تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

قربانی کے مسائل

ڈاکٹر مفتی عبدالواحد

(۱) قربانی کس پر واجب ہے:
جس پر صدقہ فطر واجب ہے اس پر بقر عید کے دنوں میں قربانی کرنا بھی واجب ہے اور اگر اتنا مال نہ ہو کہ جس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر کر دے توثواب ہے۔
مسئلہ: قربانی فقط اپنی طرف سے کرنا واجب ہے۔ اولاد کی طرف سے واجب نہیں۔ بلکہ اگر نابالغ اولاد مال دار بھی ہو تب بھی اس کی طرف سے کرنا واجب نہیں ہے نہ اپنے مال میں سے نہ اس کے مال میں سے کیونکہ اس پر واجب ہی نہیں ہوتی۔ لیکن اگر باپ اپنے مال میں سے اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے کردے تو مستحب ہے۔ بیوی اور بالغ اولاد مال دار ہو ان کو اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔
مسئلہ: بیوی اور بالغ اولاد مال دار ہو اور شوہر بیوی کے لیے اور بالغ اولاد کے لے اپنے پاس سے قربانی کے جانور لادے تاکہ وہ قربانی کر سکیں تو جائز ہے۔
مسئلہ: جو بیٹا باپ کے ساتھ باپ کے کاروبار میں لگا ہو اور کاروبار میں اس کا اپنا حصہ اور ملکیت کچھ نہ ہو تو اگر اس کے علاوہ بیٹے کے پاس قربانی کا نصاب ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی اور اگر نہیں ہے تو واجب نہیں ہوگی۔
مسئلہ: عورت کے پاس کچھ مال نہ ہو لیکن اس نے نصاب کے بقدر مہر شوہر سے ابھی لینا ہو تو اگر مہر معجل ہو اور شوہر مال دار ہو تو عورت پر قربانی واجب ہے اور اگر مہر معجل ہو لیکن شوہر فقیر ہے یا مہر ہی موجل ہو خواہ شوہر مال دار ہو یا فقیر ہو تو عورت پر قربانی واجب نہیں۔
مسئلہ: اگر پہلے اتنا مال دار نہ تھا اس لیے قربانی واجب نہ تھی۔ پھر بارہویں تاریخ کے سورج ڈوبنے سے پہلے کہیں سے مال مل گیا تو قربانی کرنا واجب ہے۔
(۲) قربانی مقیم پر واجب ہوتی ہے مسافر پر نہیں:
مسئلہ: قربانی کے تینوں دن اقامت کا ہونا شرط نہیں ہے۔ دسویں گیارہویں تاریخ کو سفر میں تھا۔ پھر بارہویں تاریخ کو سورج ڈوبنے سے پہلے گھر پہنچ گیا یا پندرہ دن کہیں ٹھہر نے کی نیت کر لی تو اب قربانی کر نا واجب ہوگیا۔
مسئلہ:دسویں کو گھر میں تھا پھر گیارہویں کو سفر میں چلا گیا اور بارہویں کو سورج ڈوبنے سے پہلے گھر آگیا تو قربانی واجب ہوگی۔
مسئلہ:اگر مال دار قربانی کے دن گزرنے سے پہلے سفر پر چلا گیا اور باقی وقت سفر میں گزرا تو اس سے قربانی ساقط ہے۔
مسئلہ:جو شخص حج پر گیا اور حساب سے شرعی مسافر بنتا ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں مثلاً ایک شخص۲۵؍ ذی قعدہ کو مکہ مکرمہ پہنچا۔ اب چونکہ منیٰ عرفات جانے میں پندرہ دن سے کم ہیں اس لیے یہ شخص مکہ مکرمہ میں اقامت کی نیت بھی کر لے تب بھی مقیم نہیں مسافر ہی رہے گا۔ اس لیے خواہ یہ شخص حج سے پہلے مدینہ منورہ جائے یا نہ جائے بارہ ذی الحجہ تک یہ مسافر رہے گا اور اس پر قربانی واجب نہ ہوگی۔
قربانی کے جانور:
مسئلہ:بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، گائے، بھینس، بھینسا، اونٹ، اونٹنی ان جانوروں کی قربانی درست ہے۔ ان کے علاوہ کسی جانور کی قربانی درست نہیں۔
مسئلہ: بکری سال بھر سے کم کی درست نہیں۔ جب پورے سال بھر کی ہو تب قربانی درست ہے۔ اور گائے ، بھینس دو برس سے کم کی درست نہیں۔ پورے دو برس کی ہوچکے تب قربانی درست ہے۔ اونٹ پانچ برس سے کم کا درست نہیں ہے۔
