تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

عقیدہ ختم نبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں

مولانا محمد یوسف شیخوپوری

عقیدہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی اور اساسی عقائد میں سے ہے جس کے مجروح ہو جانے سے ہمارے دامن ایمان میں کچھ بچتا ہی نہیں۔ قرآنِ مجید نے جہاں ہماری نجات کے لیے توحید و قیامت، معاد و حشر کے عقیدہ کو جزو لازم ٹھہرایا ہے وہاں عقیدہ ختم نبوت کو ایمان کا جزو لاینفک قرار دیا ہے۔ جس سے سرِ موتجاوز کو خسر الدنیا والآخرہ کا مصداق بتایا ہے۔
بلکہ اگر چشم حقیقت سے دیکھا جائے تو خود قرآن پاک کا موجودہ صورت میں بغیر تحریف اور تبدل و تغیر کے محفوظ رہنا اور دنیا کے چپے چپے میں حفاظ و قرا کا موجود ہونا عقیدہ ختم نبوت کا پرچار کرتا ہے۔ ذرا اسالیب قرآن کو دیکھئے الحمد کے الف سے لے کر والناس کے سین تک کہیں بھی نہ اشارۃً نہ کنایۃً حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی ظلی، بروزی تشریعی و غیر تشریعی نبی کا اور وحی کا ذکر نہیں حالانکہ اگر آقا کے بعد کسی اور نبی نے آنا ہوتا تو اس نبی اور اس کی طرف اترنے والی وحی کا ذکر سابقہ انبیاء علیہم السلام کے ذکر سے کہیں زیادہ ضروری تھا لیکن اگر ذکر ملتا ہے تو یا سابقہ انبیا کا اور ان کی طرف سے اترنے والی وحی کا یا خاتم الانبیا اور آپ کی طرف آنے والی وحی کا ملتا ہے جیسا کہ قرآن پاک کے ابتداء میں ’’یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ ِالَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالآخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ‘‘ فرمایا ہے اسی طرح قرآن پاک کی بے شمار آیات ایسی ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے سابقہ انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ صیغہ ماضی سے فرما کر واضح کیا ہے کہ جن جن کو خلعتِ نبوت رسالت سے نوازنا تھا نواز دیا گیا اُنْزِلَ اور اَوْحَیْنَا کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اب آقا کے بعد نبوت کی راہ کو ابدالآباد کے لیے مسدود کر دیا گیا۔
اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے ذکر میں قرآن نے یہ اسلوب اختیار فرمایا کہ ان کا ذکر کرتے وقت رسل جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے مثلاً ’’یَا بَنِیْ آدَمَ اِمَّا یَأْ تِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ ‘‘ (اعراف) حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلیٰ آثَارِہِمْ بِرُسُلِنَا‘‘ (حدید) حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ ‘‘(بقرہ) تمام جگہوں میں رُسُل جمع ہی کا لفظ ہے لیکن جب رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی باری آئی تو اسلوب قرآنی بدل گیا اور جمع کے صیغہ رُسُل کے بجائے واحد کا صیغہ رسول استعمال کیا ’’وَمُبَشِّراً بِرَسُوْلٍ یَّأْ تِیْ مِنْ بَعْدِ اسْمُہُ اَحْمَد‘‘ جس سے عقیدہ ختم نبوت واضح ہوتا ہے یوں قرآن کو بنظرِ تحقیق دیکھئے تو عالم ارواح میں رب العالمین نے انبیاء کے میثاق میں ثُمَّ جَاءَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ ‘‘ فرما کر عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کو واضح کیا ہے ۔سورہ مائدہ میں ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ‘‘ کا فلسفہ بول کر آقا کے بعد ضرورت نبوت کی گنجائش کو قطع کر دیا۔ آیت استخلاف میں وعدہ خلافت فرما کر اس عقیدہ کو واضح کیا قربان جائیں قرآن کا تو صرف ایک اشارہ ہی کافی تھا مگر اس عقیدہ کی اہمیت کی خاطر ایک سو سے زائد آیات میں مَاثَبَتَ بِنَظْمِ النص کے طور پر اور ہر ہر آیت میں کہیں عبارت النص تو کہیں پر اشارۃ النص کے طور پر اور کہیں پر دلالت النص تو کہیں پر اقتضاء النص کے طور پر اس عقیدے کو بیان کیا گیا ’’قُلْ یٰأَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا‘‘ اور وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّاْ کَافَّۃً لِّلنَاسِ۔ وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘ میں عقیدہ ختم نبوت کی بھی بات ہے۔اور بہت سی آیات میں اطاعت مصطفی کا حکم دے کر اسی عقیدہ کو بیان کیا اور تمام ذکرِ قیامت اور احوالِ قیامت کی آیات آپ کے آخری ہونے کا اعلان کرتی ہیں۔
احادیث میں غور کیا جائے تو قرآن کی طرح ایک ایک حدیث مبارکہ اسی عقیدے کی اہمیت پر دال نظر آتی ہے، چاہے وہ سنن ہیں، مسند ہیں، معجم ہیں، جزء ہیں، مفرد ہیں، غریب ہیں یا مستدرک ہیں صحیحین اور و دیگر کتب میں اس قدر کثیر روایات ہیں جو حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں، پھر ان تمام میں ’’لا نبی بعدی‘‘ کے الفاظ تو تواتر لفظی اور تواتر معنوی دونوں سے ثابت ہیں۔ مسند احمد، کنزالعمال اور مشکوٰۃ میں ہے جب حضرت آدم اپنی مٹی میں تھے ’’انی عنداللّٰہ مکتوب خاتم النبیین‘‘ ۔حتی کہ علامہ ابن عساکر فرماتے ہیں ’’بَیْنَ کَتِفَیْ آدم مکتوب محمد رسول اللّٰہ خا تم النبیین‘‘ ۔عالم برزخ ہو یا عالم آخرت اعلان آقا کی ختم نبوت کا ہے بخاری و مسلم کی طویل روایت میں شفاعت کے موقع پر جب خلقت سارے انبیاء کرام علیہم السلام سے ہو کر آخر میں آخری نبی کے پاس آئے گی تو لوگ یوں کہیں گے ’’انت رسول و خاتم الانبیاء‘‘ اسی طرح بخاری و مسلم اور ترمذی کی روایت میں ایک محل سے تشبیہ دے کر فرمایا کہ انبیاء کے محل کی آخری اینٹ میں ہوں ’’فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین‘‘ اب کسی اور کی جگہ نہیں ہے ۔ مشکوٰۃ شریف میں آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی چھے امتیازی خصوصیات کا ذکر ہے۔ ان چھ میں ایک ’’ارسلت الی الخلق کا فۃ و ختم بی النبیون‘‘ ہے۔ صحیحین میں ہے ’’نحن الآخرون السابقون‘‘ ہم ترتیب میں تو سب سے آخر میں ہیں لیکن فضیلت میں سب سے پہلے ہیں۔اور فرمایا: میری امت آخری ہے، میری مسجد آخری ہے، میری کتاب آخری ہے۔ کنزالعمال میں ہے ’’کنت اوّل النبیین فی الخلق واخرہم فی البعث‘‘۔ بے شمار روایات میں انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا ’’بعثت انا والساعۃ کہا تین‘‘۔ ایک جگہ فرمایا: ’’انا حظکم من الا نبیاء وانتم حظی من الامم‘‘ یعنی انبیاء میں سے تمہارے حصہ میں میں آیا ہوں کوئی اور نہیں اور امتوں میں سے میرے حصہ میں تم آئے ہوکسی اور کے حصہ میں نہیں۔ الغرض حضرت مفتی محمد شفیع کے بقول دو سو سے زائد احادیث سے صراحتاً عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ آئیے دعوتِ فکر ہے کہ جو عقیدہ نجات و سرفرازی کا ضامن ہے، جو دنیا و عقبیٰ میں کامیابی کا زینہ ہے، جو اساسِ اسلام ہے، جس کے مجروح ہوجانے سے دامن ایمان ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے تحفظ کے لیے میدانِ عمل میں اتریں اور یہ عزم کریں کہ جب تک زندہ ہیں عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ کرتے رہیں گے۔
٭……٭……٭

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.