رانا گل ناصر ندیم
فانی دنیا کی اداٸیں آپ کو زیادہ لبھا نہ سکیں ۔آپ ابدی مسکن کی طرف روانہ ہو گٸے۔۔۔ آپ دل کے ہاتھوں مجبور تھے۔جو ہمیشہ قُربِ خداوندی کے لٸے بے چین رہتا تھا ۔۔آپ نے اپنے دل کی مان لی۔ہنسی خوشی عازمِ سفر ہوٸے ۔۔۔مگر وہ دل اب کیا کریں جو ڈھرکتے آپ کے ساتھ تھے ۔ جیتے آپ کے ساتھ تھے۔کہیں اس کٹھور جداٸی کے ہاتھوں وہ دھڑکنا نہ بھول جاٸیں ۔۔۔اب شاٸد جینا اتنا آسان نہ رہے۔۔ آپ کے قرب وصل کی یادوں کے انبار ہیں لگتا ہے کہ وہ اب جان لے کر جان چھوڑیں گی ۔۔۔
آہ پیر جیؒ۔۔۔۔آپ کیا تھے ۔۔ہم پوری طرح آپکو جان ہی نہ پاٸے ۔۔۔جتنا آپ کسی کی سمجھ میں آٸے اس نے أسے ہی مکمل جانا۔۔۔ مگر آپ ماورا تھے عقل کی اڑان سے ۔۔۔
آہ پیر جیؒ۔۔۔۔۔آپ سے میری رفاقت کا سفر اس زمانے میں ہوا جب آپ کی مسیں بھیگ رہی تھیں ۔۔۔۔جوانی کی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں ۔۔۔۔بے چینی و بے قراری آپ کے انگ انگ میں عیاں تھی ۔۔۔اور جلالی آنکھیں ادِھر ادُھر نہ جانے کیاتلاش کرتی رہتی تھیں ۔۔۔اور تلاش بھی وہ جو سدھ بدھ بھلا دے ۔۔۔۔ اس عالم میں بھی آپ مجھے کبھی اِس عالم سے نہیں لگے۔
آہ پیر جیؒ۔۔۔۔۔آپ تھے کیا ؟ دل کہتا تھا آپ درویش ہیں مگر عقل کہتی تھی اسلوب تو درویشی ہیں مگر مدہوشی شاٸبہ تک نہیں ۔۔۔کبھی دنیا دار لگتے تھے مگر جب دنیا آپ کی ٹھوکروں میں نظر آتی تھی تو پھر تلاش کا نیا سفر شروع ہو جاتا۔۔۔ کبھی آپ جلالیت کی ایسی کیفیت میں ہیں۔۔چہرہ دہک رہا ہے ۔آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے ہیں ۔آواز کی گھن گرج کے خوف سے پسینے نکل رہے ہیں۔۔جان ہے کہ نکلی جارہی ہے محسوس ہوتا تھا ۔اب کہ تب کشتٕہ بخاری بنے کہ بنے ۔نظر اٹھا کر دیکھا تو مطلع صاف اور آپ مسکرا رہے۔۔ پتہ نہیں ایسی کیفیات کہاں سے وارد ہوتیں تھیں۔۔دلاٸل کا انبار ہے لہجے کی اثر پزیری۔گفتگو کا سحر ۔لفظوں میں جان۔۔یہ احساس ہونے لگتا تھا کہ امام ابنِ تیمیہ کے دور میں بیٹھے ۔پھر وہی دلیل و برہان منصور بن حلاج کے روبرو لا کھڑا کرتے ۔۔پیر جی یاد ہے ان بدلتی کیفیات میں آپکو اکثر میں کہا کرتا تھا ۔۔۔” پیر جی“ کنڑول کوٸی ” نواں رولا نہ پا دینا “ آپ مسکراکر کہتے تھے فکر نہ کر رانا ” میں مجھاں اگے بین نہی بجاندا“
