ڈاکٹر عمر فاروق احرار
(قسط اوّل)
پروفیسر طاہر احمد ڈار 1967 ء میں فاروق آباد ضلع شیخوپورہ میں پیداہوئے۔آپ مقامی کالج میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔پروفیسر طاہر احمدڈار ایک سو چودہ سال سے قادیانیت پر قائم رہنے والے والے خاندان کے وہ پہلے فرد ہیں ، جنہوں نے قادیانیت کو ترک کیا اور اسلام کی دولت پائی۔اسلام کی سعادت حاصل کرنے میں پرفیسرصاحب کے پانچ بچے اوران کی اہلیہ بھی شامل ہیں ۔
پروفیسر طاہر احمد ڈار کا کہنا تھا کہ میرے دادا جان بوٹے خان ڈار نے 1905 ء میں قادیانیت قبول کی تھی۔ دادا کے تین بھائی جن میں میرے نانا بھی شامل تھے، قادیانی ہو گئے، لیکن دادا کے دیگر دو بھائی اور ان کی اولادیں بدستور اسلام پر قائم رہیں ۔ اس کے بعد قادیانیت کا سلسلہ نسل در نسل چلتا رہا ۔ہم میں سے کوئی بھی قادیانیت کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھا،کیونکہ قادیانی فیملی میں پیدا ہونے کے باعث روایتی و موروثی سوچ غالب تھی ،مگر آہستہ آہستہ اللہ تعالی نے ہدایت کے راستے کھولے ۔میں نے بیس سال ضلع شیخوپورہ میں جماعت احمدیہ کے ساتھ متحرک کردار ادا کیا۔ میرے پاس جماعت احمدیہ شیخوپورہ کا شعبہ عمومی اور شعبہ تعلیم رہا ہے ۔شعبہ عمومی میں سیکورٹی اور تمام عام ذمہ داریاں یا شامل ہیں ۔ جبکہ دیگر تمام شعبہ جات پر نگرانی بھی شعبہ عمومی ہی کی ذمہ hداری ہوتی ہے۔ اس لیے تمام معلومات اسی شعبہ کے پاس ہوتی ہیں ۔ اس شعبہ کی بدولت ہی جماعت احمدیہ کے بارے میں اندر کی بہت اہم معلومات حاصل ہوئیں ۔ شعبہ عمومی میں کام کرنے کے دوران جماعت احمدیہ کے ذمہ داران کے منافقانہ کردار کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملاکہ ان کی زبان پر کچھ اورہوتاتھا اور اور عمل کچھ اور تھا
زندگی کے اولین دور میں مرزا غلام احمد قادیانی کی کی کتابیں اپنی پڑھائی میں مشغولیت اور موروثی عقائد کی بنا پر عدم دلچسپی کی وجہ سے نہیں پڑھ سکا ۔پھر مرزا کی کتب کو پڑھنے کے لیے بھی ایک سال کا عرصہ چاہیے۔ اس طرح جماعت میں رہتے ہوئے تو مرزا صاحب کی ایک آدھ کتاب ہی پڑھی ۔جماعت احمدیہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ بچوں کے لیے ایک متعینہ سلیبس ہوتا ہے اور اس میں بھی یہ چیز ہی بچوں کے ذہن میں بار بار ڈالی جاتی ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ اس طرح بچپن ہی سے سے مرزا قادیانی کے خاندان کی غلامی کا قلادہ گلے میں ڈال دیا جاتا ہے اور سوچ محدود ہو جاتی ہے ۔جماعت احمدیہ کے تمام شعبوں مثلاً انصار الاحمدیہ، لجنہ اور خدام الاحمدیہ وغیرہ میں ان کا اپنا نصاب ہے، جس کے مخصوص پیپرز ہوتے ہیں ۔ ان کے ذریعے وہ امتحان لیتے ہیں اور مخصوص سوالات ہی پیش کیے جاتے ہیں ۔ جن کا ایک مخصوص دائرہ ہوتا ہے ۔جس سے وہ باہر نہیں نکل سکتے اور کنویں کے مینڈک کی طرح ایک مخصوص اور محدود دائرے میں گھومتے رہتے ہیں ۔جماعت میں بنیادی طور پر کتب فروشی تو ہوتی ہے مگر پڑھنے کے لحاظ سے ترغیب شامل نہیں ہے ۔تاکہ سوچ کی حدود وسیع نہ ہوسکیں ۔
