منصور اصغر راجہ
احرار کارکن سلیم شاہ سے ہماری پہلی ملاقات چند برس قبل مجلس احرار کے مرکزی دفتر لاہور میں ہوئی۔ ہنستا مسکراتا سلیم شاہ جس کی نگاہیں بڑوں کے روبرو جھکی رہتیں۔یوں تو وہ برادرم عبد اللطیف خالد چیمہ کا خادم خاص تھا اور رفیق سفر و حضر بھی۔لیکن ہما شما کی خدمت کے لیے بھی ہر لحظہ تیار رہتا۔دو دن پہلے چیمہ صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا:’’ سلیم شاہ ہمارے پاس قرآن مجید حفظ کرنے آیاتھااورپھر ہمارا ہی ہو کر رہ گیا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ زارو قطار رو رہے تھے کہ سلیم شاہ ان کے لیے بیٹوں جیسا تھا۔
ہماری آخری ملاقات بھائی حبیب اﷲ چیمہ کی وفات پر ہوئی۔ چیچہ وطنی جانے کے لیے ہم گھر سے نکلے تو برادرم سیف اﷲ خالد صاحب نے مشورہ دیا۔سلیم شاہ سے رابطے میں رہنا، وہ آپ کو گائیڈ کرے گا۔ اور رابطہ کرنے پر سلیم شاہ نے اس طرح رہنمائی کی کہ ہم کسی پریشانی کا سامنا کیے بغیر چیمہ صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ ہمارا قیام چیمہ صاحب کے والد مرحوم کے قائم کردہ مدرسہ سراجیہ کے مہمان خانے میں تھا۔ ہم دو دن وہاں رہے۔ اس دوران سلیم شاہ، قاضی ذیشان آفتاب اور مولوی سرفراز ڈوگر صاحبان نے بھی اپنے بستر ہمارے پاس ہی لگا لیے اور مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ برادرم امتیاز تارڑ نے جب ہمیں سلیم شاہ کی ناگہانی موت کی خبر دی تو دیر تک یقین ہی نہ آیا، افسوس موت کتنی ارزاں ہو گئی ہے۔
حافظ حبیب اﷲ چیمہ کی وفات کے تیسرے روز نماز فجر کے بعد ان کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر ہم گھر واپس لوٹ رہے تھے کہ رستے میں چیمہ صاحب نے ہمیں اپنا ٹیوب ویل اور مال مویشیوں کا ڈیرہ دکھایا۔ ہم نے عرض کیا: حاجی صاحب اس گاوں میں آپ کی زرعی اراضی کتنی ہے۔ ہمارے سوال پر حاجی صاحب کی آنکھیں بھر آئیں۔فرمانے لگے’’ سچی بات یہ ہے کہ مجھے کچھ خبر نہیں، سب کچھ حبیب صاحب ہی دیکھتے تھے میرے لیے تو اتنا ہی کافی تھا کہ میرے گھر میں دودھ اور گندم بڑی پابندی سے پہنچ جاتی تھی، باقی سب ذمہ داریاں مرحوم نے سنبھال رکھی تھی‘‘۔
گزشتہ روز چیمہ صاحب سے بات کرتے ہوئے ہمیں چند ماہ قبل کہے گئے ان کے یہی جملے یاد آتے رہے۔سلیم شاہ درحقیقت ان کا دایاں بازوتھا ۔ وہ نہیں مرا، چیمہ صاحب کا بازو ٹوٹ گیا ہے۔ مرزا نوشہ نے اپنے منہ بولے بیٹے زین العابدین عارف کی وفات پر کہا تھا۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور