کا انتظار کیے بغیر بھی اس آئین کو منظور کیا جاسکتا ہے اورپھر اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے جواب آنے کے بعد آئین پر نظرثانی کی جا سکتی ہے ۔
ستمبر 1977ء کوصدر ضیاء الحق مرحوم کے دور حکومت میں کو نسل دوبارہ تشکیل کے مرحلے سے گزری۔تب کونسل کے 17 ممبر ضیاء الحق کے نامزد کردہ تھے ۔ 11 ممبران مختلف مسالک کے علماء کرام تھے،جبکہ دو ممبران جج اور دو قانونی ماہر تھے ۔
اسلامی نظریاتی کونسل کو ٹاسک دیاگیاتھاکہ وہ سات سال کے اندر تمام مروجہ پاکستانی قوانین کا جائزہ لے کر، اُن کے متعلق قرآن و سنت کی روشنی میں رپورٹ پیش کرے۔ تا کہ اگر کوئی موجودہ قانون یا قانونی دفعہ قرآن و سنت سے متصادم ٹھہرتی ہے تو اُسے بذریعہ ترمیم قرآن و سنت کے عین مطابق ترتیب دیاجاسکے ۔مختلف حکومتوں کی اکھاڑپچھاڑ اوراُن کے حیلے بہانوں سے کونسل کا یہ کام التواکی شکارہوتارہا۔آخرکارکونسل نے اپنا کام مکمل کرکے اقبال احمدخان کی کونسل کی چیئرمین شپ( 1994-1997)کے دوران پیش کردیا۔اس رپورٹ کے پیش ہونے کے بعد پارلیمنٹ دستوری طور پر پابند تھی کہ وہ دو سال کے اندر اس رپورٹ کی روشنی میں قانون سازی کرے ،مگریہاں پھر حکومتی روایتی حیلے بروئے کارلائے گئے۔اُس وقت بھی نوازشریف کی حکومت تھی اوراب بھی اُنہی کا دورِ اقتدارجاری ہے،لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی مطابق عمل درآمد تو درکنار،خودکونسل کا وجودہی داؤپر لگادیا گیاہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل میں مولانا محمدخان شیرانی کی چیئرمین شپ کا دورانیہ مکمل ہونے کے بعداب کسی لبرل اورسیکولر نظریات کے حامل چیئرمین کے تقررپر سو چ وبچارکی جارہی ہے۔موم بتی مافیااین جی اوزاوراُن کے سرپرست لادین عناصراسلامی نظریاتی کونسل کے کرداراوردائرہ کارکو مزیدمحدودکرنے کے لیے سرگرم ہوچکے ہیں،حالانکہ کونسل محض ایک مشاورتی ادارہ ہے۔جس کا کام سفارشات پیش کرناہے۔
دراصل کونسل کی مرتبہ سفارشات سے لادین حلقہ خوفزدہ ہے ،کیونکہ کونسل اب تک ملکی قوانین، سود، کوٹہ سسٹم، خلع و طلاق، وراثت، حق ملکیت، خواتین و بچوں کے حقوق،نصابِ تعلیم اور غیر شرعی رسومات سمیت لاتعدادموضوعات پر 90 ہزار سفارشات اور 20 ہزار سے زائدرپورٹس حکومت کو پیش کرچکی ہے۔جس کے بعد حکومت اورپارلیمنٹ کے پاس یہ جوازنہیں رہا کہ فلاں مسئلہ پر قانون سازی کے لیے ہوم ورک موجودنہیں ہے۔مولانا محمدخان شیرانی کے دورمیں کونسل کی 1997 سے 2009 کے دوران تجویز کی گئی ہزاروں سفارشات پارلیمنٹ کو دوبارہ بھجوائی گئی ہیں جو وہاں پیش ہی نہیں کی گئی تھیں۔ حال ہی میں کونسل نے سندھ اسمبلی سے پاس ہونے والے انسدادِ قبولِ اسلام بل کواسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیاتو لبرل حلقے میں طوفان کھڑا ہوگیااورابھی تک کونسل کو تحلیل کرنے کے مطالبات کیے جارہے ہیں۔حالانکہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا آئینی ادارہ ہے۔یہ فتویٰ دینے کاادارہ نہیں ہے ،بلکہ اِس کاتعلق پارلیمنٹ سے ہے اوریہ پارلیمنٹ کی رہنمائی کرتاہے۔البتہ اس ادارے کو ایک طرح کی اجتہادی حیثیت حاصل ہے ،جو قرآن وسنت کے فیصلوں،فقہاء اورمجتہدین کی آراء کی روشنی میں کسی بھی مسئلے پررائے دیتا ہے ۔آئین کے مطابق جب تک اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملی اقدامات بروئے کارنہیں لائے جاتے ،کونسل کو ختم کرنا خلافِ آئین اقدام ہوگا۔جس کے اثرات ونتائج انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