تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

عشق کے قیدی

(قسط: ۱۵)

ظفر جی

ٹرانسفارمر
آئی جی نے مرزا نعیم الدین کو ساتھ بٹھایا اور چیف منسٹر ہاؤس کی طرف نکل کھڑے ہوئے ۔راستے میں جا بجا انہوں نے جلاؤ گھیراؤ کے مناظر دیکھے ۔میکلوڈروڈ پر ایک پولیس وین دیکھ کر آئی جی نے گاڑی روکی :
“یار محمد! کیا خبر ہے ؟ ”
” ستّے خیراں نیں سر جی۔ سب ٹھیک ٹھاک اے! ” ایک موٹے سے انسپکٹر نے وین کے اندر سے سر باہر نکالا۔
“شہر کے حالات کیسے ہیں ؟”
” ڈاکخانے نوں اگ لگی اے۔ باقی سب ٹھیک ٹھاک اے۔ مغل پورے وِچ اِک احمدی محمد شفیع برما والے نوں قتل کر دِتّا گیا اے تے باقی سب ٹھیک ٹھاک اے ۔بھاٹی دروازے دے اندر چُھرّے مار کر ایک احمدی اسٹوڈنٹ نوں مار دتّا گیا۔باقی سب ٹھیک ٹھاک اے تے مرزا کریم بیگ نوں میرا خیال آیا کہ فلیمنگ روڈ تے چھرے مار کے نئیں بلکہ اگ وِچ ساڑ دِتّا۔ مجمع نے، نئیں،بلکہ مار کے فیر ساڑیا،باقی سب ․․․․۔ ”
” اچھا اچھا ٹھیک ہے ،حالات پہ نظر رکھو۔ اگر جان کا خطرہ نظر آئے تو کھسک لو یہاں سے۔ ” آئی جی نے یہ کہ کر گاڑی بڑھا دی۔
وہ دونوں چیف منسٹر ہاؤس پہنچے تو وہاں اُلّو بول رہے تھے ۔
” سی ایم صاحب کہاں ہیں ” آئی جی نے سنتری سے پوچھا۔
” گورنر ہاؤس چلے گئے صاحب۔ ” سنتری نے سلام کرتے ہوئے مژدہ سنایا۔
آئی جی نے گاڑی ریورس کی اور گورنر ہاؤس جانے والی سڑک پر چڑھا دی۔ شہر بھر کی دکانیں بند تھیں۔ مظاہرین کی چھوٹی موٹی ٹولیاں ادھر ادھر شرارت کی نیّت سے گھوم رہی تھیں۔راستے میں انہوں نے ایک ہجوم کو دیکھا جو ٹیلی فون کا ایک کھمبا اکھاڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔
“انہیں دیکھو، کھمبے پہ غصہ اُتار رہے ہیں۔” آئی جی نے کہا۔
” لاہور کا رابطہ پورے ملک سے کاٹا جا رہا ہے سر ․․․․ یقین کریں حکومت بری طرح پھنس چکی ہے۔ ” مرزا نعیم نے شیشے سے باہر جھانکتے ہوئے کہا۔
__________
گورنر ہاؤس مچھلی بازار بنا ہوا تھا۔شہر کی پل پل بگڑتی صورتِ حال پر ہر کوئی اپنا اپنا تبصرہ فرما رہا تھا۔ لاہور کے تمام کونسلرز اور کابینہ کے ارکان کے بھی موجود تھے ۔ گورنر پنجاب آئی آئی چندریگر ، وزیراعلیٰ دولتانہ، دوسرے وزراء اور اعلیٰ حکام بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے ۔ اس دوران چیف سیکرٹری اور ہوم سیکرٹری گورنر ہاؤس پہنچے ۔
“کیا خبر ہے ؟” گورنر نے پوچھا۔
دونوں خاموش کھڑے ہو گئے ۔
” کچھ بتاؤ بھی ؟ کک ․․․․ کیا حالات ہیں سیکرٹریٹ کے ؟” وزیراعلیٰ کی پریشانی قابل دید تھی۔
“سر ․․․ بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر آئے ہیں ۔ملازمین کل کے قتلِ عام کی وجہ سے بہت برہم ہیں۔ صرف سیکرٹریٹ ہی نہیں ،ٹیلی فون آفس ، ٹیلی گراف آفس ، محکمہ گیس ، محکمہ ڈاک ، محکمہ ریلوے سب تحریک میں شامل ہو چکے ہیں ۔ریل کی پٹڑی اکھاڑ دی گئی ہے ۔پچاس ہزار لوگ پولیس ہیڈ کوارٹر کا گھیراؤ کر کے بیٹھے ہیں ۔ہزاروں لوگ لاہور میں داخل ہو رہے ہیں۔ ․․․․ بیرونِ باغ بھی تقریباً پچاس ہزار کا مجمع کھڑا مطالبہ کر رہا ہے کہ گرفتار کرو یا گولی مار دو ․․․․ ”
“حل بتاؤ حل ․․․․ کہانیاں مت سناؤ !!! ” وزیراعلیٰ نے کہا۔
