آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

یومِ آزادی اور سیاسی فضا

پروفیسر خالد شبیراحمد

۱۴؍اگست کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا۔ یوم آزادی کے موقع پر ایک طرف جشن آزادی پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا تو دوسری طرف بعض سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے میں مصروف ہیں۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اس ملک سے ارباب بست و کشاد جن میں حزب اقتدار و جزب اختلاف دونوں شامل ہیں کس انداز اور کس طرح اس ملک کی سیاسی زندگی میں خود اپنے ہی کردار و اعمال سے نفاق و افتراق کی بنیادوں کو مضبوط و مستحکم کر رہے ہیں۔ دونوں اپنے آپ کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا کہہ رہے ہیں۔ اس طرح نفاق و افتراق کی آگ کے لیے اتنا ایدھن اکٹھا کر رہے ہیں کہ آخر اس کا انجام کیا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتیں اس اختلاف سے کیا حاصل کریں گی، ملک کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوگا، اس کے تصور سے ہی دل کانپ اٹھتا ہے۔ ہر صاحب شعور و ہر حب الوطنی کا جذبہ رکھنے والا اسی قدر پریشان نظر آتا ہے کہ اس کی پریشانی کو الفاظ کے سانچے میں لانا ہی سرے سے مشکل امر ہو کے رہ گیا ہے۔
تحریک پاکستان میں کس جذبے کے ساتھ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے حصہ لے کر، ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو ووٹ دے کرپاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس کے بعد جو کچھ قتل و غارت کی صورت میں سامنے آیا وہ بھی ایک ہولناک داستان ہے جسے قلم کے سپرد کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ قیام پاکستان کو لگ بھگ ۷۰ برس ہوگئے اور ہم اب اس ہولناک خلفشار و افتراق کا شکار ہیں۔ عوام اپنی زبان حال سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں:
بے حالئی حیات پر کیا تبصرہ کریں                                 تھے رہنرنانِ وقت، بنے ہیں جو رہبر
بدلے نہ روز و شب میرے بدلا نہ رنگ زیست                         ویران ہے چمن تو ہر اک شاخ بے ثمر
فہم و شعور و شوق کی دنیا ہی لٹ گئی                                    ماتم کدہ سا بن گیا اپنا یہ سارا گھر
مہر و وفا صبر قناعت ہے اب کہاں                      حرص و ہوس کی آگ میں جلتے ہیں بام و در
‚ اس ساری صورت حال میں کبھی کبھی قرآن پاک کی ان آیات کا تصور بھی میرے ذہن پر ابھرتا ہے جو قومیں بڑی عاجزی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے کوئی نعمت مانگتی، جس طرح ہم نے لاالہٰ الا اﷲ کے نعرے لگا کر اﷲ تعالیٰ سے پاکستان کی نعمت مانگی اور عہد بھی کیا کہ اے اﷲ! اگر تو ہمیں الگ ملک دے گا تو اس پرتیرا قانون نافذ کر کے تیرے احکامات کی مطابقت میں زندگی بسر کریں گے۔ ایسی کئی قوموں کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے اونٹنی کی نعمت مانگی، جس کی بعد میں بے حرمتی کی گئی، تو پھر قوم کا کیا حشر ہوا۔ اسی طرح بنی اسرائیل نے اﷲ تعالیٰ سے کیا کیا نعمتیں مانگی اور اﷲ تعالیٰ نے کیا کیا نعمتیں انھیں مہیا نہ کی لیکن بنی اسرائیل نے بھی ان نعمتوں کی قدر نہ کی اور اس کے بعد ان کا کیا حشر ہوا۔
اﷲ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جب ہم نے ان کو نعمتون سے نوازا، انھوں نے ان نعمتوں کی قدر نہ کی اور نیک اعمال سے منہ پھیر لیا تو پھر اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے انھیں صرف ایک سزا دی اور وہ سزا یہ تھی کہ ہم نے ان کے دلوں میں نفاق پیدا کردیا۔
کیوں اس لیے کہ انھوں نے اپنا عہد پورا نہ کیا اور میری طرف سے دی گئی نعمتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ پھرقرآن پاک میں ان عذابوں کا ذکر بھی ہے کہ کس قوم پر کونسا عذاب نازل کیا گیا۔
نفاق و افتراق، اتحاد واتفاق کی ضد ہے۔ اتفاق و اتحاد سے مسائل حل ہوتے ہیں اور نفاق و افتراق سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور پھر معاملہ یہیں تک ہی نہیں رہتا بلکہ ایسی قوم کو اﷲ تعالیٰ عذاب میں بھی مبتلا کردیتا ہے۔ اس وقت ہماری جو صورت حال ہے یہ بھی عذاب کی ہی ایک شکل ہے۔ کاش ہمیں اس کا احساس ہوجائے اور ہم نفاق و افتراق کو چھور کر اتحاد و اتفاق کی طرف لوٹ آئیں کہ اس میں ہماری فلاح کا راز مضمر ہے۔
میری نگاہِ شوق میں تھے چاہتوں کے خواب            لیکن نصیب میں تھا رکھا درد و اضطراب
میں نے تو دل جلایا کہ روشن ہوں بام ددَر                        افسوس شب گزیدہ رہا میرا آفتاب
ء ء ء

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *