دوسری و آخری قسط
جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
تحریک مسجد منزل گاہ سکھر بہ روایت جناب حافظ عزیز الرحمن کیمبلپوری :
تاریخ: دریائے سندھ کے کنارے مسجد منزل گاہ مغل سلاطین کے دور میں غالبا اکبر کے زمانہ سے لشکر یوں کاڈیراتھا۔ جیسا کہ وہاں فارسی کا ایک شعر اس کی وضاحت کرتا ہے۔ باقی جگہ میدان تھا اور کچھ حصے میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنادی گئی تھی جس میں لوگ نماز پرھتے تھے۔ تقسیم ملک سے پہلے سکھر کی آبادی اس طرح تھی کہ کنارِ دریا تو کل ہندو آباد تھے اور اس مسجد کے مقابل دریا کے بیچ میں ایک چھوٹا ساجزیرہ ہے جس میں ہندوو ں کا ایک مندر ہے جس کو سادھ بیلا کہتے ہیں۔وہاں کا جومہنت ہوتا وہ ہندوؤں کے مذہبی معاملات میں واحد نمائندہ اور مطلق العنان مذہبی فرماں روا کی حیثیت رکھتا تھا۔ جہاں مسجد منزل گاہ ہے اس ساحل سے جزیرہ تک کشتیوں کے ذریعہ سواریاں بھیجی جاتی تھیں۔ دو دو آنے سواری پر یہ کام ہوتا تھا۔ چونکہ مسجد کے گرد مسلمانوں کی کوئی آبادی نہ تھی او رقومی معاملات میں بھی وہ عموما غافل اور کاہل تھے، ان کی اس کمزوری اور بے پروائی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوؤں نے انگریزوں سے مل کر مسجد کوتالا لگوا دیا اور سیا سی حیلہ بازی سے ایک عبادت گاہ معطل اور بے آباد ہوکر رہ گئی۔
۲۔ جب ۱۹۳۵ء میں مسجد شہید گنج کا قضیہ رونماہو اتو مسلمانوں کی توجہ ایسی ہی کئی بند شدہ اور غیروں کی مقبوضہ مساجد کی طرف منعطف ہوگئی۔ بعدازاں ۱۹۳۹ء میں جب خان بہادر اﷲ بخش سومرو مرحوم سندھ مسلم لیگ کو سیاسی طور پر شکست دے کر برسراقتدار آچکے تھے تو لیگیوں اور انگریز پر ستوں نے مسجد منزل گاہ کی واگزاری کے مسئلہ کوتحریک بناکر اسے سیاسی حربہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تا کہ خان بہادر موصوف کو پچھاڑا جا سکے۔ چنانچہ لیگ کے عزم اور پروگرام کے مطابق جب عوام مسلمانوں میں تحریک نے زور پکڑا اور مسجد کے تقدس وحرمت کے جذباتی مسئلہ کی وجہ سے معاملہ بڑھ گیا تو مقابلہ میں ہندوؤں میں بھی جوابی کارروائی کے لیے تیاریاں شروع ہوئیں۔ جبکہ سندھ میں ہندو سیاسی اقتصادی اور معاشی طور پر نہ صرف یہ کہ خوش حال بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر قابض تھے۔ انھوں نے مسجد کے متعلق یہ دعوی کردیا کہ یہ عمارت سرے سے مسلمانوں کی مسجد ہی نہیں ہے۔ اگر اس کو واگزار کیا گیا تو الٹا مسلمان غنڈوں کا مرکز بنے گا ۔اور ہماری جو بہو بیٹیاں مسجد سے متصل ساحل سے چل کر سادھ بیلے کے تیرتھ پر جاتی ہیں، اُن سے چھیڑ چھاڑ کی جائے گی۔ جس سے ہماری بے آبروئی کا شدید خطرہ ہے۔ جب فریقین میں کشمکش بڑھ گئی اورسوال امن وامان کی حفاظت وبحالی تک پہنچ گیا تو خان بہادر موصوف خود سکھر میں تشریف لائے اور مسلم لیگیوں سے دو شرائط پر مسجد کی واگزاری کے متعلق گفتگو کی۔ وہ شرائط حسب ذیل تھیں:
الف: مجھے چھے ہفتہ کی مہلت دی جائے تاکہ میں ذاتی طور پر اس کے متعلق غورو فکر کے بعد کوئی صحیح فیصلہ کرسکوں۔
ب: آپ اس کیس کو عدالت میں لے جائیں اور وہاں پر اگر مقدمہ زائد المیعاد کا سوال اُٹھے تو(میری) حکومت (آپ کے مطالبے کی) تصدیق کرتے ہوئے مسلمانوں کے حق میں فیصلہ کر دے گی۔ یعنی زائد المیعاد کے مسئلہ کو مقدمہ خارج کرنے کے لیے آڑنہ بننے دیا جائے گا۔
۳۔ لیکن مسلم لیگ کو تو حسب معمول خان بہادر مرحوم کو بہر طور زک پہنچانا مطلوب تھی۔ اس لیے انھوں نے موصوف کی کسی بھی صحیح بات کو تسلیم نہ کیا۔ مسجد کے سلسلہ میں ریسٹوریشن کمیٹی قائم کی گئی۔ حافظ عزیز الرحمن صاحب جس کے ممبر تھے۔ اس کے اجلاسوں میں جب ان شرائط پر غور شروع ہوا اور چند ممبروں نے ان شرائط کو مناسب اورقابل قبول سمجھتے ہوئے تصفیہ پر آمادہ گی ظاہر کی توپیر غلام مجدد سرہندی شکار پوری اور شیخ واجد علی ایڈووکیٹ شکارپوری نے کھلم کھلا کہا کہ: ’’مسجد تو ایک بہانہ ہے، ہم نے ہر حال میں اﷲ بخش سے لڑائی لڑنی ہے، چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو جائے‘‘۔ چنانچہ کوئی مناسب فیصلہ نہ ہو سکا اور خان بہادر مرحوم کے خلاف مسجد منزل گاہ کو آڑ بنا کر سیاسی جنگ شروع کر دی گئی۔
