تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

احرار

سیف اللہ خالد

مجلس احرار اسلام کی اپنے مقصد کے ساتھ کمٹمنٹ اورکامیابی کی اتنی ہی دلیل کافی ہے کہ ہندوستانی تل ابیب قصبہ قادیان کے مجاوروں کے اذہان وقلوب پر آج بھی یہ درویشوں کا گروہ چھایا ہوا ہے ،یہی سبب ہے کہ آج کا قادیانیت زدہ لبرل ازم اس جماعت سے خدا واسطے کا بیر رکھنا اپنا عقیدہ سمجھتا ہے اور اسی باعث علمی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک پاکستان کے ایام میں مجلس کے کردار پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ مجلس احرار اسلام، مسلمانانِ برصغیر کے مجاہدانہ ماضی کا ایک شاندار اِستعارہ اور اُن کی غیرتِ دینی کا ایک جاندار اِظہار ہی نہیں ،بلکہ آج کے دنوں میں اہل پاکستان کے لئے، ختم نبوت کے دشمنوں کے خلاف ایک مضبوط علمی اور ایمانی مورچہ بھی ہے ۔ ماضی میں دیکھیں تو تحریک خلافت کے خاتمہ کے اعلان کے کچھ ہی عرصہ بعد اُسی کی راکھ سے 29دسمبر 1929کو وجود میں میں آنے والی یہ جماعت! در اصل اُس دور میں مسلمانوں کے تمام مکاتیبِ فکر کی نمائندہ اوروحدتِ امت کی فکر کی حامل منفردجماعت تھی۔ جس میں ایک طرف سید عطا ء اﷲ شاہ بخاری اور اُن کے احباب تھے تو دوسری جانب مولانا داؤد غزنوی اور اُن کے احباب تھے، تو اُن کے ساتھ ساتھ صاحبزادہ فیض الحسن اور مریدانِ گولڑہ بھی تھے اور مولانا مظہر علی اظہر بھی تھے ، شیخ حسام الدین اور دانشور چودھری افضل حق کا ساتھ بھی تھا اور شاعر بے بدل مولانا ظفر علی خان بھی ابتداءً اِسی قافلہ کے رکن تھے ۔نوابزادہ نصر اﷲ خان اور شورش کاشمیری بھی اسی جماعت کی تربیت کا شاہکار تھے ۔یہ واحد جماعت تھی جو پنجاب میں جاگیر داروں کے سامنے مسلمانوں کی مضبوط سیاسی قوت بن کر اُبھری اور دوسری جانب اس نے ملعون مرزا قادیانی کی مکذوبہ نبوت کو بھی نہ صرف للکارا،بلکہ اُس کابے مثال تعاقب بھی کیا۔تاریخ بتاتی ہے کہ احرار نے اپنی سیاست مسئلہ ختم نبوت پر قربان کردی ، احرار کا ایک سیاسی موقف تھا، اور اُس نے اُس پر پہرہ بھی دیا، الیکشن بھی لڑا ، قائد اعظم سے مذاکرات بھی کیے ۔یہ الگ داستان ہے کہ اُس دور کی پنجاب کی مسلم لیگ قادیانیوں کے زیر اثر اورانگریزکے ٹوڈیوں پر مشتمل تھی، جس نے قائد اعظم اور احرار کے معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور دونوں حلیف جماعتیں سیاست کے میدان میں ایک دوسرے کی حریف بن کر تاریخ میں رقم ہوگئیں،لیکن سیاست احرار کی پہلی ترجیح کبھی نہ تھی، بلکہ تحفظ ختم نبوت کے مشن کا ذریعہ تھی۔اُن کا اصل محاذ قادیانیت کا تعاقب تھا اور اس میں وہ پورے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت کر رہی تھی۔ آج کا لبرل ،دانش سے عاری اور علم سے تہی دست ہے ، جو صرف گالی دینا جانتا ہے ، یہی اس کا مبلغ علم ہے ۔ ورنہ یہ بات تو چھپائے نہیں چھپ رہی کہ متحدہ پاکستان اور اس کے متصل بعد فرقہ واریت سے بالا تر مسلم دانش ور جس بڑی تعداد میں احرار کے خوشہ چیں تھے،ایسا کسی بھی دوسری جماعت کو یہ اعزاز حاصل نہیں رہا ۔ علامہ اقبال اور امیر شریعت کی قربتوں کی گواہی تو اقبال خود ہے ، فیض سے لے کراِس عہد کا ایک ایک دانشور احرار قیادت سے محبت کی ڈور میں بندھا دکھائی دیتا ہے ۔ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو جتنی سچی اور کھری سیاست احرار نے کی،وہ کسی اور کے حصہ میں نہیں آئی ۔ احرار کی سیاست کیاتھی! امیر شریعت کی قیام پاکستان کے بعد کی ایک تقریر کا چھوٹا سا اقتباس اِس کی مکمل وضاحت بھی کرتا ہے اور آج ستر برس بعد بھی احرار پر پاکستان کی مخالفت کی پھبتی کسنے والے جہلا کے منہ پر طمانچہ بھی رسیدکرتا ہے ۔ 12؍جنوری 1949کو لاہور میں ’’دفاع پاکستان کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت نے کہا کہ’’ ہم نے مسلم لیگ کے مجوزہ منصوبۂ پاکستان کی مخالفت کی، جو صحیح سمجھا ،وہ کیا ۔ ایک قائد اعظم کی سیاسی رائے تھی، ایک ہماری رائے تھی ۔ آج قائد اعظم کی سیاسی رائے جیت گئی۔ میری رائے ہار گئی۔ ہم اسے تسلیم کرتے ہیں اور انتخابی سیاست سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں، اب یہ ہمارا ملک ہے ، اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے کی آنکھ نکال دیں گے ، یاد رکھیں کہ میں قول نہیں،عمل کا آدمی ہوں، جو کہتا ہوں وہ کر تا ہوں۔‘‘ ایساکون ہے، امیر شریعت کے سوا کہ جو اپنی سیاسی رائے کی غلطی کو اِتنی فراخدلی سے تسلیم کرتا ہو۔یہی اس قیادت کی عظمت کی دلیل ہے ۔ احرار کی تاریخ اتنی جاندار اور شاندار ہے کہ ایک کالم میں اس کا احاطہ ممکن ہی نہیں، ایک جانب ختم نبوت کا محاذ دوسری جانب تقسیمِ وطن کی سیاست ، تیسری جانب جہاد ِکشمیر کا محاذ کہ جسے قادیانی ہضم کرنے کے قریب تھے ، اور اس کے ساتھ ساتھ آفات اور بلیات میں خدمتِ خلق کا ایک ایسا شاندار ماضی ہے کہ جسے آج کا مؤرخ صرف اس لئے دبانے اور چھپانے میں لگا ہوا ہے کہ انہوں نے سب کچھ برداشت کیا ،اپنی سیاست تک کو قربان کردیا، مگر ختم نبوت کا مورچہ کبھی نہ چھوڑا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1953میں احرار نہ ہوتی تو قادیانیت کے خلاف تمام مکاتیبِ فکر کا اتنامؤثر اور جاندار اِتحاد شاید ہی وجود میں آپاتا، اور پھر جس طرح احرارنے پورے ملک میں مسئلہ ختم نبوت کا ادراک پیدا کیا۔ وہ بھی اِسی کاطرۂ امتیاز ہے ۔ اس کی قیادت نے ختم نبوت کی خاطر جیلیں آباد کیں، ویرانوں میں اذانیں دیں، لوگوں کو بات سمجھائی ، قربانیاں دیں مگر اِس کا کوئی صلہ کسی سے نہیں مانگا ۔ امیر شریعت کی جانب سے سیاست سے علیحدگی کے اعلان کے بعد سے اب تک یہ جماعت قوم کو تقسیم کرنے والی سیاسی فرقہ واریت یعنی انتخابی سیاست سے الگ رہ کر ختم نبوت کا محاذ سنبھالے ہوئے ہے ۔پاکستان میں قادیانیوں کے مرکز چناب نگر میں آج بھی احرارہی وہ واحد جماعت ہے جو قادیانیوں کو ایک طرف دعوت اسلام دے رہی ہے تو دوسری جانب ان کی سازشوں پرگہری نظر رکھے ہوئے ہے،یہ جماعت آج بھی فرقہ واریت سے بالا تراور تمام مسلمانوں کا اثاثہ ہے ، امیر جماعت سید عطا ء المہیمن بخاری ، سید کفیل بخاری اور حاجی عبداللطیف چیمہ مبارک کے مستحق ہیں کہ وہ تاریخ کی اِس امانت کو زمانہ کی خرابیوں سے بچاکر اِسی نہج اور منہج پر آگے بڑھا رہے ہیں۔
(روزنامہ’’اوصاف‘‘،اسلام آباد۔ 29 دسمبر 2016 )

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.