پروفیسر حفیظ الرحمن خان
شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا
ایک عالی دماغ تھا نہ رہا
پروفیسر حافظ سید محمد وکیل شاہ ۱۶؍ اپریل ۲۰۱۶ء کو دارِ فانی سے عالم سے بقا کی طرف رخصت ہوگئے۔ وہ جیتی جاگتی انسانی صفات کا مرقع تھے۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جن کے دم سے نیکی اورسچائی کا اعتبار قائم تھا۔ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے ان کی ذات پر اعلیٰ انسانی اوصاف کی ارزانی ہوئی تھی۔وجیہہ و شکیل ایسے کہ ان کے سراپے میں حسن و خوبی کے جوہر دمکتے تھے۔
ذہین و فطین اور معاملہ فہم اس قدر کہ پیچیدہ معاملات کی تہہ میں اتر جاتے اور مسائل کو باتوں باتوں میں سلجھا دیتے۔ طبیعت میں زندہ دلی، خوش مزاجی اور وضع داری کو ٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ حق گوئی و بے باکی کی کے اعلیٰ وصف ان کی شخصیت اور ذات کا حوالہ بن گئے تھے۔ وہ حقیقی معنوں میں علامہ اقبال کے مرد مومن تھے۔
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اقبال کا مرد مومن ایک خیالی تصوراتی مخلوق ہے، کوئی جیتا جاگتا گوشت پوست کا انسان مثالی خوبیوں کا حامل نہیں ہوسکتا لیکن گزشتہ پانچ چھے دہائیوں میں جن لوگوں کو پروفیسر حافظ سید محمد وکیل شاہ سے واسطہ پڑا ہے وہ گواہی دیں گے کہ علامہ اقبال نے قرون وسطی کے جس مردِ مسلمان کا مرقع پیش کیا وہ جیتا جاگتا پیکر کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے درمیان موجود رہا۔
جہاں میں اہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
شاہ صاحب مرحوم ایک عملی انسان تھے۔ نہایت سچے اور کھرے، کالج میں تدریسی فرائض کے ساتھ ساتھ بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانات میں مہتمم کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہمارا نظام امتحان بے شمار خرابیوں کی آماجگاہ ہے۔ طالب علم کے ساتھ ان کے والدین بھی ناجائز ذرائع استعمال کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگرچہ ارباب امتحان ممکنہ حد تک امتحانی بد عنوانیوں کا سدباب کرتے ہیں لیکن جس معاشرہ میں جائز و ناجائز کی تفریق ختم ہوجائے وہاں دیانت و امانت کا تصور باقی نہیں رہتا۔ آج سے تین چار عشرے قبل کمرۂ امتحان میں ناجائز ذرائع بہت عام تھے حافظ سید محمد وکیل شاہ مرحوم جنوبی پنجاب کے سنٹرز میں اکثر مہتمم بن کر جاتے، وہاں نقل یا ناجائز ذرائع کے استعمال کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ عام مشاہدہ تھا آوارہ امیدوار اسلحہ لے کر آتے، جس سے اکثر ممتحن خوف زدہ ہو جاتے تھے لیکن شاہ صاحب نہایت جرأت وبے باکی سے پورے ہال کمرے کی تلاشی لیتے اور نقل کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دلواتے۔ اس زمانے میں امتحان میں ناجائز ذرائع کا استعمال قابل دست اندازی پولیس نہیں تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس خطہ میں امتحان کا تقدس بحال کرنے میں شاہ صاحب مرحوم کی جرات و بے باکی کی کا بڑا حصہ ہے۔ غرض وہ ’’آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی‘‘ کی تصویر تھے۔ حافظ پروفیسر سید وکیل شاہ صاحب مرحوم نے اپنی تدریسی زندگی کا ایک طویل حصہ گورنمنٹ میونسپل کالج اوکاڑہ میں گزارا، وہاں انھوں نے ایک وسیع حلقۂ احباب چھوڑا۔ اوکاڑہ شہر کے در و دیوار پر آج بھی ان کی پاکیزہ سیرت کے نقوش ثبت ہیں۔
انسان دنیا سے آخر رخصت ہوجاتا ہے لیکن اس کی خوبیاں خوش بوکی صورت میں باقی رہتی ہیں۔ یہ خوشبو سیرت و کردار کی صورت میں دلوں بسی رہتی ہے یا نیک اولاد کی شکل میں آئندہ نسلوں میں منتقل ہوتی ہے۔ پروفیسر حافظ وکیل شاہ صاحب مرحوم کا تعلق امیر شریعت حضرت سید عطاء شاہ بخاری کے خانوادے سے تھا (آپ ان کے فرزندِ نسبتی تھے) جنھوں نے برصغیر پاک و ہند میں علم و معرفت اور دین حق کی شمع روشن کی۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
Cسبزۂ نورستہ اس گل کی نگہبانی کرے
S(مطبوعہ: نوائے وقت، ملتان، ۳؍ مئی ۲۰۱۶ء)