۴۔ اراکین مجلس احرار اسلام سکھر، لیگیوں کی طرف سے مسجد کی وا گزاری کے لیے اس تحریک کے پس منظر کو بخوبی جانتے اور سمجھتے تھے۔ انھوں نے مسجد کے تقدّس و حرمت کی برقراری اور مسلمانوں میں اس مسئلہ پر اختلاف کے سدّباب اور اندرونی اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کی غرض سے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا، کیونکہ مسئلہ بڑا مخدوش تھا۔ مذہب کا نام غلط طریقہ پر استعمال کر کے غلط نتائج و مفادات کی راہ ہموار کی جارہی تھی۔ عوام حقیقتِ حال سے بے خبر تھے۔ اگر احرار شرکت نہ کیں تو یہ طوفان مچتا کہ یہ لوگ مسلمانوں کے دشمن ہیں جو مسجد کو قبضۂ کفار میں جاتے دیکھنے پر آمادہ ہیں، لیکن محض سیاسی اختلاف کو وقتی طور پر نظر انداز کر کے مسلم لیگ سے اس مسئلہ میں تعاون سے گریزاں ہیں۔اور اگر وہ اس تحریک میں شامل ہوتے ہیں تو تحریکِ آزادیٔ وطن میں اصولی اتحاد کے علم بردار گروہ میں سے خان بہادر اﷲ بخش سومرو سے بلا ضرورت تصادم کی صورت پیدا ہوتی ہے جو کسی طور پر بھی نہ مطلوب تھا نہ مستحسن۔ لیکن لیگ کی خواہی نخواہی تحریک، ہندوؤں کے غلط اصرار و اشتعال انگیزی اور در اصل انگریز کی بدنامِ زمانہ تفریق انگیز پالیسی کی بدولت حالات ایسے نازک ہو چکے تھے کہ اس مسجد کے ایک مقامی اور ہنگامی قسم کے مسئلہ میں ذرا سی جائز اور مبنی بر مصلحت خموشی بھی قومی احساسات کو مجروح کرنے اور سیاسی دنیا میں مزید مشکلات پیدا کرنے کا ایک قوی بہانہ اور خطرناک ذریعہ بن جاتی، اس لیے احرار نے تحریک میں شرکت ہی کو ضروری سمجھا۔
۵۔ چنانچہ ضروری تیاری کے بعد سول نا فرمانی کا آغاز ہو گیا اور مسلمانوں کے جتھے مسجد کی طرف یکے بعد دیگرے جانے لگے۔ جس میں مجلس احرار اسلام کی طرف سے بھی رضا کار دستے روانہ کیے گئے جن کی تخمینی تعداد چار سو کے قریب ہوتی ہے۔ حکومت نے دفعہ ۱۴۴؍ نافذ کر دی اور خلاف ورزی پر با قاعدہ گرفتاریاں شورع کر دیں۔ تین چار روز میں ہی سکھر جیل قیدیوں سے قریباً بھر گئی اور مزید افراد کے لیے جگہ باقی نہ رہی۔ مرحوم خان بہادر چونکہ بہر طور تصادم سے بچنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔ جب اس پر بھی سول نا فرمانی نہ رکی تو انھوں نے سکھر جیل اور کھلے کیمپ کی شکل میں بنائی گئی عارضی جیل سے اپنا انتظام ختم کر دیا اور قیدیوں کو کھانا اور روشنی وغیرہ کی سپلائی روک دی۔ گویا اب رضا کاروں کا گروہ جیل میں زبردستی ڈیرا جمانے والا ہجوم بن کر رہ گیا، وہ باقاعدہ قیدی نہ رہے۔ نتیجتاً قیدی تنگ آ کر از خود ہی جیل سے نکل گئے۔ حتی کہ مسجد کا پہرہ بھی ختم کر دیا گیا چنانچہ رضا کاروں کی ایک محدود تعد اد جیل سے نکل کر مسجد میں آ براجمان ہوئی اور اپنے عملی قبضہ کا اعلان واظہار کرنے کے لیے مسجد میں باقاعدہ نمازیں ادا کی جانے لگیں۔ گویا محاذ فتح ہوگیا اور یہ کیفیت مہینہ ڈیڑھ مہینہ جار ی رہی۔
۶۔ چونکہ اس مرحلہ میں حکومت کی پالیسی بالکل نرم اور مصالحانہ رہی تھی کہ کسی قسم کا بھی تشدد روا نہیں رکھا گیا تھا جس سے رضاکاروں کے حوصلے بڑھے ہوئے تھے اور وہ اپنے ہر اقدام کو قطعی فاتحا نہ سمجھنے لگے تھے اس لیے حکومت کے لیے وقار، قانون کے تحفظ اور امن وامان کی بحالی کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ ۱۷؍نومبر ۱۹۳۹ء کو حکومت نے فیصلہ کیا کہ مسجد کو قابض لوگوں سے بہر حال خالی کرایا جائے۔ نتیجتاً اب صورتِ حال اس سے بالکل مختلف تھی۔ لاٹھی چارج شروع ہوا لوگ بھاگ اُٹھے مسجد خالی ہو گئی اور اس پر دوبارہ پولیس کا پہرہ بٹھا دیا گیا۔
۷۔ لاٹھی چارج سے جب افراتفری مچی اور یہ لوگ بے سوچے سمجھے قرب وجوار کی گلیوں محلوں کی طرف بھاگے، جہاں ساری آبادی ہندوؤں کی تھی تو پہلے سے تیار بیٹھے ہوئے ہندو غنڈو ں نے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ اس چانک یلغار سے پچیس تیس کے قریب نہتے رضا کار مسلمان شہید ہوئے اور کافی تعداو میں مجروح ہوگئے۔
۸۔ مجروحین کی مرہم پٹی کیلئے مجلس احرار اسلام سکھر کے صدر جناب ڈاکٹر محمد عمر صاحب نے دن رات ایک کردیا اور انہیں ہر ممکن فوری طبی امداد پہنچائی۔ حتی کہ حکیم غلام مجدد سرہندی اور شیخ واجد علی ایڈوکیٹ جو حکومت کی ابتدائی کار روائی کے وقت پولیس کے لاٹھی چارج سے زخمی ہوکر بھاگے اور واپس شہر میں پہنچے تو ان کے زخمی سر سے خون بہہ رہا تھا۔ چنانچہ فوری طور پر صدر احرار سکھر ڈاکٹر محمد عمر اور ناظم احرار جناب حافظ عزیز الرحمن صاحب نے اپنی قمیصیں پھاڑ کر ان کو پٹیاں باندھیں اور مناسب دوا دارو کے بعد یہ فوراً کار میں بیٹھ کر واپس شکار پور چلے گئے۔
