تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

امیر شریعت کانفرنس کی صدائے باز گشت

عبداللطیف خالد چیمہ

تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت مارچ1953 ء میں دس ہزار نفوس قدسیہ منصب رسالت (ﷺ) پر قربان ہوگئے ،لاہور کے مال روڈ کو شہیدوں کے خون نے ترکردیا ، لاشوں کوراوی میں بہایا گیا یا پھر چھانگا مانگا میں جلایا گیا ،بالآخر لاہوری وقادیانی مرزائی اسمبلی کے فلور پر غیر مسلم اقلیت قرار پائے ،اس مہینے میں ہم ہرسال شہداء 53 ء کو بطور خاص یاد کرتے ہیں ،لیکن اس مرتبہ 9 ؍مارچ ،جمعۃ المبارک کو بعد نمازِ مغرب ایوان اقبال لاہور میں ’’امیر شریعت کانفرنس‘‘ کے انعقاد کا اعلان آپ بار بار پڑھ چکے ہیں ،امیر شریعت ، احرار اور تحفظ ختم نبوت دراصل ایک ہی کام کے مختلف نام ہیں ،حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی مستعار زندگی ،قرآن سے محبت ،انگریز سے نفرت اور عقیدہ ٔ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے وقف کر رکھی تھی، اپنی بہترین خداداد صلاحیتوں سے انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں سے برٹش ایمپلائرکا خوف نکال باہر کیا،پاکستان بن جانے کے بعد انہوں نے انتخابی سیاست سے علیحدگی اختیار کی اور دفاع پاکستان کے نام سے فقید المثال اجتماع کیا،جس میں فرمایا کہ ’’اب ہماری توانائیاں اسلام ،پاکستان اور عقیدہ ٔ ختم نبوت کے لئے وقف رہیں گی ،ہم نیکی کے ہرکام میں حکومت سے تعاون اور برائی کے ہرکام میں مخالفت کریں گے ‘‘۔
مارچ 1953 ء میں تحریک ختم نبوت کی پاداش میں احرار کو خلاف قانون قرار دیا گیا ،دفاتر سیل اور رہنما جیلوں میں !لیکن ایک لمحے کے لئے بھی احرار اپنے مؤ قف سے پیچھے نہ ہٹے ،1958 ء میں احرار سے پابندی اٹھی تو حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے سرخ قمیض پہن کر، احرار کا بیج سجا کر، کلہاڑی ہاتھ میں پکڑ کر، ملتان میں بحالیٔ احرار کا اعلان فرمایا ،کچھ بزرگوں اور دوستوں کو یہ اچھا نہ لگا اور کچھ کے دلوں میں گھر کرگیا ،شیخ حسام الدین ،ماسٹر تاج الدین انصاری ،مولانا عبید اﷲ احرار ،سید ابوذر بخاری ،چودھری ثناء اﷲ بھٹہ ،ملک عبدالغفور انوری ،مرزا محمد حسن چغتائی ،سید عطاء المحسن بخاری ،حافظ محمد اکبر ،قاری عبدالحی عابد ،پیر جی عبدالعلیم رائے پوری ،پروفیسر خالد شبیر احمد اور دیگر بزرگوں نے ملک بھر میں احیاء احرار کے سلسلہ میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ،اس قافلۂ سخت جاں نے اپنوں اور بیگانوں، سبھی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ،اور یوں محسو س ہونے لگا کہ ؂
ہیں احرار پھر تیز گام اﷲ اﷲ
ہوئی تیغ حق بے نیام اﷲ اﷲ
فرزندان امیر شریعت حضرت مولاناسید عطاء المومن بخاری مدظلہ العالی اور حضرت پیر جی سید عطاء لمہیمن بخاری مدظلہ العالی نے اپنی تمام تر توانائیاں جماعت کے استحکام کے لئے وقف کررکھی ہیں ،اس دوران بہت سے خطرناک نشیب وفراز بھی آئے ،دشمن کے دل میں توہم کھٹکتے ہی تھے پر ’’اپنوں‘‘ نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور اس زُعم میں مبتلاء ہوگئے ،کہ ’’احرار ‘‘ تو ختم ہوگئی ہے ۔
کھٹکتا ہوں میں دل شیطاں میں کانٹے کی طرح
شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ کی کرامت ہے کہ الحمد اﷲ ! احرار نئی صف بندی کرکے پھر سے اپنی ہمت کے مطابق میدان میں ہیں ،احرار ،شاہ جی کی جماعت ہے ،انہوں نے اپنے رفقاء کے ساتھ اس کوخون جگر دیا ،شہدأ ختم نبوت کا مقدس خون ہمارا اثاثہ ہے ،ہمیں ختم کرنے والوں کی خوش فہمی ختم ہوجانی چاہیے ،پوری دنیا میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد احرار کا صدقہ جاریہ ہے ،ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والے تمام کے تمام ،ہمارے اپنے ہیں ،ہمیں ان سے کوئی جدا نہیں کر سکتا، 9 ؍مارچ 2018 ء کو ایوان اقبال لاہور میں’’امیر شریعت کانفرنس ‘‘ دراصل شاہ جی کے کردار کو زندہ کرنے کی سعی کا حصہ ہے ،اور اس کانفرنس کے بعد احرار ان شاء اﷲ تعالیٰ نئے جذبے سے آگے بڑھتے نظر آئیں گے ،امیر شریعت کانفرنس کے منتظم جناب میاں محمد اویس اپنے معاونین قاری محمد یوسف احرار ،قاری محمد قاسم اور دیگر ذمہ داران پر مشتمل کمیٹیوں کی مسلسل نگرانی کررہے ہیں ،ڈاکٹر محمد عمر فاروق احرار ،مولانا تنویر الحسن احرار ،ڈاکٹر محمد آصف ملک گیر مہم چلا رہے ہیں ،مولانا محمد سرفراز معاویہ لاہور میں مساجد ومدارس کے روزانہ کی بنیاد پر دورے کر رہے ہیں ،محمد قاسم چیمہ کی سربراہی میں اظہر حسین وینس ،حافظ محمد سلیم شاہ اور مولانا عتیق الرحمن علوی پر مشتمل سوشل میڈیا ٹیم دن رات اپنا کام کررہی ہے، برادرم سید محمد کفیل بخاری مسلسل دوروں پر ہیں ،جناب سید محمد کفیل بخاری اور راقم الحروف کانفرنس سے کئی روز پہلے لاہور قیام کریں گے ،اور انتظامات کی براہ راست دیکھ بھال کی جائے گی ،4 ۔مارچ کو مرکزی دفتر نیو مسلم ٹاؤن لاہور میں’’ شہدأ ختم نبوت کانفرنس‘‘کا انعقاد حسب ِ سابق ہوگا ،اور شہدأ ختم نبوت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں اجتماعات ہونگے ،یاد رہے کہ مارچ 1953 ء میں چلنے مقدس تحریک ختم نبوت میں 5_6 مارچ کو سب سے زیادہ گولی چلی ،اور بے شمار شہادتیں ہوئی ،جن کو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا ،یہ انہی شہد أ کے مقدس خون کا صدقہ ہے کہ آج قادیانی غیر مسلم اقلیت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ۔
9؍مارچ جمعۃالمبارک کو بعد نمازِ مغرب ایوان اقبال لاہور میں ’’امیر شریعت کانفرنس‘‘ ، 10 ؍ مارچ ،ہفتہ کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام بادشاہی مسجد لاہورمیں عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس اور پھر 11 ؍ مارچ اتوار کو انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیر اہتمام ایوان اقبال لاہور میں ہی ختم نبوت کانفرنس ،دراصل کانفرنسوں کا خوب صورت’’ سہ روزہ‘‘ بن گیا ہے ،ان تینوں اجتماعات میں شاہ جی کا تذکرہ ہوگا اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی بات کی جائے گی ،تمام مکاتب فکر کی قیادت کا خوب صورت گلدستہ ہوگا ،جوشاہ جی کی بصیرت کی عکاسی کرے گا اور فتنہ ٔ ارتداد مرزائیہ کے تار پور بکھیر کر رکھ دے گا، اﷲ تعالیٰ نظر بد سے محفوظ رکھیں اور ہم سب کو مل جل کر شاہ جی کی جماعت، احرار کے چراغ مصطفویﷺ کو جلائے رکھنے کی توفیق سے نوازیں ،امین،یا رب العالمین!
قانون توہین رسالت ،مسلسل عالمی ایجنڈے کی زد میں !
