تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

ڈاکٹر محمد آصف کاقادیانیت سے اسلام تک کاسفر

احمد خلیل جازم (دوسری قسط)
ڈاکٹر محمد آصف کا کہنا تھا کہ ’’ مسلمان علماء سے مجھے میرے سوالات کے جوابات نہیں مل رہے تھے،بلکہ الٹا میرے سوالات پر مجھے قادیانی کہا جانے لگا۔ جب کہ قادیانیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تووہاں جواب بھی ملے اور وہاں مجھے احساس ہونا شروع ہوگیا کہ یہ تو مسلمان ہیں۔ انہیں خواہ مخواہ کافر قرار دیا جارہا ہے ۔ مجھے جو وضاحتیں درکار تھیں۔ان میں سب سے اہم یہ تھی کہ جب وہ ارکان اسلام کے پابند ہیں تو ہمارا اُن سے بنیادی اختلاف کیا ہے ،لیکن جس عالم دین سے میں اس بارے میں پوچھتا۔ وہ میری تسلی نہ کراتا ۔ اسی دوران قادیانیوں نے مجھے مذاکراہ سننے کی دعوت دی، جس میں ربوہ سے آیا ہوا اُن کا مبلغ مبشراحمد سوالات کے جواب دینے آیا ہوا تھا۔اس مذاکرے میں موجود مسلمانوں نے اس سے بہت سخت سوالات کیے۔اس مذاکراے کا مقصد زیر تبلیغ مسلمانوں سے بات چیت کرکے ان کے تحفظات دُور کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ تاکہ انہیں مرتد کیا جاسکے ،چنانچہ اس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی جو قادیانیوں کے زیر تبلیغ تھے۔اس کی گفتگو میں قرآن و احادیث کی بات کی گئی، عین قرآن سنت کے مطابق اس نے سادہ لوح مسلمانوں سے بات چیت کی۔توحید و بدعات سے بچنے کی تلقین، عمدہ اخلاق اورزندگی قرآن و سنت کے مطابق بسر کرنے کی تلقین کی گئی ، میں نے بھی مسلمان علماء سے جو کچھ سنا تھا ۔اُس کے تحت اُس سے پوچھا کہ قادیانی تو ختم نبوت کے ڈاکو ہیں ، وہ تو مرزا کو نبی مانتے ہیں، یہاں مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ مبشر احمد نے تمام سخت سوالات کے جوابات نہایت متانت اور اخلاق سے دئیے ،اس کی نرمی اور تحمل قابل دید تھا،اس کا طریقہ کار بہت متاثرکن تھا،اس سے عام مسلمانوں میں یہ تاثر اُبھرا کہ یہ لوگ تو بہت پڑھے لکھے، اور سلجھے ہوئے ہیں کہ بدتمیزانہ سوالات پر بھی غصہ نہیں کرتے،کیوں کہ کئی مسلمانوں نے مزرا غلام احمد کو برا بھلا کہہ کر بھی سوالات کیے تھے۔
دواَڑھائی گھنٹے سوالات کا سیشن تھا جو کہ مکمل ہوا،پھر کھانے کا وقفہ ہوا ،اورمیں نے پہلی بار اُن کے ہاں کھانا کھایا،اب میں کنفیوژڈتھا کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ہے، یا توہم غلطی پر ہیں، یا یہ ہیں ،یہ کہیں وہ معاملہ تو نہیں ہے کہ جس طرح مسلمانوں میں جتنے فرقے ہیں ،وہ بعض فروعی باتوں پر ایک دوسرے پر کفر کے الزامات لگا دیتے ہیں،حالانکہ وہ ارکانِ اسلام کے پابند ہوتے ہیں ۔یہ بھی مسلمانوں میں ہی ایک فرقہ ہے۔ جسے بعض باتوں کی وجہ سے کافر قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ ان کے تمام اعمال مسلمانوں والے ہیں،کیوں کہ اس مبلغ کا بھی کہناتھا کہ ہم اسلام کسی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں، البتہ مسلکی اعتبار سے ہمارا اختلاف ضرور ہے۔اس نے تو یہاں تک کہا کہ ہم حضور اکرمﷺ کا دامن کسی صورت نہیں چھوڑسکتے۔یہ بات عام مسلمانوں کو بہت زیادہ متاثر کرتی تھی، لیکن آگے وہ یہ بھی کہتاتھاکہ مرزا غلام احمد، حضور کریمﷺکے ہی بتائے ہوئے امام مہدی اور مسیح موعود ہیں۔ کوئی اپنے طور پر اُن کا دعویٰ نہیں ہے۔ اس پر عام مسلمان توجہ کم دیتا تھا،حالانکہ اصل نکتہ ہی یہی تھا۔اس کے بعد اُس نے جماعت احمدیہ کی کارکردگی کے بارے میں بھی بتایا کہ یہ کیسے کام کرتی ہے اور کتنے ممالک میں پھیل چکی ہے۔یہاں سے میرے سمیت بعض مسلمانوں کے ایمان میں دراڑ ڈالی گئی، وہاں موجود ایسے قادیانی بھی ملے، جنہیں میں جانتا تھا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ یہ قادیانی ہیں، انہوں نے مجھ سے میرا نمبر لے لیا، اوروہ بعد میں گاہے بگاہے میرا حال احوال پوچھتے رہتے۔پھر وہ لوگ مجھے گھربھی بلانے لگے اور ایک قادیانی نے مجھے گھرکھانے پربلوا کرقادیانی چینل ایم ٹی اے کی نشریات دکھائیں اور کہاکہ دیکھیں ہم کس طرح اسلام کے لیے کام کررہے ہیں،اس کی دنیابھر میں نشریات ہیں ،اس پر کوئی اشتہار نہیں چلتا، یہاں صرف قال اﷲ و قال الرسول اﷲ کی ہی بات ہوتی ہے، ہم پوری دنیامیں اسلام کے غلبے کی کوشش کررہے ہیں۔اسی دوران میں ایک بار پھر ختم نبوت کے دفتر گیااور وہاں علماء سے بات کی، تو انہوں نے مجھے جو جوابات دئیے ،اُن سے وہ مجھے مطمئن نہ کرسکے ، مثلاً انہوں نے بتایا کہ مرزا قادیانی کہتاہے کہ جو مجھے برا بھلا کہے، اور مجھے تسلیم نہ کرے وہ ولد الحرام ہے ، تو میں نے انہیں کہا کہ قادیانی تو کہتے ہیں کہ اﷲ نے قرآن میں حضورکریمﷺکی ذات بابرکات کے حوالے سے بھی وضاحت سے ایسے شخص کے دس عیب گنوا کر آخر میں اسے زنیم کا لفظ استعمال کیاہے ، جو بدنسل اور حرامی کے معنوں میں لیا جاتا ہے ،یعنی آپؐ پر ایمان نہ لانا اور بات ہے لیکن آگے سے بدزبانی کرنے والے کے لیے یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔اگر وہ خود کو امام مہدی کہتا ہے اور خدا نے ہی اسے مبعوث کیاہے تو اس پر سب و شتم کرنے والے کو اور کیا کہیں گے، تو اس پر اُن علامہ صاحب نے مجھے کہا کہ بھائی تم تو قادیانی ہو، تمہارے ساتھ کیا بات کی جائے،چنانچہ وہ مجھ سے ناراض ہوگئے۔چونکہ قرآن کا علم اور تفسیر میں نے بچپن سے ہی اپنے بزرگوں سے سن رکھی تھی اس لیے کچھ باتوں کا خلاصہ میرے ذہن میں تھا، لیکن اب یہاں علماء کا کام تھا کہ وہ میری پختگی سے رہنمائی کرتے ، نہ کہ مجھے قادیانی کہہ کر نفرت کا اظہار کیا جاتا۔دوسری طرف قادیانی ہر معاملے کو نرمی سے سن کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ۔ان علامہ صاحب سے مایوس ہوکر میں نے سوچا کہ یہ جو خود کو مسلمان کہتے ہیں ۔ان کے پاس مطمئن کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ، بس انکا تقاضا ہے کہ جواُن کے پاس آئے، وہ سوال نہ کرے،بس یس سر کرکے چلتا بنے۔
