تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

بشارات و فضائل کی دو قسمیں اور حدیث مغفور

ابو طلحہ عثمان ایم اے
مغفرت کا مادہ ’’غ، ف، ر‘‘ ہے۔ جس کا معنی ہے بخشش، بچاؤ اور عدم جواب طلبی ہے۔ اسی لفظ سے اﷲ کے کئی صفاتی نام غفور، غفّار، غافر الذنب بنے ہیں، مِغْفر ڈھال کو کہتے ہیں جو جنگ میں استعمال کی جاتی تھی تاکہ تلوار کے وار سے محفوظ رہا جا سکے۔ ارشادِ نبوی ہے: ’’ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ……‘‘ اسی طرح
کئی دوسری احادیث ِ رسول جن میں اعمال کی فضیلت کا ذکر ہے مثلاً ’’جو کوئی اچھی طرح وضو کرے پھر کھڑے ہو کر کلمہ شہادت پڑھ لے اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں‘‘۔ ’’حج کی نیت سے وقوف عرفہ کرنے والے کے لیے بشارت ہے کہ اس کے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں…… گویا اس کی ماں نے آج ہی اُسے جنم دیا ہے‘‘۔ مسلم شریف میں ہے ’’ جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے اس کے لیے جنت ہے‘‘۔ بخاری شریف میں ہے ’’حج مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ بیسیوں دیگر احادیث میں ایسی بشارتیں موجود ہیں…… ان بشارات کا تعلق مخصوص اعمال کے ساتھ ہے، افراد کو نامزد نہیں کیا گیا۔
دوسری طرف ایسی بشارات ہیں جن کا تعلق افراد یا مخصوص جماعت کے ساتھ ہے مثلاً ایک غلام نے آ کر عرض کیا: ’’ یا رسول اﷲ! (ﷺ) حاطب ضرور جہنم میں داخل ہو گا‘‘ ارشاد فرمایا: ’’تو نے جھوٹ کہا، وہ جہنم میں داخل نہ ہو گا کیونکہ وہ بدر اور حدیبیہ میں حاضر ہوا ہے‘‘۔ (مسلم: ۲۴۹۵)
ایک دوسری حدیث میں واقعہ مذکور ہے جس میں حاطب بن ابی بلتعہ رضی اﷲ عنہ سے نبی پاک ( ﷺ)کا ایک جنگی راز فاش ہو گیا تھا۔ جب ثبوت مل گیا اور انھوں نے اقرار بھی کر لیا تو دینی غیرت کی بنا پر سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اﷲ! (ﷺ) اجازت دیجیے! میں اس کی گردن مار دوں‘‘۔ (آدابِ نبوّت اور غیرتِ دینی دیکھیے کہ از خود عمل کی جرأت نہیں کر رہے۔ جنگی راز فاش کرنے کی سزا موت ہی ہے مگر نبی کی اجازت کے بغیر صحابہؓ کچھ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے)۔ ارشادِ نبوی ہوا: ’’عمر! وہ بدر میں شامل ہوا ہے اور اﷲ نے فرما دیا ہے اے اہلِ بدر! اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔ یعنی اے اہلِ بدر! اب تم جو چاہو کرو، بے شک میں تمھاری مغفرت کر چکا ہوں‘‘۔ (بخاری: ۳۰۰۷)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پہاڑ پر کھڑے ہیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اﷲ عنہم بھی موجود ہیں۔ پہاڑ پر زلزلہ آ جاتا ہے، (یاشاید ایسی مقدس ہستیوں کی موجودگی پر وہ خوشی سے جھوم اٹھا ہے)۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’اے پہاڑ! تو کیوں ہلتا ہے تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں‘‘۔ پہاڑ تھم جاتا ہے۔ حدیث رسول میں دس صحابہ کا نام لے کر انھیں جنت کی خوشخبری دی گئی…… ابوبکر فی الجنۃ عمر فی الجنۃ عثمان فی الجنۃ علی فی الجنۃ زبیر فی الجنۃ طلحۃ فی الجنۃ سعد بن ابی وقاص فی الجنۃ سعید بن زید فی الجنۃ عبدالرحمٰن ابن عوف فی الجنۃ ابو عبیدہ ابن الجراح فی الجنۃ۔ اسی ارشادِ رسول (ﷺ) اور اسی بشارت کی بنا پر ان دس مقدس ہستیوں کو ’’عشرہ مبشرہ‘‘ (دس جنت کی خوشخبری پانے والے) کہا گیا۔ کیا کوئی دشمنِ دین کہہ سکتا ہے کہ یہ بشارت ان دس کے ساتھ اُن کے اعمالِ صالحہ پر رہنے اور آخر دم تک ایمان اور تقویٰ پر جمے رہنے سے مشروط تھی؟ اور یہی عشرہ مبشرہ تو بدر میں بھی حاضرت تھے۔ پھر یہی عشرہ مبشرہ غزوۂ حدیبیہ میں بھی حاضر تھے تو گویا ’’اِن مقدسین کو بار بار مغفرت و جنت کی بشارت‘‘ دی جا رہی ہے۔ بعض اہلِ علم نے ایک نکتہ دیا کہ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ تو مدینہ ہی میں رہ گئے تھے، وہ بدر میں حاضر نہ تھے، جواب یہ ہے کہ اُن کو خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا تھا ورنہ وہ تم ہمسفری کے لیے بے قرار تھے۔ یہاں خود بنتِ نبی سیدہ رقیہ رضی اﷲ عنہا کی بیماری میں اُن کی خدمت کے لیے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کو مدینہ میں ٹھہرا دیا اور واپسی پر دوسرے غازی مجاہدین کی طرح اُن کو بھی غنیمت میں پورا پورا حصہ دیا تھا تو گویا نیت میں اور غنیمت میں وہ بدر کے شرکاء کی طرح تھے اور عمل میں حکمِ نبی علیہ السلام پر عامل…… کوئی دشمنِ صحابہ رضی اﷲ عنہم یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ بے شک غزوۂ حدیبیہ کے مجاہدین اصحابِ رسول کے لیے وحیِ الٰہی اور حدیثِ رسول میں بخشش اور دخولِ جنت کا ذکر ہے مگر ’’عثمان‘‘ وہاں بھی موجود نہیں تھے۔ جواب تو موجود ہے، اگر عقل کھو نہیں گئی تو تھوڑا سا غور کریں۔ سیدنا عثمان ذی النورین رضی اﷲ عنہ سمیت چودہ سو صحابہ موجود ہیں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اﷲ عنہم عمرہ کی نیت سے مدینہ سے احرام باندھ کر اور حرم میں قربانی کے لیے جانور لے کر پہنچے ہیں، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور اصحابِ نبی کا ارادہ قطعاً لڑائی کا نہیں، مشرکین مکہ نے راہیں بند کر دی ہیں۔ احترامِ حرم کی وجہ سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم لڑائی کا ارادہ نہیں کر رہے۔ قریشِ مکہ کے سفیر آتے ہیں کہ واپس چلے جاؤ، ہم تمھیں عمرہ نہیں کرنے دیں گے۔ محبوب و محترم بیت اﷲ کی زیارت کے لیے جبکہ فاصلہ چند کلو میٹر رہ گیا ہے، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور اصحابِ نبی شوق زیارت بیت اﷲ کے لیے بے قرار ہیں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خواہش ہے، کسی طرح صلح صفائی کے ساتھ ہمیں زیارت بیت اﷲ اور عمرہ کا موقع مل جائے۔ اسی مقصد کے لیے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی رائے پر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو سفیرِ نبوّت بنا کر مکہ بھیجا جاتا ہے۔ وہ بھرپور سفارتکاری کرتے ہیں، قریشی سرداروں سے ملتے ہیں، مگر وہ کہتے ہیں: ’’عثمان! تم آ گئے ہو، چلو تم عمرہ اور طواف کر لو مگر ہم تمھارے نبی اور اُن کے ساتھیوں کو اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ پروانے کی طرح تڑپ کر بولتے ہیں: ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرا نبی طواف سے روک دیا گیا ہو اور میں طواف کر لوں‘‘۔ یہ محبت بھرا جواب قریشی سرداروں کو برا لگا۔ انھوں نے پروانۂ رسول عثمان (رضی اﷲ عنہ) کو نظر بند کر دیا۔ مسلمانوں کا ردِّ عمل معلوم کرنے کے لیے مشہور کر دیا گیا کہ عثمان سفیرِ رسول شہید کر دیے گئے ہیں، بس اس بات پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور اصحابِ نبی تڑپ کر رہ گئے اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے بیعت علی الموت لی۔ ’’اسلحہ تو نہیں ہے مگر ہم عثمان کا بدلہ لے کر جائیں گے‘‘۔ چودہ سو صحابہ بیعت کر رہے ہیں، عثمان تو نہیں ہیں۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کہاں ہیں؟ عثمان (رضی اﷲ عنہ) تو محمد رسول اﷲ کے سفیر بن کر مشرکین مکہ کی حبسِ بے جا میں پڑے ہیں مگر جب ایک کم چودہ سو نے بیعت کر لی تو نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بیعت بہت عظمت و رفعت والی ہے اس سے عثمان کیوں محروم ہیں اور آنے والے وقتوں کے منافقین معاندین کا منہ بھی بند کرنا تھا، نبوت نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ رکھا اور چودہ سو کے سامنے فرمایا:’’دیکھو یہ میرا ہاتھ ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ، میں عثمان کی طرف سے بھی بیعت کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔ بس اُسی دم جبریلِ امین بھی آ پہنچے، یا رسول اﷲ! اﷲ فرماتے ہیں: ’’ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ ‘‘ ، ہم بھی تمھاری بیعت میں شامل ہیں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک پر صحابہ رضی اﷲ عنہم کے ہاتھ اور صحابہ رضی اﷲ عنہم کے ہاتھوں کے اوپر اﷲ کا ہاتھ‘‘۔ تو اب عقل و دانش و ہوش سے کام لیجیے! عثمان رضی اﷲ عنہ غیر حاضر ہیں یا حاضر سے بھی کچھ اوپر ہیں۔ یہ چودہ سو صحابہ رضی اﷲ عنہم سے بیعت سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ ہی کے لیے لی جا رہی ہے اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک کو سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ قرار دے رہے ہیں…… ضد اور بغض و عناد کا علاج تو ہے نہیں، شاید اسی چیز کے افہام و تفہیم کے لیے دس خوش نصیبوں کو نام بہ نام جنت کا بشارت یافتہ بنایا جا رہا ہے۔
سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ اور سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کو (معاذاﷲ)غاصب کہنے والو! تم بھی سن لو وہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، ذی النورین سے عناد رکھنے والو! و ہ جنتی ہیں، سیدنا علی شیرِ جلی رضی اﷲ عنہ کی خامیاں تلاش کرنے والو! وہ جنتی ہیں، طلحہ و زبیر رضی اﷲ عنہما پر تبرّا کرنے والو! ان میں سے پہلے خوش بخت کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبانِ حق سے زندہ شہید اور دوسرے خوش نصیب کو جنت میں نبی کا حواری کہا جا چکا ہے اور یہ دونوں بھی بشارت یافتہ دس جنتیوں میں شامل ہیں، اسی طرح سعد و سعید اور ابو عبیدہ بن الجراح اور عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہم جیسے مجاہدین اور فاتحین فارس و عراق اور شام والوں سے عداوت رکھنے والو! یہ دس کے دس جنتی ہیں۔ تم اِن کو جمل و صفین میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے دیکھ کر بھول نہ جانا، اپنی عاقبت خراب نہ کر لینا، یہ دس کے دس جنت میں ایک دوسرے کے سامنے رب کے عطا کردہ تختوں پر شاداں و فرحاں بیٹھے ہوں گے۔
اگرچہ اﷲ نے اپنی لا ریب کتاب میں خبر دی ہے اور اس کی کوئی خبر نادرست ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ اس نے خبر دی ہے، جملہ فعلیہ، فعل ماضی پکی خبر، غیر مبدّل خبر ہے: ’’رضی اللّٰہ عنہم و رضوا عنہ ‘‘ ۔ اﷲ اُن سے راضی ہو چکا اور وہ اﷲ کے اس راضی ہونے سے شاداں و فرحاں ہو چکے…… ’’ وَ کُلًّا وَّ عَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ‘‘ اور اس اﷲ نے اپنے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سب صحابہ (رضی اﷲ عنہم) سے جن کا وعدہ کر لیا…… ’’ وَ کَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا ‘‘ اور اﷲ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔
بقول سید نور الحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اُمّت کو اپنے اعمال کے مقابل تولا جائے گا مگر صحابہ رضی اﷲ عنہم کے اعمال کا ذکر ہی نہیں۔ ایک طرف کے پلڑے میں اُن کی صحابیتِ رسول رکھی جائے گی اور دوسری طرف اُن کو رکھا جائے گا اور اُن کو کامیاب قرار دے دیا جائے گا۔ والّذینَ مَعَہٗ صحابہ کی صحابیت اور معیتِ رسول ہی اُن کی کامیابی کی ضامن بن جائے گی۔
تو یہاں بشارت کی دوسری قسم کی بات ہوئی یعنی اس بشارت کا تعلق شخصیات اور جماعت کے ساتھ ہے۔ اب ایسے شخص کی جہالت اور حماقت یا دناء ت و سفاہت میں کیا شک رہ جاتا ہے جو ان مقدس شخصیات اور اس مقدس جماعت کو دی گئی بشارت کا تقابل بشارت اعمال، فضائلِ اعمال کے ساتھ کرے۔ اعمال کا تعلق کسی شخص، کسی جماعت، کسی علاقہ، کسی زمانہ کے ساتھ نہیں ہوتا۔ قیامت تک پیدا ہونے والے لوگوں میں سے جو بھی ان اعمال کو اپنائیں گے وہ ان بشارتوں کے مستحق بنیں گے۔ کسی بھی لمحے اگر وہ اِن اعمال کا انکار کر دیں گے تو فضیلت و بشارت سے محروم ہو جائیں گے اور عمل کی صورت میں بھی استحقاق کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا کیونکہ ان کے خلوص یا، رِیاکو اﷲ ہی جانتا ہے اور وہ مالک یوم الدین ہے۔ یہ فیصلہ اﷲ ہی کرے گا۔ یہاں اعمال کی فضیلت بتانا مقصود ہوتی ہے اور خصوصاً غیر از اصحابِ رسول کے لیے۔ کیونکہ صحابہ رضی اﷲ عنہم اور تابعین رحمہم اﷲ کے لیے لسانِ وحی ترجمان سے ایک اور اعلان بھی ہو چکا ہے : ’’لَاْ تَمَسُّ النَّارُ مَنْ رَأٰ نِیْ اَوْ رَأٰ مَنْ رأٰ نِیْ‘‘( حدیث رسول) یعنی میرے دیکھنے والوں کو آگ چھوئے گی بھی نہیں اور نہ ہی میرے صحابہ کے دیکھنے والوں کو آگ چھوئے گی۔ یہاں بھی صرف رؤیتِ رسول یعنی صحابیت کو آگ سے آزادی گویا جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ اعمال کا کوئی ذکر نہیں …… کیونکہ اعمالِ خیر اور جہاد فی سبیل اﷲ تو صحابہ رضی اﷲ عنہم اور تابعین رحمہم اﷲ کی صفات بن چکی ہیں، وہ ان کے اعمال سے کہیں بلند و بالا اُن کے مقدس اجساد و ارواح کی صفاتِ لازمہ بن چکی ہیں یعنی جو صحابی ہے یا صحابہ کا دیکھنے والا (یعنی تابعی) تو اُن کے اعمال کاذکر اس لیے غیر ضروری ہوا کہ وہ تو ’’ اَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ الْتَّقْویٰ وَ کَاْنُوْا أَحَقَّ بِہَا وَ أَہْلَہَا……‘‘ ۔ سورج سے دھوپ اور روشنی جدا نہیں تو صحابہ سے تقویٰ جدا نہیں کیا جا سکتا، تقویٰ کے سب سے زیادہ حق دار اور اہل یہی خوش نصیب ہیں ۔ تو گویا اعمال، صحابہ رضی اﷲ عنہم و تابعین رحمہم اﷲ کے بعد کے لوگوں کے پوچھے اور پرکھے جائیں گے۔ صحابہ رضی اﷲ عنہم کے نہیں۔
یہی اعمال، وضو کی فضیلت، نماز کی فضیلت، صیام و قیام کی فضیلت، عمرہ و حج کی فضیلت، اﷲ کی راہ میں جان قربان کرنے اور شہادت کا اعلیٰ درجہ پانے کی فضیلت مگر ان فضائل میں کیا نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وہ حدیث مبارکہ بھُلا دی جائے گی کہ حساب کے دن ایک ریاکار عالم کو بلایا جائے گا، ایک ریاکار سخی کو بلایا جائے گا، ایک ریاکار مجاہد و شہید کو بلایا جائے گا اور ان کو بتایا جائے گا کہ تم نے یہ اعمال میرے لیے نہ کیے تھے اور پھر اُن کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ لیکن کیا صاحبِ عقل و ایمان یہ کہہ سکتا ہے کہ حضرات صدیق و فاروق، غنی و علی، حضرات عشرہ مبشرہ، اہلِ بدر، اہل بیعت رضوان(رضوان اﷲ علیہم اجمعین) و دیگر بشارت یافتہ حضرات کو اعمال کے فضائل کی طرح خلوص و ریا میں تقابل کیا جا سکتا ہے؟ یہ لوگ تو نام بہ نام مغفور اور مبشر بالجنت ہیں۔
بشارات کی اس دوسری قسم کا تعلق مخصوص افراد یا جماعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ خاص زمانہ، خاص علاقہ، خاص افراد اور خاص جماعت کو متعین کر لیا جاتا ہے جیسے صدیق و فاروق، غنی و علی، اصحاب عشرہ مبشرہ، اصحاب بدر، اصحاب رضوان، مجاہدین غزوۃ البحر سیدنا معاویہ اور مجاہدین غزوۃ مدینہ قیصر سیدنا ابو ایوب، سیدنا حسین بشمول دیگر مجاہدین اور اُن کے امیر وصی ابی ایوب ابن امیر معاویہ رضی اﷲ عنہم۔
پہلی قسم کی بشارت کا تعلق فضائلِ اعمال کے ساتھ ہوتا ہے، افراد متعین نہیں ہوتے، اس لیے ہر فرد اس کا مستحق نہیں کہلا سکتا جبکہ دوسری قسم کی بشارت میں افراد ہی کو متعین کر دیا جاتا ہے، اِن کا اس بشارت سے الگ کیے جانے یا خارج کیے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پہلی قسم کی بشارت میں جن اعمال کی بشارت کا ذکر ہوتا ہے اُن اعمال کی حقیقت سے اﷲ اچھی طرح واقف ہے۔ دوسری قسم کی بشارت میں افراد یا جماعت کی فضیلت بتائی جاتی ہے، ان افراد یا جماعت کی حقیقت سے اور اُن کی پوری زندی کے کارناموں سے اﷲ اچھی طرح واقف ہوتا ہے اس لیے ناممکن ہے کہ ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی ایسی برائی جڑ جائے جو انھیں بشارت سے محروم کر دے۔ ایسی صورت میں اﷲ کے علم میں نقص لازم آئے گا جو ناممکن ہے۔