آئین کی اسلامی دفعات خصوصاََ قانون توہین رسالت اور قانون تحفظ ختم نبوت مسلسل عالمی کفریہ ایجنڈے کی زد میں ہیں اور یہ سب کچھ انسانی حقوق کے تحفظ اور قوانین کی اصلاح کے نام پر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ،9 _ فروری 2018 ء کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہیومن رائٹس میں توہین رسالت سے متعلق مجوزہ ترمیمی بل کا مسودہ پیش کرنے پر حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام کے سنیٹر مفتی عبدالستار (مستونگ، بلوچستان) نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہاکہ :۔’’ توہین رسالت کا مرتکب واجب القتل ہے،اِسے تبدیل کرنے کا قانون قبول نہیں کریں گے،وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کی طرح مزید بحران پیدا ہوگا،توہین رسالت قانون میں تبدیلی کی گئی تو کوئی نہیں بچے گا،کمیٹی نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کا بل 2017 ء اتفاق رائے سے منظور کرلیا ،کمیٹی کی چئیر پرسن نسرین جلیل نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش پر توہین رسالت ترمیمی بل کو ملتوی کردیا ،سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہیومن رائٹس کا اہم اجلاس پارلیمنٹ ہاؤ س میں ہوا ،جس کی صدارت سنیٹر نسرین جلیل نے کی ،اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے سنیٹر مفتی عبدالستار نے ابتدا میں ہی احتجاج شروع کردیا ،انہوں نے توہین رسالت کے ترمیمی بل کا مسودہ اجلاس میں شامل کرنے پر سخت تنقید کی ،پی پی پی کی سنیٹر سحر کامران خان نے مفتی عبدالستار سے سوال کیا کہ پشاور میں مشال خان قتل کیس کی آپ کیا تشریح کرتے ہیں ،تو مولانا نے کہا کہ 2 گواہوں کے بیانات کے بعد توہین رسالت کا مرتکب شخص واجب القتل ہے ،1973 ء کے آئین نے توہین رسالت کے مرتکب شخص کی سزا بیان کردی ہے ،یہ مرزائیوں کی سازش ہے ،حکمران اﷲ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں ،قانون میں تبدیلی تو درکنار اس کا سوچا بھی گیا تو کروڑوں عوام سڑکوں پر آجائیں گے ،ملکی نظام جام ہوجائے گا ،دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ،حکمران سازش کررہے ہیں کہ واجب القتل شخص کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کیا جائے ،مگر ایسا نہیں ہونے دیں گے ،جانوں کا نذرانہ پیش کریں گے ،مولانا عبدالستار نے سخت لہجے میں تقریر شروع کردی اور اجلاس کے بائیکاٹ کی دھمکی دی تو اجلاس کے شرکاء اور چئیر پرسن نسرین جلیل اپنی نشست پر کھڑی ہوگئیں اور کہا کہ ہم اس ایجنڈے کو مؤ خر کرنے پر تیا رہیں ،اس کو ایجنڈے میں شامل نہیں کریں گے ،جس پر مولانا اپنی نشست پر بیٹھ گئے ،اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیر مین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے تجویز پیش کی کہ اس معاملے کو اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد کیا جائے ،تاہم اس معاملے کو موخر کردیا گیا ، …… کمیٹی کی چئیر پرسن نسرین جلیل نے کہا کہ توہین رسالت قانون کی آڑ میں ذاتی دشمنیاں نکالی جاتیں ہیں ،ہم اس قانون میں ترمیم نہیں کررہے صرف اس پر بحث ہورہی ہے ،توہین عدالت کے غلط استعمال پر وہی سزا دی جائے جو توہین عدالت پر سزا ہے ،جس پر مولانا عبدالستار نے کہا کہ حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہیں لیے ،زاہد حامد کے استعفے سے انہیں سمجھ آجانی چاہیے کہ یہ ملک نبی (ﷺ) کے چاہنے والوں کا ہے اور ہم اس قانون میں ترمیم برداشت نہیں کریں گے ،کسی بھی اقدام کے خلاف سخت ایکشن ہوگا جس کے بعد اجلاس ملتوی کردیا گیا ‘‘۔
(روزنامہ اسلام لاہور، ہفتہ ،10 فروری 2018ء)
آزاد کشمیر اسمبلی کا فیصلہ !
آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے 6 ؍ فروری 2018 ء کو ایک بل متفقہ طور پر منظور کرلیا جس کے مطابق آزاد کشمیر میں پاکستان کی ہی طرز پر لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے ،اس پر پوری اسمبلی ،حکومت ،اپوزیشن ،سبھی مبارک باد کے مستحق ہیں اور اس کے لئے تحریک تحفظ ختم نبوت آزاد کشمیر کے امیر جناب قاری عبدالوحید قاسمی ،نائب امیر مولانا شبیر احمد کشمیر ی،حافظ مقصود احمد کشمیری اور ان کے رفقاء جنہوں نے جہد مسلسل کے ساتھ اس محنت کو جاری رکھا اور مقتدر قوتوں کو باور کرایا کہ 29؍ اپریل 1973 ء کو مجاہد اول سردار محمدعبدالقیوم خاں مرحوم کے دورِ اقتدار میں میجر محمد ایوب مرحوم نے جو قرار داد اقلیت پیش کی تھی وہ کئی نشیب وفراز سے گزر کر بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی ،ہمیں یاد ہے کہ 29 ؍اپریل 1973 ء کو آزاد کشمیر اسمبلی میں قرار داد کی منظوری کے بعد مجلس احرار اسلام نے پنجاب کے کئی شہروں میں اجتماعات کئے ،ملتان قلعہ کہنہ قاسم باغ میں خیر مقدمی جلسہ کے لیے رکشے پر اعلان ہمارے پرانے رفیق جناب رانا گل ناصر ندیم اور راقم نے کیا جبکہ عین جلسے کے وقت نہ صرف جلسے پر پابندی لگادی گئی بلکہ پہلے پہل پہنچنے والے منتظمین اجتماع اور شرکاء پر پولیس نے تشدد بھی کیا ،لاہور میں بھی جلسے کی اجازت نہ ملی ،ہم نے مرکز اور چیچہ وطنی سے آزاد کشمیر حکومت کے تاریخی فیصلے پر 20×30 فل سائز کے اشتہار بھی چھاپے ،قائد احرار سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اور رانا گل ناصر ندیم نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا اور کئی روز تک مظفر آباد میں قیام کیا ۔
29 ؍اپریل 1973 ء سے لے کر 6 ؍فروری 2018 ء تک 45 سال میں یہ آئینی وقانونی مرحلہ کیسے طے ہوا ،اسی بابت جناب حافظ مقصود احمد کشمیری کی رپورٹ قسط وار شامل اشاعت ہے ،ہم نے اس فیصلے کے بعد وزیر اعظم آزاد کشمیر جناب راجہ فاروق حیدر خاں ،قرار داد کے محرک راجہ محمد صدیق خاں اور پیر علی رضا بخاری کو مبارک باد کے پیغامات ارسال کیے ،ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے سے تحریک ختم نبوت کی پر امن آئینی جدوجہد آگے بڑھی ہے اور عالمی سطح پر اس مقدس کام کو جلا ملی ہے ،متحدہ تحریک رابطہ کمیٹی کی اپیل پر آزاد کشمیر اسمبلی میں اس بل کی متفقہ منظوری پرملک بھر میں یوم تشکر منایا گیا ،اور تمام مکاتب فکر کے قائدین ،رہنماؤں ،علماء کرام اور ائمہ مساجد نے اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔
عاصمہ جہانگیر کے نام پر لاء کالج !