” آپ کے پاس صرف دو راستے ہیں۔ ” مودودی صاحب جو کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے اچانک بول پڑے ۔
“کہئے مولانا ؟ ”
” وزیراعظم عوامی مطالبات پر گفت و شنید کا اعلان کریں۔ اسی میں فائدہ ہے اور دوسرا راستہ تحریک کو طاقت سے کچل دینے کا ہے۔ اس میں ہمیشہ کا خسارا ہے۔ آپ پہلا راستہ اختیار کریں اور مذاکرات کا اعلان کریں ! ”
” سر میرے ذھن میں بھی ایک آئیڈیا ہے۔ ” چیف سیکرٹری نے کہا۔
” جی فرمائیے ؟ ”
“مجلسِ احرار اور جماعتِ اسلامی دونوں کو فوری طور پر کالعدم قرار دیا جائے۔ شہر بھر سے اچھے اچھے مولوی اکٹھے کیے جائیں جو باہر نکلیں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ ختم نبوت کے نام پر تشدّد فوری بند کیا جائے اور آخری تجویز یہ ہے کہ شہر کو مکمل طور پر فوج کے حوالے کر دیا جائے ۔”
اس دوران آئی جی اور ایس ایس پی مرزا نعیم بھی گورنر ہاؤس پہنچ گئے ۔
” کیا خبر ہے آئی جی صاحب ؟ ” گورنر اور چیف منسٹر یک بار بول اُٹھے ۔
” سر پولیس ہیڈ کوارٹر بلوائیوں کے گھیرے میں ہے ۔پولیس مکمل طور پر دل ہار چکی ہے ۔ ”
“وٹ! نان سینس ؟” گورنر نے کہا۔
“سر !ایس ایس پی مرزا نعیم الدین آپ کو سارا احوال سنائیں گے۔ ” آئی جی نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
ہاؤس میں یکایک خاموشی چھا گئی۔ سب لوگ ٹُکر ٹُکر مرزا نعیم الدین کی طرف دیکھنے لگے ۔
” پولیس اب مزید قتل عام نہیں کر سکتی سر! ” مرزا نعیم الدین نے آغازِ کلام کیا۔ “بہت خون بہہ چکا۔ بہت لوگ مار دیے ہم نے۔ اس تحریک کو گولیوں اور سنگینوں سے ٹھنڈا نہیں کیا جا سکتا۔ آپ چاہے ہزاروں مار دیں۔ لاکھوں اور کھڑے ہو جائیں گے۔آپ کو عوام کے بنیادی مطالبات ماننے ہی ہوں گے اور اگر آپ نے ظلم و درندگی مزید جاری رکھنا ہے تو کم از کم میرا استعفیٰ قبول کیجئے ! ”
مرزا نعیم الدین کے بیان سے گورنر ہاؤس میں مایوسی چھا گئی۔ تمام درباری ٹوڈی بغلیں جھانکنے لگے ۔اسی دوران باہر ایک دھماکہ ہوا اور گورنر ہاؤس کی بجلی چلی گئی۔
” دیکھو ․․․ذرا، کیا ہوا ہے ؟ ” وزیراعلیٰ نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔اتنے میں ایک سپاہی اندر آیا اور پھولی سانسوں میں بتایا کہ گورنر ہاؤس کا ٹرانسفارمر اُڑا دیا گیا ہے ۔
“اوہ ،مائی گاڈ، او مائی گاڈ۔ جلدی کرو فون ملاؤ ۔وزیر اعظم کو فون ملاؤ کراچی۔ ابھی اور اسی وقت ۔”
چیف سیکرٹری بھاگا بھاگا فون اٹھا لایا اور جلدی جلدی کراچی کا نمبر ملانے لگا۔
” فون تو ڈیڈ ہے سر ! ”
“ملٹری ٹرنک کال ملاؤ۔ جلدی ، ارجنٹ۔ ” گورنر کا گلا خشک ہونے لگا۔
“سر کوئی فائدہ نہیں۔” آئی جی نے کہا۔ “ٹیلیفون کے تار کٹ چکے۔ اب جو کچھ کرنا ہے۔ آپ نے کرنا ہے ۔”
” اوہ مائی گاڈ ! پھر جلدی کرو ․․․․․ مودودی صاحب ․․․․ آپ ایک بیان کا مسودہ تیار کریں ․․․․ وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی اور اپنی وزارت کی طرف سے اعلان کرتے ہیں کہ ان کی حکومت تحفظ ختمِ نبوت کے لیڈران سے فوری مذاکرات کرنے کے لئے تیّار ہے ۔سرظفراﷲ خان کو وزارتِ خارجہ سے فوری طور پر ہٹانے کے لئے ہم وزیراعظم کو اَرجنٹ سمری بھجوا رہے ہیں۔ اب فوج اور پولیس فائرنگ نہیں کرے گی ۔بالکل فائرنگ نہیں کرے گی ۔جلدی سے ایک وفد بھیجو۔مسجد وزیرخان میں ․․․․ جلدی ․․․ ابھی !”
