تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

خلیفہ راشد، امیرالمؤمنین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ، حیات طیبہ کے چند پہلو

محمدعرفان الحق، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

رجب المرجب کا مہینہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ نبی ﷺ کے لائق صد عزت و تکریم صحابۂ کرامؓ میں انتہائی اہم مقام و مرتبہ کے حامل امیر المؤمنین سیدنا امیرمعاویہ رضی اﷲ عنہ کی وفات کا مہینہ ہے۔ اس ماہ کی ۲۲ تاریخ کوسیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے بعد اسلام کے دامن میں ایسا خلا چھوڑ گئے جو تا قیام قیامت پر نہ ہو سکے گا۔ آپؓکاتب وحی ہیں۔ آپؓ سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمان ذوالنورینؓ کے عہد خلافت میں شام اور اس سے ملحقہ علاقوں میں امارت و گورنری کے منصب پر فائز رہے۔ آپؓ تقریباً۲۰ سال امیرالمؤمنین اور خلیفہ رہے اور زائد از نصف کرہ ارض پر پرچم اسلام بلند کیا۔
خاندان:
حضرت امیر معاویہؓ کا خاندان دیارِ عرب کے مشہور قبیلہ ’’عبد مناف‘‘ میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ قبیلہ ’’عبدمناف‘‘ کی مشہور شاخیں ’’بنوہاشم‘‘ اور ’’بنوامیہ‘‘ ہیں۔ قبیلہ ’’بنو ہاشم‘‘ جناب سیدالکائنات نبی اقدسﷺ کی ذات بابرکات کی وجہ سے تمام قبائل پر فوقیت رکھتا ہے۔ اور شرف و فضیلت میں اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہے۔اور قبیلہ ’’بنو عبد شمس‘‘ اور ’’بنوامیہ‘‘ وغیرہ اپنی جگہ پر صاحب فضیلت ہیں لیکن ’’بنو ہاشم‘‘ کے بعد ان کا مقام ہے۔ حرب بن امیہ اور عبدالمطلب بن ہاشم باہم دوست اور ہم نشین تھے اور ان میں بڑی الفت اور محبت تھی اس طرح حضرت ابوسفیانؓ بن حرب اور حضرت عباس ؓ بن عبدالمطلب میں باہمی تعلق اور دوستانہ مراسم تھے۔ (تاریخ الامت، ج۲، ص۱۷۴) یہی حال قرابت داریوں کا بھی تھا کہ حضور ﷺ کی دو پھوپھیاں بیضا بنت عبدالمطلب کریز بن ربیعہ اموی کے عقد میں اور سیدہ صفیہؓ بنت عبدالمطلب حارث بن حرب اموی کے نکاح میں تھیں۔(انساب الاشراف، بلاذری، ج۱،ص۱۸۸)
خودحضورﷺ کی تین صاحبزادیاں سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہؓ اور سیدہ ام کلثومؓ امویوں کے ہی نکاح میں تھیں۔ حضرت معاویہؓ کی بہن اور حضرت ابو سفیانؓ کی صاحبزادی ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہؓ حضورﷺ کی زوجیت میں تھیں۔ یعنی حضرت ابوسفیان رضی اﷲ عنہ کے دونوں فرزند حضرت یزیدرضی اﷲ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ دونوں حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا کے بھائی تھے۔ حضرت ابوسفیان رضی اﷲ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر سیدنا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کے ساتھ خدمت نبوت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ابوسفیان رضی اﷲ عنہ کا اعزاز و اکرام فرماتے ہوئے اعلان کروا دیا کہ جو شخص مسجد حرام میں داخل ہو جائے، اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے، اپنے ہتھیار پھینک دے، ابوسفیان رضی اﷲ عنہ کے گھر داخل ہو جائے اسے امان ہے۔ (المنتقیٰ من منہاج الاعتدال، فصل ثانی، روی جدنا عن جبرئیل عن الباری و فصل ثانی فی امامۃ علی رضی اللّٰہ عنہ)حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی والدہ محترمہ سیدہ ہند رضی اﷲ عنہا بھی بڑی فضیلت والی صحابیہ ہیں۔ جب آپ رضی اﷲ عنہا نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول فرمایا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انتہائی خوش ہوئے، اس موقع پر نبی علیہ السلام نے سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اﷲ عنہا کے لیے ’’مرحبا‘‘کا لفظ بھی ارشاد فرمایا۔
برادر امیر معاویہؓ سیدنا یزید بن ابوسفیان رضی اﷲ عنہما:
’’آپ بھی سوار ہو جائیں یا مجھے بھی پیدل چلنے کی اجازت دے دیں‘‘ ۔جواب ملا: ’’مجھے سوار ہونے اور تمہیں پیدل ہونے کی ضرورت نہیں، میں تو ہر قدم کو راہ باری تعالیٰ میں شمار کر رہا ہوں‘‘۔ وہ دونوں پر وقار انداز میں آہستہ رفتار کے ساتھ شہر سے باہر جانے والے رستے پر چل رہے تھے۔ ایک شخص پیدل اور دوسرا سوار تھا۔ پیدل چلنے والا شخص اپنے سوار ساتھی کو ایسے نصیحتیں کر رہا تھا جیسے کوئی شفیق باپ اپنے بیٹے کو لمبے سفر پر رخصت کرتے وقت نصیحت کرتا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’تمہیں شام میں تارک الدنیا راہب ملیں گے تم ان سے تعرض کرنا نہ ہی ان کی رہبانیت سے۔ بیچ سے سر منڈانے والے لوگوں سے اگر جنگ میں واسطہ پڑے تو ان کے سر کے اسی حصہ پر تلوار کا وار کرنا‘‘۔ سوار انتہائی انہماک سے یہ ہدایات سنتا جا رہا تھا۔ پیدل شخص خلیفۂ رسول، خلیفۂ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق ؓ تھے جنہوں نے حضرت سیدنا یزیدؓ کو شام کی طرف لشکر کشی کرنے والی فوج کا امیر مقرر کیا تھا اور اب حضرت یزیدؓ بن ابوسفیانؓ کو الوداع کہنے کچھ دور ،اُن کے ساتھ چل رہے تھے۔
سیدنا یزیدؓ صاحب دارالامن سیدنا ابوسفیانؓ کے بڑے بیٹے اور امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بڑے بھائی تھے۔ آپؓ کی کنیت ابو خالد اور لقب ’’خیر‘‘ تھا۔ آپؓ انتہائی متقی اور سلیم الطبع شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے لقب کی وجہ سے حضرت اقدسؓ ’یزید الخیر‘ کے نام سے مشہور تھے۔غزوۂ حنین میں نبی اکرمﷺ کی معیت میں کفر کے مقابلہ پر آئے۔ نگاہ محمد مصطفیﷺ ،سیدنا یزیدؓ کی خدا داد صلاحیتوں کو بھانپ چکی تھی اسی لیے آپﷺ نے بنی امیہ کے اس ممتاز اور اعلی صفات و صلاحیت کے مالک صحابی کو بنی فراس کی امارت سونپ دی۔سیدنا ابوسفیانؓ کے قابل قدر فرزند اور امیرالمؤمنین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بڑے بھائی سیدنا یزید الخیر ؓ نے کفار کے خلاف جہاد میں سیدنا خالدؓ بن ولید سیف اﷲ، فاتح مصر سیدنا عمروؓ بن العاص اور امین الامت سیدنا ابو عبیدہ ؓ بن الجراح من عشرہ مبشرہ کی معیت میں شجاعت و تدبر سے پُر وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیے جو کہ آب ِزر سے تحریر کرنے کے لائق ہیں۔ آنجنابؓ کی دی ہوئی مدبرانہ تجاویز سے فتوحات شام میں زبردست مدد ملی۔ بصرہ، اجنادین اور اردن کی مہمات میں حضرت یزیدؓ بھی قدم بہ قدم شامل رہے۔ سیدنا عمر فاروق اعظم ؓ کے دور خلافت میں ۱۸ھ کے اواخر یا ۱۹ھ کے اوائل میں سرزمین شام پر یہ عبقری شخصیت سیدنا ابو خالد یزید الخیرؓ بن ابی سفیانؓ، دنیا سے رخصت ہوئی۔
سیدنا امیر معاویہ ؓ کی نبی علیہ السلام سے رشتہ داریاں:
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا بھی شامل ہیں۔ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا ، حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی بہن تھیں ۔ اس وجہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ امت مسلمہ کے ماموں بھی کہلاتے ہیں۔ اسی لیے آپؓ کو خال المؤمنین کہاجاتا ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نہ صرف حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ’’برادر نسبتی‘‘ ہیں بلکہ سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ’’ہم زلف‘‘ بھی ہیں، کیوں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اہلیہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی بہن قریبۃ الصغریٰ رضی اﷲ عنہا حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی اہلیہ تھیں۔
سیدنا امیر معاویہؓ کا نبی علیہ السلام کے بال مبارک تراشنا:
سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک دفعہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بال مبارک بھی تراشے۔ صحیح بخاری میں کتاب الحج کے باب الحلق و التقصیر عند الاحلال میں سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے جس میں آپؓ فرماتے ہیں کہ میں نے مشقص سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بال مبارک تراشے تھے۔ مشقص سے مراد تیر کی پیکان یا بھال ہے نیز عربی میں مشقص چوڑے پھل والے تیر کو بھی کہا جاتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ سن ۷ہجری کا ہے جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے عمرہ ادا فرمایا اور حالت احرام سے نکلنا چاہ رہے تھے، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس موقع پر قصر کروایا جب کہ یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حلق، حج کے موقع پر کروایا تھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بال مبارک عمرہ کے وقت کترے تھے اور یہ عمرۃ القضاء کا موقع تھا۔ سیرت معاویہؓ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آں جناب رضی اﷲ عنہ نے اپنی وفات سے قبل وصیت فرمائی تھی کہ میرے پاس نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے کچھ بال اور ناخن محفوظ رکھے ہیں،میری وفات کے بعدان بالوں اور ناخنوں کو میرے چہرے پر رکھ مجھے دفن کیا جائے۔
سیدنا امیرمعاویہؓ بحیثیت کاتب وحی:
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں جہاں دیگر کاتب حضرات تھے وہاں سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بھی ان کے صدق و امانت کے پیش نظر کتابت کے منصب سے سرفراز کیا گیا تھااور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کاتبوں میں ان کا خاص مقام تھا۔ یہ امر حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی صلاحیت و صداقت اور امانت کی دلیل ہے۔ نیز یہ امر نگاہ رسالت میں آں موصوف رضی اﷲ عنہ کے معتمد ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ’’کتابتِ وحی‘‘ ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ ’’کاتبین وحی‘‘ تھے۔ ان میں سیدنا امیرمعاویہ رضی اﷲ عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔
کتابت وحی کے منصب پر تقرر کے بعد سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ حضرت زید رضی اﷲ عنہ بن ثابت کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ کتابت وحی کا اہم فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ یہ دونوں حضرات رضی اﷲ عنہما دن رات آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہتے اور اس کے سوا کوئی کام نہ کرتے تھے۔ کاتبان وحی کو درج ذیل قرآنی صراحت کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان کی فضیلت کے لیے یہی ایک چیز کافی ہے کہ قرآن کریم کی سورۂ عبس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فی صحف مکرمۃ مرفوعۃ مطہرۃ بایدی سفرۃ کرام بررۃ
’’لکھا ہے عزت کے ورقوں میں اونچے رکھے ہوئے، نہایت ستھرے ہاتھوں میں لکھنے والوں کے، جو بڑے درجہ کے نیک کار ہیں‘‘۔ (ترجمہ از معارف القرآن، مفتی محمد شفیع)
سیدنا امیرمعاویہؓ خلافت صدیقی میں:
ابن کثیر نے لکھا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ جنگ یمامہ میں حاضر ہوئے اور مسیلمہ کے قتل میں بھی شامل تھے۔صدیقی دور میں علاقہ شام کی طرف مسلمانوں کے مختلف جیوش اور عساکر وقتاًفوقتاً حسب ضرورت ارسال کئے گئے۔ چنانچہ حضرت ابوسفیانؓ کے بڑے فرزند حضرت یزیدؓ بن ابی سفیان ؓ کو شام کی طرف صدیقی دور میں مہمات سر کرنے کے لئے بھیجا گیا اور ان کے ساتھ دیگر صحابہ ؓ بھی ان مہمات میں شامل تھے۔بعض دفعہ یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو مزید کمک کی ضرورت پیش آئی تو حضرت ابو بکر صدیقؓنے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کوایک دستہ کا امیر بنا کر روانہ فرمایا۔ فتوح البلدان کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ اپنے بھائی کے بعد دوسرے شامی لشکر کے امیر بنائے گئے۔
سیدنا امیرمعاویہؓ خلافت فاروقی میں:
فتح مرج کے بعد آپؓ نے اپنے بھائی یزیدؓ بن سفیانؓ کے ساتھ شام کے مضبوط قلعے قلعہ صیداء، عرفہ، جبیلی اور بیروت کی تسخیر کے لئے پیش قدمی کی۔ عرفہ کے قلعہ کو فتح کرنے کیلئے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے جان جوکھوں میں ڈال دی۔ ان قلعوں کی فتح نے حضرت عمرؓ کو بہت متاثر کیا انہوں نے خوش ہو کر آپؓ کو اردن کا گورنر مقررکر دیا۔قبل ازیں جو علاقے رومیوں کے قبضے میں چلے گئے تھے، آپؓنے وہ دوبارہ چھین لیے اور وہاں اسلامی شوکت و حشمت کا پھریرا لہرا دیا۔
شام کی فتوحات میں فتح اردن ۱۵ھ میں ہوئی ،یہ ایک مشکل مہم تھی۔ اس موقع پر لشکر اسلام کے سپہ سالار حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح تھے۔حضرت عمر وؓبن العاص اس موقعہ پر امیر الافواج تھے لیکن ابو عبیدہؓ بن الجراح امیر الامراء تھے۔ جب سواحل اردن کا معاملہ پیش آیا توحضرت عمر وؓبن العاص نے حضرت ابو عبیدہ ؓبن الجراح کو کمک بھیجنے کے لئے لکھاتو حضرت ابو عبیدہؓ نے یزیدؓ بن ابی سفیانؓ کو ان کی طرف بھیجااور ان کے ساتھ مقدمۃ الجیش پر سیدنا معاویہ ؓ نگران تھے۔
فتح دمشق کے ساتھ ہی اس علاقے کے سواحل صیداء، عرفہ، جیبل بیروت وغیرہ کی طرف اسلامی فوجوں نے توجہ کی اور ان علاقوں کو بڑی کوششوں سے فتح کیا۔اس موقع پر لشکر کے مقدمتہ الجیش پرسیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ تھے اور ان کی کمان میں یہ فتوحات کثیرہ ہوئیں۔ خصوصاًعرفہ کی فتح سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی کوشش سے ہوئی۔