قادیانی مبلغین سے میں جو سوال کرتاوہ اس کی وضاحت کرتے ، دجل وتلبیس سے ہی سہی ،مگرقرآن اور حدیث سے حوالہ جات لے آتے اور یوں میرا دل مطمئن کرتے رہے۔اب میرا دل تسلیم کرنے لگا کہ قادیانی غلط نہیں ہیں، بلکہ غلطی دوسری جانب ہے ۔اِسی دوران ایک قادیانی نے مجھے ربوہ لے جانے کی پیشکش کی کہ بھائی آپ ہمارے بارے میں تحقیق کررہے ہوتو بہترہے کہ ربوہ میں ہمارے دارالضیافت کا دورہ کرو،چنانچہ میں ان کے ساتھ ربوہ گیا، وہاں مہمانوں کو ٹھہرانے کا بہت اعلیٰ بندوبست ہے اور مجھے وہیں ٹھہرایا گیا،وہاں کا ماحول دیکھا ، ان کے مربیوں سے ملا، جامعہ احمدیہ کا دورہ کیا،مختلف جماعتی دفاتر کا دورہ کیا،وہاں فضل عمر ہسپتال دیکھا، اور ان کی عبادت گاہوں میں نماز ادا کی،وہاں جاکر یہ دھوکہ ہوا کہ یہ تواسلام کو پھیلانے کا بہت بڑا کام کررہے ہیں،اصل تبلیغ تو یہی ہے۔ اسلام کا پیغام پوری دنیا میں تو یہی لوگ پھیلا رہے ہیں۔جب کہ ہمارے مسلمان تو ماشا ء اﷲ علمی طورپر بھی ’پورے ،پورے‘ہی ہوتے ہیں،سوالات کے جوابات میں لٹھ مارتے ہیں، کوئی طریقہ سلیقہ ان کے پاس نہیں ہے۔شاید اسلام کا غلبہ اسی جماعت کے ذریعے سے ہی ہونا ہے،چنانچہ وہاں سے واپسی کے بعد 2003-4ء میں دو برس تک میری یہ تحقیق چلتی رہی۔ مکمل اطمینان کے بعد میں نے بیعت کرلی۔ان کی بیعت کا ایک فارم ہوتاہے ، جو پُر کرکے دینا پڑتا ہے ، اس میں دس شرائط ہوتی ہیں ، جن میں زیادہ تر تو وہی ہوتی ہیں جو صوفیائے کرام لیتے ہیں لیکن البتہ ایک شرط مختلف ہوتی ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کو امام مہدی اور مسیح موعود تسلیم کرنا ہوتا ہے۔یعنی وہ زمانہ کا امام اور مسیح موعود ہے ۔اس میں پہلے حضور نبی کریم ﷺکو خاتم النبیین ماننے کااقرار درج ہوتا ہے اور بعد میں مرزا کو اِمام مہدی اور مسیح موعودماننے کا لکھا ہوتاہے۔
اس تحقیق میں میرے ساتھ دو اور ساتھی بھی شامل ہوگئے تھے، میری تحقیق سے متاثر ہوکرانہوں نے بھی تحقیق شروع کی تھی،چونکہ میرا پہلے سے ہی مذہبی رحجان تھا، اس لیے اکثر دوستوں کو میں پہلے ہی دعوت و تبلیغ کرتا رہتا تھا، اب تحقیق کی بھی دعوت دی تھی، وہ بھی میرے ساتھ ربوہ آتے جاتے رہے،چنانچہ ہم تینوں دوستوں نے اکٹھے ہی بیعت کرلی ،چونکہ اب وہ الحمد ﷲ دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے ہیں اس لیے ان کا نام لینا میں عار نہیں سمجھتا، یہ میرے رشتے دار بھی تھے اور ان کے خاندان والوں کو آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ یہ قادیانی ہوگئے تھے۔