“لیکن مسجد میں جائے گا کون ؟ ” آئی جی نے کہا۔
“مسجد میں وفد بھیجنا خطرناک ہے سر !خدا نخواستہ ..․” چیف سیکرٹری نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
” ایک شخص ہے ․․․․خلیفہ شجاع الدین ” مودودی صاحب نے کہا۔ ” اُس کی سربراہی میں پارلیمان کا ایک وفد بھیجو ۔شاید امن کی کوئی صورت نکل آئے ”
“ٹھیک ہے ․․․ ٹھیک ہے ․․․ ریڈیو سے بھی اعلان کراؤ، اور ہوائی جہاز سے اشتہارات بھی گراؤ اور خلیفہ شجاع الدین کے پاس بھی یہ مسودہ بھجواؤ ․․․ابھی فورا ً ! ”
اس کے بعد ہر کوئی اپنے اپنے کام میں مصروف ہو گیا اور وزیراعلیٰ ہر دس منٹ بعد پوچھتے رہے ․․․
“معراج کو مسودہ بھجوا دیا ؟ ”
” اشتہارات گرائے ؟ ”
“مذاکراتی وفد تیار ہوا ؟ ”
قوم کی زندگیوں میں اندھیرے جھونکنے والے حکمرانوں کا جب اپنا ٹرانسفارمر اُڑا ،تو اَب اُن جیسا نیک آدمی کوئی نہ تھا۔
مارشل لا
6 مارچ 1953جمعتہ المبارک
نمازِ جمعہ کے بعد حکومت کا مذاکراتی وفد مسجد وزیر خان پہنچا۔وفد کی قیادت سپیکر پنجاب اسمبلی خلیفہ شجاع الدین کر رہے تھے ۔ وفد میں مسلم لیگ کے شیخ سردار محمد ، احمد سعید کرمانی اور بیگم سلمیٰ تصدق حسین شامل تھے ۔ یہ حضرات مسجد میں داخل ہوئے تو کارکنان کی آنکھوں میں نفرت کے شعلے بھڑکنے لگے ۔ مسجد کے دروازے پر کھڑے جذباتی کارکن ان پر فقرے چست کرنے لگے :
” ماشاء اﷲ ․․سبحان اﷲ ․․ وفد آیا ہے ! ”
”اب آپ کی آنکھ کھلی ہے ؟ ”
” ہزاروں لوگ قتل کر کے اب مذاکرات کرنے آگئے ہو ؟ ”
” پہلے تماشا دیکھتے رہے۔ اب ہماری جدوجہد پر پانی پھیرنے آئے ہو ؟ ”
رضاکاروں نے جوشیلے نوجوانوں کو سمجھا بجھا کر خاموش کرایا اور اراکینِ وفد کو باحفاظت مسجد کے اندر لے گئے۔ مسجد کے حُجرے میں مولانا عبدالستار نیازی ، مولانا بہاء الحق قاسمی اور سیّد خلیل احمد قادری موجود تھے ۔ انہوں نے وفد کا استقبال کیا اور مذاکرات شروع ہوگئے ۔
“حکومت پنجاب مذاکرات کے تیار ہے۔ صوبائی حکومت سرظفراﷲ خان کی فوری برخواستگی سمیت آپ کے تمام مطالبات مرکزی حکومت کو بھجوا رہی ہے ۔آپ تحریک ختم کرنے کا اعلان کر دیں ۔تاکہ شہر میں امن قائم ہو سکے ۔” وفد نے کہا۔
” جب تک کراچی میں قید مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے رہنماؤں کو آزاد نہیں کیا جاتا، ہم حکومت کی نیت پر اعتبار نہیں کر سکتے۔مذاکرات کے پہلے بھی کئی بے سُود دورہوچکے۔ ” مولانا نیازی نے دوٹوک جواب دیا۔
“دیکھئے حکومت کوشش کر رہی ہے، لیکن، تھوڑا وقت لگے گا۔ ”
“کتنا وقت لگے گا ؟ ایک دن ، ایک مہینہ یا ایک سال ؟ ”
” دیکھئے بہت خون بہہ چکا۔ اب امن قائم کرنے میں حکومت کی مدد کیجئے۔ ”
” آپ ہمیں نصیحت فرمانے کی بجائے مسلم لیگ کو تھوڑی شرم دلائیے۔ کیا رعایا کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے ؟ گولیوں کی اندھا دھند موسلادھار بارش؟ کیا ہمارا مطالبہ اسلام کا بنیادی مطالبہ نہیں ہے ؟ ”