امیر المومنین حضرت عمرؓ نے قیساریہ کی مہم سر کرنے کے لیے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کا انتخاب فرمایا۔ قیساریہ بحیرہ روم کے ساحل پر بڑا عظیم الشان شہر تھا۔ اس کی عظمت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے شہر پناہ پر ایک لاکھ سپاہی رات کو پہرہ دیا کرتے تھے اور اس میں تین سو بازار تھے۔ چنانچہ اس عظیم شہر کوفتح کرنے کے لئے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی طرف سے ۱۵ہزار کا لشکر پہلے ہی سے خیمہ زن تھا چونکہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ اول درجہ کے منتظم جنگ تھے۔ اس لیے فوج کی ترتیب اس انداز سے کی گئی کہ جب جنگ چھڑی، گھمسان کا رن پڑا اور چند روز کی لڑائی کے بعد دشمن کو پسپا کر دیاگیا۔اور وہ شکست کھا کر شہر بند ہوگئے ،سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے بڑھ کر شہر کا محاصرہ کر لیا۔آخر ایک دن رومی بڑے جوش و خروش کے ساتھ ایک لاکھ کا لشکر لے کر نکلے اور بڑی خون ریز جنگ کے بعد وہ میدان جنگ سے ہٹے اور سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ میں ۸۰ہزار رومی مارے گئے اور اس کے فتح ہونے کی خبر امیر المومنینؓ نے سنی تو زبان مبارک سے بے ساختہ اﷲ اکبر کا نعرہ نکل گیا۔تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ اس فتح سے رومیوں کے دلوں میں سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ دوبارہ سر اٹھا نہ سکے۔
فاروقی دور میں فلسطین کے علاقہ میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور بہت سے علاقے اہل اسلام نے فتح کیے۔ ان مواضعات میں عسقلان کی فتح کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے والی شام کو ایک مکتوب ارسال کیا کہ عسقلان کی طرف توجہ دیں اور اسے فتح کرنے کی سعی کی جائے۔ چنانچہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے امیرالمومنین کے اس حکم کی تعمیل میں عسقلان کی طرف پیش قدمی کی اور اسے فتح کرلیا۔ اور بعض مورخین نے لکھاہے کہ حضرت عمروؓبن العاص نے عسقلان کو فتح کیا تھا اور جب آپؓ اسے فتح کرنے کے بعد واپس ہوئے تو اہل عسقلان کی رومیوں نے مدد کی اور انہوں نے نقض عہد کردیا اور باغی ہوگئے۔ ان حالات کے بعدسیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے عسقلان کی طرف پیش قدمی کی اور اسے دوبارہ فتح کیا۔ پھر وہاں اپنی افواج کو ٹھہریا اور حفاظتی دستے متعین فرمائے۔
سیدنا امیرمعاویہؓ خلافت عثمانی میں:
۲۴ ھ میں حضرت عثمانؓ سر یر آرائے خلافت ہوئے تو آپؓ نے بھی سیدنامعاویہ رضی اﷲ عنہ کو دمشق کا عامل بنائے رکھا بلکہ ان کی ذہانت و فراست اور حربی صلاحیت دیکھ کر پورے شام کا گورنر بنادیا۔ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کردیا اور آزمودہ جرنیلوں کو فوج کی کمان سپرد کی اور ان کو مختلف مقامات پر فوج کشی کرنے کا حکم دیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے طرابلس اور شام فتح ہوا۔ اس کے بعد خود ۲۵ ھ ایک لشکر جرار کے ساتھ آگے بڑھے اور انطاکیہ، طرطوس، شمشاط، اور ملعلیہ تک کے علاقے فتح کرتے ہوئے عموریہ تک چلے گئے اور یہاں نئی بستیاں بسائیں، متعدد قلعے تعمیر کرائے، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں اور مسلمانوں کو لاکر بسایا۔
