تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

سلفِ صالحین کی دنیا سے بے رغبتی اور زہد

ترجمہ: ابن سیف سنجرانی

٭ حضرت عبداﷲ بن مبارک کی کتاب الزہد میں ہے کہ ہمیں مَعْمَر نے ہشام بن عروہ سے روایت کی اور انھوں نے اپنے والد عروہ بن زبیر سے روایت کی: کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ شام تشریف لائے تو شام کے اُمراء اور سرداروں نے اُن سے ملاقات کی۔ انھوں نے پوچھا میرے بھائی ابو عبیدہ کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ابھی آتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک اونٹنی پر سوار ہو کر آئے، جس کی ناک میں رسی پڑی ہوئی تھی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اُن کو سلام کیا اور لوگوں سے کہا: ہمیں اکیلا چھوڑ دو۔ پھر اُن کے ساتھ چلتے ہوئے اُن کے پڑاؤ میں تشریف لے گئے۔ جب وہاں پہنچے تو اُن کے گھر میں اُن کی تلوار، اُن کی ڈھال اور زین کے سوا کچھ نہ دیکھا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کہنے لگے: آپ کچھ سامان رکھ لیتے یا فرمایا کچھ چیزیں رکھ لیتے۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہ فرمانے لگے: امیر المؤمنین! یہ ہمیں منزل تک پہنچانے کے لیے کافی ہے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج: ۱، ص: ۱۶)
٭ عبدالرحمٰن بن سعید بن یربوع مالک الدار سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے چار سو دینار لیے اور ایک غلام سے کہا: ان کو ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہ کے پاس لے جاؤ پھر کچھ دیر اُن کے گھر میں ٹھہرے رہنا اور دیکھنا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ غلام وہ رقم لے کر گیا اور اُس نے کہا امیر المؤمنین کہتے ہیں یہ قبول فرمائیں۔ فرمانے لگے: اﷲ اُن کا خیال رکھے اور رحمت فرمائے۔ پھر اپنی باندی کو آواز دی اور اُسے کہا کہ یہ سات فلاں کو دے آؤ اور یہ پانچ فلاں کو، یہاں تک کہ اُنھیں ختم کر دیا۔ غلام حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے پاس واپس آیا اور انھیں اس واقعے کی خبر دی۔ اس نے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اتنی ہی رقم حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کے لیے تیار کر رکھی ہے اور آپ نے وہ رقم دے کر غلام کو حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ کے پاس بھیجا۔ حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ فرمانے لگے: اﷲ اُن کا خیال رکھے۔ اے باندی! فلاں کے گھر میں اتنے دے آؤ اور فلاں کے گھر میں اتنے۔ حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ کی بیوی تشریف لائیں اور فرمایا: واﷲ! ہم بھی حاجت مند ہیں، ہمیں بھی دیجیے۔ اس وقت تھیلی میں دو دینار بچے تھے، حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ نے اپنی بیوی کی طرف اچھال دیے۔ غلام نے واپس آ کر یہ حال حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو بتایاتو اس پر بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے: یہ سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء، ج:۱، ص: ۴۵۶)
