تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

آغاشورش کاشمیری کی گاندھی جی سے ملاقاتیں

(1946کی ابتدامیں شورش نے کچھ عرصہ دہلی میں قیام کیااوراس دوران کئی قومی لیڈروں سے ان کی ملاقاتیں رہیں، جن کی رودادانھوں نے اپنی سوانح حیات بوئے گل نالۂ دل دودِچراغِ محفل میں بیان کی ہے، زیرِنظرتحریروہیں سے ماخوذہے )

مولانا حبیب الرحمن کے بیٹے عزیز الرحمن جامعی نہایت ہوشیار نوجوان تھے، انہیں شوق تھا کہ بڑے بڑے آدمیوں سے ملتے، والد کا ذکر کرتے او رکوئی نہ کوئی خبر اڑا لاتے، ان دنوں زعمائے احرار کی خبروں کا منبع عزیز الرحمن ہی تھے، گاندھی ، نہرو آزاد وغیرہ کے ہاں تو ان کا آنا جانا روز ہی کا تھا، ان سے ملاقات نہ ہوتی ، ان کے سکریٹریوں سے مل آتے سکریٹریوں سے نہ ملتے ،تو ان کے سٹینوگرافروں سے مل آتے؛ لیکن خبریں زور کی لاتے اور اکثر خبریں صحیح نکلتی تھیں، ایک دن میں نے اور نواب زادہ نصر اللہ خاں نے ان سے کہا کہ گاندھی جی سے ملنے کی راہ نکالو، عزیز نے کہا کہ :’’ابھی چلو !گاندھی جی نے بھنگی کالونی میں کٹیا ڈال رکھی ہے ، کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئے گی‘‘ہم تیار ہوگئے ،میں، نواب زادہ، انور صابری اورعزیز الرحمن بھنگی کالونی پہنچے ، تو گاندھی جی وائسر یگل لاج گئے ہوئے تھے،ان کی کٹیا ہری جنوں کی بستی کے بیچوں بیچ؛ لیکن کھلے میدان میں تھی، کوئی تیس گز ادھر بانس بندھے ہوئے تھے اور یہ کھلا دروازہ تھا، یہاں سے قریب ہی ایک خیمہ تھا، جس میں رضاکار وں کا سالار رہتا ، ادھر ادھر کچھ چارپائیاں پڑی تھیں، کرسیوں کا نشان تک نہ تھا، گاندھی جی کی بیٹھک کا تمام حصہ فرشی تھا، کچھ دیر تو ہم بعض دوسرے مشتاقین کے ساتھ بانس کے دروازے پر کھڑے رہے ، پھر عزیز الرحمن نے ہمت کی اور پیارے لال کو کہلوایا ،اس نے بلوایا، پیارے لال گاندھی جی کا سکریٹری تھا، عزیز الرحمن نے اس سے کہا کہ :’’ہم اس غرض سے آئے ہیں‘‘وہ نیم راضی ہوگیا، کہنے لگا :’’آپ سامنے درخت کی چھاؤں میں بیٹھیں، باپو ابھی آتے ہیں ، ان کی مصروفیتیوں کا تو آپ کو اندازہ ہے ، ممکن ہے کوئی اور وقت دیں‘‘ ، ہم ٹھہرگئے ،نواب زادہ نصر اللہ خان نے ترکی ٹوپی پہن رکھی تھی، میں ان دنوں کھدر پہنتا؛ لیکن سرپہ جناح کیپ رکھتا تھا، انور صابری نے قلندروں کا جھول پہن رکھا اور عزیز الرحمن مولویوں کے چغہ میں تھا ، کوئی چالیس منٹ ٹھہرے ہوں گے کہ گاندھی جی کی کار کی آمد کا غل ہوا، اتنے میں درجن ڈیڑھ درجن دیویاں بھی آگئیں ، گاندھی جی کی کار سڑ سے اندرداخل ہوئی، دیویوں نے پاپوشی کرنی چاہی؛لیکن گاندھی جی تیرکی طرح نکل کر ہمارے پاس رک گئے ،ہم نے ہاتھ اٹھا کر آداب کیا، مسکرائے۔
’’آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘
’’پنجاب سے‘‘۔
’’آپ نے بہت تکلیف کی؟‘‘۔
’’جی نہیں ہم آپ کے درشن کرنے آئے ہیں‘‘۔
عزیز الرحمن نے کہا:
’’مہاتما جی! میں مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کا بیٹا ہوں‘‘۔