“بے شک آپ کے مطالبات جائز ہیں اور حکومت اب گفت و شنید چاہتی ہے ۔”
” گفت وشنید ہم سے نہیں قیادت سے کیجئے! ”
“لیکن اس وقت تو قیادت آپ ہی کے ہاتھوں میں ہے! ”
” ہم مذاکرات کا اختیار نہیں رکھتے ۔آپ پہلے مجلس عمل کی قیادت کو آزاد کرائیے۔ پھر مذاکرات کیجئے ! ”
اس گفتگو کے بعد کچھ مایوسی چھا گئی۔مولانا بہاء الحق قاسمی نے بیگم سلمیٰ تصدّق حسین سے کہا۔
” بیگم صاحبہ!یہ مسلم لیگ کا جلسہ تو نہیں کہ آپ کھلے بندوں بے پردہ تشریف لے آئیں۔ خانۂ خدا ہے۔ اگر یہاں قدم رنجہ فرمانا ہی تھا تو پردے کا خیال بھی کر لیا ہوتا ۔باہر لوگ اس بے پردگی پر سخت معترض ہیں ۔”
بیگم صاحبہ نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔
“عبدالکریم !جاؤ کسی مقامی رضاکار کو بولو کہ برقعہ لے کر آئے ! ”
باہر صحن میں بیٹھے کارکنوں میں وفد کی وجہ سے اشتعال پھیل رہا تھا۔ مذاکرات ناکام ہو چکے تھے ۔ کچھ دیر بعد ایک کارکن ٹوپی والا برقعہ لے کر حاضر ہوا جو بیگم صاحبہ کو اوڑھا دیا گیا۔ اس کے بعد مذاکراتی وفد کو مسجد کے بغلی دروازے سے واپس پیک کر دیا گیا۔
اسی اثناء میں تقریباً تین بجے ایک چھوٹا سا زرعی جہاز “بھوں بھوں ” کرتا مسجد کے اوپر چکر لگانے لگا۔ اس نے فضاء سے پمفلٹ گرائے جن میں سے کچھ مسجد کے اندر گرے کچھ باہر :
” وزیر اعلیٰ پنجاب یہ اعلان کرتے ہیں کہ ان کی حکومت مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے لیڈران سے فوری گفتگو کے لئے تیار ہے ۔ وہ عوام کو اطمینان دلاتے ہیں کہ فوج اور پولیس اب فائرنگ نہیں کرے گی۔ صوبائی حکومت کا ایک وزیر فوری طور پر قوم کے یہ متفقہ مطالبات لے کر بذریعہ طیارہ آج ہی دارالحکومت روانہ ہو رہا ہے ۔ ہماری پُرزور سفارش ہے کہ چودھری ظفراﷲ خان کو اُن کی وزارت سے فوری طور پر برطرف کیا جائے۔ ”
لاؤڈ اسپیکر والی گاڑیاں شہر بھر میں یہ اعلان کرتی پھرتی تھیں۔ ریڈیو سے بھی یہی اعلان نشر ہو رہا تھا۔ ہر طرف ایک خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ ملک بھر میں مسلم لیگ کی سٹی کونسلز نے اس حکومتی اقدام کے حق میں فوری قرادادیں منظور کرنا شروع کر دیں۔ مردہ چہرے تمتما اُٹھے ۔ عوام نے خوشی سے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔ تحریکِ ختم نبوت 1953ء آگ اور خون کا دریا عبور کرکے بالآ خر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو نے والی تھی۔ مسجد وزیرخان سے بھی یہ اعلان کر دیا گیا کہ جو کارکنان واپس جانا چاہتے ہیں ، جا سکتے ہیں، مگرٹھیک شام پانچ بجے فوجی گاڑیاں اندرون شہر داخل ہونے لگیں۔ ہر طرف مارشل لاء مارشل لاء کا شور مچ گیا !