میں تو اعلانیہ قادیانی ہوچکا تھالیکن وہ پوشیدہ رہے، اس لیے نام آپ کو تو بتادیتا ہوں لیکن مناسب ہو تواُن کا نام مت لکھئے گا ۔میرے ساتھ بعدمیں خاندان والوں نے بہت ناروا سلوک کیا لیکن ایسے سلوک سے وہ بچ گئے ۔میرے ساتھ زبردست قسم کا بائیکاٹ کیا گیا اور ڈٹ کر مخالفت ہوئی، خاندان بھر نے بائیکاٹ کردیا، میرے بھائیوں کی طرف سے سخت ترین ردعمل سامنے آیا۔میں مشترکہ خاندانی نظام کا حصہ تھا، وہاں میرا رہنا ممکن نہ رہا،چنانچہ مجھے وہاں سے کرائے کے مکان میں آنا پڑا، والد صاحب اس وقت بہت زیادہ بیمار تھے، وہ کوئی بات کرنے سے قاصر تھے،والدہ بھی نفسیاتی عارضے میں مبتلا تھی، صرف بھائی تھے جو میرے مدمقابل تھے،دوست احباب ، محلے دار وغیرہ سب جنہیں معلوم ہوتا گیا، انہوں نے ملنا جلنا ختم کردیا، بعض قریبی دوستوں نے فون پرمجھے بہت زیادہ برابھلا کہا،دوران تحقیق میری شادی خاندان میں طے ہوچکی تھی ، اور شادی ہوچکی تھی، بیعت البتہ شادی کے بعد کی تھی،پہلے تو میری بیوی کو میرے سسرالی لے گئے تھے، لیکن اس خدا کی بندی نے میرا ہر موقع پر ساتھ دیا اور وہ میرے ساتھ ہی بیعت ہوچکی تھی، بعد میں میرے بچے ہوئے جو کہ پیدائشی احمدی تھے،کیوں کہ بیوی کو میں جمعہ کے روز بیت الذکر لے جاتا تھا، جہاں خواتین کے لیے خاص اہتمام ہوتاہے۔بعد میں اسے ربوہ بھی لے کر گیا اور تمام انتظام دکھایا،میری چونکہ شادی برادری میں ہوئی تھی اس لیے کسی کو احساس نہ ہوا کہ میں بیوی کو کہاں لے جارہاہوں۔اب میری زندگی بالکل مختلف ڈگر پر چل نکلی تھی،آگے چل کر قادیانیوں نے مجھے ایسی ذمہ داریاں سونپ دیں جو میں سوچ بھی نہ سکتا تھا۔
جب میں نے قادیانیت قبول کی تو مجھے ایک لحاظ سے عاق کردیا گیا اور خاندان بھر نے میرا بائیکاٹ کردیا تھا، اب میں بالکل تنہا تھا،جب میرے لیے مشکلات میں اضافہ ہوا تو مجھے انجمن احمدیہ کی جانب سے کہا گیا کہ آپ احتیاط کریں او رآپ چاہیں تو آپ کو یہاں سے شفٹ کرکے ربوہ بھجوا دیتے ہیں، لیکن میں نے انہیں کہا کہ نہیں جو لوگ بھٹکے ہوئے ہیں، انہیں بھی تو سیدھا راستہ دکھانا ہے ، مجھے زیادہ سے زیادہ مار دیا جائے گا ،تو میں اﷲ کی راہ میں شہید کہلاؤں گا،انہیں بھی تو مسیح موعود کے بارے بتانا ضروری ہے، چنانچہ میں نے ملتان میں ہی رہ کر تبلیغ کا کام شروع کردیا، جب قادیانیوں نے دیکھا کہ یہ بہت نڈر انسان ہے اور احمدیت کے پھندے میں مکمل طور پر پھنس چکا ہے تو پھر ربوہ سے جماعت نے مجھے اہم ذمہ داریاں دینے کی ٹھان لی۔ قادیانی جماعت میں عمر کے لحاظ سے تقسیم موجود ہے ، میں اپنی عمر کے لحاظ سے خدام الاحمدیہ کا ممبر تھا، کیوں کہ پندرہ سے چالیس برس کا ہر احمدی خدام الاحمدیہ کا ممبر ہوتا ہے ، جب کہ سات برس سے پندرہ برس کا ہر قادیانی اطفال الاحمدیہ کا ممبر ہوتاہے،چالیس برس سے لے کروفات تک ہر قادیانی انصاراﷲ کا ممبر تصورکیا جاتاہے،اسی طرح خواتین سات سے پندرہ سال تک ناصرات الاحمدیہ اور پندرہ سے وفات تک لجنہ اماء اﷲ،کہلاتی ہیں ، لجنہ کا مطلب لونڈی ہے ،اسی طرح حلقے کے سطح سے لے کر ملکی سطح پر نگران موجود ہیں، جو اُن کی تعلیم و تربیت سے لے کر جماعتی ذمہ داریوں اور معاملات کو دیکھتے ہیں، ان کے عہدے داران کی تقسیم ووٹنگ کے ذریعے ہوتی ہے ۔
میں ایک سال خادم رہا ، اور ایک برس کے دوران ہی مجھے ناظم اصلاح واشاعت بنایا گیا اور چھ ماہ کے اندر اندر مجھے ناظم تعلیم وتربیت بنا دیا گیا،اتنے مختصر عرصے میں پیدائشی احمدی نہ ہونے کے باوجود مجھے یہ ذمہ داری سونپ دینا ،فقط اس وجہ سے تھا کہ میرے اندرانہوں نے احمدیت کی تبلیغ کا جذبہ دیکھ لیا تھا، اور میں نڈرہوکر قادیانیت کی تبلیغ میں مگن ہوگیا تھا۔ملتان میں پانچ بیت الذکر تھے، ہمیں جو نزدیک پڑتا، ہم وہاں جاکر نماز ادا کرتے تھے،ایک مرکز جو سب سے پرانا تھا، اسی دوران قادیانی برادران میں تقسیم کے تنازعے کی وجہ سے بک گیا تھا، جسے بعد میں گرا کر جگہ برابر کردی گئی تھی۔یہ سب سے پرانا اور بڑا بیت الذکر تھا، یہ بڑے زمیندار تھے اور قادیانی تھے، جو خودبھی ساتھ ہی رہتے تھے، اس بیت الذکر کے اندر سرونٹ کوارٹرتک بنے ہوئے تھے۔
میری ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن نبھاتے ہوئے دیکھ کر ملتان کے حلقہ صدر نے اپنی مجلس عاملہ میں بھی شامل کرلیا اورسیکرٹری تعلیم قرآن مقرر ہوگیا۔ملتان شہر کو حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، ہر حلقے کا ایک صدرہوتا ہے جب کہ ضلع کا امیر ایک ہی شخص ہوتاہے ۔اب میں قائد مجلس کی عاملہ کا ممبر بھی تھا اور صدر کی مجلس عاملہ کا بھی ممبر بن گیا تھا۔قائد مجلس خدام الااحمدیہ کا سربراہ ہوتاہے جب کہ صدر تمام تینوں شعبوں کا ذمہ دار کہلاتا ہے۔قائد مجلس کی دو ذمہ داریاں ایسی تھیں، جن کی مرکز سے میرے لیے باقاعدہ منظور ی لی گئی تھی۔یعنی اصلاح و اشاعت اور ناظم تعلیم و تربیت کی ربوہ سے منظوری ہوتی ہے۔اس کے بعد قائد مجلس نے اپنے طور پر ایک اور ذمہ داری بھی مجھے دے دی ۔وہ یہ کہ رسید بک مجھے پکڑا دی اور کہا کہ اور کوئی ساتھی ہے نہیں، آپ ناظم مال کے طور پر بھی کام کریں گے۔اس نے کہاکہ چونکہ آپ میں صلاحیتیں بہت ہیں، اس لیے جماعتی فنڈز آپ ہی اکٹھا کریں گے۔یہ تمام ذمہ داریاں بلامعاوضہ مذہبی کام کے طورپر مجھے دے دی گئی تھیں،اس کے ساتھ دعوت کا کام بھی تھا، اس دوران بارہ چودہ افراد کو میں نے دعوت دی اور ربوہ کا دورہ کرایا،ربوہ میں جن لوگوں کو زیر تبلیغ رکھ کر ربوہ لایا جاتاہے ، ان کے اخراجات جماعت احمدیہ برداشت کرتی ہے۔یعنی کوئی مہمان اگر ربوہ لے کر جانا ہے تواُس کا خرچ حلقے کا مقامی ناظم اصلاح و اشاعت جماعت کے فنڈز سے دیتا ہے ۔