تنبیہ: بکری جب پورے ایک سال کی ہو جاتی ہے اور گائے جب پورے دوسال کی ہو جاتی ہے اور اونٹنی جب پورے پانچ سال کی ہوجاتی ہے تو اس کے نچلے جبڑے کے دودھ کے دانتوں میں سے سامنے کے دو دانت گر کر دو بڑے دانت نکل آتے ہیں۔ نر اور مادہ دونوں کا یہی ضابطہ ہے۔ تو وہ دو بڑے دانتوں کی موجودگی جانور کے قربانی کے لائق ہونے کی اہم علامت ہے لیکن اصل یہی ہے کہ جانور اتنی عمر کا ہو اس لیے اگر کسی نے خود بکری پالی ہو اور وہ چاند کے اعتبار سے ایک سال کی ہوگئی ہو لیکن اس کے دو دانت ابھی نہ نکلے ہوں تو اس کی قربانی درست ہے۔ لیکن محض عام بیچنے والوں کے قول پر کہ یہ جانور پوری عمر کا ہے اعتماد نہیں کر لینا چاہیے اور دانتوں کی مذکورہ علامت کو ضرور دیکھ لینا چاہیے۔
مسئلہ:دنبہ یا بھیڑ اگرا تنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کے جانوروں میں رکھیں تو سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو سال بھر سے کم لیکن چھ ماہ سے زائد عمر کے دنبہ اور بھیڑ کی قربانی بھی درست ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو سال بھر کا ہونا چاہیے۔
مسئلہ:جو جانور اندھا یا کانا ہو یا ایک آنکھ کی تہائی روشنی سے زیادہ جاتی رہی ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔
مسئلہ:جس جانور کا ایک کان تہائی سے زیادہ کٹ گیا ہو یا دم تہائی سے زیادہ کٹی ہو تو قربانی درست نہیں۔
مسئلہ:جو جانور اتنا لنگڑا ہے کہ فقط تین پاؤں سے چلتا ہے چوتھا پاؤں رکھا ہی نہیں جاتا یا چوتھا پاؤں رکھتا ہے لیکن اس سے چل نہیں سکتا اس کی بھی قربانی درست نہیں اور اگر چلتے وقت وہ پاؤں زمین پر ٹیک کر چلتا ہے اور چلنے میں اس سے سہارا لگتا ہے لیکن لنگڑا کر چلتا ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔
مسئلہ:اتنا دبلا بالکل مریل جانور جس کی ہڈیوں میں بالکل گودانہ ہو اس کی قربانی درست نہیں اور اگر اتنا دبلا نہ ہو تو دبلے ہونے سے کچھ ضرور نہیں۔ اس کی قربانی درست ہے لیکن موٹے تازے جانور کی قربانی کرنا زیادہ بہتر ہے۔
مسئلہ:جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں اس کی قربانی درست نہیں اور اگر کچھ دانت گرگئے لیکن جتنے باقی ہیں ان سے اگر وہ چارہ کھا سکتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔
مسئلہ:جس جانور کی پیدائش ہی سے سینگ نہیں ہیں یا سینگ تو تھے لیکن ٹوٹ گئے یا اوپر سے خول اتر گیا تو اس کی قربانی درست ہے۔ البتہ اگر سینگ جڑ سے یعنی دماغ کی ہڈی کے سرے سے ٹوٹ گئے ہوں یا اکھڑ گئے ہوں اور چوٹ کا اثر دماغ تک پہنچ گیا ہو تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں۔
مسئلہ:رسولی والے جانور کی قربانی درست ہے۔
مسئلہ:بکری کا اگر ایک تھن یا اس کا سرا کسی آفت سے جاتا رہا ہو یا پیدائش سے ہی نہ ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔ اونٹنی اور گائے کے اگر دو تھن یا ان کے سرے نہ ہوں تو قربانی نہ ہوگی اور اگر صرف ایک نہ ہو تو قربانی ہوجائے گی۔
مسئلہ:بکری کے ایک تھن اور گائے یا اونٹنی کے دو تھنوں سے دودھ اترنا بند ہوگیا ہو یعنی وہ سوکھ گئے ہیوں اور باقی سے دودھ آتا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں ۔