“مارشل لاء آگیا ۔مارشل لاء آگیا !” لوگ مختلف سرگوشیاں کرتے ہوئے چھولداریوں سے باہر جھانکنے لگے ۔گاڑیاں وزیرخان چوک میں آ کر ٹھہر گئیں۔ایک جیپ سے بغل میں اسٹِک لئے ، پاکستان برّی فوج کے پہلے مسلمان کمانڈر اِنچیف باہر نکلے ۔
“جنرل اعظم ! سیز دِی موسک اینڈ ٹرائی ٹُو اَریسٹ دیم لائیو ! ”
” یس سر ! ”
” ٹیک کیئر، نو بلڈ شڈ۔ مے وی ہیو ٹُو رُول دِس پُوؤر نیشن اِن فیُوچر !”
“یس سر !” جنرل اعظم نے چیف کو سلیوٹ کیا۔
ہدایات دے کر کمانڈرانچیف جنرل محمد ایوب خان واپس اپنی گاڑی میں جا بیٹھے اور جیپ بڑھا دی۔
” کارڈن آف دی ایریا ۔ہری اپ ۔سِیز دی موسک۔ امی جیٹ ! ” جنرل صاحب سپاہ کو ہدایات دینے لگے ۔
نئی اسلامی جمہوری ریاست کے سادہ دِل عوام کھڑکیوں سے جھانک جھانک کر اس نخلستان کا نظارہ کر رہے تھے جو جمہوریت کے تپتے ریگزاروں میں پہلی بار نظر آیا تھا۔ حالات کی سرکش موجوں میں ابھرنے والے اس جزیرے کو لوگ ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے۔ جس کا نام “مارشل لاء” تھا۔
” فوج آ گئی ․․․․ ہُن سب سُووت ہو جاؤ ” ایک بُڈّھے نے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے تبصرہ کیا۔
” آہو ․․․․ سیاستاناں نوں کوڑے لگن گے ․․․․ ظالماں دا حساب ہووے گا ! ” ایک مائی نے خیال ظاہر کیا۔
سادہ دل عوام نہیں جانتے تھے کہ جمہوریت ہو یا مارشل لاء کوڑا ہمیشہ عوام کی ہی پیٹھ پر لگتا ہے ۔ حساب ہمیشہ قوم ہی دیتی آئی ہے ، ظالموں کا حساب لینے والا نہ تو آج تک کوئی پیدا ہوا ہے ، نہ ہی آئندہ ہوگا۔مسجد وزیرخان میں مولانا عبدالستار نیازی کا خطاب جاری تھا :
“ناعاقبت اندیش حکمرانو! اپنے گلے میں فوجی بوٹوں کے ہار پہننے والو ۔بہت بڑی غلطی کر رہے ہو۔ اپنی ہی عوام کو روندنے چلے ہو؟ ارے فوج کا کام سرحدوں کا دفاع ہوتا ہے۔ اپنے ملک کو فتح کرنا نہیں۔ کون سا فساد برپا ہوا ہے لاہور میں جو تم نے فوج بُلا لی؟ نصف صدی ہو گئی تحریکِ ختم نبوت کو، آج تک کسی مرزائی کی نکسیر بھی پھوٹی؟ دہلی دروازہ میں کتنے جلسے کئے ہم نے ․․․ کسی نے مرزائیوں کے محلّے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ؟؟ ارے ہماری جنگ نظریے کے خلاف ہے ․․․جسموں کے خلاف نہیں !”
نعرۂ تکبیر ․․․․ اﷲ اکبر !
تاج و تختِ ختمِ نبوت ․․․ زندہ باد !
مسجد وزیرخان کے گرد خاردار تار بچھائی جا رہی تھی ۔قریبی عمارتوں کی چھتوں پر مورچے بنا کر مشین گنیں نصب کی جا رہی تھیں ۔ریڈیو سے دھمکی آمیز اعلانات نشر ہو رہے تھے اور شہر بھر میں آگ لگانے والے نامعلوم افراد ایک دم غائب ہو چکے تھے !