۹۔ چونکہ بات اب صرف مسلمان عوام اور حکومت کی نہ رہی تھی، بلکہ ہندوؤں کی جارحانہ کار روائی سے مسئلہ کارخ بدل گیا اس لیے تحریک نے ہندو مسلم فسادات کی شکل اختیار کرلی جو انگریز کی حکومت عملی کے مطابق اور اس کا مطلوب تھی۔ چنانچہ ہندوؤں نے اپنی آبادیو ں میں واقع مسلمانوں کے اکا دکا مکانات میں زبردستی گھس کر مرد و زن اور بچوں بوڑھوں کا علانیہ قتل عام کیا اور لوٹ مار مچائی۔ تو ردعمل کے طور پر شہر کے دوسرے حصوں میں مسلمانو ں نے بھی جوابی کارروائی کے ذریعہ ان کی جائیدادوں کو آگ لگا دی اور متعد دا فراد کوقتل کر دیا۔
۱۰۔ چونکہ ہندوابتداء سے ہی منظم تھے اور تمام مالی و سیاسی وسائل ان کے قبضہ میں تھے، اس لیے ان کی سازش اور انگریزوں سے ملی بھگت کے نتیجہ میں یہ پر امن تحریک خون ریز فسادات سے بدل گئی تو اب مسلمانوں کواس تحریک سے بد دل اورتحریک آزادیٔ وطن کے متعلق مزید اقدامات کے سلسلہ میں مرعوب کرنے کے لیے یہ سکیم سوچی گئی کہ ہندوؤں کے نقصانات کا مسئلہ کھڑاکرکے مسلمانوں پر ڈکیتی اور قتل کے جھوٹے سچے مقدمات دائر کردیے اورہزارو ں کی تعداد میں مسلمانوں کو گرفتارکیاگیا۔ انتہایہ ہے کہ اسی نوے سالہ بڑے بوڑھوں سے لے کر آٹھ نو سال کے بچو ں تک کو محبوس کیاگیا۔ بعض جگہ پورے گاؤں کے گاؤں مردوں سے خالی ہوگئے۔
مجلس احرار اسلام اور اس کے کارکنوں کا کردار :
۱۱۔ شہر کی ایک لاکھ آبادی میں ساٹھ ہزار ہندو اور چالیس ہزار مسلمان تھے اور ہندوستان بھر میں عددی برتری کے بل بوتے پر چھوت چھات، نفرت وتعصب اوراقتدار ومناصب پریک طرفہ تسلط وقبضہ کی غیر منصفانہ جد وجہد کی مجنونانہ کیفیت ہندوؤں میں جاری وساری تھی۔ اس کے نتیجہ میں یہاں بھی وہ ہر شعبۂ زندگی پرقابض تھے۔ اسمبلی میں بھی وہ اسی ضابطہ کے تحت اکثر یت میں اور یک جاو متحد تھے۔ کسی مسلمان منسٹر کے دھڑے میں شامل نہ تھے۔ اور اس کے بالکل برعکس مسلمان حسب معمول دور غلامی کی خاص نشانیوں کو گلے لگائے ہوئے اختلاف و تشتّت کاشکار تھے۔ ہر وزیر اور ہر ممبر کے جدا گانہ حالات کے مطابق کئی گروہ تھے۔ جب مسجدپرعارضی وہنگامی قابض مسلمان رضا کارو ں کامورچہ توڑنے کے لیے لاٹھی چارج سے متصل بیسیو ں نہتے مسلمان خون خرابہ کی نذر ہوئے تو حکام نے فور اکر فیو نافذ کردیا۔ بازار بندہوگئے تجارت اور منڈیوں پر چونکہ ہندوؤں کا قبضہ تھا اس لیے عام اشیاء استعمال ملنی مشکل ہوگئیں۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کی زندگی دو بھر ہورہی تھی مجلس احرار اسلام سکھرنے اپنی خدمت خلق کی قدیم روایات کے مطابق فیصلہ کیاکہ صدر جماعت ڈاکٹر محمدعمر صاحب کوتو زخمیوں کے علاج اور نگرانی کاکام سپرد کردیاگیا اور حافظ عزیز الرحمن ناظم جماعت کو شہداء کی تکفین و تدفین، ہندوؤں کے محلوں میں پھنسے ہوئے بچے کھچے مسلمانوں کو نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچانے، نیز تمام مسلمانوں کے لیے اشیاء خورونوش اور دیگر ضرور یات زندگی جمع کرکے محلہ میں منتظر و ضرور ت مندمسلمانو ں تک مہیا کرنے کااہم ترین فریضہ سونپا گیا اور بحمداﷲ مُصیبت کے وقت سکھر کی جماعت کے رو ح رواں مذکورا لصدردونوں اصحاب نے پورے خلوص و درد مندی، نظم وضبط، محنت ویکسوئی سے خطرات کا مجاہدانہ مقابلہ کرتے ہوئے پورے جذبۂ ﷲیت کے ساتھ ا ن اہم ترین انسانی، اخلاقی اوراسلامی فرائض کوکما حقہ اداکرکے ہزاروں مظلومین کی دعائیں لیں اور اﷲ تعالیٰ کی رضاوعنایات کے مستحق بنے۔ کرفیو کی سخت ترین پابندیوں اور ہندوؤں کے مخدوش محلوں میں قاتلانہ حملوں کے خطرہ کے باوجود پورے دھڑلے سے حافظ صاحب موصوف نے ریلیف کی یہ مہم جاری رکھی۔ اس سلسلہ میں مسلمانانِ شہرنے بھی ان کے ساتھ پورا تعاون کیا۔
۱۲۔ لیگی لیڈروں کاایک گروہ تحریک کا بانی مبانی ہونے کی وجہ سے فسادات کے بعد گرفتار ہو چکا تھا۔ جس میں قاضی فضل اﷲ، جی ایم سید، خان بہادر محمد ایوب کھوڑو، محمد ہاشم گزدر، شیخ واجد علی ایڈوکیٹ شکارپوری اور پیرغلام مجدد سرہندی شکارپوری وغیرہ شامل تھے۔ اور دوسرے گروہ کے آدمی تحریک کارخ بدلتے اورمعاملہ بے قابو ہوتے دیکھ کر ڈر کے مارے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔ اس میں سر عبد اﷲ ہارون مرحوم اور دوسرے چند افراد شامل تھے۔ سر موصوف نے شروع ہی سے تحریک کے اس انداز کو پسند نہیں کیا اور کہتے رہے کہ’’ تحریک نہیں چلانی چاہیے، اس میں مسلمانوں کو نقصان ہوگا‘‘۔ چنانچہ انتہا پسند لیگیوں کا بڑا طبقہ ان پر اسی مصلحت اندیشی اورصلح جویانہ انداز ختیار کرنے کی وجہ سے ناراض ہوگیا۔ ان پر لعن و طعن بھی کیا گیا۔ چونکہ ان کی گرفتاری کی افواہ مشہور تھی، انھوں نے سکھر سے کراچی پہنچ کر ایک بیان بھی دیا تھا کہ ’’میں حکومت اور مسلم لیگ کے درمیان مصالحت کنندہ کا کردار ادا کر رہا ہوں تحریک سے براہ راست میراکوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔
لیکن مسلم لیگ کی رجعت پسندانہ پالیسی، موقع پرستانہ سیاست اورغلط تحریکی انداز کے باوجود چونکہ اس تمام عرصۂ فسادوخوں ریزی میں خان بہادر اﷲ بخش مرحوم کی انڈی پنڈنٹ نیشنلسٹ وزارت اورحکومت ہی برقرار تھی اس لیے تمام نیک و بد کی ذمہ داری مرحوم کے سر پر ہی ڈالی گئی۔ مسلم لیگ نے حسب عادت و دستور عام مسلمانوں میں اُن کے خلاف جونفرت کی مہم چلائی تھی اس کے شدیداثرات اکثر و بیشترموجودتھے۔ اورخودلیگ کی بدولت اتنا نقصان اٹھانے کے باوجود بھی مسلمان حکومت سے نالاں تھے۔
ادھر خان بہادر مرحوم ایک مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کی اہم اور مشتر کہ حیثیت کی وجہ سے بڑی ذمہ داریوں میں گھرے ہوئے تھے کہ اگر بلا تفریقِ قوم ومذہب ملکی نقطہ نظرسے ہندو مسلمانوں کے مشترکہ حقوق میں معتدل رویہ کے ساتھ مقدمہ کی پوری قانونی تحقیق اور تنقیح کیے بغیر محض جذباتی ہو کر مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دے دیں توہندوانھیں جانب دار اور متعصب ہونے کاالزام د ے دیتے۔ اوراگروہ محض وقتی طورپر شروفساد کے سدِّ باب اور ملکی قانون کے مطابق تحفّظِ امنِ عامہ کے لیے مسلمانوں کا مطالبہ مؤخر کریں اور بعض شرائط کے ساتھ مصالحانہ گفتگو اور واگزاری وحصول مسجدکے لیے مناسب قانونی تجاویز کے ذریعہ تحریک کوروک لگائیں…… جیسا کہ اتفاقاً ہوا بھی…… تو لیگ کے خوفناک رجعتی پروپیگنڈے، جذبۂ ہندو دشمنی کے جار حانہ اظہار اوراس سلسلہ میں انگریز کی مکمل خفیہ پشت پناہی او ر ظاہری تائید کے سبب سے پیداشدہ مسموم فضا کے باعث خوداُن کے ہم قوم مسلمان بھائی ان کو نیشنلسٹ، کانگرس کا ہمنوا اور نہ جانے کون کون سے طعن توڑ کر اُنہیں دشمنِ قوم قرار دیتے۔ وہ بڑی مشکل پوزیشن میں اور سخت ضغطہ کے عالم میں تھے۔ حالانکہ وہ مخلص تھے اور چاہتے تھے کہ مناسب غور و خوض، مصالحانہ گفتگو اور جائز قانونی ذرائع سے مسجد مسلمانوں کو مل جائے۔ کیو ں کہ عوام کے صحیح مطالبات کے باوجود کوئی بھی حکومت قانون شکنی اور اپنے وقار کی شکست برداشت نہیں کرتی، چنانچہ موصوف کوبھی اس تحریک میں ایسے ہی حالات سے دوچار ہونا پڑا اور وہ با دلِ نخواستہ قانونی پابندیاں لگا کر مناسب سدِّ باب پر مجبو ر ہوئے۔
لیکن لیگی محرکین کی ملک گیر پالیسی اور واحد نمائندگی کے غلط مظاہرہ کے لیے ہرجائز وناجائز جتن کر کے مسلمانوں کو اُلجھانے کے سبب سے تحریک جلد ہی اپنے اصل محور سے ہٹ گئی اور ہندو مسلم تصادم نے فریقین میں معاشرتی اقتصادی اور سیاسی خلیج کو اور بھی وسیع کردیا اور مذہبی نفرت و حقارت کا جذبہ مزید مشتعل ہوگیا۔ اس تمام یلغار کا اصلی نشانہ صرف خان بہادر کی ذات اورسیاسی شخصیت تھی۔ اور ظاہر ہے کہ جب کسی بھی شخص کو معتوب و مغلوب کرنے کی سعی کی جائے گی تو وہ لازماً تحفّظِ ذات کیلئے ہرممکن تدبیر وحیلہ اختیار کرنے پر مجبورہوگا۔ جائز تو ہرحال میں اور انسان کی فطری کمزوریو ں کے تحت گاہے ناجائز بھی…… بس یہی کیفیت مرحوم خان بہادر کی تھی۔ ورنہ اُن پر یہ الزام ہرگز درست نہیں کہ وہ خدا نخواستہ غیروں سے مل گئے تھے اور ان کی بدولت مسلمانوں کے جان و مال کا نقصان ہوا۔ کیو نکہ اول تو نقصان ہند و مسلم دونوں کا ہوا پھر ہندوؤں کا مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ہوا۔