٭ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں اُن کے بیٹے طلحہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کے پاس حضرِ موت سے سات لاکھ آئے۔ وہ ساری رات پریشانی سے کروٹیں بدلتے رہے، اُن کی بیوی نے پوچھا: کیا پریشانی ہے؟ فرمانے لگے: ساری رات سوچا ہے اور کہتا ہوں کہ آدمی اپنے رب کے بارے میں اچھا گمان کیسے رکھ سکتا ہے جبکہ اس کے گھر میں اتنا مال رات بھر پڑا رہے۔ وہ کہنے لگیں: آپ کے دوست نہیں ہیں کیا؟ جب صبح ہو تو تھال اور پراتیں منگوائیے اور اس کو بانٹ دیجیے۔ فرمانے لگے: تم پر اﷲ کی رحمت ہو، بلاشبہ تم باتوفیق باپ کی باتوفیق بیٹی ہو (موَفَّقہ بنت موفَّق ہو)۔ (وہ اُمّ کلثوم بنت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہما تھیں) جیسے ہی صبح ہوئی، تھال منگائے اور سارا مال مہاجرین و انصار میں بانٹ دیا۔ ایک تھال حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے گھر بھی بھیجا۔ اُن کی اہلیہ کہنے لگیں: ابو محمد کیا اس مال میں ہمارا کچھ حصہ نہ تھا؟ فرمانے لگے: تم صبح سے کہاں تھی؟ جو بچا ہے تم لے لو۔ کہتے ہیں کہ ایک تھیلی تھی جس میں ہزار سے کم درہم بچ گئے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج:۱، ص: ۳۱)
٭ امام ثَوری ابو قیس سے وہ ہذیل بن شُرحْبیل سے اور وہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: جو آخرت کو مقصود بنائے گا، دنیا میں نقصان برداشت کرے گا۔ اور جو دنیا کو مقصود بنائے گا، آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔ اے قوم! فانی (یعنی دنیا) کے نقصان کو باقی رہنے والی (یعنی آخرت) کے لیے برداشت کر لو۔
(سیر اعلام النبلاء، ج:۱،ص: ۴۹۶)
٭ عبدالرحمٰن بن یزید حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: تم لوگ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ سے زیادہ لمبی نمازیں پڑھتے ہو اور زیادہ مشقت اٹھاتے ہو لیکن وہ تم سے زیادہ فضیلت والے ہیں۔ اُن سے کہا گیا کس وجہ سے؟ فرمانے لگے: اُنھیں آخرت کا تم سے زیادہ شوق تھا اور دنیا کا تم سے کم۔ (صفۃ الصفوۃ، ج:۲، ص: ۴۲)
٭ امام اوزاعی بلال بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: اعوذ باﷲ من تفرقۃ القلب(میں دل کی ٹوٹ پھوٹ سے اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں) اُن سے پوچھا گیا کہ تفرقۃ القلب کیا ہے؟ فرمایا: یہ کہ ہر وادی میں میرا مال ہو (یعنی ہر علاقے میں میرا ساز و سامان موجود ہو)۔ (سیر اعلام النبلاء، ج:۲، ص: ۳۴۸)
٭ ابوالبُختری سے روایت ہے: کہتے ہیں کہ اشعث بن قیس اور جَریر بن عبد اﷲ آئے اور حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ کی جھونپڑی میں داخل ہوئے، اُنھیں سلام کیا۔ پھر کہنے لگے آپ رسول اﷲﷺ کے ساتھی ہیں؟ انھوں نے فرمایا: مجھے نہیں معلوم۔ یہ دونوں حیرت میں پڑ گئے۔ انھوں نے فرمایا: اُن کا ساتھی وہ ہے جو اُن کے ساتھ جنت میں داخل ہو۔ یہ دونوں کہنے لگے کہ ہم حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ کے پاس سے آ رہے ہیں۔ حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: اُن کا ہدیہ کہاں ہے؟ انھوں نے کہا: ہمارے پاس تو کوئی ہدیہ نہیں۔ حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: اﷲ سے ڈرو! اور امانت ادا کرو۔ اُن کے ہاں سے میرے پاس کوئی شخص بغیر ہدیے کے نہیں آتا۔ وہ کہنے لگے: ہمیں ایسا مت کہیے(یعنی یہ مت سمجھیے کہ ہم نے خیانت کی) یہ ہمارے اموال ہیں آپ اپنی مرضی کے مطابق جو چاہیں قبول فرمائیں۔ حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: مجھے تو ہدیہ ہی چاہیے۔ وہ دونوں کہنے لگے: واﷲ! انھوں نے ہمیں کوئی چیز نہیں دے کر بھیجا، بس آپ کے بارے میں اتنا فرمایا: کہ تمھارے درمیان ایسے آدمی موجود ہیں کہ جب یہ اکیلے رسول اﷲ ﷺ کے پاس ہوتے تھے تو رسول اﷲ ﷺ ان کے علاوہ کسی اور کی خواہش نہیں رکھتے تھے۔ جب تم اُن کے پاس جاؤ تو اُنھیں میرا سلام کہنا۔ حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: میں تم سے اس کے سوا کون سا ہدیہ مانگ رہا تھا؟ اور اس سے بہتر کون سا ہدیہ ہو سکتا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج:۱، ص: ۵۴۹)
٭ قتادہ کہتے ہیں: جب حضرت عامر رحمہ اﷲ کا آخری وقت آیا تو رونے لگے۔ لوگوں نے کہا: آپ کیوں روتے ہیں؟ فرمایا: میں موت کے ڈر سے یا دنیا کی خواہش سے نہیں روتا بلکہ مجھے گرمیوں کا روزہ اور رات کا قیام چھوٹنے پر رونا آ رہا ہے۔
(سیر اعلام النبلاء، ج: ۴، ص: ۱۹)
٭ موسیٰ تیمی حضرت عبدالرحمٰن بن ابان بن عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کی تعریف میں کہتے ہیں: میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا جس کے پاس عزت و شرف، وجاہت و حکومت اور دین داری اُن سے بڑھ کر اکٹھی ہوئی ہو۔ کہا گیا ہے کہ وہ پورے کے پورے خاندان کو خریدتے تھے اور انھیں نئے کپڑے پہنا کر آزاد فرما دیتے تھے۔ اور کہتے تھے: میں ان کے ذریعے موت کی سختیوں پر مدد اکٹھی کرتا ہوں۔ چنانچہ ان کی موت اس حال میں ہوئی کہ وہ مسجد میں سو رہے تھے۔ علی بن عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے جب اُن کو دیکھا تو اُنھیں اِن کی عبادت اور زہد کی عادتیں اچھی لگیں، چنانچہ بھلائی میں اُن کی نقل کرنے لگے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج: ۵، ص: ۱۰)
٭ علی بن الفُضیل کہتے ہیں میں نے اپنے والد کو سنا کہ وہ حضرت عبداﷲ بن مبارک سے کہہ رہے تھے کہ آپ ہمیں زہد کا، کم دنیا کمانے کا اور بس ضرورت پوری کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ جبکہ آپ کے پاس اتنا ساز و سامان ہے، یہ کیا ماجرا ہے؟ فرمانے لگے: ابو علی یہ میں اس لیے کرتا ہوں کہ اپنی ذات اور اپنی آبرو کی حفاظت کروں اور اس کے ذریعے آسانی سے اپنے رب کی اطاعت کر سکوں۔ انھوں نے کہا: اے ابن مبارک! اگر ایسا ہو سکے تو کتنی اچھی بات ہے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج: ۸، ص: ۳۸۷)