پس پردہ کارفرما قوتوں نے اپنا گھناؤناکھیل کھیلا اورتحریک ختم نبوت کے کارکنوں کو خاک وخون میں نہلادینے کے طے شدہ منصوبہ کوبروئے کارلانے کا فیصلہ کرلیا۔وزیراعلیٰ پنجاب نے ممتازدولتانہ نے بھی اس قتلِ عام میں اپنا بھرپورحصہ ڈالا اور اگلے ہی روز انہوں نے یہ کہہ کر اپنا بیان واپس لے لیاکہ ’’تحریک تحفظ ختم نبوت کے لیڈروں سے گفت وشنیدکرنے اورمطالبات پر غورکرنے کا کوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔‘‘
ہمیں تو اپنوں نے ہی لُوٹا ، غیروں میں کہاں دم تھا
میری کشتی تھی وہاں ڈوبی ، جہاں پانی کم تھا
آخری چٹان
8 مارچ 1953 ۔۔۔۔ مسجد وزیرخان لاہور
فوج نے مسجد کو پوری طرح محاصرے میں لے لیا۔پانی کے نل بند کر دیے اور بجلی کی فراہمی معطل کر دی۔مسجد وزیر خان میں رضاکاروں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ جمع تھے ۔ مقررین خفیہ راستے سے آتے اور تقریریں کر کے چلے جاتے ۔ پولیس اور فوج جلد سے جلد مسجد پر قبضہ کرنے کی فکر میں تھی۔اگلے روز فوج نے خفیہ راستوں کا پتا چلا کر وہاں بھی پہرے بٹھا دیے ۔ مسجد سرکاری ایجنسیوں کا اکھاڑا بننے لگی ۔ یہ لوگ مسلسل رضاکاروں کے حوصلے پست کرتے اور طرح طرح کی افواہیں پھیلاتے ۔ مسلسل محاصرے کی وجہ سے اندر کی صورتِ حال لمحہ بہ لمحہ دگرگوں ہوتی جا رہی تھی۔ ریڈیو سے مسلسل اعلان نشر ہو رہا تھا:
“عبدالستار نیازی اور خلیل احمد قادری اپنے آپ کو حکام کے حوالے کر دیں۔ ورنہ انہیں دیکھتے ہی گولی مار دی جائے گی۔”
ان حالات میں بھی سرفروشانِ ختم نبوت،تحریک کے حق میں اشتہارات چھاپ چھاپ کر شہر بھر میں لگا رہے تھے ، سرکاری پراپیگنڈہ کے توڑ کا یہی واحد ذریعہ تھا۔!فوج مسجد میں داخل ہونے سے گریزاں تھی۔ شدید جانی خطرے کے باوجود رضاکاروں کا جذبۂ شوق دیدنی تھا۔ میگافون پر مقررین کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کے اعلان ہو رہے تھے اور مسجد سے تقاریر کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ علماء کی پارلیمنٹ میں خاطرخواہ نمائندگی نہ ہونے سے ایوان سیکولرز کا گڑھ بنا ہوا تھا،چنانچہ ایوان میں اس بہیمیت کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھ رہی تھی۔مولانا نیازی جو پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر تھے ، خود مسجد میں محصور تھے۔تحریک کے قائدین نے مولانا نیازی کو مشورہ دیا کہ دو روز بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں کسی نہ کسی طور شریک ہو کر اپنا مؤقف پیش کریں اور بعد میں گرفتاری دے دیں ، تاکہ سرکاری پروپیگنڈے کا توڑ ہو۔اگرچہ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ اس رات مولانا نیازی بھیس بدل کر مسجد کی دیوار ٹاپ گئے اور لاہور کے ایک خفیہ مقام پر چھپ کر اسمبلی کے اجلاس کا انتظار کرنے لگے ۔مسجد سے مولانا نیازی کی تقاریر بند ہوئیں تو حکومت کو پراپیگنڈے کا موقع مل گیا۔ لاہور میں جگہ جگہ ان کی تلاش میں چھاپے مارے جانے لگے ۔ سرکاری ریڈیو اُن کے خلاف زہر اُگلنے لگا۔ ’’ڈان ‘‘اخبار نے صفحہ اوّل پر مولانا نیازی کی ایک پرانی کلین شیوڈ تصویر لگا کر سرخی جما دی :
” عبدالستار نیازی نے داڑھی منڈوا لی ․․․ دیگ میں بیٹھ کر لاہور سے فرار! ”