قادیانیت اور اس کے عقائد تضادات کا مجموعہ ہیں ۔ میرا جماعت احمدیہ والوں سے اکثر اختلاف رہتا تھا کہ ویسے تو آپ لوگ کہتے ہیں کہ ہم الٰہی جماعت ہیں اور ایک امام کے ماننے والے ہیں ، لیکن آپ کاکوئی قول آپ کے عمل سے مطابقت کیوں نہیں رکھتا۔ پھر ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ بظاہر ہم مرزا غلام احمد کو کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل (سایہ)کہتے ہیں ، لیکن مرزا صاحب کی تحریروں میں دیکھا جائے تو تو بات اس سے کہیں آگے چلی جاتی ہے۔ جب اس طرح کی کی تحریریں سامنے آتی ر ہیں تو بلآخر میں اس بات پر مجبور ہوگیا یا کہ اس کے متعلق تفصیلی مطالعہ کرنا چاہیے۔ 2016ء میں عبدالغفار جنبہ قادیانی( مقیم جرمنی)کی جو خود مصلح موعود ہونے کا دعویدارہے، بعض باتوں نے قادیانیت پر تحقیق کرنے کے عزم کو پختہ کردیا۔لہٰذاپانچ سال پہلے میں نے قادیانیت کی تحقیق اور مرزا غلام احمد کی کتب کا براہ راست ست مطالعہ شروع کیا اور میرے پاس جو بھی ذرائع تھے ، ان سے سے تحقیقات اور کتب کا مطالعہ کرتا رہا ۔دوران مطالعہ مرزا قادیانی کے متضاد دعووں نے مجھے چکرا کر رکھ دیا اور میں نے نے یہ متضاد دعوے اور کتب کے حوالہ جات دیگر قادیانی دوستوں کوواٹس ایپ پر شئیر کرنا شروع کر دییکہ ہماری جماعت والے زبانی طور پر پر قادیانی عقائد کی کچھ اور تصویر پیش کرتے ہیں ،مگر ہماری کتب میں اس کے برعکس لکھا ہوا ہے۔ جب میں نے تحقیق کا یہ کام شروع کیا تو اس کا شدید ردعمل آیا ۔کیوں کہ جب قادیانی نظام کو زد پہنچنے لگتی ہے ، یا کسی کے دماغ میں سوال اٹھنے لگتے ہیں تو جماعت والوں کو مصیبت پڑ جاتی ہے اور وہ یہ کوشش کرتے ہیں ہیں کہ معاملہ کو فوراًکسی طریقہ سے دبا دیا جائے۔ تاکہ کہ باشعور لوگوں کے کے ذہن اس سے متاثر نہ ہوں ۔اس کے لیے خواہ افراد کو جماعت سے نکالنا پڑے، یا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا پڑے تو وہ ایسا ہر حربہ استعمال کر گزرتے ہیں ۔میرے خلاف انکوائری شروع ہوگئی۔ جماعت احمدیہ شیخوپورہ کے ضلعی مربی مبلغ نے میرے اعتراض پر غلط حوالہ جات پیش کیے ۔ جب میں یہ معاملہ عام احمدیوں کے سامنے لایا اور مربی کی غلط بیانیوں کو بے نقاب کیا تو مقامی سطح پر میرے سوالات کا ان کے پاس جواب نہیں تھا ۔جس پر انہوں نے مرکز (چناب نگر) سے رابطہ کیا اور مرکز سے جماعت احمدیہ کے کے دو بڑے مبلغین حافظ مظفر احمد اور مبشر کاہلوں کو شیخوپورہ بھیجا گیا اور مجھے کہا گیا کہ کہ ان کے ساتھ نشست کریں ،چونکہ مجھے ان کا طریقہ واردات معلوم تھا اور میں قادیانیوں کے تمام معاملات و ہتھ کنڈوں سے واقف تھا کہ وہ اصل بات پر مجھے مطمئن نہیں کریں گے۔ آخر کار وہی ہوا اور اس دن صرف اس موضوع پر بات ہوئی کہ کہ مرزا بشیر الدین محمود دوسرا خلیفہ ہے یا نہیں ہے۔ اس پر بھی مبشر کاہلوں نے غلط حوالہ جات پیش کیے ،چونکہ اس وقت تحصیل و ضلع کے مربی اور مقامی جماعت کی انتظامیہ یعنی امیر شہر اور امیر ضلع موجود تھے، لیکن ان میں سے بھی کسی نے مرزا قادیانی کی کتب نہیں پڑھی ہوئی تھیں ۔ اس لیے قادیانی مبلغ مبشر کاہلوں نے جو کچھ کہا ۔وہ سب اسے سچ مان کر بیٹھ گئے ۔ہماری یہ نشست ڈیڑھ دو گھنٹے تک جاری رہی ،لیکن وہ نتائج کے اعتبار سے نامکمل تھی ،کیونکہ کہ ابھی جو حقیقی سوالات میں نے کرنے تھے ۔وہ مجھے کرنے نہیں دیے گئے۔ اس نشست میں یہ طے ہوا کہ سوالات و جوابات کی ایک الگ نشست ہو گی۔ وہ اس پر رضامندی کا اظہار کرکے چلے گئے، لیکن ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے گئے کہ ہم آپ کو آئندہ اجازت نہیں دیں گے کہ آپ دوسروں کو حوالہ جات بھیجتے رہیں ۔میں نے کہا کہ آپ اس کا فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں ۔یہ ہر انسان کا اپنا ذاتی فعل و عمل ہے کہ جس طرح اس کو حقیقی دین کی سمجھ آتی جائے گی ،وہ اسے آگے پھیلاتا رہے گا اور میں آپ کو بھی یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ آپ میرے ذاتی معاملات میں مداخلت کریں اور مجھ پر پابندیاں لگائیں ۔بہرحال اس دن یہ طے ہوگیا تھا کہ اگلی نشست میں سوالات صرف میں ہی کروں گا ،لیکن مجھے علم تھا کہ اس کا آخری نتیجہ کیا ہوگا ،کیونکہ اپنے تجربہ کی بناء پر مجھے یقین تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے اس کے بعد انہوں نے دوبارہ نہیں آنا ہے اور نہ انہوں نے میرا سامنا کرنا ہے، کیونکہ اگر انہوں نے میرے جواب دینے ہوتے تو وہ آج ہی دے دیتے ۔
اس نشست میں جو چار سوالات میں نے کیے تھے، قادیانی مبلغوں نے ان کے جواب نہیں دیے۔ جب بیرونی مبلغین چلے گئے تو ایک ماہ بعدمقامی جماعت نے میرے جماعت کے اخراج کا اعلان کر دیا ،مگرمجھے جماعت سے نکالنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ بس یہی کہا گیا کہ طاہر احمد ڈار کو خلافِ نظام ِتعلیم موقف اختیار کرنے پر اخراج ِنظام ِجماعت کی سزا دی جاتی ہے ۔جب انہوں نے یہ اعلان کیا تو میں نے شعبہ امورعامہ چناب نگر میں فون کرکے ان کی خوب کلاس لی کہ آپ پہلے مجھے اس فیصلے کی کوئی معقول وجہ بتائیں اور اور مجھ پر الزام کا ثبوت فراہم کریں ۔میں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی معاشرتی انصاف کے قانون میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہوا کہ آپ ایک شخص پر الزام لگائیں اور اس کو چارج شیٹ کی کاپی بھی نہ دیں ۔ لہٰذا مجھے وجہ بتائیں کہ آپ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا ہے ،جبکہ ہماری بات چیت بھی متعلقہ موضوعات پر ابھی نہیں ہوئی اور نہ بات کسی منطقی انجام پر پہنچی ہے۔ میں نے اس کے بعد ڈیڑھ دو سال تک ان کے جواب کا انتظار کیا کہ شاید ان کو عقل آ جائے اور وہ میرے کسی سوال کا جواب دے کر مجھے مطمئن کر دیں ، لیکن انہوں نے کسی قسم کا کوئی جواب دینے سے گریز کیا ۔بہرحال میں نے مزیدتحقیق کی اور قرآن و حدیث کے حوالہ سے تمام مسائل و معاملات کا قادیانیت سے تقابل کر کے الحمدللہ اس نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا کہ قادیانیت کا اللہ اور رسول کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ اسلام کے الٹ ہے اور ان کا سسٹم کلی طور پر یہودیانہ طرز پر مبنی ہے جو صرف اور صرف اسلام اور پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ ان کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دُور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔
میں نے قادیانیت پر تحقیقات کے دوران میں اپنی بیوی اور بچوں کو کو قادیانیت کے بارے میں مکمل آگاہی دی،کیونکہ قادیانیوں کا یہ طریقہ واردات ہے کہ جب کوئی ایسا شخص جو اُن پر اعتراضات کے لیے کھڑا ہو جائے تو پھر یہ اسے اس کی فیملی کے ذریعے سے بھی تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر ایسے قضیوں میں میاں بیوی اور بچوں میں علیحدگی کرا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ میرے معاملے میں بھی انہوں نے یہ پوری کوشش کی، لیکن الحمدللہ میری بیوی(جو مسلمان ہونے کے بعد،چندماہ پہلے انتقال کر چکی ہیں ) پڑھی لکھی خاتون تھیں اور وہ بھی حقائق کی تلاش میں میرے ساتھ سرگرداں رہی تھیں ۔ اس لیے وہ مکمل طور پر پر میرے موقف کے ساتھ کھڑی تھی تھیں ۔ اس لیے قادیانیوں کا یہ وار بھی ناکام ہوگیا اور وہ مایوس ہوگئے کہ ہمارے درمیان جدائی ناممکن ہے۔ میرے بیوی اور بچے میرے ساتھ مل کر مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانیت کے جھوٹا ہونے پر متفق ہوگئے اور ہم سب نے اجتماعی طور پر قادیانیت چھوڑ نے کا اعلان کر دیا اور اور ہم نے اعلان کیا کہ مرزا قادیانی کے تمام دعوے باطل اور غیر قرانی ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے اس طرح الحمدللہ ہم نے قادیانیت کا طوق گردن سے اتار پھینکا اور اسلام کے دائرہ رحمت میں پناہ گزیں ہو گئے ۔اگرچہ اللہ اور رسول اور اس کے رسول کی محبت تو شروع سے ہی دل میں موجود تھی تھی، لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس محبت میں کوئی رکاوٹ سی موجود ہے ہے جب 22 فروری 2019 ء کو قبول اسلام کا اعلان کیا تھا تو اس کے بعد سے اب تک ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ اور رسول کی محبت کے درمیان اب کوئی پردہ و رکاوٹ حائل نہیں رہی اور ہمارا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ براہ راست تعلق قائم ہو گیا ہے۔ ہمیں بچپن سے یہی پڑھایا جاتا تھا کہ جو جماعت احمدیہ سے دُور ہٹتا ہے۔اُس سے اُس کا خدا روٹھ جاتا ہے۔ اس کا رزق بند ہو جاتا ہے۔ اس پر معاشرہ میں زندگی تنگ ہو جاتی ہے اور پھر قادیانی اس انتظار میں رہتے ہیں کہ اگر اس کا سائیکل بھی پنکچر ہو جائے تو ہم اسے قادیانیت کی صداقت کی نشانی بتائیں ۔سب انبیانے خدا کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ دنیا میں نبوٹت کا جھوٹا دعویدار مرزا احمدقادیانی واحدآدمی تھا کہ جن کا ایک ہی پیغام تھا کہ موت بانٹنا اور خوف بانٹنااوروہ اس خوف کو بانٹنے کے لیے ڈرامے کرتے رہے ۔مثلا ًایک بار کہا کہ کہ زلزلہ آ رہا ہے۔ وہ میری زندگی میں میری صداقت کے لیے آئے گا اور خیمے لگا کر اپنے باغ میں بیٹھے رہے، لیکن زلزلہ نہ آیا ۔البتہ مرزا صاحب ہی اس دنیا سے چلے گئے تو یہ خوف کا جو کاروبار ہے اس پر ان کے گروہ کی بنیاد کھڑی تھی ۔جو اَب آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے ۔اب قادیانیت تر ک کرنے کا رُجحان تیز ہورہا ہے ۔پہلے جو سوکھی ٹہنیاں تھی، اب وہ سرسبز گلدستہ بن گئی ہیں ۔ اب ہمارا سامنا کرنا ان کے بس کے میں نہیں رہا ۔یہ اللہ کا خصوصی فضل ہے کہ اس نے ہمیں اُن کی کتابوں کو پڑھنے کے بعد ہم پرقادیانیت کا کفر واضح کیااورصراط مستقیم پانے کی توفیق دی اور قرآن وحدیث سے متصادم جھوٹے قادیانی دعووں سے ہماری جان چھڑائی اور ہمیں ان کے چنگل سے نکالا۔آگے چل کر تفصیل سے بتاؤں گا کہ قادیانی جماعت کا نظا م کیا ہے اوراُن کا ہدف کیا ہے ۔(جاری)