کیوں کہ اصل محرکین کا بنیادی مقصد محض حصول اقتدار اور مرحوم خان بہادر کا تختہ اُلٹنا تھا اس لیے انھوں نے تحریک میں اپنوں کا نقصان تو برداشت کرنا ہی تھا غیروں کے جان و مال کی بے دریغ تباہی بھی اُنھوں نے بڑی عیارانہ متانت اور فرضی فاتحانہ یلغار، دلوں میں مخفی عزائم اور اعمال میں مچلتی ہوئی کھوٹی نیتوں کے ساتھ کھلے دل سے قبول کی۔ حالانکہ کسی فردیا گروہ کادوقومی تصادم میں دانستہ ایک دوسرے کوجانی ومالی نقصانات میں مبتلا کرنا اوران کی لاشو ں پراپنا قصرِ اقتدار تعمیر کرنا اُس کے منافق، خودغرض، سازشی اور غیروں کے آلہ کار ہونے کی تو دلیل ہوسکتا ہے۔ اس کے اخلاص و ایثار، آزادی وجمہوریت پسندی، حبِّ قوم و وطن کی علامت ہر گز ہرگز نہیں قرارپاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس گروہ کے اکثر و بیشتر افراد کا مسلمانوں کی کسی حقیقی خیر خواہ، انگریز دشمن، آزادی پسند، مجاہدانہ کردار کی حامل جماعت کے ساتھ شروع سے لے کرآخرتک کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ بلکہ مختلف اوقات میں یہی لوگ خود بھی رؤ سااور جاگیردار رہے اورسرمایہ داروں کے ایجنٹ بھی۔ حتیٰ کہ یونینسٹ پارٹی جیسی رجعت پسند انگریز پرست اور غدار تنظیمات کے رو ح ورواں بھی یہی لوگ تھے۔ جس پر ان کی تیس تیس چالیس چالیس سال قبل کی قومی اور سیاسی زندگی گواہ ہے۔
۱۳۔ بہرکیف اس تحریک فساداورقتل وغارت گری کا طبعی اور منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ چونکہ مسجد کا عنوان محض ایک سیاسی سٹنٹ تھا اور حقیقی غرض حصول اقتدار تھی اس لیے جب فیصلہ کاوقت قریب آیا تویہی لوگ جو اقتدار میں خان بہادر مرحوم کی دو تجاویز سننا تک برداشت نہ کرسکے اورایک…… گنہگارہی سہی مگر…… مسلمان وزیر اعظم سے صلح کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ اس کو راستے سے ہٹانے کے لیے انھوں نے انتہائی دینی بے حسی، اخلاقی پستی اورقومی وسیاسی ذلت کایہ ثبوت دیا کہ بدنام زمانہ مسلم دشمن کٹر متعصب ہندو تنظیم ہندو مہا سبھا کے ساتھ ساز باز شروع کی جس پر ہندوؤں کایہ گروہ بخوشی آمادہ ہوگیا۔ کیونکہ تحریک اور اس کے نتائج کا ہندوؤں کے اس گروہ پر یہ اثر تھا کہ سیاست کے یہی لیل ونہار رہے تو مسلم لیگ کا یہ عنصر حصول اقتدار کی کشمکش کے سلسلہ میں ہمیشہ کے لیے اسی قسم کے ہنگامے برپا کرا کے ہندو مسلمانوں کو اپنی اغراض کی بھینٹ چڑھا کر اُن کے خون تک سے ہولی کھیلتا رہے گا جس کالازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ آئندہ ہندوؤں کے جان ومال کی حفاظت ناممکن ہوکر رہ جائے گی۔ اوراگر خان بہادر موصوف وزیررہتے ہوئے ہمارے تحفظ کے لیے پوری قانونی قوت استعمال بھی کریں گے تو ہم کبھی محفوظ نہ ہو سکیں گے۔ اس لیے انھوں نے مسلم لیگ کے اس گروہ سے مفاہمت اور گٹھ جوڑ میں ہی عافیت سمجھی۔ چنانچہ اسمبلی میں ان دونوں عناصر کے اتحاد کی بدولت بے گناہوں کی تباہی اورقتل و غارت گری کاڈرا مہ کھیلنے کے بعد مخالفین کا اصل منصوبہ بالآخر کامیاب ہوا۔ یعنی خان بہادر موصوف کی وزارت ٹوٹ گئی، اقتدار مسلم لیگ کی طرف منتقل ہو گیا اور دونوں طرف کے خود غرض لوگوں نے اپنے ہم مذہب ہندومسلم بھائیوں کے خونِ نا حق کا سودا کر کے اپنے مجرم ضمیر کی تسکین کا سامان بہم پہنچا لیا ۔ قومے فرو ختند وچہ ارزاں فروختند
۱۴۔ چنانچہ لیگی وزار ت کے قیام کے فوراً بعد لیگی منسٹر شیخ عبد المجید سندھی وزیر مالیات نے اسمبلی میں ان اکیس شرائط کا اعلان کیا جو فریقین کے درمیان طے پائی تھیں۔ جس میں سے مسجد اور مسلمانوں پر دائر کردہ فرضی مقدمات کے سلسلہ میں خصوصی دفعات حسب ذیل ہیں:
(۱) ’’مسجد منزل گاہ کا فیصلہ عدالت سے حاصل کیا جائے‘‘۔
( ۲) ’’مسلمانوں پر جومقدمات زیرسماعت ہیں وہ اگر رائج الوقت قانون کی گرفت میں نہ آ سکیں تو پھر بھی ماخوذین (گر فتار شدگان) کو رہانہ کیا جائے۔ بلکہ اس کے لیے ایسا انتظام کیا جائے کہ ضلع سکھر میں فرنٹیئرکرائمز ریگو لیشن ایکٹ نافذ کر کے جرگوں کے ذریعہ اُن کافیصلہ کرایا جائے‘‘۔
یہ معاہدہ اور شرائط نامہ اس تحریک اور اس کے بانیوں کے کردار کے لیے ایک روشن آئینہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے عیاں ہوتاہے کہ مسلم لیگ کے یہ کرتا دھرتا اور واحد نمائندگی کے دعوے دار اپنی قوم اور اس کی مطلوبہ عبادت گاہ مسجد منزل گاہ کے سلسلہ میں کتنے مخلص اور دیا نت دار تھے؟ ان کے دعاوی اور عزائم و اعمال کا کھلا تضاد ہی ان کی مفروضہ قوم پرستی کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے کافی وافی ثابت ہوا۔ کہ مسلمان قتل و غارت گری کی دل گداز منزل سے گزرنے کے بعد تحریک کے نتیجے میں عرصہ دراز تک فرضی مقدمات کی چکی میں بری طرح پستے رہے، مسجد منزل گاہ جوں کی توں بند رہی اور اقتدار کے بھوکے لیگی لیڈر لیلائے وزارت کی آغوش میں دادِ عیش دیتے رہے۔
