پروفیسر خالد شبیر احمد
اسلامی ریاست میں حکمرانوں کی ذمہ داریاں ہی اس نوعیت کی ہیں کہ ہر ذمہ داری کو پورا کرنے کے بعد معاشرہ خود بخود پرسکون ہوتا چلا جاتا ہے۔ دینِ اسلام کے مطابق حکمران، حکمران نہیں ہوتے بلکہ قوم کے خادم ہوتے ہیں، ان کے لیے اقتدار عیش و عشرت کا ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی ذمہ داری ہوتا ہے جس کے لیے وہ اپنے آپ کو عوام سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داریوں میں سب سے زیادہ لوگوں کے دین و ایمان، جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کو ہی اہمیت دیتے ہیں کہ یہ ان کا بنیادی فریضہ ہے جسے پورا کیے بغیر لوگ معاشرے میں اپنے فرائض کو ادا کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں رہ سکتے جو ریاست یا پھر حکومت کی طرف سے ان پر عائد کیے جاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی مثال سے بات واضح ہو جاتی ہے وہ رات کو رعایا کے حالات معلوم کرنے کو نکلتے تھے۔ تاکہ لوگوں کی پریشانیوں کا خود جائزہ لے سکیں۔ انھوں نے اپنی پیٹھ پر غلہ رکھ کر خود لوگوں تک پہنچایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ نے بوڑھے، اپاہج لوگوں اور حاجت مندوں کے فہرستیں بنا کر انھیں وظائف دیے۔ اس کام کے لیے ایک الگ شعبہ قائم کیا گیا تھا جس کے ذریعے قومی بیت المال سے مستحق لوگوں کو ہر قسم کی امداد مہیا کی جاتی تھی۔ اس حوالے سے خود حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’کوئی حاکم جو مسلمانوں کی حکومت کا منصب سنبھالے پھر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے محنت اور دیانت سے کام نہ لے وہ مسلمانوں کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہو گا‘‘۔
دین اسلام میں ذمیوں یعنی غیر مسلموں کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اسلامی ریاست میں اُن کے حقوق کا تذکرہ موجود ہے۔ کہ ان کی جان و مال، عزت و آبرو کی، ان کی عبادت، ان کے مذہبی تہواروں کے تحفظ کی ذمہ دار اسلامی حکومت ہے اور غریب غیر مسلموں کو بھی اسی طرح بیت المال سے مدد مہیا کی جائے گی جس طرح مسلمانوں کو مہیا کیے جانے کے احکامات ہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا یہ قول بھی موجود ہے :
’’اﷲ کی قسم! ہم انصاف پر نہیں اگر ہم لوگوں کے ایّامِ ضعیفی میں انھیں بے سہارا چھوڑ دیں۔ جب کہ اس سے پہلے ہم نے ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا ہو۔‘‘آپ ہی نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر مجھے زندگی نے مہلت دی تو میں ایسا نظام قائم کروں گا کہ ’’مزما‘‘ کی پہاڑیوں میں رہنے والا گڈریا بھی اجتماعی دولت میں حصہ دار بن جائے اور آپ نے ایسا کر کے دکھا بھی دیا تھا۔
اسلام دولت کی منصفانہ تقسیم کا علمبردار ہے اور امیر اور غریب کے درمیان وحشیانہ امتیاز کو ختم کرنے کے لیے مخیر حضرات پر زکوٰۃ، صدقات، خیرت کے ذریعے دولت کو غریب لوگوں کی طرف لوٹانے کا باعث بنتا ہے۔ تاریخ انسانیت میں خلفائے راشدین کا دورِ حکومت مثالی ریاست کی ایک خوبصورت تصویر پیش کرتا ہے۔
عدل و انصاف:
اسلامی ریاست کا تصور عدل و انصاف کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسلامی ریاست میں عدل و انصاف کا معیار اس لیے بھی بلند ہے کہ خود حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی ذات کو لوگوں کے سامنے پیش کیا اور کہا: ’’کہ اگر میں نے کسی سے زیادتی کی ہے تو وہ مجھ سے اس کا بدلہ یہیں اس دنیا میں لے لے، میں ایسا نہیں چاہتا کہ اس طرح اﷲ تعالیٰ کے ہاں پیش ہوں کہ کسی پر زیادتی کا بوجھ میری گردن پر ہو۔‘‘
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنے آپ کو قاضی شریح کی عدالت میں پیش کیا اور عدالت کے فیصلہ کو قبول کیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے بھی اپنے قاضی حضرت زید کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ زید تم اس وقت تک قاضی نہیں کہلا سکتے جب تک عمر بن خطاب کو ایک عام مسلمان کے برابر نہیں سمجھتے۔ آپ نے یہ بات اس وقت کہی جب آپ کسی مقدمہ کے سلسلے میں قاضی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کہ قومیں اس وقت ذلیل ہوئیں کہ جب ان کا قانون صرف کمزور اور ناتواں لوگوں تک کے لیے تھا۔‘‘ ایک دوسرے موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میری اپنی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میں اس کا ہاتھ بھی کاٹنے کی سزا دیتا۔‘‘
آج کے اس متمدن و مہذب دور میں جس کا دعویٰ اہل مغرب کو ہے، امریکہ اور برطانیہ سمیت سبھی جدید ریاستی سربراہوں کو قانونی طور پرعدالتی استثناء حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں پر اگر سپریم کورٹ لوگوں کے ساتھ بے انصافی کو ختم کرنے کے لیے کوئی حکم دیتی ہے تو اس سے ہمارے جمہوری اداروں کی توہین ہو جاتی ہے۔ عدالت کا کوئی حکم پارلیمنٹ کے کسی فیصلے کے خلاف چلا جائے تو پارلیمنٹ کی توہین ہو جاتی ہے۔ قانون و آئین کے ماہرین اس پر بحث کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ قومی اسمبلی سے بالا نہیں کہ وہ اس کے کسی فیصلے کے خلاف فیصلہ کرے۔ گویا ہماری پارلیمنٹ کا درجہ معاذ اﷲ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی بلند ہے جو اپنے آپ کو انصاف کے لیے عام لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ ادھر خود سپریم کورٹ بھی ان تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے جو عدل و انصاف کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اور لازمی ہیں۔ صادق و امین کی بحث اپنے عروج پر ہے لیکن دیکھنا یہ بھی ہے کہ جو لوگ عدل کی کرسی پر بیٹھے انصاف کر رہے ہیں، وہ خود بھی صادق و امین کے معیار پر پورے اترتے ہیں کہ نہیں۔ پاکستان میں تو آئین اور قانون صرف آئین و قانون کی کتابوں میں ہی رہ گیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے
شش جہت میں ہے تیرے جلوۂ بے فیض کی دھوم
کان مجرم ہیں مگر آنکھ گنہ گار نہیں!
ضرورت اس امر کی ہے کہ عدل و انصاف کے معیار کو اسلامی احکام کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ معیاری بنایا جا سکے۔ اس کے بعد ہی اُن مسائل سے نجات حاصل ہو سکتی ہے جن میں آج ہمارا ملک مبتلا ہے کہ حکمرانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس تک نہیں ہے۔