اس کے پاس چونکہ مرکزی جماعت کا فنڈ ہوتا ہے اس لیے وہی ذمہ دارہوتاہے، لیکن اکثر قادیانی افراد جن کے پاس گاڑیاں ہوتی تھیں، وہ ہمیں اپنے ساتھ گاڑی میں ہی ربوہ لاتے اور لے جاتے تھے۔میں نے چھ افراد کواِسی دوران دعوت دے کر اور ربوہ لے جاکرباقاعدہ قادیانی کرا دیا، میری وجہ سے جو لوگ قادیانی ہوئے تھے۔الحمدﷲ ان تمام پر بعد میں محنت کرکے انہیں دوبارہ مسلمان بھی کیا۔
2009 ء میں مجھے ہندوستان کے شہر قادیان سالانہ جلسہ میں لے جایا گیا،یہ دسمبرمیں آخری عشرے کے آخری تین چار روز منعقد ہوتا ہے ،مجھے تنظیم نے وہاں بھجوایا،وہاں ہم سترہ ،اٹھارہ روز رہے ۔وہاں مرز اقادیانی کا گھر محفوظ کیاگیاہے، اس کی’’ زیارت‘‘ کرائی گئی۔اس کی ہر چیز کو بہت احتیاط سے محفوظ کیا گیاہے ،پورے گھر کی ’’زیارت‘‘ کرائی جاتی ہے، اس کے رہنے کا کمرہ،صحن،برآمدے وغیرہ ہر چیز کو رینی ویٹ کرکے محفوظ کیاگیا ہے ، وہاں مرزاقادیانی کا بیت الدعابھی موجود ہے جہاں وہ عبادت کیا کرتا تھا، وہاں بہت لمبی لمبی لائنیں لگی ہوتی ہیں۔وہاں صرف دونوافل ادا کرائے جاتے ہیں ،کیوں کہ رش بہت ہوتاہے۔ربوہ کی طرح وہاں بھی بہشتی مقبرہ موجودہے جو مرزا نے اپنی زندگی میں ہی بنایا تھا،وہیں پر مرزا غلام احمد قادیانی کی قبر بھی ہے ، جہاں لوگ روزانہ فاتحہ پڑھنے کے لیے جاتے ہیں۔ وہیں پر اس کا پہلا خلیفہ حکیم نورالدین بھی دفن ہے۔لیکن وہاں جو بات ہر شخص نے مجھ سمیت محسوس کی ،وہ یہ ہے کہ قادیان کو ربوہ کی نسبت بہت کمزور پایا،وہاں ربوہ کی طرح رونق نہیں ہے اور نہ ربوہ جیسی اعلیٰ اورشاندار بلڈنگیں ہیں۔ صرف ایک بلڈنگ ہے جو طاہر منزل کہلاتی ہے، وہی بلڈنگ بہتر تھی، جہاں ہم ٹھہرے تھے، جامعہ احمدیہ کی بلڈنگ بھی بہت پرانی تھی، تعلیم الاسلام نامی سکول بھی تھا،کالج بھی تھا، لیکن وہ سب ربوہ سے بہت کم تر سطح پر تھے،میں نے کچھ لوگوں سے پوچھا بھی کہ قادیان جو مرکز ہے ۔وہ تو ربوہ کی نسبت بہت ماٹھا رہ گیا ہے ، تو انہوں نے بتایا کہ چونکہ تقسیم کے بعد’’ خلافت‘‘ پاکستان چلی گئی تھی، اس لیے ادھرتوجہ نہ دی گئی ،لیکن اب خلیفہ خامس مرزا مسرور نے وہاں توجہ کی ہے اور نئی تعمیرات ہو رہی ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کا امام زمانہ اور مسیح موعود جہاں دفن ہے۔ اسے سال میں ایک مرتبہ ہی پوچھا جاتاہے جب کہ سب انتظام خلیفۂ وقت کے پاس ہوتاہے اور وہی سب کچھ ہوتاہے ۔ مرزا کا صرف نام استعمال ہورہا ہے ، وہ چاہے ربوہ ہو، یا برطانیہ کا مرکز ، اصل طاقت خلیفہ وقت کے پاس ہوتی ہے۔ہندوستا ن میں ہمیں کوئی بھی ایسا شخص نہ ملا جو مقامی ہو ،اور اپنا مذہب چھوڑ کر قادیانی ہوا ہو، یہ بڑی حیران کن بات تھی، یعنی جماعت احمدیہ کی تبلیغ کا زور صرف پاکستان اور دیگر ممالک تک ہی محدود تھا، اور دیگر ممالک بھی ایسے کہ جہاں زیادہ تر پاکستانی موجود ہیں، اس سالانہ جلسے پر ہم نے کوئی گورا قادیانی بھی نہیں دیکھا ، سب کے سب زیادہ تر مقامی پیدائشی قادیانی ،یا پھر پاکستانی قادیانی ہی تھے، اس بات نے بہت حیران کیا ،حالانکہ سیکولر اِنڈیا میں ان کی تبلیغ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