۱۵۔ اس سلسلہ میں یہ واقعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ فسادات کے بعد متصلاً جب خان بہادر اﷲ بخش مرحوم بہ طوروزیر اعظم فساد زدہ مقامات کامعاینہ ومشاہدہ کرنے اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے تشریف لائے اور شہر کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تو اس دوران میں سکھر میں مقیم امرتسر (مشرقی پنجاب) کے ایک سیاسی کارکن سید محبوب علی شاہ نے موصوف کو سرِ بازار برا بھلا کہنا شروع کیا کہ ’’ایک مسلمان وزیر نے اپنے اقتدار میں اپنی ہی قوم کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور اسے غیروں سے مروا ڈالا‘‘ ۔ وغیرہ وغیرہ
حالانکہ یہ بات تاریخ کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان تمام افسوس ناک واقعات کے باوجود وزیراعظم مرحوم نے آخردم تک حوصلہ مندی کا ثبوت دیا اور غیرمخلص ہنگامہ بازوں کے ہاتھوں ہندو مسلمانوں کے باہمی خون خرابہ ہو جانے کے باوجود کسی بھی فریق پر کسی قسم کے تشدد خصوصاً گولی چلانے کا حکم صادر نہیں کیا۔ چنانچہ فسادات کی تحقیقات کے وقت کورٹ میں ڈی سی سکھر نے بالوضاحت یہ اقرار کیاتھا کہ ’’مجھے امن وامان برقرار رکھنے کے لیے وزیر اعظم نے گولی چلانے کی اجازت نہیں دی تھی۔
مزید یہ کہ دوران معاینہ وزیر اعظم مرحوم تمام متعلقہ افسروں سمیت موجود تھے لیکن انہوں نے اس الزام تراشی کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا۔ لیکن معترض موصوف کی اخلاقی جرأت کا یہ حال تھا کہ بدگوئی کے بعد قانونی مکافاتِ عمل کے خوف سے سکھر کوخیر باد کہہ کر اُسی شام پنجاب کی طرف کوچ کرگئے۔ جب خان بہادر مرحوم کو محبوب علی شاہ کے اس واقعہ کی اطلاع دی گئی توموصوف نے فراخ دلی و بلند کرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے متعلقہ حکام سے یہ کہاکہ ’’میری طرف سے انہیں یقین دلا دو کہ میرے دل میں ان کے لیے کوئی رنجش نہیں اور وہ بے خوف و خطر سکھر واپس آ جائیں۔ اس سلسلہ میں ان کے خلاف کوئی کاررروائی نہیں کی جائے گی۔
۱۶۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس تمام ہنگامہ خیزی کے بعد جب مجلس احرار اسلام کے مذکورہ نمائندہ اصحاب نے ریلیف کی باقاعدہ مہم شروع کی اور نہایت ہی حوصلہ و استقامت کے ساتھ ہندو علاقوں میں اپنے مظلوم بھائیوں تک اشیاء ضرورت فراہم کیں تو ہندو فسادیوں نے اس مہم کو برداشت نہ کیا۔ اور مسلمانو ں کو اجتماعی نقصان پہنچانے کے منصوبہ کی تکمیل کے لیے احرار جیسی انگریز دشمن، آزادی و جمہورپسند قومی اور دینی جماعت کے ان مخلص اور بے لوث کارکنوں کو بھی مجرموں کی صف میں گھسیٹنے کی نا پاک کوشش کی اور جماعت کے ناظم اعلیٰ جناب حافظ عزیز الرحمن صاحب پر پانچ ہندوؤں کے قتل اور دو کو ارادۂ قتل سے زخمی کرنے کے جھوٹے الزامات لگاکر دفعہ ۳۰۲ و۳۰۷ کے تحت گرفتار کرادیا۔ یہ کارروائی یوم فساد سے آٹھویں دن بعد عمل میں لائی گئی۔ قریبا دو ماہ بعد سیشن کورٹ نے درخواست ضمانت منظور کرلی۔ لیکن دس پندرہ د ن کے اندر اندرہی ہندوؤں نے دوبارہ ضمانت منسوخ کراکے موصوف کوپھر جیل بھجوادیا۔ دلیل یہ تھی کہ ان کے باہر آنے سے مقدمہ کے گواہوں کے منحرف ہونے اور مقدمہ ختم ہونے کاخطرہ ہے حالانکہ اس مقدمہ میں تمام گواہ اونچے درجہ کے کٹر فرقہ پرست ہندو اور سکھر پولیس کے افسر شامل تھے۔
واضح رہے کہ حافظ صاحب موصوف کے مقدمہ کی سماعت کے وقت پیرزادہ عبدالستار صاحب بار ایٹ لا، جو خان بہادر اﷲ بخش مرحوم کی وزار ت میں چیف پارلیمنٹری سیکرٹری تھے انھوں نے بلا معاوضہ وکالت کی خدمات انجام دیں۔ صورت یہ تھی کہ سیشن کورٹ تک کی سماعت میں وہ بذاتِ خود ہر پیشی پر حاضر ہوتے رہے۔ ابھی مقدمہ چل رہا تھا کہ اس اثناء میں وہ سیکرٹری سے وزارت کے عہدہ پر پہنچ گئے جس کی وجہ سے وہ قانوناً اب کسی مقدمہ کی پیروی نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ موصوف نے اپنی طرف سے ایک متبادل وکیل کاانتظام کردیا۔
ادھر حافظ صاحب کوسیشن کورٹ سے عمر قید کی سزا سنا دی گئی تو جواباً سندھ چیف کورٹ کراچی میں اپیل دائر کی گئی۔ اس عرصہ میں حافظ صاحب نومبر ۱۹۳۹ء سے اکتوبر ۱۹۴۱ء تک، قریبا دوسال تک جیل میں رہے۔ بالآخر اپیل منظور ہو گئی اور آپ کو تمام الزامات سے بے گناہ ثابت کرکے با عزت رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد جیل کے دروازہ پر جمع شدہ مسلمانوں کی طرف سے ایک عظیم الشان جلوس نکالا گیا۔ جس نے مختلف راستوں سے گشت کرتے ہوئے حافظ صاحب کو نہایت تزک واحتشام کے ساتھ ا ن کی قیام گاہ پرپہنچا دیا۔