مسئلہ:جلالہ یعنی وہ جانور جو نجاست کھاتا ہو اور اس کی وجہ سے اس کا گوشت بدبودار ہوگیا ہو تو اس حالت میں اس کی قربانی درست نہیں۔
مسئلہ:بکری کی زبان نہ ہو مثلاً کٹ گئی ہو تو اس کی قربانی درست ہے اور اگر گائے کی زبان تہائی یا زائد کٹی ہوئی ہو تو اس کی قربانی درست نہیں کیونکہ گائے اپنی زبان سے چارہ لیتی ہے جب کہ بکری اپنے دانتوں سے لیتی ہے۔
مسئلہ:جس دنبے کی پیدائش چکتی نہ ہو اس کی قربانی درست نہیں اور اگر چکتی ہو لیکن اگر تہائی یا زائد کٹی ہوئی ہو تو قربانی درست نہیں۔
مسئلہ:بانجھ جانور کی قربانی درست ہے خواہ وہ ابتداء ہی سے بانجھ ہو یا بعد میں ہو گیا ہو۔
مسئلہ:حاملہ جانور کی قربانی ہو جاتی ہے لیکن جس کی ولادت قریب ہو اس کو ذبح کرنا مکروہ ہے۔ بچہ جو پیٹ میں سے نکلے وہ اگر زندہ ہو تو اس کو بھی ذبح کر لیا جائے اور اس کا بھی کھانا حلال ہوگا اور اگر وہ مردہ نکلے تو اس کو کھانا جائز نہیں۔
مسئلہ:جانور خنثیٰ ہو اس کی قربانی درست نہیں۔
مسئلہ:خصی جانور کی قربانی درست ہے بلکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ نے دو سینگ دار اور چتکبر ے خصی مینڈھوں کی قربانی کی۔
مسئلہ:اگر جانور قربانی کے لیے خرید لیا تب کوئی ایسا عیب پیدا ہوگیا جس سے قربانی درست نہیں تو اس کے بدلے دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے۔ ہاں اگر غریب آدمی ہو جس پر قربانی کرنا واجب نہیں تواس کے واسطے درست ہے کہ اسی جانور کی قربانی کردے۔
مسئلہ:اگر خریدنے کے وقت جانور عیب دار تھا تو غریب کے لیے اس کی قربانی درست ہے اور اگر عیب دور ہوجائے تو مال دار کے لیے بھی اس کی قربانی درست ہے۔
مسئلہ:اگر ذبح کرتے وقت کوئی عیب لگ جائے تو وہ معاف ہے اور قربانی درست ہوجاتی ہے۔
مسئلہ:گائے، بھینس، اونٹ میں اگر سات آدمی شریک ہو کر قربانی کریں تو بھی درست ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اور سب کی نیت قربانی کرنے کی یا عقیقہ کی ہو صرف گوشت کی نیت نہ ہو۔ اگر کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہو گا تو کسی کی قربانی درست نہ ہوگی۔ مثلاً آٹھ آدمیوں نے مل کر ایک گائے خریدی اور اس کی قربانی کی تو درست نہ ہوگی کیونکہ ہر ایک کا حصہ ساتویں سے کم ہے۔ اسی طرح ایک بیوہ اور اس کے لڑکے کو ترکہ میں گائے ملی اس مشترکہ گائے کی قربانی کی تو درست نہیں ہوئی کیونکہ اس میں بیوہ کا حصہ ساتویں سے کم ہے۔
مسئلہ:گائے اونٹ میں بجائے سات حصوں کے صرف دو حصے ہوں یعنی دو آدمی مل کر ایک گائے یا اونٹ ذبح کریں اور اس طرح دونوں میں سے ایک کے حصہ میں ساڑھے تین حصے ہوتے ہوں تو یہ جائز ہے کیونکہ دونوں میں سے کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہیں ہے۔ اسی طر ح اگر تین یا چار یا پانچ یا چھ آدمی مل کر ایک گائے کی قربانی کریں تو جائز ہے۔
مسئلہ:چار آدمیوں نے مل کر چار بکریاں یکساں قیمت کی خریدیں اور ہر بکری پر ان میں سے ایک کا نام لگائے بغیر ان چاروں کو ذبح کر دیا گیا تو چاروں کی قربانی ہوگئی۔ اگر چہ بہتر یہ ہے کہ ہر جانور پر ایک خاص شخص کا نام لگادیا جائے۔کہ یہ فلاں کی ہے اور وہ فلاں کی ہے۔