٭ زیادبن ماہک سے روایت ہے کہ شدّاد بن اوس رضی اﷲ عنہ فرماتے تھے: تم خیر کے صرف اسباب ہی دیکھ سکتے ہو اور شر کے بھی اسباب ہی نظر آتے ہیں۔ خیر ساری کی ساری جنت ہے اور شر سارے کا سارا آگ ہے۔ دنیا بلاشبہ ایک سامنے کا سامان ہے جس سے نیک اور فاجر دونوں ہی کھاتے ہیں اور آخرت ایک سچا وعدہ ہے جس میں ملکِ قاہر (یعنی زبردست بادشاہ) کا حکم چلتا ہے۔ دنیا اور آخرت میں سے ہر ایک کے بیٹے (یعنی وارث) ہیں۔ تم آخرت کے بیٹے بنو، دنیا کے بیٹے نہ بنو۔ (صفۃ الصفوۃ، ج:۱، ص: ۷۰۹)
٭ مسلم بن سعد کے بھانجے عبداﷲ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے حج کا ارادہ کیا تو میرے ماموں نے مجھے دس ہزار درہم دیے اور کہا کہ جب مدینہ منوّرہ جاؤ تو وہاں کے سب سے زیادہ ضرورت مند گھرانے کو دے دینا۔ جب میں مدینہ پہنچا۔ میں نے مدینہ منوّرہ کے سب سے زیادہ غریب گھرانے کے بارے میں پوچھا، تو مجھے ایک گھر والوں کے بارے میں بتایا گیا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، ایک عورت نے کہا تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں ایک بغدادی آدمی ہوں، مجھے دس ہزار درہم سونپے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ مدینہ منوّرہ کے سب سے زیادہ ضرورت مند گھرانے کو دے دوں۔ اور مجھے تم لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے، لہٰذا تم وصول کر لو۔ وہ کہنے لگی: اے اﷲ کے بندے! جس نے تمھیں پیسے دیے تھے اس نے سب سے زیادہ ضرورت مند ہونے کی شرط لگائی تھی۔ یہ ہمارے سامنے کے گھر والے ہم سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔ کہتے ہیں میں نے ا ِن کو چھوڑ کر اُس گھر کا دروازہ بجایا، ایک عورت نے جواب دیا۔ میں نے اس سے بھی وہی بات کی جو پہلی عورت سے کی تھی۔ وہ کہنے لگی: اے اﷲ کے بندے! ہم اور ہمارے یہ پڑوسی فقر میں برابر ہیں، لہٰذا تم اس مال کو ہمارے درمیان تقسیم کر دو۔ (صفۃ الصفوۃ، ج:۲، ص: ۶۰۲)
٭ ابراہیم بن شبیب ابن شیبہ سے روایت ہے: کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کے دن مل کر بیٹھا کرتے تھے کہ ایک آدمی ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ اُس کے بدن پر ایک ہی چادر تھی جس میں وہ لپٹا ہوا تھا۔ اُس نے فقہ کا ایک مسئلہ چھیڑا جس کی وجہ سے ہم مجلس کے خاتمے تک مسائلِ فقہ میں گفتگو کرتے رہے۔ وہ آئندہ جمعہ پھر آیا، ہم نے اس کا خیر مقدم کیا اور اس سے اس کی رہائش گا کا پوچھا اور اس کی کنیت پوچھی۔ اس نے اپنی کنیت ابو عبداﷲ بتائی اور اپنی رہائش گاہ محلہ حربیہ۔ ہمیں اُس کے ساتھ بیٹھنا اچھا لگتا تھا کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے ہم صرف مسائلِ فقہ میں گفتگو کرتے تھے۔ ہمارا یہ معمول کچھ عرصہ چلتا رہا، پھر اُس نے آنا چھوڑ دیا۔ ہم ایک دوسرے سے کہنے لگے: ابو عبداﷲ کی وجہ سے ہماری مجلس آباد تھی، جو اب بے رونق ہو گئی ہے۔ ہم نے آپس میں طے کیا کہ آئندہ صبح حربیہ جا کر اُسے ڈھونڈیں گے۔ ہم حربیہ پہنچے اور چونکہ ہم بہت سے تھے اس لیے ہم ابو عبداﷲ کے بارے میں پوچھتے ہوئے شرما رہے تھے، ہم نے دیکھا کہ بچے مکتب سے پڑھ کے نکل رہے تھے، ہم نے اُن سے ابو عبداﷲ کا پوچھا۔ وہ کہنے لگے: وہ جو شکاری ہیں؟ ہم نے جی ہاں۔ وہ کہنے لگے: اُن کے آنے کا وقت ہو رہا ہے۔ ہم اُس کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ ہم نے اُسے آتے ہوئے دیکھا۔ اُس نے ایک پھٹی پرانی چادر کا ازار باندھا ہوا تھا اور ایک چھوٹی چادر کندھے پر تھی اور اس کے پاس کچھ ذبح کیے ہوئے اور کچھ زندہ پرندے تھے۔ جب اُس نے ہمیں دیکھا اور مسکراتے ہوئے ہماری طرف متوجہ ہوا، کہنے لگا: کیسے آنا ہوا؟ ہم نے کہا:تمھاری غیر موجودگی کو محسوس کر کے آئے ہیں، تم نے ہماری مجلس کا درجہ بہت بلند کر دیا تھا۔ کیا سبب ہوا کہ تم آنا چھوڑ گئے؟ کہنے لگا: تم سے سچ کہتا ہوں، میرا ایک پڑوسی تھا، میں ہر دفعہ تمھارے پاس آنے کے لیے اُس سے وہ کپڑا ادھار لیتا تھا جو پہن کر میں مسجد میں آتا تھا۔ لیکن وہ پردیسی تھا اور اپنے وطن واپس چلا گیا، میرے پاس کوئی کپڑے تھے نہیں کہ جنھیں اوڑھ کر تمھارے پاس آتا۔ تم لوگ گھر میں داخل ہو جاؤ اور اﷲ کے رزق سے کچھ کھا لو۔ ہم نے ایک دوسرے سے کہا کہ اندر چلنا چاہیے (یعنی کچھ دیر اُس کی ہم نشینی کا موقع ملے گا)۔ وہ دروازے کے پاس آیا، سلام کر کے کچھ دیر ٹھہرا اور پھر گھر میں داخل ہو گیا۔ پھر ہمیں داخل ہونے کی اجازت دی، ہم داخل ہوئے تو وہ ہمارے لیے چٹائی کی ٹکڑے لے کر آیا اور اُنھیں بچھا دیا۔ ہم بیٹھ گئے۔ وہ اپنی بیوی کے پاس گیا اور ذبح کیے ہوئے پرندے اُس کے حوالے کیے اور زندہ پرندوں کو لے کر باہر چلا گیا۔ کہنے لگا: میں ان شاء اﷲ جلدی آجاؤں گا۔ چنانچہ وہ بازار گیا، اُن پرندوں کو بیچا، روٹی خریدی۔ اتنی دیر میں اُس کی بیوی نے وہ پرندے پکا کر تیار کر لیے تھے۔ اُس نے آ کر ہمارے سامنے پرندوں کا گوشت اور روٹی رکھی، ہم کھانے لگے اور وہ بیچ بیچ میں اٹھ کر کبھی ہمیں نمک پکڑاتا اور کبھی پانی۔ جب کبھی وہ اٹھتا، ہم ایک دوسرے سے کہتے: تم نے اس جیسا شخص کبھی دیکھا ہے؟ تم بصرہ کے شرفاء میں شمار ہوتے ہو، تم اس کے حالات تبدیل کیوں نہیں کرتے؟ جماعت میں سے ایک شخص کہنے لگا: میرے ذمے پانچ سو، دوسرے نے کہا: میرے ذمے آٹھ سو، اسی طرح سب بولے، کچھ نے کہا: میں اس کے لیے دوسروں سے بھی لے کر آؤں گا۔ اُس کے لیے جو کچھ ہم نے اکٹھا تھا اس کا حساب پانچ ہزار درہم تک جا پہنچا۔ تو دوستو ں نے کہا اُٹھو کہ ہم جا کر یہ پیسے لے آئیں اور اس سے درخواست کریں کہ اپنے حالات کو تبدیل کر لے۔ چنانچہ ہم اُٹھے اور اپنی سواریوں پر سوار ہو کر واپس ہوئے، جب ہم مربد سے گزرے تو بصرہ کا گورنر محمد بن سلیمان اپنے چوبارے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اپنے غلام سے کہا: یہ جماعت جو سوار ہو کر جا رہی ہے اِس میں سے ابراہیم بن شبیب بن شیبہ کو میرے پاس لا۔ میں اُس کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے حال دریافت کیا اور یہ کہ ہم اس وقت کہاں سے آ رہے ہیں؟ میں نے اسے ساری ساری کہانی سنائی تو وہ کہنے لگا: میں اُس کے ساتھ نیکی کرنے میں تم سے بڑھ کر ہوں۔ اے غلام! درہموں کا توڑا لاؤ۔ وہ لے آیا، پھر اس نے حکم دیا کہ قالین بچھانے والے غلام کو لے کر آؤ۔ وہ آیا تو اُسے حکم دیا کہ اس توڑے کو اٹھا کر اِس آدمی کے ساتھ جاؤ اور اُس کے حوالے کر دو جس کو دینے کا ہم نے حکم دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ میں جلدی سے اُٹھا اور ابو عبداﷲ کے گھر کی طرف بھاگا، میں دروازے پر پہنچا، میں نے سلام کیا، ابو عبداﷲ نے جواب دیا اور باہر نکلا۔ جب اس نے اُس غلام کو اور اس کے کندھے پر توڑے کو دیکھا تو اس کا چہرہ ایسے ہو گیا جیسے میں نے اُس پر راکھ چھڑک دی ہو۔ وہ میری طرف متوجہ ہوا اور اس کا چہرہ بدلا ہو تھا۔ کہنے لگا: اے فلاں یہ تونے میرے ساتھ کیا کیا؟ مجھے فتنے میں ڈالنا چاہتے ہو۔ میں نے اُسے کہا: اﷲ کے بندے بیٹھ تو سہی تاکہ میں تجھے ساری کہانی سناؤں۔ تم اِس شخص کو جانتے ہی ہووہ ایک جبار حکمران ہے(یعنی محمد بن سلیمان)۔ اگر وہ مجھے حکم دیتا کہ اس مال کو جہاں چاہوں لگا دوں تو (میں تمھیں آزمائش میں نہ ڈالتا بلکہ) میں واپس چلا جاتا اور اُسے بتاتا کہ میں نے خرچ کر دیا۔ لہٰذا تم اپنی جان بچاؤ اور اﷲ سے ڈرو (یعنی اگر تم یہ مال وصول نہیں کرو گے تو گورنر ِ بصرہ تمھیں اپنا دشمن بنا لے گا)۔ وہ مجھ پر مزید غصے ہوا، اٹھ کر اپنے گھر داخل ہو گیا اور میرے سامنے دروازہ بند کر دیا۔ میں کبھی آگے بڑھتا تھا اور کبھی پیچھے ہٹتا تھا۔ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ گورنر کو جا کر کیا کہوں۔ میں نے سوچا سچ کے سوا کوئی چارہ نہیں، سو میں آیا اور گورنر کو ماجرا بتایا۔ وہ کہنے لگا: واﷲ! یہ شخص حروری ( یعنی حروری اور حکمران دشمن باغی) ہے۔ اے غلام! تلوار لے کر آؤ۔ وہ تلوار لے آیا تو اُسے حکم دیا کہ اس لڑکے کا ہاتھ پکڑو، یہ تمھیں ایک آدمی کے پاس لے کر جائے گا، جب وہ باہر نکلے تو اُسے قتل کرنا اور میرے پاس اُس کا سر لے کر آنا۔ ابراہیم کہتے ہیں میں نے کہا: اﷲ! اﷲ! اے امیر، آپ کو اﷲ مزید سنوارے، ہم نے اس شخص کو دیکھا ہے۔ واﷲ! وہ خارجی نہیں ہے۔ میں جاتا ہوں اور اُسے آپ کے پاس لے کر آتا ہوں۔ میں اِس سب کے ذریعے میں اُسے کسی طرح بچانا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے مجھے ضامن بنایا کہ میں اُسے لے کر آؤں۔ میں گیا، جب میں نے دروازے پر پہنچ کر سلام کیا تو اُس کی بیوی غم کی حالت میں رو رہی تھی۔ پھر اُس نے دروازہ کھولا اور پردہ کر کے مجھے اجازت دی، میں اندر گیا تو کہنے لگی: تمھارے اور ابو عبداﷲ کے درمیان کیا معاملہ تھا؟ میں نے پوچھا وہ کیسا ہے؟ کہنے لگی: (جب تم چلے گئے تو) وہ اندر داخل ہوا، حوض سے پانی نکال کر وضو کیا، پھر میں نے اُسے یہ کہتے ہوئے سنا۔ اﷲ مجھے اپنی طرف اٹھا لے! آزمائش میں نہ ڈال۔ پھر یہی کہتے کہتے لیٹ گیا، جب میں اُس کے پاس گئی تو وہ فوت ہو چکا تھا۔ میں نے کہا: ہماری بڑی عجیب و غریب کہانی ہے، تم ہمارے بارے میں کسی کو مت بتانا۔ میں محمد بن سلیمان کے پاس آیا اور اُسے واقعہ بتایا۔ وہ کہنے لگا: میں سوار ہوتا ہوں کہ میں اِس شخص کا نماز جنازہ پڑھوں گا۔ کہتے ہیں کہ بصرہ میں یہ خبر پھیل گئی اور اس کے جنازے میں گورنر سمیت بصرہ کے اکثر لوگوں نے شرکت کی ۔ (صفۃ الصفوۃ، ج:۴، ص:۹۔۱۲)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.