واضح رہے کہ جماعت کے اخلاقی تعاون اور حافظ صاحب موصوف کی بہترین قومی خدمات اور امدادی کارروائیوں سے متاثر ہو کر شہر کے تمام مسلمان باشندوں نے ……بلا تفریق نظریہ وجماعت…… دوران مقدمہ میں ان کی
ہر ممکن اعانت کی اور تمام سہولیات بہم پہنچا ئیں۔ مزید یہ کہ مرکزی رہنما اور مفکر احرار جناب چودھری افضل حق صاحب رحمتہ اﷲ علیہ جب خرابی صحت کی بناپر ۱۹۴۱ء کے آغاز میں راولپنڈی جیل سے رہا ہوئے تواپنے نوجوان رفیق اور رضاکار کی ہمت افزائی اور دلجوئی کیلئے سکھر تشریف لائے اور جیل میں حافظ صاحب سے ملاقات کی۔ اور جب حافظ صاحب رہا ہوئے تو اپنے آبائی وطن ضلع کیمبل پور میں جا کر رمضان گزارنے کے لیے سفر کیا تو لاہور اُتر کر مرکزی دفتر مجلس احرار اسلام میں مرحوم بزرگ کی زیارت کی اور پھر وطن روانہ ہو گئے۔ چودھری صاحب مرحوم کی آخری عمر تھی اورمرض الوفات شروع تھا۔ چنانچہ چندروز بعد جنوری ۱۹۴۲ ء میں آپ کی وفات حسرت آیات کاحاد ثہ پیش آگیا۔ انا ﷲ وانالیہ راجعون ۔
۱۷۔ بہر کیف اﷲ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ایک صحیح کام کے لیے غلط اقدامات کے افسوس ناک اثرات و نتائج کے با وجود مسلمانوں کو بڑے مصائب اور دکھوں کے بعد یہ مژدہ سننا نصیب ہوا کہ مسجدکی واگزاری کا مقدمہ سماعت کرنے کے لیے مقررہ سپیشل کورٹ میں کافی عرصہ تک تحقیق و تفتیش کے بعد بالآخر ا ن کے حق میں فیصلہ ہوا ۔مخلصین کی دعائیں، کوششیں اورمظلومین کے خون ناحق رنگ لائے اور مسجدمنزل گاہ کی تالا بندی ختم ہوئی۔ ہندوؤں کا دعویٰ کالعدم قرار پایا اور مسجدحسب سابق واگزار ہوکر مسلمانانِ سکھر کی تحویل میں دے دی گئی۔ اس سلسلہ میں بحمداﷲ جماعت کاکردار نہایت اعلیٰ، با مقصد، مخلصانہ، سیاسی اغراض سے پاک وبلند اور دینی وملی تقاضوں کے عین مطابق تھا۔
تاریخ آزادی میں انگریز دوستی اور تحریک استخلاصِ وطن کی دشمنی کے مرتکب آج چاہے کتنے بھی ناپاک داؤ کھیل کر قومی و ملکی تاریخ کو مسخ، نئی نسل کو کتنا بھی گمراہ، دینی اکابر اور ایثار پیشہ قومی تحریکات سے کتنا بدظن کرنے کی سعی کیوں نہ کریں لیکن ان شاء اﷲ ان سیاسی دسیسہ کاریوں اورقومی خیانتوں کاپردہ ایک نہ ایک دن چاک ہوکررہے گا۔ اورملک وملت کے حقیقی خیر خواہ اور مخلص افراد و تحریکات کی روحانی تاثیر ضرور رنگ لا کررہے گی اوردیانت دار مؤرخ ان اٹل حقائق کا کھلم کھلا اعتراف و اقرار کرنے پر مجبور ہوگا کہ مجلس احرار اسلام جیسی مجاہد و سر فروش جماعت کا منشور و مقصد اور کردار و موقف ہر دور اور ہر حال میں اُصول اور دیانت دارانہ رہا ہے اور اختلاف کی گنجائش کے باوجود اس پر قومی مقاصد سے انحراف کے انگریز اوراس کے پٹھوؤں کے اختراع کردہ ناپاک الزام کے علی الرغم قوم کے اجتماعی شعور اور دین وسیاست کے تجزیہ کی تاریخی عدالت میں ہمیشہ مبنی بر حق و انصاف قرار پائے گا۔
۱۸۔ الحمد ﷲ کہ جیسے سکھر اور سندھ کے علاوہ ملک بھر کے مخلص مسلمانوں کی اکثریت نے جب اُس قیامت کے دنوں میں زعماء احرار کو مخلص و خیر خواہ، مدبر و فریس اور صحیح اُصول وموقف کاعلم بردار پایاتھا، آج بھی جب کہ تحریک آزادیٔ وطن کے حالات دانستہ مسخ وفراموش کیے جا رہے ہیں۔ جواباً اس کے روشن و لافانی ابواب کی حقیقی چہرہ نمائی کے لیے جماعتی تاریخ کا مستند خلاصہ سپرد قلم کیے جانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ وہ واقعات کی ترتیب اور تحریک کے آغاز و انجام کا حال پڑھ کر ان شاء اﷲ تعالیٰ اس غریب و غیور اور مخلص دینی و قومی جماعت ہی کو اصولاً حق بجانب سمجھیں گے۔ مگر ساتھ ساتھ چالاک رجعت پسندوں، نیز موقع پرست قوم فروشوں کی دھاندلیوں اور انگریز کے ساتھ مل کر ان کی گہری سازشو ں کاشکار ہوتے بھی محسوس کریں گے۔ اور بالآخر ان کی حقانیت کے احساس و اعتراف اور کھلی مظلومیت کااقرار و اعلان کیے بغیر چارہ نہ رہے گا اور وہ معترف ہو ں گے کہ مسجد منزل گاہ کے سلسلہ میں لیگیوں، ٹوڈیو ں اور رجعت پسندوں کی طرف سے وہی گھناؤنا کردار ادا کرکے غلط تحریک بازی و فساد انگیزی اور قوم کشی کاوہی خونی ڈرامہ کھیلا گیا ہے جو مسجد شہید گنج کی واگزاری کے نام پرلاہور میں کھیلاگیاتھا۔