مسئلہ:کسی نے قربانی کے لیے گائے خریدی اور خریدتے وقت یہ نیت کی کہ اگر کوئی اور مل گیا تو اس کو بھی اس گائے میں شریک کر لیں گے اور قربانی کریں گے۔ اس کے بعد کچھ اور لوگ گائے میں شریک ہوگئے تو یہ درست ہے۔
مسئلہ:اگر مال دار کے بجائے غریب آدمی نے پوری گائے اپنی طرف سے کرنے کی نیت سے خریدی تو اس کے لیے شریک کرنا جائز نہیں۔ لیکن اگر کسی کو شریک کر لیا توجس کو شریک کیا ہے اس کی قربانی ادا ہوجائے گی لیکن اس غریب پر واجب ہے کہ جتنے حصے اس نے دوسروں کو دیے ان کا تاوان اس طرح ادا کرے کہ اگر ابھی قربانی کے دن باقی ہیں تو اتنے حصے اور قربانی کردے اور اگر قربانی میں دن گزر گئے تو ان حصوں کی قیمت مساکین کو دے دے۔
مسئلہ: ایک شخص نے اپنی قربانی میں پورے گائے یا اونٹ ذبح کی تو کل کا کل واجب قربانی میں شمار ہوگا اور اگر ایک شخص نے اپنی قربانی میں دوبکریاں ذبح کیں تو ان میں سے ایک واجب او رایک نفلی ہوگی۔
مسئلہ:سات آدمیوں نے قربانی کے لیے گائے خریدی پھر قربانی سے پہلے ان میں سے ایک مرگیا تو اگر اس کے وارثوں نے جو سب بالغ ہوں میت کی طرف سے قربانی کرنے کی اجازت دے دی تو سب کی قربانی درست ہوجائے گی اور اگر اجازت لینے سے پہلے باقی شرکاء نے قربانی کردی تو کسی کی قربانی درست نہ ہوگی۔
دوسرے کی طرف سے قربانی کے مسائل:
مسئلہ:میت نے اپنے ترکہ میں سے قربانی کرنے کی وصیت کی ہو تو اگر ترکہ کے ایک تہائی میں سے قربانی کی جاسکتی ہو تو قربانی کی جائے گی اور اس کا سارا گوشت فقراء پر صدقہ کیا جائے گا۔
مسئلہ:اگر کوئی شخص یہاں موجود نہیں اور دوسرے شخص نے اس کی طرف سے اس کے کہے بغیر واجب قربانی کردی تو یہ قربانی صحیح نہیں ہوئی اور اگر گائے میں کسی غائب کا حصہ اس کے کہے بغیر تجویز کردیا تو اور حصہ داروں کی قربانی بھی صحیح نہیں ہوئی۔
مسئلہ: کوئی شخص اپنے مال میں سے بطور ایصال ثواب میت کی طرف سے قربانی کرے تو اس میں دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اپنی طرف سے ایک حصہ قربانی کرکے اس کا ثواب میت کو پہنچا دے۔ دوسرے یہ کہ اس میت کانام قربانی کے حصہ پر قرار دے کر قربانی کرے۔ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں اور دونوں صورتوں میں قربانی کرنے والے کو اختیار ہے جتنا چاہے خود کھائے اور جتنا چاہے فقراء کو دے۔
مسئلہ:جو قربانی دوسرے کی طرف سے بطور ایصال ثواب کی جائے چونکہ وہ قربانی کرنے والے کی ملکیت ہوتی ہے اور دوسرے کو صرف ثواب پہنچتا ہے اس لیے قربانی کا ایک حصہ ایک سے زائد لوگوں کی طرف سے کیا جاسکتا ہے۔
قربانی کا گوشت اور کھال:
مسئلہ:یہ افضل ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرے ۔ ایک حصہ اپنے لیے رکھے ایک حصہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے اور ایک حصہ فقراء پر صدقہ کرے۔ اگر کوئی زیادہ حصہ فقراء پر صدقہ کردے تو یہ بھی درست ہے اور اگر اپنی عیال داری زیادہ ہے اس وجہ سے سارا گوشت اپنے گھر میں رکھ لیا تو یہ بھی جائز ہے۔
مسئلہ:قربانی کا گوشت فروخت کرنا جائز نہیں۔ اگر کسی نے فروخت کردیا ہو تو اس کی قیمت صدقہ کر نا واجب ہے۔
مسئلہ:قربانی کی کھال یا تو یونہی خیرات کردے یا اس کو فروخت کر کے اس قیمت صدقہ کر دے۔
مسئلہ:گوشت یا کھال کی قیمت کو مسجد کی مرمت یا کسی اور نیک اور رفاہی کام میں لگانا جائز نہیں۔ صدقہ ہی کرنا چاہیے۔