پہلی قسم کی بشارت کا تعلق فضائل اعمال کے ساتھ ہے کہ جب وہ عمل پایا جائے گا تو فضیلت حاصل ہو گی جبکہ دوسری قسم کی بشارت میں فضیلت خبر کی صورت میں ہے اور اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی خبر کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ اس دوسری قسم کی بشارت میں مغفرت کا مطلب قطعی جنتی ہونا ہے کیونکہ اﷲ کی طرف سے جو خبر ہوتی ہے وہ مغفرت کی قطعیت پر دلالت کرتی ہے۔
شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ فرماتے ہیں: ’’ وَالْجَیْشُ عَدَدٌ مُعَیَّنٌ لَا مُطْلَقٌ ‘‘( منہاج السنۃ، ج: ۴،ص: ۵۷۲)
یہ اس حدیث ِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف اشارہ ہے کہ ’’ اَوَّلُ جَیْشٍ یَّغْزُوْنَ مَدِیْنَۃَ قَیْصَرَ مَغْفُوْرٌ لَّہُمْ ‘‘( بخاری)
قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والا پہلا لشکر بخشا بخشایا ہے۔ حدیث قسطنطنیہ میں جو مغفرت کی بشارت دی گئی ہے وہ بشارت کی دوسری قسم میں سے ہے۔ لفظاً و معناً، خاص علاقہ، خاص زمانہ، خاص افراد اور خاص جماعت یہاں مراد ہے۔ اس بشارتِ مغفرت میں افراد، جماعت، علاقہ اور زمانہ کا تعین کر دیا گیا ہے۔ اس میں بتائے گئے افراد کا تعین حدیث، تفسیر، اور تاریخ و سیرت میں کر دیا گیا ہے۔ ان افراد کی پوری حقیقت اﷲ کے علم میں تھی جس کا اظہار وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَی اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی ،زبان وحی ترجمان کے ذریعے متعین کر دیا گیا۔ اس حدیث میں بشارت بصورتِ خبر ہے جو من عند اﷲ و عند الرسول ہونے کی وجہ سے کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ اصحابِ بدر ہوں، اصحابِ بیعتِ رضوان ہوں یا مجاہدین حدیث مغفور یہ خبر اُن کی مغفرت کی قطعیت پر یعنی اُن غازیان اوّل جیش کے جنتی ہونے پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ اہلِ بدر کے بارے میں وضاحت ہو چکی۔
صغائر و کبائر کی مغفرت کی بحث میں علماءِ کرام نے پہلی قسم (فضائلِ اعمال) کی بشارت کے ضمن میں کی ہے، جہاں تک دوسری قسم کی بشارت کا تعلق ہے تو علماءِ کرام نے یہاں صغائر و کبائر کی کسی قسم کی کوئی بحث نہیں کی ہے بلکہ یہاں بالاتفاق کُلّی مغفرت یعنی جنتی ہونا مراد لیا ہے جیسے اہلِ بدر کا معاملہ مذکور ہوا۔
صحیح بخاری میں کئی احادیث جن میں کسی خاص شخص کی مغفرت کی بات ہے، اس سے اس کی کلّی مغفرت یعنی اُس کا جنتی ہونا مراد لیا گیا ہے۔ مثلاً حدیث نمبر: ۳۴۷۰ میں سو کے قاتل کا ذکر ہے اور پھر فرمایا فَغُفِرَ لَہٗ ، تو اس سے کلّی مغفرت مراد ہے۔ اسی طرح اہلِ بدر کے بارے میں فرمایا: ’’ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ ‘‘یہاں یہ کہنا کہ مغفرت سے مراد صرف صغائر کی مغفرت ہے پرلے درجے کی حماقت ہے۔
بہرحال جیش مغفور کی بشارت کا تعلق فضیلتِ اعمال سے ہے ہی نہیں بلکہ اس کے لیے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ فلاں شخص یا جماعت اُس بشارت میں شامل ہے۔ واﷲ اعلم

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.