6 مارچ کو مسجد میں ہزار وں رضاکار موجود تھے ۔ روزانہ پانچ چھے جوان باوضو ہو کر باہر نکلتے اور ختم نبوت کا نعرہ لگا کر خود کو گرفتاری کے لئے پیش کر دیتے ۔ملک بھر میں عوام گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آ چکے تھے۔ ساہیوال ، اوکاڑہ ، سیالکوٹ ،وزیرآباد،قصور،گوجرانوالہ، فیصل آباد ، گجرات ، راولپنڈی اور اندرونِ سندھ بوڑھے ، بچے ، جوان ،عورتیں ،مرد تھانوں کا گھیراؤ کئے بیٹھے تھے ۔ حکومت جانتی تھی کہ مسجد وزیرخان کو فتح کئے بغیر تحریک کا خاتمہ ممکن نہیں۔ 7 مارچ کو کمانڈرانچیف جنرل محمد ایّوب خان کچھ دیگر افسران کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لینے پہنچے ۔ انہوں نے مسجد سے متصل سڑک پر کھڑے ہو کر میگافون پر اعلان کیا:
” مولانا خلیل احمد قادری اور تمام رضاکار اپنے آپ کو حکام کے حوالے کر دیں۔ ورنہ فوج مسجد کے اندر آ کر آپریشن کرے گی اور خون خرابہ کی تمام تر ذمّہ داری آپ لوگوں پر ہوگی۔ ”
اس کے جواب میں مولانا خلیل نے سپیکر پر جواب دیتے ہوئے کہا :
” جنرل صاحب ! مسجد خانۂ خدا ہے ۔یہ آپ کی حدودِ سلطنت میں نہیں آتی۔ فوج اور پولیس کو مسلمان پر گولیاں چلانے کا کوئی حق نہیں۔ مسلمان کا خون مسلمان پر حرام ہے۔ اگر فوج ہمارے قتل پر ہی آمادہ ہے تویادرکھیں کہ ہمارے خونِ بے گناہی کی ذمّہ داری پاک فوج کے سر ہو گی ! ”
اس دوران ایک مرزائی افسر نے تجویز پیش کی کہ مسجد کو ڈائنامیٹ سے اُڑا دیا جائے لیکن جنرل صاحب نے یہ منصوبہ سختی سے مسترد کر دیا اور مزید احکامات کا انتظار کرنے کا کہہ کر چلے گئے ۔
8 مارچ کو مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوا۔ حکومت کی طرف سے امیرالدین قدوائی ایڈووکیٹ قائدین تحریک کے لئے گورنر کا پیغامِ ملاقات لے کر آئے، لیکن قائدین نے ملنے سے صاف انکار کر دیا،کیونکہ وہ مذاکرات کے پردے میں گرفتاری کا پروگرام لے کر آئے تھے۔ 8؍ مارچ کی شام تک رنگ محل ، شیرانوالا گیٹ اور موچی گیٹ تک ریت کی بوریاں چن دی گئیں۔ مسجد کے چہار اطراف سے گھر خالی کرا کے وہاں مشین گنیں اور دیگر ہتھیار نصب کر دیے گئے ۔ رات کو کسی بھی وقت خونریز ملٹری آپریشن متوقع تھا۔ یہ رات اہلِ لاہور پر بہت بھاری تھی ، لیکن عشقِ رسول ﷺ سے سرشار پروانوں کے لئے لیلۃُالقدر بنی ہوئی تھی۔ شب بھر مسجد میں ذکرِ الہٰی جاری رہا۔ نعرہ ہائے تکبیر ورسالت ، سے لاہور کی فضاء گونجتی رہی۔ درود و سلام کی صدائیں فضاء کو مشکبار کرتی رہیں۔
پڑھیں درود آپ پر ، مِلی زباں اسی لیے
فِدا ہو اُن کے دین پر ، ہے تن میں جاں اِسی لیے
جو اُن کے واسطے نہیں ، وہ زندگی فضول ہے
غلامیٔ رسول میں ۔۔۔۔۔۔۔ موت بھی قبول ہے
غلام ہیں غلام ہیں ۔۔۔۔ رسول کے غلام ہیں
__________
اگلے روز قدوائی صاحب پھر تشریف لائے ۔امیرالدین قدوائی بظاہرمولانا ابولحسنات کے عقیدت مند تھے ۔ انہوں نے قائدین اور کارکنان سے کہا :
” سارے شہر میں فوج کا کنٹرول ہو چکا ہے۔اب گرفتاری دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ آپ مزاحمت جاری رکھیں گے تو کشت و خون ہوگا اور مسجد کی بے حرمتی بھی۔ جتنا آپ کے بس میں تھا۔ آپ نے کیا ۔باقی رب پر چھوڑ دیں ․․․․ ”
مولانا بہاء الحق قاسمی نے سپیکر پر اعلان کیاکہ :