شروع میں ذکر کیا ہے کہ آپ کی نظریں متلاشی رہتی تھیں ۔دھرتی پر بھی خلاوٕں میں بھی ۔۔ ہم اکثر سوال کرتے تھے۔پیر جی یہ بےقراری کیوں ؟ تو فرماتے اندر سے خالی برتن کی طرع ہو جس کا کوٸی مصرف نہیں ۔مجھے یاد ہے چیچاوطنی کی وہ راتیں جب محترم خالد لطیف چیمہ ۔تسلیم صدیقی۔رضوان اور راقم ساری ساری رات پیر جی کے خالی برتن کو بھرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ہمارے ہر استدلال پر فرماتے ” بس کرو دانشمندو تہاڈے وس دی گل نہی“واقعی پیر جی۔۔۔ہم تو اس دنیا سے اشنا ہی نہ تھے جس دنیا کے آپ باسی تھے ۔۔۔۔
تشنگی بڑھتی رہی ۔طلب جوبن پر ۔لاحاصل زندگی کا سفر حاصل کی طرف شروع ہوا ۔۔۔ایک دن پتہ چلا کہ ” پیرجی مدینہ منورہ تشریف لے گٸے ۔۔اس وقت ان کی تشنگی کچھ کچھ سمجھ میں آٸی ۔۔۔۔ماہ و سال گزرنے لگے ۔خبریں ملتی رہیں۔کہ سفر جاری ہے ۔۔۔درِ محبوب پر جاروب کشی اور دیارِ مصطفے کی طرف آنے والے جوتوں کی حفاظت مقصدِ زندگی بن گیا۔۔لاہوت کے مسافروں کو ایسی کٸی منزلوں سے گذرنا پڑتا جس کے راز بھلے شاہ زمانے پر اشکار کرتے ہوٸے پکار اٹھا ” کنجری بنیا میری شان نہ گھٹ دی، مینوں نچ کے یار مناون دے ۔۔۔زمانہ بیت گیا پیر جی گم ہو گٸے ۔نہ خط نہ خریطہ۔۔۔
ایک دن اچانک خبر ملی کہ پیر جی آ گٸے۔۔۔بھاگم بھاگ کوٹلہ تغلق خان ملتان پہنچے ۔۔ملاقات ہوٸی ۔ قلب و نظر بدلے بدلے گفتارمیں ہمواری بار بار ہاتھ دل پر ۔پر اطمینان و پر سکون انکھوں بے قراریاں طوفان بعد سمنرر کی طرح پرسکون ۔ہم بے چین تھے تنہاٸی میں ملاقات ہو ۔سوالات مچل رہے ہیں شاد کام ہو جاٸیں ۔۔یہ موقع پھر چیچاوطنی میں ہی میسر آیا ۔۔۔ ویسی ہی رات اور پیر جی کی رفاقت ۔۔۔۔اندازِ بیان بلکل ہی بدلا ہوا ۔۔بات کرتے کرتے کبھی کبھی چہرہ سرخی سفیدی کے امتزاج سے منور ہو جاتا اور کبھی انگ انگ میں خوشی کہ ” ہیر سیال بیلے سے سرشار ہو کر نکلی ہو“ لاحاصل زندگی کو جب حاصل ہو جاٸے تو زندگی اپنے مقصد کو پا لیتی ہے ۔۔پیر جی مقصد پا گٸے تھے ۔۔۔۔
پیر جی ۔۔۔۔آپکو پتہ ہے کہ ہمیں آپ سے محبت ہے ۔اُنس ہے تعلق ہے ۔جی تو لیں گے۔جتنا مقسوم ہے ۔مگر آپ کے بغیر زندگی بے رنگ زندگی ۔۔۔۔
پیرجی ۔۔۔۔ایک درخواست ہے کہ جب آپ کو فردوس کی مقدس محفلوں سے فرصت ملے تو ایک دفعہ تشریف ضرور لاٸیں ۔۔رات کی ان ساعتوں میں جو ساعتیں آپکی پسندیدہ تھیں۔۔۔