وہاں سے واپس آکر مجھے احساس ہواکہ اب مجھے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے ، چنانچہ میں نے 23جلدوں پر مشتمل اس کا مجموعۂ کتب’’ روحانی خزائن‘‘ خریدا۔ جس میں مرزا غلام احمد کے 83یا 84کے قریب مختلف کتابچے شامل ہیں۔اسے میں نے ترتیب سے پڑھنا شروع کیا، اس میں بہت ساری باتیں ایسی آئیں جو وضاحت طلب تھیں، میں مربیان سے پوچھتارہا،لیکن وہ میری تسلی نہ کرا سکے۔مرزاقادیانی کا انداز تحریربھی مجھے بہت عجیب لگا، وہ بہت تھرڈکلاس تھا، چونکہ میں نے بعض مصنفین کی کتب پڑھ رکھی تھی، مجھے تصنیف ، اور الہٰامی کتب کا فرق بھی معلوم تھا، ’’روحانی خزائن‘‘ نہ تصنیف محسوس ہوئی اورنہ الہٰام۔میں نے مربیوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ تصنیفات ہیں، ان کتب کے اوپر بھی تصنیفات ہی درج ہے لیکن ان میں الہٰام بھی شامل ہیں، جن کی باقاعدہ’’ روحانی خزائن‘‘ میں نشان دہی کی گئی ہے۔ویسے بھی الہٰام کی کتاب’’ تذکرہ‘‘ الگ سے قادیانی جماعت نے شائع کردی ہے۔’’روحانی خزائن‘‘ میں کئی جگہوں پر تضاد پایا، جس نے مجھے بہت الجھادیاکہ مرزاقادیانی ایک جگہ ایک بات کو دلائل سے پیش کررہا ہے تو دوسری جگہ اسی بات کو دلائل سے رد بھی کررہا ہے۔میں اس بارے میں جس مربی سے بھی پوچھتا کہ وہ اس حوالے سے مجھے تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔اب میں نے بیک وقت کئی محاذکھول لیے تھے، ایک طرف مجھ پر جماعت کی ذمہ داریاں بھی تھی،اور دوسری جانب میرے اندرتحقیق کی حس جسے میں نے تھپک کر سلا دیاتھا اور میں مطمئن ہوچکا تھا کہ اب میں حقیقت تک پہنچ چکا ہوں،اس نے ایک مرتبہ پھر کروٹ بدلی تھی۔اس سے پہلے کہ میں یہ بیان کروں کہ’’ روحانی خزائن‘‘ پڑھنے کے بعد میں کس طرح بددل ہوا ،اور کیسے ایک ایسے فقیر منش انسان سے ملا کہ جس نے میری تحقیق کو درست سمت عطا کرکے مجھے کھلا چھوڑ دیا کہ فیصلہ اب خود کرو کہ کون سچاہے اور کون جھوٹا۔ اگر پھر بھی مرزا غلام احمد قادیانی تمہیں سچا لگے تو اسی کام پر لگے رہو، اس نے کسی موقع پر میری تضحیک نہ کی اور نہ ہی مجھ پر سختی کی ،حالانکہ میں انہیں احمدیت کی تبلیغ کرنے جاتا تھا۔ پہلے میں تھوڑا سا جماعت احمدیہ کے چندے کے بارے بتاؤں کہ کس طرح ہراحمدی چندہ دینے کا پابند ہے ، بصورت دیگر کمیونٹی میں اس کا جینا محال ہوجاتا ہے۔ (جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.