” ختمِ نبوت کے پروانو!ہم نے یہ تحریک عدمِ تشدد کے تحت چلائی تھی،لیکن حکومت نے بالآخر اِسے پرتشدد بنا کر ہی چھوڑا ۔سرکار اب بھی خون کی پیاسی ہے اور اس خون کا الزام بھی ہمارے سر پر دھرنا چاہتی ہے ۔حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے آپ کو گرفتاری یا شہادت کے لئے پیش کر دیں ۔ان شاء اﷲ ایک دن ہماری یہ قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی ۔”
اس کے بعد ختم نبوت کے پروانے باوضو ہو کر پانچ پانچ کی ٹولیوں میں باہر نکلتے رہے اور فوجی حکام انہیں گرفتار کرتے گئے ۔ ہزاروں جاں نثاران ختمِ نبوت نے گرفتاریاں پیش کیں۔سیّد خلیل احمد قادری نے حالات کو خرابی سے بچانے کے لیے احباب کے مشورہ سے گرفتاری دینے کا فیصلہ کیا ۔قدوائی صاحب بہت خوش تھے ۔وہ بھی ان کے ساتھ مسجد کے جنوبی دروازے سے باہر تشریف لائے تو فوجی افسروں نے ان پر بندوقیں اور ریوالورز تان لئے ۔
” جب میں خود گرفتاری پیش کر رہا ہوں تو اِس تکلّف کی کیا ضرورت ہے ؟” سیّد خلیل نے مسکرا کر کہا۔
” آپ لوگ ہمیں کافر سمجھتے ہیں اور مسجد میں اسلحہ جمع کر رکھا ہے۔” ایک کرنل پستول لہراتے ہوئے بولا۔
” اگر آپ مرزائی ہیں تو پھر یقیناً کافر ہیں اور اگر مسلمان ہیں تو پھر کسی مسلمان کو کافر سمجھنا بہت بڑا کفر ہے۔ ”
” مسجد میں کتنا اسلحہ ہے ؟”
” یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی ۔دروازے کھلے ہیں ۔آپ اندر جاکر دیکھ سکتے ہیں۔” مولاناخلیل احمد نے جواب دیا۔
اس پر کرنل ہنس دیا اور مولانا کی گرفتاری کا حکم دیا۔ایک جوان آگے بڑھا اور سیّد خلیل کو ہتھکڑی پہنانے لگا۔سیّدصاحب نے بے ساختہ ہتھکڑی کو چوم کر کہا:
” یا اﷲ تیرا شکر ہے ۔مجھے فخر ہے کہ آج میں نے شافع محشر ﷺ کی ناموس اور عظمت کی خاطر یہ زیور پہنا ہے۔ ”
” دل تو ہمارے آپ کے ساتھ ہیں،لیکن ہم بے بس ہیں ۔ ” سپاہی نے کہا۔
” ابن زیادکی فوج بھی یہی کہتی تھی ۔” سیّد خلیل نے جواب دیا۔
کوتوالی میں فوجیوں نے بڑے بڑے وائرلیس سیٹ لگا رکھے تھے ۔ مارشل لاء حکام کو “خطرناک ملزمان” کی گرفتاری کی نوید سناء جا رہی تھی۔ عشقِ رسول ﷺ کے اُن قیدیوں کو پرانی کوتوالی سے دہلی دروازے تک پیدل لے جایا جا رہا تھا۔ قادیانی نواز حکام سے کسی سمجھوتے کی بجائے ،جنہوں نے موت کی کوٹھڑی میں رہنا پسند کیا تھا۔کرفیو کے باوجود بے شمار عورتیں ، مرد اور بچّے گھروں سے نکل آئے اور تحریک کے حق میں نعرے لگانے لگے۔ ریاستی جبرو استبداد میں جکڑی امت اس درد پر شاداں و فرحاں تھی ، جو سرکارِ دوعالم ﷺ کی ختم المرسلینی کے صدقے انہیں عطاہوا تھا ، اس نسبت پر فخر کر رہی تھی جس کے کانٹے بھی پھول معلوم ہوتے ہیں !
اعلان
زیر نظر ناول ’’عشق کے قیدی‘‘ جو نقیب ختم نبوت میں قسط وار قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا تھا اب کتابی شکل میں شائع ہو کر دستیاب ہے۔ اس وجہ سے مجلس ادارت نے مزید اقساط کی اشاعت روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قارئین اس ناول کو بخاری اکیڈمی دارِ بنی ہاشم مہربان کالونی ملتان سے کتابی شکل میں حاصل کرسکتے ہیں۔
برائے رابطہ : 0300-8020384

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.