لیکن جیسے اس وقت احرار کا موقف انجامِ کار صحیح ثابت ہوا کہ اگر تشدد کے بل بوتے پر ہندوؤں اور سکھوں سے کوئی مسجد لینے کی سعی کی گئی تو پھر تاریخی انکشافات اورقانونی ردعمل کے طورپر اس کے بدلہ میں مسلم عہدِ اقتدار میں غیروں سے چھینی ہوئی کئی عبادت گاہیں اُلٹا ہمیں ہندوؤں اور سکھوں کے حوالہ کرنی پڑ جائیں گی اور یہ سودا سراسر خسارہ کا ہو گا۔ اس لیے معتدل و مناسب نظریہ یہی ہے کہ ایسی ہر منصوبہ و مطلوبہ مسجد ہمسایہ غیر مسلم اقوام سے اخلاقی و معاشرتی ضوابط کی بنیاد پرمفاہمت ومصالحت کے ذریعہ ہی بآسانی حاصل کی جاسکنے کی نسبتاً بے ضرر تجویز پر عمل درآمد کیا جاتا رہے۔ محض ہنگامہ آرائی سول نافرمانی قانون شکنی فساد و غارت گری اور خوں ریزی سے ہر ایسی تحریک بذاتہٖ تباہ و برباد ہو جائے گی۔ خود ملکی و قومی تحریکات کو سخت نقصان پہنچے گا اور آئندہ کے لیے ہندوؤں اور سکھوں سے کسی مطالبہ کی تکمیل کیلئے نفس گفتگو تک کا دروازہ بھی بندہوجائے گا۔ چنانچہ پہلے یہی کچھ ہو کر رہا کہ تحریک شہید گنج میں اس غریب جماعت کی ایک نہ سنی گئی بلکہ سنہ چھتیس/سینتیس کے انتخابات میں اس کی بے پناہ مقبولیت و کامیابی کے حسد میں سازش کر کے سر فضل حسین اور دوسرے انگریزی گماشتو ں کی طرف سے احرار پر تہمت وبہتان اور افترا کی یلغار کی گئی۔ اس کے خلاف ہنگامے برپاکئے گئے، اس کے اکابر کو دھمکیاں دی گئیں، سندھ سے بنگال تک بہت سی جگہ اس کے کارکنوں اور رضاکاروں سے زبردستی اُلجھاؤ اور تصادم کیا گیا، قاتلانہ حملے کیے گئے، کئی بے گناہ احرار شہید و مجروح ہوئے اور اس کے سیاسی وقار کو سخت نقصان پہنچا کر ایک قابلِ قدر فعال و مجاہد گروہ کی خدمات اور آزاد حکومت میں اس کی شرکت کے ذریعہ تعمیرِ ملک و ملت کی جدوجہد سے قوم کو محروم کیا گیا۔ لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات وہی نکلا جو احرار نے روز اول سے بتا دیا تھا۔ چنانچہ سکھ اڑگئے وقتی قانون بھی ان کے حق میں ہو گیا۔ سیکڑوں بے گناہ مسلمان شہید ہوگئے لیکن مسجدشہید گنج نہ واگزارہوئی نہ مسلمان اس میں عبادت کرسکے۔ بلکہ تقسیم سے پہلے بھی وہ سکھوں کے دعوی کے مطابق گوردوارہ سمجھی گئی اور حد یہ ہے کہ تقسیم کے بعد سیاسی فاتح جماعت مسلم لیگ کی بلا شرکتِ غیرے حکومت قائم ہونے کے باوجود بھی کعبہ کی بیٹی فرزندانِ توحید کی تحویل میں نہ آسکی۔ بلکہ بدستور غاصب وظالم سکھ قابضوں کی مملو کہ ہی شمار ہوئی۔
سینتیس برس بعد آج شہید گنج پر پولیس کاپہرا جوں کا توں قائم ہے اور مسلمان اس کے پاس سے حسرت و یاس اور ناکامی کا غم لیے اجنبیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ لیکن انھیں اسے مسجد ہی نہ سہی مطلق ایک عبادت گاہ سمجھ کر اس میں نماز ادا کرنا تو کجا اسے چھونے اور دیکھنے کی بھی اجازت نہیں۔ کعبہ کی بیٹی آج بھی فریاد کناں ہے کہ جنھوں نے برسوں پہلے اس کی عزت و ناموس کاسوداکرکے اس کے اصل خیرخواہ خادموں کو جماعتی حسد اور سیاسی انتقام کی سولی پر ٹانکنے کا نا قابل معافی جرم کیا تھا وہ آج اپنے مفروضہ دعادی اور سیاسی سٹنٹ ہی کی تکمیل کرتے ہوئے اس کی واگزاری کے لیے اپنے اختیار اور قانون کواستعمال کیو ں نہیں کرتے۔ اُس وقت تو انگریزی راج اور ہندوؤں سکھوں کے غاصبانہ تسلط کا گلہ اور عذر ہوسکتا تھا، لیکن وہ خود حاکم ہو کر کیو ں غیرت کو غرق کر بیٹھے ہیں ؟ اور مسجد کو گوردوارے کی حیثیت سے نکال کر مسلمانوں کی عبادت گاہ بنانے اور ان کے قبضہ و استعمال کے جائز ہونے کااعلان کیوں نہیں کرتے؟ اور احرار کے نظریہ و موقف کی مثبت عملی تائید کرتے ہوئے انھیں ہول کیوں اٹھنے لگتا ہے؟
ایسی ہی ایک مسجد منزل گاہ سکھر میں ایک روشن حقیقت بن کر سامنے آئی کہ یہاں بھی ابتدائی مفاہمت و مصالحت کی تجویز ٹھکرانے سے کام بگڑا۔ دونوں اقوام ہرقسم کے نقصان سے مجروح ہوئیں اور جب انجام کی خرابی نظر آئی اور لیگی وزارت کو اپنے وقتی اقتدار کے تحفظ کی فکر ہوئی تواحرار کی اسی مسترد کردہ تجویز کو بہ صدذلت وخواری قبول کرنے، اسے عمل میں لانے اوردائر ۂ قانون کے اندر غیر مسلموں کے ساتھ مفاہمت ومصالحت کے فارمولے کو ہی کسی درجہ میں اپنانے سے مسجد واگزار ہو کر مسلمانوں کو ملی اور بحمد اﷲ آج تک انھی کے پاس ہے۔
باقی شہید گنج اور مسجد منزل گاہ سکھر کے تاریخی پس منظر اور اس کی تعمیری داستان میں ایک بنیادی فرق البتہ موجودہے کہ شہید گنج تو مشکوک عبادت گاہ ثابت کی گئی تھی اور مسجد منزل گاہ فی الحقیقت آغاز ہی سے مسجد تھی جسے حیلہ بازی سے معطل و بے آباد بنانے کا مکروہ منصوبہ بروئے کار لایا گیا تھا ۔مگر…… سنگ آمدوسخت آمد۔ ولے بخیر گذشت ۔