عاصمہ جہانگیر کا انتقال ہوا تو انسانیت کے حوالے سے اس کی خدمات کا تذکرہ بھی ہوا ،بلاشبہ وہ اپنے عزم کی پکی ،نڈر اور بیباک شخصیت کی حامل تھیں ! لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ قادیانی کی بیوی اور قادیانیوں کی بہو تھیں ،عمر بھر دین ،وطن ،اسلامی سزاؤں ،اسلامی شعائر کا مذاق اڑا کر خوش ہوتی تھیں ،انڈیا نے ایٹمی دھماکہ کیا تو ان کو کچھ نہ ہوا ،پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو خفاہوگئیں ،لڑکیوں کو پسند کی شادی کے نام پہ گھروں سے بھاگنے اور والدین کی عزت وآبرو تار تار ہوتے دیکھتیں تو اس کو ’’آزادی ‘‘ سے تعبیر کرتیں ،نمازِ جنازہ کے لئے بھی فاروق حیدر مودودی کے سوا کوئی نہ ملا ،نمازِ جنازہ میں بے پردہ خواتین جس کھلے انداز کے ساتھ شریک ہوئیں ،یہ انہیں کا خاصہ تھا ،اب پنجاب اسمبلی میں ن لیگی رکن اسمبلی حنا پرویز بٹ نے یہ قرارداد پیش کی کہ پنجاب یونیورسٹی کے لاء کالج کو عاصمہ جہانگیر کے نام سے منسوب کیا جائے ،ن لیگ کی اس جرأ ت رندانہ پر ہمیں ذرا برابر حیرت نہیں ہوئی ،اس لئے کہ مسلم لیگ کی تاریخ ایسے اقدامات سے بھری پڑی ہے ،مگر ان سطور کے ذریعہ ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ کچھ تو خدا کا خوف کریں ،کیا وزارت عظمیٰ کے لئے نااہل ہونے کے بعد پارٹی کی نااہلی کافی نہیں !
راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ
انتخابی حلف نامے سے عقیدہ ٔ ختم نبوت والی عبارت حذف ہونے کے بعد بحال ہوگئی ،اس دوران حالات زیر وزبر بھی ہوتے رہے ،حکومت راجہ ظفر الحق تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر نہ لانے کے لئے بضد رہی ،آخر کار اسلام آباد ہائی کورٹ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما مولانا اﷲ وسایا نے جودرخواست گزاری تھی ،اسی کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ختم نبوت کیس میں وزیراعظم کو طلب کرنے کی بات کی توحکومت نے سر بمہر رپورٹ حوالۂ عدالت کی ،اس درخواست کی سماعت جاری ہے اور رپورٹ کو بعد میں کھولا جائے گا ،تفصیل ملاحظہ فرمائیں:۔
’’اسلام آباد(آن لائن ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کے معاملے پر 4 معاونین مقرر کرلیے ،گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کیس کی سماعت کی ،دوران سماعت درخواست گزار مولانا اﷲ وسایا کے وکیل نے دلائل کے لیے مہلت طلب کی ،عدالت کی معاونت کے لیے 4 معاونین نامزد کیے گئے ،جن میں ڈاکٹر محسن نقوی ،صاحبزادہ ساجد الرحمن ،مفتی حسین بنوری اور ڈاکٹر حسن مدنی شامل ہیں ،عدالت کی جانب سے چاروں معاونین کو درخواست کی کاپی اور متعلقہ دستاویزات فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ،درخواست گزار کو کل دلائل پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے ،عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی ‘‘ ۔ (روزنامہ اسلام لاہور ، جمعرات ،22 فروری 2018 ء)
جب کہ26 ۔ فروری کو اس کیس کی سماعت کے ضمن میں جو کاروائی ہوئی وہ درج ذیل ہے:۔
اسلا م آباد (آئن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ختم نبوت کے حوالے سے عدالتی معاون سے استفسار کیا،غیر مسلم کا کب سے حرمین شریفین میں داخلہ بند کر دیا گیا ہے، جس پر عدالتی معاون نے بتایا کہ فتح مکہ کے بعد غیر مسلم کا حرمین شریفین میں داخلہ بند کردیا گیا تھا، قادیانی مسلمان ہیں نہ عیسائی،قادیانی مسلمانیت کی کچھ چیزوں کولیتے ہیں اور کچھ چیزوں کو منہا کردیتے ہیں اور قادیانی اپنی کتابوں میں مسلمانوں کو گالیاں دیتے ہیں ،پیر کے روز ختم نبوت ایکٹ ترمیم کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل سنگل بینچ نے کی، دوران سماعت عدالت نے 10205 افراد جو مسلمانیت اور قادیانی مذہب میں منتقل ہوئے ان کی جامع رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت نماز ظہر کے وقفے تک کے لیے ملتوی کردی ،بعد ازاں جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو فاضل جج نے ریمارکس دئیے کہ علماء کرام کو آئین پاکستان کے مطابق نظام چلانے کا مطالبہ کرنا چاہیے، اسلامی ریاست کا فلاحی ہونا ضروری ہے، 1974 ء کی ترمیم کے مطابق قانون سازی نہیں ہوسکی ،جس پر عدالتی معان حسن مدنی کا کہنا تھا ،قوانین بنائے گئے ،لیکن ان کا نفاذ نہیں ہو ا،مذہبی بنیاد پر دھوکہ دہی 420 سے زیادہ سنگین جرم ہونا چاہیے ،جس پر شوکت عزیز صدیقی نے دوبارہ ریمارکس دئیے ،اس کے متعلق جتنا بھی مواد ملا اس کو دیکھیں گے کسی کے دل میں نہیں جھانک سکتے ،بعد ازاں عدالت نے پروفیسر حسن مدنی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالتی معاونت کے لئے مولانا اﷲ وسایا کو بطور عدالتی معاون پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 27؍فروری تک کے لیے ملتوی کردی گئی ‘‘۔
( روزنامہ پاکستان لاہور،27۔ فروری 2018 ء)
چیئرمین سینٹ اور ختم نبوت والا حلف نامہ !
