تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تربیت

شاہ بلیغ الدینؒ
فرمایا…… آج سبق نہیں پڑھایا جائے گا۔ کیوں؟ کوئی وجہ طالب علموں کی سمجھ میں نہ آئی۔ لیکن استاد کا حکم تھا، مجال نہ تھی کہ کچھ کہتے۔ استاذ تھے مولانا شاہ عبدالقادر۔ مولانا شاہ ولی اﷲ کے صاحبزادے!
قرآن مجید کا پہلا ترجمہ ہندوستان میں شاہ ولی اﷲ صاحب نے کیا۔ یہ ترجمہ فارسی میں تھا، فارسی میں ترجمہ شیخ سعدی نے بھی کیا تھا اور وہ فارسی میں کلام اﷲ کا پہلا ترجمہ نہیں تھا۔ شاہ عبدالقادر اور ان کے بھائی شاہ رفیع الدین نے اردو میں پہلے پہل کلام اﷲ کا ترجمہ کیا۔ دونوں کے ترجمے الگ الگ ہیں۔ ایک کا لفظی ترجمہ ہے، ایک کا رواں۔
جب شاہ عبدالقادر نے فرمایا کہ آج سبق نہیں ہو گا تو شاگردوں نے کتابیں سمیٹیں اور اٹھ گئے۔ یہ شاگرد تھے مولانا فضل خیر حق آبادی اور مفتی صدر الدین آزردہ۔ استاد تو نام ور تھے ہی شاگرد بھی نام ور ہوئے۔ علم، محنت اور شوق سے آتا ہے، یہ پیمبروں کی میراث یونہی نہیں مل جاتی۔ شدہ بدہ پڑھ لینا یا خلاصے رٹ کر ڈگریاں لے لینا علم نہیں دکھاوا ہے۔ علم کا ایک حصہ ہے تربیت، اس کے لیے بزرگوں کی نظر چاہیے۔ اقبال نے بڑی خوبی سے یہی بات کہی ہے ؂
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
بغیر تربیت کے علم ادھورا رہ جاتا ہے۔ یہ جو استادِ محترم نے فرمایا کہ کتابیں اٹھاؤ آج درس نہیں ہو گا، یہ اسی تربیت کا ایک حصہ تھا۔ ہوتا یہ تھا کہ جس وقت یہ شاگرد جو بڑے کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے تھے، اپنی کتابیں نوکروں سے اٹھوا کر لاتے شاہ صاحب انھیں سبق نہ پڑھاتے اور جس دن خود یہ لوگ کتابیں لے کر آتے شاہ صاحب سبق پڑھاتے اور خوب پڑھاتے۔ طالب علم میں شان، غرور اور تمکنت نہ ہونی چاہیے۔
مولانا قاسم نانوتویؒ جب دیکھتے کہ شاگرد ذرا اونچے دماغ کا ہے تو فرماتے میری جوتیاں اٹھا کر چلو۔ یہ اُس کا غرّا توڑنے کے لیے حکم ہوتا ۔ خود ان کی اپنی سادگی کا یہ عالم تھا کہ کبھی شاگرد لاپرواہی سے اپنی جوتیاں چھوڑ جاتے تو مولانا انھیں اٹھا کر لے چلتے۔ معلوم یہ ہوا کہ علم کے لیے بڑے ظرف کی ضرورت ہے۔
مولانا رشید احمد گنگوہی بھی اسی شان کے بزرگ تھے، بڑے اﷲ والے، بڑے علم والے، ساری زندگی پڑھنے پڑھانے میں گزری۔ ایک مرتبہ طالب علموں کو صحن میں بیٹھے پڑھا رہے تھے کہ اتنے میں بادل گھر کے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے مینہ برسنے لگا۔ شاگردوں نے جلدی جلدی کتابیں سمیٹیں اور اندر چلے گئے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی بھی اٹھے لیکن بارش سے بچنے کے لیے وہ اندر نہ گئے، انھوں نے سب شاگردوں کی جوتیاں سمیٹیں اور اٹھا کر لے گئے کہ پانی میں بھیگ نہ جائیں۔
بات تربیت کی ہے۔ تربیت بچے کو یا تو گھر پر ملتی ہے یا استاد سے۔ ایک صورت اور بھی ہے کہ آدمی خود اپنی تربیت آپ کرے۔ حکیم لقمان سے لوگوں نے پوچھا…… آپ اتنے اچھے اور نیک کیسے بن گئے۔ انھوں نے کہا: ’’بروں کے ساتھ رہ کر‘‘۔ لوگوں نے تعجب سے پوچھا …… یہ تو ممکن نہیں! بولے: ’’یہ اس طرح ممکن ہوا کہ میں ان کے ساتھ رہ کر ان کی بری باتیں سنتا اور دیکھتا رہا اور خود ان بری عادتوں کو چھوڑتا جاتا‘‘۔ لقمان بڑے علم والے تھے۔ دنیا انھیں حکیم کہتی ہے یعنی بڑا عقل مند! سچ ہے آدمیت نہ ہو تو علم بے کار ہے ؂
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور چیز
لاکھ طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا

شوال کے روزے
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھے (نفل) روزے شوال کے مہینے میں رکھ لیے تو (پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ہوگا۔ اگر ہمیشہ ایسا کرے گا تو) گویا اس نے ساری عمر رو زے رکھے۔ (مسلم شریف بحوالہ مشکوۃ شریف ص۱۷۹)
تشریح: اس مبارک حدیث میں رمضان المبارک گذرنے کے بد ماہ شوال میں چھے نفل روزے رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کا عظیم ثواب بتایا گیا ہے۔ ثواب دینے کے بارے میں اﷲ پاک نے یہ مہربانی فرمائی ہے کہ ہر عمل کا ثواب کم از کم دس گناہ مقرر فرمایا ہے جب کسی نے رمضان کے تیس روزے رکھے اور پھر چھے روزے اور رکھ لیے تو یہ چھتیس روزے ہوگئے۔ چھتیس کو دس سے ضرب دینے سے تین سو ساٹھ ہو جاتے ہیں۔ قمری حساب سے ایک سال تین سو ساتھ دن کا ہوتا ہے لہذا چھتیس روزے رکھنے پر اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تین سو ساٹھ روزے شمار ہوں گے اور اس طرح پورے سال روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔ اگر ہر سال کوئی شخص ایسا ہی کرلیا کرے تو وہ ثواب کے اعتبار سے ساری عمر روزے رکھنے والا مان لیا جائے گا۔ اﷲ اکبر! بے انتہا رحمت اور آخرت کی کمائی کے اﷲ پاک نے کیسے بیش بہا مواقع دیے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.