مسئلہ:جس طرح قربانی کا گوشت غنی کو دینا جائز ہے اسی طرح کھال بھی غنی کو دینا جائز ہے جب کہ اس کو بلا عوض دی جائے اس کی کسی خدمت و عمل کے عوض میں نہ دی جائے۔ غنی کی ملک میں دینے کے بعد وہ اگر اس کو فروخت کر کے اپنے استعمال میں لانا چاہے تو جائزہے۔
مسئلہ:گوشت یا چربی اور اس کی کھال کافر کو بھی دینا جائز ہے بشرطیکہ اجرت میں نہ دی جائے۔
مسئلہ:گوشت یا چربی یا کھال کو مزدوری میں نہ دے بلکہ مزدوری اپنے پاس سے الگ دے۔
مسئلہ:سات آدمی گائے میں شریک ہوئے اور آپس میں گوشت تقسیم کریں تو تقسیم میں اٹکل سے کام نہ لیں بلکہ خوب ٹھیک ٹھیک تول کر بانٹیں کیونکہ کسی حصہ کے کم یا زیادہ ہونے میں سود ہو جائے گا خواہ شریک اس پر راضی بھی ہوں۔ اور جس طرف گوشت زیادہ گیا ہے اس کا کھانا بھی جائز نہیں۔ البتہ اگر گوشت کے ساتھ سری پائے اور کھال کو بھی شریک کر لیا تو جس طرف سری پائے یا کھال ہو اس طرف اگر گوشت کم ہو تو درست ہے چاہے جتنا کم ہو۔ جس طرف گوشت زیادہ ہو اس طرف سری پائے بڑھائے گئے تو اب بھی سود رہا۔
مسئلہ:اگر ایک جانور میں کئی آدمی شریک ہیں اور وہ سب آپس میں تقسیم نہیں کرتے بلکہ ایک ہی جگہ کچا یا پکا کر فقراء واحباب میں تقسیم کریں تو یہ بھی جائز ہے۔
مسئلہ:تین بھائی یا زیادہ یعنی سات بھائی تک ایک گائے میں شریک ہوں اور کہیں کہ اپنی اپنی ضرورت کا گوشت لے اور باقی فقراء پر تقسیم کردو تو یہ جائز نہیں بلکہ یا تو پہلے کچھ فقراء کو دے کر پھر باقی کو برابر برابر تقسیم کرلیں یا پہلے برابر برابر تقسیم کریں پھر ہر ایک اپنے حصہ میں سے فقراء کو دے۔
متفرق مسائل:
مسئلہ:اونٹ میں نحرافضل ہے اور ذبح بھی جائز ہے جب کہ گائے بکری میں ذبح مستحب ہے۔
مسئلہ:تنہا ایک شخص پوری گائے ذبح کرے تو پوری گائے ایک قربانی ہو کر کل کی کل واجب ہوگی۔
مسئلہ:اپنی قربانی کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا بہتر ہے۔ اگر کوئی خود ذبح کرنا نہ جانتا ہو یا اس کی ہمت نہ ہوتی ہو تو کسی اور سے ذبح کرالے اور ذبح کے وقت جانور کے سامنے کھڑا ہونا بہتر ہے۔
مسئلہ:قربانی کرتے وقت زبان سے نیت کہنا اور دعا پڑھنا ضروری نہیں۔ اگر دل میں خیال کرلیا کہ میں قربانی کرتا ہوں اور زبان سے کچھ نہیں پڑھا فقط زبان سے بسم اﷲ اﷲ اکبر کہہ کر ذبح کر دیا تو بھی قربانی درست ہوگئی۔ لیکن اگر یاد ہو تو دعا پڑھ لینا بہتر ہے۔ ذبح سے پہلے کی یہ دعا ہے۔
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلوٰتِیْ وَنُسْکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَا تِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ۔
ذبح کے بعد کی دعا:
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ وَخَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْھِمَا الصَّلوٰۃُ وَالسَّلامْ۔
مسئلہ:قربانی کی رسی وغیرہ سب چیزیں خیرات کردے۔
مسئلہ:جس پر قربانی واجب تھی لیکن اس نے برسوں قربانی نہیں کی تو گناہ کی معافی بھی مانگے اور جتنے سالوں کی قربانی رہ گئی اس قدر قیمت کا صدقہ کردے۔
مسئلہ:قربانی سے پہلے قربانی کے جانور کا دودھ دوہا ہو یا اس کی اون اتاری ہو تو اس کو صدقہ کرنا لازم ہے۔
(مطبوعہ:مسائل بہشتی زیور)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.