کم لوگوں کو علم ہوگا کہ بحری بیڑے کے موجد سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ ہیں۔ ایک سیرت نگار لکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی فطرت عالمگیر تھی۔ ان کی ہمت عالی کا تقاضا یہ تھا کہ ایشیاء سے نکل کر یورپ و افریقہ پر حملہ ممکن نہ تھا جب تک کہ بحری بیڑہ نہ ہو۔ آپؓ کی دور اندیشی اور فراست ایمانی کا یہ فیصلہ تھا کہ اگر اسلام کو بہ حیثیت ایک نظام حیات دنیا پر غالب کرنا اور روم کی غیر اسلامی شوکت و سطوت کو اپنے پاؤں تلے کچلنا ہے تو اس کے لیے بحری بیڑہ وجود میں لانا پرے گا۔ چنانچہ آپؓ نے عہد فاروقی میں اس کا اظہار کیا تھا جسے بعض وجوہ کی بنا پر حضرت عمرؓ نے منع کیا۔ پھر آپؓ نے عہد عثمانیؓ میں پہلا اسلامی بیڑہ بحیرہ روم میں اتارا اور کچھ ہی دنوں میں افریقہ اور یورپ کی وسیع سرزمین پر اسلامی جھنڈا لہراتا ہوا نظر آیا۔
۲۵ھ میں سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے قلعوں کو فتح کیا اور مورخین لکھتے ہیں کہ ۲۷ھ میں آپؓ نے قنسرین کو بھی فتح کر لیا اور بعض مورخین کا قول ہے کہ ۲۷ھ میں معاویہ رضی اﷲ عنہ نے قبرص فتح کر لیا تھا۔اکابر علماء نے لکھا ہے کہ معرکہ قبرص میں سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے بذات خودشرکت فرمائی، آپؓ کی اہلیہ فاختہ بنت قرظ بھی تھیں۔ اس معرکہ میں آپؓ کے ساتھ اکابر صحابہ جن میں حضرت ابوذرغفاریؓ، ابو درداؓ،شدادؓبن اوس اور عبادہؓ بن الصامت، حضرت مقدادؓبن اسود،حضرت ابوایوب انصاریؓبھی شریک تھے۔ حضرت عبادہؓ کی اہلیہ ام حرامؓ بنت ملحان ان کے ساتھ تھیں جن کے متعلق حدیث صحیح میں ایک پیشنگوئی جناب نبی کریمﷺکی موجود ہے۔آپﷺنے خواب سے بیدار ہوتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ میری امت کا پہلا لشکر جو بحری غزوات کرے گا انہوں نے اپنے اوپر جنت کو واجب کر لیا۔اس ارشاد کے سننے پر حضرت ام حرامؓنے عرض کیا کہ یا رسولﷺ کیا میں ان میں شامل ہوں گی؟ تو آپﷺنے فرمایا کہ تم ان میں داخل ہو۔
سیدنا امیرمعاویہؓ خلافت علوی میں:
اسلام دشمنی سے لبریز یہودی شرارتی ذہن کی ناپاک سازشوں اور چالوں کی وجہ سے سیدنا علی مرتضیٰ ؓ اور سیدنا امیرمعاویہؓ کے مابین اختلاف ِرائے کو کافی حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا حالانکہ بات صرف یہ تھی کہ سیدنا علیؓ کا خیال تھا کا بیعت ِخلافت کے قیام کے بعد قاتلین ِعثمان ؓ کی سرکوبی کی جائے جبکہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ اس حق میں تھے کہ پہلے قصاص عثمان غنی لیا جائے پھر بیعت لی جائے۔ اس اختلاف میں کافی عرصہ گزرا اور کئی شورشیں دشمنوں کی طرف سے کی گئیں جس کے نتیجہ میں تاریخ میں کئی ایسے واقعات درج کر لیے گئے کہ جو ناموس صحابہؓ کے بالکل بر عکس ہیں۔ انہی سازشوں کی بدولت خوارج کا فتنہ اٹھا اور سیدنا علی ؓ کی شہادت بھی ایک خارجی ابن ملجم کے ہاتھوں ہوئی۔
سیدنا امیرمعاویہؓ خلافت حسنی میں:
شہادت علیؓ کے بعد سیدنا حسنؓ بن علیؓ ۶ ماہ کے لیے خلافت پر متمکن ہوئے مگر اپنی دور اندیشی اور صحابیت کے مقام کی سربلندی اور دانائی کے باعث آپؓ نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے صلح کرلی اور نبیﷺ کی یہ پیشنگوئی پوری ہوئی کہ’’یہ میرا بیٹا سید ہے۔ خدا اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کرائے گا‘‘ (فتح الباری)۔
خلافت امیر معاویہؓ:
یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ امیر المؤمنین معاویہ رضی اﷲ عنہ کا عہد خلافت اسلام میں بڑا اہم دور ہے۔ اس دور میں اسلام کو کامل فروغ حاصل ہوا۔ دین و شریعت کے تمام شعبوں میں ترقی ہوئی اور اس عہد کے باقی مخالف ادیان یہود و نصاریٰ وغیرہ پر اسلام غالب آگیا اور اسلام کی مخالفت پر کمربستہ عظیم سلطنتوں کا زور ٹوٹ گیا۔سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کی اوصاف حمیدہ سے عبارت مبارک زندگی کے تمام حالات خصوصاً فتوحات ِمعاویہ ؓ کا مکمل تذکرہ ان قلیل صفحات میں کرنا ممکن نہیں لہٰذا مختصراً اجناب معاویہ رضی اﷲ عنہ کی فتوحات کا ذکر خیر کیا جاتاہے۔
فتوحات:
امت مسلمہ کے متفقہ اور اجماعی خلیفہ کے منصب پر متمکن ہونے کے بعد سب سے پہلے امیرالمؤمنین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے خوارج کا قلع قمع فرمایا۔اور پھر شرقی ممالک، خراسان، ترکستان، سجستان، سمرقند و بخارا جیسے اہم علاقوں اور خطوں کو فقط اعلاء کلمۃاﷲ کے جذبۂ ایمانی سے فتح کیا اور یہاں خلافت اسلامیہ کا پرچم لہرایا۔ پھر قندھار، ہندوستان کے کئی علاقوں کو خلافت ِاسلامیہ میں ضم کیا۔ پاکستان میں چارسدہ کے علاقہ میں ’’اصحاب بابا‘‘ کے نام سے مشہور قبر سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے دور میں یہاں بھیجے ہوئے ایک مجاہد صحابیؓ کی ہے۔ فتوحات کا سلسلہ بڑھتا گیا اور بلاد روم، قسطنطنیہ، روڈس، قلعۂ کمخ، بلاد افریقہ، قیروان،جلولاء، قرطاجنہ اور جزیرۂ قبرص جیسے اہم علاقے خلافت ِاسلامیہ میں شامل ہوتے چلے گئے۔ یہ بھی خیال رہے کہ قیساریہ کا مشہور شہر جس کے صرف دیواروں پر ایک لاکھ پولیس پہرہ دیا کرتی تھی، بھی سیدنا معاویہؓ کی اعلیٰ بصیرت و سیاست کے نتیجہ میں فتح ہو کر خلافت اسلامیہ میں داخل ہو۔ اپنی وفات تک سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ۶۵ لاکھ۶۴ ہزار مربع میل کے رقبہ پر دین اسلام کا جھنڈا گاڑا۔
سفر آخرت:
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اپنی تجہیز و تدفین کے متعلق ہدایات دیں کہ ’’مجھے رسول اﷲﷺ نے ایک کرتا مرحمت فرمایا، جسے میں نے اپنی جان کے برابر حفاظت سے رکھا ہے، اب یہی میرا کفن ہوگا۔ حضور انورﷺ کے کچھ تراشے ہوئے ناخن اور ریش مبارک کے کچھ بال میں نے شیشی میں حفاظت سے رکھ چھوڑے ہیں، یہ آنکھوں پر رکھ دینا بس یہی میرے لیے کافی ہیں۔ یہ فرما ہی رہے تھے کہ کلمہ توحید زبان پر آگیا اور ۲۲ رجب ۶۰ ھ بمطابق 17 اپریل 680 ء کو فضل و کمال اور رشد و ہدایت کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ معاویہ رضی اﷲ عنہ کو غسل دیا گیا اور حسب ِوصیت اور تبرکات جو آپؓ نے محفوظ کیے ہوئے تھے، کفن میں شامل کئے گئے۔ جب تجہیز و تکفین کے مراحل طے ہوچکے تھے تو نماز ظہر ادا کرنے کے بعد حضرت ضحاکؓ بن قیس نے نماز جنازہ جامع مسجد دمشق میں پڑھائی اور انہیں دارالامارۃ دمشق جسے الخضراء کہتے ہیں، میں دفن کیا گیا۔
٭……٭……٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.