تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

خواہشِ اقتداراور سیاست دانوں کی ذہنی صحت

پروفیسر خالد شبیر احمد

ہمارے ملک کے نیتاؤں کی موجودہ گفتگو سن کر لگتا ہے کہ شاید ملک میں سیاست کرنے کے لیے ذہنی صحت کی شرط اٹھا دی گئی ہے۔ مرکزی دھارے کی ہر جمہوری و سیاسی جماعت کا ہر لیڈر بلکہ اس کے چھٹ بھی خواہشِ اقتدار کے ہاتھوں دیوانگی کی منازل طے کر چکے ہیں۔ جمہوری طرزِ سیاست ملک و ملت کے حق میں تو مضر ہے ہی مگر انسان کو اپنے ہوش و حواس سے بھی بیگانہ کردیتا ہے۔ اسی وجہ سے سید الوجود ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس طرزِ سیاست کی بنیاد یعنی خواہش اقتدارہی کی شدت سے نفی فرمائی۔دینِ اسلام میں خواہش اقتدار کی مذمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقتدار کی خواہش رکھنے والے کو خائن کہا گیا ہے۔ جو لوگ عہدوں یا منصب کے حصول کے لیے تگ و دو کرتے ہیں، اسلامی معاشرے میں بد دیانیت کہلاتے ہیں۔ عہدہ دینی نقطۂ نظر سے ایک آزمائش ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی آزمائش کے لیے جو آدمی خود کو پیش کر رہا ہے۔ ایسا شخص دو حالتوں سے باہر ہرگز نہیں ہے، یا تو وہ اپنے آنے والی ذمہ داریوں سے واقف ہی نہیں یا پھر اس کی نیت میں فتور ہے اور وہ اپنی حرص و ہوس کے سامنے بے بس ہو گیا ہے۔ پہلی صورت میں ایسی مشکل میں پڑنے کے بعد یہ ناممکن ہے کہ وہ اپنے آپ کو خواہشات کے فتنوں سے محفوظ رکھ سکے۔ جب کوئی آزمائش آئے گی اس کے قدم ضرور ڈگمگائیں گے اوراور دوسری صورت میں مبتلا فرد تو پہلے ہی مرحلے میں بددیانت اور خائن ہو گیا۔ ایسے شخص کو منصب کی ذمہ داری دے دینا اور اہم عہدہ پر فائز کر دینا ایسے ہے جیسے کسی چور کو تھانیدار مقرر کر دیا جائے۔
معروف صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ وہ اپنے دو رشتے داروں کے ہمراہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اُن میں سے ایک نے کہا کہ ہم اس لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں کہ ہمیں حکومت کے کسی منصب پر فائز کریں۔ دوسرے شخص نے بھی اس قسم کی خواہش کا اظہار کیا۔ آپ نے جواب میں فرمایا:
’’ہمارے نزدیک سب سے بڑا خائن وہ ہے جو کوئی عہدہ طلب کرے۔‘‘
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کو کوئی منصب عطا نہیں فرمایا حتیٰ کہ آپ نے وفات پائی۔
دینِ متین کی تعلیمات سے یہ بات واضح طور پر ابھر کے سامنے آتی ہے کہ اﷲ اور اس کا رسولِ گرامی صلی اﷲ علیہ وسلم صرف اُنھی لوگوں کو پسند فرماتے ہیں جو کسی منصب یا عہدہ کو آزمائش خیال کرتے ہوئے عہدوں سے دور بھاگتے ہیں اور ان لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے ہیں جو عہدوں کی خواہش رکھنے کے بعد عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے ہاں یہ قانون ہے کہ جو آزمائش وہ اپنے بندوں پرڈ التا ہے صرف اُسی میں اپنے بندوں کی مدد فرماتا ہے اور اگر وہ اس آزمائش پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں کامیابی بھی عطا کرتا ہے۔ یہ بات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ سے واضح ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے عبدالرحمن! کبھی امارت کے طالب نہ بننا، اگر یہ بن مانگے تمھیں ملی تو اس کام میں رب کی طرف سے تمھاری مدد کی جائے اور اگر اس کو مانگ کر لوگے تو تم اس امارت یا منصب کے حوالے کر دیے جاؤ گے اور اﷲ تعالیٰ تعاون کا ہاتھ تم سے کھینچ لے گا۔‘‘
خواہشِ اقتدار کے اسی فتنے نے حکومتوں کو اپنی اہم اور بنیادی ذمہ داریوں سے غافل کر رکھا ہے۔ جو کچھ حکومتوں کو کرنا ہوتا ہے اس کے اربابِ بست و کشاد اس سے ناواقف اور غافل ہیں اور جو کچھ نہیں کرنا چاہیے اس میں ملوث ہو کر اپنی عاقبت اور قوم کا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تو حکومتِ وقت ہر اس شخص کی کفالت کی بھی ذمہ دار ہے جس کا کوئی کفیل نہ ہو۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’میں اس کا وارث ہو جس کا کوئی وارث نہیں اس کی جانب سے دیت ادا کروں گا‘‘ ۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اﷲ علیہ اسی حدیث کی روشنی میں رقم طراز ہیں:
’’حکومت جس طرح اس شخص کی وارث ہوتی ہے جس نے کوئی وارث نہ چھوڑا ہو۔ اسی طرح وہ اس کا قرض بھی ادا کرنے کا ذمہ دار ہے جب کہ وہ قرض کی ادائیگی کے لیے کوئی شے چھوڑے بغیر مر جائے نیز وہ اس کی زندگی میں اس کی کفالت کی بھی ذمہ دار ہو گی جب کہ کوئی اس کی کفالت کرنے والا نہ ہو۔
زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے ساتھ بازار کی طرف جا نکلا۔ وہاں ایک خاتون حضرت رضی اﷲ عنہ کے پاس آئی، بولی اے امیر المؤمنین میرے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس نے بچے چھوڑے ہیں، وہ ابھی اتنے چھوٹے ہیں کہ ایک لقمہ بھی اپنے ہاتھ سے نہیں توڑ سکتے۔ اُن کے باپ نے نہ زمین چھوڑی، نہ مویشی ہیں۔ ڈرتی ہوں کہ کہیں یہ بچے کسمپرسی کی نذر نہ ہو جائیں۔ میں خفاف ابن ایما غفاری رضی اﷲ عنہ کی بیٹی ہوں، میرے باپ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اس کی بات سن کر وہیں کھڑے ہو گئے، اس قریبی تعلق پر خوشی کا اظہار فرمایا، پھر ایک اونٹ پر گیہوں کی بوریاں لدوائیں، کچھ نقدی اور کچھ کپڑے اس کے ساتھ رکھوائے اور پھر اس کی باگ اس کے ہاتھ میں پکڑا کر فرمایا:
’’اس کو لے جاؤ، اس کے ختم ہونے سے پہلے تمھارے پاس مزید سامان پہنچ جائے گا‘‘۔ (بخاری شریف)
دیکھئے! دینِ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں حکمرانوں کا احساس ذمہ داری کہ ایک صحابی کے مرنے کے بعد بھی اس کی اولاد کی کفالت کا فرض ادا ہو رہا۔ اب موجودہ ملکی حالات کی طرف دیکھئے کہ جہاں ذمہ داری اور منصب خواہش کے بعد حاصل کیا جاتا ہے۔اب ذرا ایک نظر ہماری روزمرہ زندگی کے آشوب پرڈالیے ، کیا ہولناکی ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا بھی مشکل امر ہے۔ اگر خدا پر کامل یقین کے ساتھ خدا کے احکامات کی پیروی کی جاتی تو یہ صورت حال نہ ہوتی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.