وطن عزیز میں سول اور فوج میں اہم عہد وں پر اسلام ووطن دشمن عناصر کا براجمان ہونا یقینا بڑا خطرہ ہے اور ماضی بعید اور ماضی قریب میں ہم نے کئی نقصان اٹھائے بھی ، سینٹ کے چئیر مین کے لئے عقیدہ ٔ ختم نبوت والے حلف نامے کا نہ ہونا بھی ایک خطرنا ک سوالیہ نشان ہے ؟سابق بیورو کریٹ اور ممتاز قانون دان جناب شیر افضل خان نے اس بابت یوں توجہ دلائی ہے کہ :۔
’’ اسلام آباد (سپیشل رپورٹ) اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق ڈائریکٹر وزارت قانون اور ممتاز قانون دان ایڈوکیٹ شیر افضل خان کی طرف سے ایک رٹ دائر کی گئی ہے جس میں مؤ قف اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان کے آئین میں غلطیوں کی بھر مار ہے، جن کی نشاندہی وہ مختلف مرحلوں پر وزارت قانون اور دوسرے متعلقہ اداروں کو کرچکے ہیں، لیکن کسی نے ان غلطیوں کی طرف دھیان نہیں دیا ،اس رٹ میں شیر افضل خان نے یہ مؤ قف اختیار کیا ہے کہ چیئرمین سینٹ کے حلف نامہ میں ختم نبوت پر یقین شامل کیا جانا چاہیے جبکہ اس وقت یہ عبارت موجود نہیں ہے ،چیئرمین سینٹ کا عہد ہ بہت اہم ہے ،وہ ملک کے صدر کی عدم موجودگی میں مملکت کا قائم مقام صدر ہو تاہے ،آئین یہ تقاضا کرتا ہے کہ صدر ہمیشہ مسلمان ہوگا ،ایڈوکیٹ شیر افضل نے چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت کے حلف نامہ میں بھی غلطی کی نشاندہی کی ہے ،انہوں نے یہ مؤ قف بھی اختیار کیا کہ چونکہ قرار داد مقاصد کو آئین کا دیباچہ بنایا گیا ہے ،اس لئے آئین کی متعلقہ شق کی درستگی بھی ضروری ہے ،درخواست دہندہ نے اپنی رٹ میں یہ موقف بھی اختیار کیا ہے کہ آرٹیکل 272 اے اور آرٹیکل 54 _ ب بھی اس میں مطابقت نہیں رکھتے ،درخواست دہندہ نے کہا ہے کہ انہوں نے پہلے ہی وزارت قانون کے سامنے ان غلطیوں کی نشاندہی کی تھی ،لیکن ان غلطیوں کی درستگی کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا ،اس لئے مجھے مجبوراً رٹ دائر کرنا پڑی ہے ‘‘۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور، جمعرات، 22 فروری 2018 ء)
مذکورہ شذرات میں جتنے موضوعات کا ذکر کیا گیا ہے اس پر دینی رہنماؤں اور ماہرین قانون سے حسب حالات وضرورت مشورے جاری ہیں ،اور آنے والے دنوں میں ان شاء اﷲ تعالیٰ تحریک ختم نبوت آگے بڑھتی ہوئی نظر آئے گی ۔وما علینا الا البلاغ المبین !

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.