’’اچھا !وہ مولوی صاحب ،جومجھ سے بہت لڑتے ہیں‘‘۔
عزیز الرحمن نے ہم تینوں کا تعارف کرایا ، گاندھی جی مسکراتے رہے ، ملاقات کا وقت مانگا، گاندھی جی نے ہامی بھرلی ،کہا:
’’آپ لوگ پرسوں شام پانچ بجے آدھ گھنٹے کے لیے آجائیں‘‘۔
عزیز نے کہا:’’آپ کے سکریٹری ٹرخادیتے ہیں، ذرا ان سے بھی کہہ دیں‘‘۔
گاندھی جی نے کہا:’’کوئی بات نہیں یہ کھڑے ہیں ان سے میں نے کہہ دیا ہے‘‘مزید کہا:
’’کل بھی میں آپ کو بلاسکتا ہوں ؛لیکن کل میرا مون برت ہے ، آپ باتیں کریں، تو میں سلیٹ پر لکھ کر جواب دوں گا، کچھ کہنا سننا ہے ، تو پرسوں کا وقت ٹھیک رہے گا‘‘۔
ہم نے صاد کیا ، گاندھی جی نے ہاتھ باندھ کر پر نام کیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے کٹیا میں داخل ہوگئے ، دوسرے لوگ ہمیں حیرت سے تکتے رہے ،ہم باہر نکلے تو بعض جرنلسٹوں نے گھیرلیا،’’آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟گاندھی جی نے آپ سے کیا کہا؟‘‘۔
بعض بوڑھی عورتیں، جو دور سے مہاتما کے درشن کررہی تھیں، ہمیں دھنیہ واد کہنے لگیں ، ان کا خیال تھا کہ ہم لوگ خوش قسمت ہیں، جو ایک رشی سے باتیں کر آئے ہیں۔
تیسرے روز ٹھیک پونے پانچ بجے ہم بھنگی کالونی پہنچ گئے ،ہمارے ساتھ کناٹ پیلیس کے ایک ہندو بزاز بھی تھے جو میر احمد حسین صاحب کی دوکان سے قریب کپڑے کی تجارت کرتے اور غالباً نیو دہلی کے سب سے بڑے کلاتھ مرچنٹ تھے، ان دنوں سرج (کالی اچکن کا کپڑا)بازار میں ناپید تھا، لاہور میں ڈھونڈ ھا ، نہ ملا، دہلی میں تلاش کیا ،محروم رہا، میرا حمد حسین مجھے ان کی دوکان پر لے گئے،انہوں نے وعدہ کیا کہ ہفتہ عشرہ تک مہیاکردیں گے، اب جو انہیں معلوم ہوا کہ ہم گاندھی جی سے ملنے جارہے ہیں، تو متعجب ہوئے ۔
’’کیا آپ مجھے ساتھ لے جاسکتے ہیں؟‘‘۔
’’کیوں نہیں‘‘۔
’’میری خواہش ہے کہ انہیں قریب سے دیکھوں ،وہ بھارت کے سب سے بڑے رشی ہیں‘‘۔
ابھی پانچ بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے کہ امریکی صدر ٹرومین کاذاتی نمائندہ ، جو غذائی حالت کا جائزہ لینے دنیا بھرکا سفر کررہا تھا، وارد ہوگیا، پیارے لال نے اسے گاندھی جی کے کمرے میں پہنچادیا، ہم نے پیارے لال سے کہا:’’پانچ بجے ہمارا وقت ہے ، آپ نے اس کو بھیج دیا ہے ‘‘اس نے کہا:’’آپ مطمئن رہیں، ٹھیک پانچ بجے آپ کی ملاقات ہوگی اور یہ پانچ منٹ ہی میں نکل آئے گا‘‘وہی ہوا، وہ باہر آگیا، ہم اندر چلے گئے، گاندھی جی حسب معمول مسکرائے ،یہ پہلا موقع تھاکہ میں نے گاندھی جی کو قریب سے دیکھا، تمام نشستیں فرشی تھیں خود گاندھی جی کوئی چھ انچ اونچی چوکور نشست پر بیٹھے تھے، ایک طرف سیکرٹری، دوسری طرف راج کماری امرت کور ، ادھر لالہ برج لال چاندی والا مہاتماجی کی پوتی ان کے سر کو برف کی ٹکور کررہی تھی، گاندھی جی نے انگور کے چند دانے پیش کیے، ہم نے تو کھالیے ؛لیکن اس تاجر نے رومال میں لپیٹ کے رکھ لیے ، اگلے دن اپنی کوٹھی میں ایک بہت بڑایگیہ کیا اور وہ دانے ایک من انگور میں ملاکر لوگوں میں تقسیم کیے ،ہمارا شکریہ اداکرتے ہوئے وہ تھکتا نہیں تھاکہ ہم نے اسے ایک عظیم رشی سے ملوایا او راس نے ان کے چرنوں میں بیٹھ کے درشن کیے ہیں، واپس آکر اس نے مجھے اسی وقت اچکن کے لیے سرج کا ٹکڑا دیا، قیمت پوچھی تو اس نے کہا:
’’مہاتما جی کے درشن ‘‘۔
میں نے اصرار کیا ،اس نے انکار۔
’’آپ نے مجھے اتنے بڑے انسان سے ملوایا ہے کہ اب اس ٹکڑے کی کوئی سی قیمت نہیں ہے ، میری طرف سے تحفتاً قبول کریں‘‘۔
گاندھی جی نے معمولاً مسکراتے ہوئے کہا:
’’آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟‘‘۔
میں نے کئی سوال کیے ،میرا ایک سوال تھا:
’’نیشنلسٹ مسلمانوں کی ناکامی کا باعث کیا ہے؟‘‘۔
گاندھی جی کھلکھلا کر ہنس پڑے:
’’میں سمجھتا ہوں ان میں کوئی شخص بھی فقیری کرنا نہیں چاہتا ؛بلکہ فقیری سے اٹھ کر شہنشاہی کررہا ہے ،قومی خدمت صرف فقیری کرنے ہی سے ہوسکتی ہے ‘‘۔
میر اخیال ہے گاندھی جی کے ذہن میں اس پچیس لاکھ روپیہ کی غارت زدگی کا احساس تھا، جو عام انتخابات میں نیشنلسٹ مسلمانوں پر صرف کیے گئے ؛لیکن بعض لوگ روپے کے لیے امیدوار ہوگئے تھے ، مال اینٹھا،ہڑپ کیا اور بیٹھ گئے۔
میں نے موضوع بدلتے ہوئے گاندھی جی سے سوال کیا:
’’آپ پنجاب کیوں نہیں آتے؟‘‘۔
’’اس کے انچار ج ابوالکلام ہیں‘‘۔
’’آپ بھی تو تشریف لائیں‘‘۔
گاندھی جی رک گئے، پھر عادتاً مسکرائے اور کہا:
’’معاف کرنا ! وہ جاسوسوں کا صوبہ ہے‘‘۔
ہم لوگ ایک لحظہ کے لیے شر مسار سے ہوگئے ،بات ٹھیک تھی ،تاہم میں نے پلٹ کرکہا:
’’جی نہیں! جلیا نوالہ باغ کا صوبہ ہے‘‘۔
’’ہاں یہ بات بھی ہے ‘‘گاندھی جی کھلکھلاکر ہنس دیے۔
میں نے سوال کیا:
’’آپ کے نزدیک ہندوستان کی قومی زبان کون سی ہے؟‘‘۔
’’ہندوستانی‘‘۔
’’ہندوستانی سے آپ کی مراد کیاہے؟‘‘۔
’’جس میں عربی اور سنسکرت کے موٹے موٹے شبد نہ ہوں‘‘۔
’’مثلاً آپ ابوالکلام کے خطبۂ رام گڑھ کی زبان کو ہندوستانی کہیں گے؟‘‘۔
’’بالکل‘‘۔
’’خود مولانا ابولکلام کے متعلق آپ کا خیال کیاہے؟‘‘۔
’’ایشیا میں اتہاس (تاریخ )کے بہت بڑے عالم ہیں، میں ان سے تاریخ اور جواہر لال سے پالٹکس پڑھتا اور سیکھتا ہوں‘‘۔
ہم نے گھڑی پر نظر ڈالی دومنٹ باقی تھے۔
’’آپ دومنٹ اور بیٹھ سکتے ہیں ‘‘گاندھی جی نے کہا۔
’’شاہ جی آپ سے ملنا چاہتے ہیں ‘‘عزیز الرحمن بولا۔
’’کون شاہ جی ؟‘‘۔
’’سید عطاء اللہ شاہ بخاری‘‘۔
گاندھی جی بہت ہنسے ’’اچھا وہ ڈنڈے والے شاہ جی‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔
’’اب بھی وہ چھ چھ گھنٹے تقریر کرتے ہیں؟‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔
’’وہ تھکتے نہیں‘‘۔
’’جی نہیں‘‘۔
’’انہیں معلوم نہیں کہ دنیا بہت چھوٹی ہوگئی ہے ،اچھا!تو ان سے کہیے کہ مجھ سے ضرور ملیں ‘‘۔
’’وہ کچھ بیمار ہیں‘‘۔
’’میں طبیب بھی ہوں، علاج بھی کروں گا‘‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.