تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

میری طالب علمی (دارالعلوم دیوبند میں طلباء سے یاد گار خطاب)

مولانامحمد منظور نعمانی رحمتہ اﷲ علیہ

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَانَا لِھٰذَا وَمَاکُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَا اَنْ ھَدَا نَا اللّٰہُ لَقَدْ جَاءَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ صَلَوٰت اللّٰہ تَعَالیٰ عَلَیھْمْ وَعَلٰی کُلّ مَنْ تَبِعَھُمْ بِاِحْسَان۔
میرے عزیز بھائیو! میں اس وقت آپ کو اپنی طالب علمی کے سلسلے کے کچھ واقعات اور تجربات سنانا چاہتا ہوں، مجھے امید ہے کہ ان شاء اﷲ وہ آپ کے لیے کار آمد اور نفع مند ہوں گے،میری طالب علمی کی سرگذشت بعض پہلوؤں سے بڑی سبق آموز ہے۔
آ پ میں سے کچھ بھائیوں کو معلوم بھی ہوگا کہ میرا اصل وطن ہمارے اسی صوبہ یوپی کے ضلع مراد آباد کا مشہور اور قدیم قصبہ’’ سنبھل‘‘ ہے۔ میرے والد ماجد رحمتہ اﷲ علیہ کو اﷲ تعالیٰ نے دنیوی دولت و ثروت اور وجاہت بھی دی تھی، اسی کے ساتھ وہ اپنے خاص رنگ میں گہرے دیندار بلکہ بڑے ذاکر شاغل تھے، اور ایک زمانہ میں انھوں نے بہت سخت صوفیانہ ریاضتیں بھی کی تھیں، اس لیے وہ ’’صوفی جی‘‘ کے نام ہی سے معروف تھے۔ بہت سے لوگ ان کا اصل نام جانتے بھی نہیں تھے۔ وہ عالم نہیں تھے، علماء حق سے ان کا تعلق بھی نہیں رہا تھا، بلکہ کچھ ایسے غلط صوفیوں کی صحبت سے متاثر ہوئے تھے، جو غالباً تھے تو مخلص اور نیک نیت لیکن ان کے بعض عقیدے بڑے گمراہانہ تھے۔ میرے والد صاحب کا بھی اس دور میں یہی حال تھا مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا ، وہ اپنی عملی زندگی میں بڑے پکے دیندار، شریعت کے نہایت پابند ، شاغل اور شب بیدار تھے دنیا کا کام بھی خوب کرتے تھے اور دین میں بھی بہت کامیاب تھے، لیکن دین اور آخرت کی فکر دنیا کی فکر پرغالب تھی۔ اسی لیے وہ اپنی اولاد کو صرف دینی تعلیم دلانا چاہتے تھے اور پوری وسعت اور استطاعت کے باوجود اپنے کسی بچہ کو خالص دنیاوی تعلیم یعنی انگریزی تعلیم دلانے کے بالکل روادار نہیں تھے۔ اس واسطے انھوں نے مجھے بھی ناظرہ قرآن شریف اور تھوڑی سی اردو تعلیم کے بعد فارسی اور پھر عربی پر لگادیا، لیکن میں کچھ تو اس وجہ سے کہ میری عمر بہت کم تھی اور ابھی میں صرف و نحو سمجھنے اور پڑھنے کے لائق نہیں ہوا تھا (اور خاص کر ’’میزان منشعب‘‘ اور ’’پنج گنج‘‘ اور’’ نحو میر‘‘ جیسی کتابوں کے ذریعہ تو ’’صرف و نحو‘‘ سمجھنے او رپڑھنے کے قابل بالکل ہی نہیں تھا) اور زیادہ تر اس وجہ سے کہ میرے اندر اس تعلیم کا کوئی ذوق اور داعیہ نہیں تھا، میں نہایت بے دلی سے پڑھتا رہا، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ بس پٹائی کے ڈر سے جو کچھ پڑھایا جاتاتھا وقتی طور پر یادکر کے سنادیا کرتا، سمجھتا کچھ نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کئی سال تک میرا یہی حال رہا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر سال میری ’’میزان‘‘ نئے سرے سے شروع ہوتی تھی۔ ہمارے ’’سنبھل‘‘ میں اس وقت تین عربی مدرسے تھے۔ ہوتا یہ تھا کہ ایک سال تک میں ایک مدرسے میں پڑھتا رہتا، سال ختم ہونے تک ’’میزان منشعب‘‘ ختم ہو کر کبھی کبھی ’’پنج گنج‘‘ اور’’ نحو میر‘‘ بھی شروع ہو جاتی لیکن والد ماجد اور گھر والے محسوس کرتے کہ میری پڑھائی ٹھیک نہیں ہورہی تو دوسرے سال مجھے دوسرے مدرسہ میں بھیج دیا جاتا ، وہاں کے استاد جب میرا یہ حال دیکھتے کہ مجھے کچھ بھی نہیں آیا ہے تو وہ پھر سے وہی ’’میزان‘‘ شروع کرادیتے او رپھر میں سال بھی میں ’’میزان منشعب‘‘ ختم کر کے ’’پنج گنج‘‘ اور ’’نحو میر‘‘ تک یا کچھ اور آگے تک پہنچ جاتا، لیکن مجھے آتا کچھ نہیں تھا اس لیے اگلے سال پھر میں تیسرے مدرسہ میں بھیج دیا جاتا وہاں کے استاد بھی میری خیر خواہی میں یہی طے کرتے کہ مجھے پھر میزان سے پڑھایاجائے اور پھر میری میزان شروع ہوجاتی، مجھے یاد ہے کہ یہ چکر بہت عرصے تک اسی طرح چلتا رہا اور ہر سال میری تعلیم بداں ’’اَسْعَدَکَ اللّٰہ فِیْ الدَّارَیْنِ‘‘ سے شروع ہوتی رہی۔
اسی زمانہ میں جبکہ میرے غالباً دو تین سال اسی طرح برباد ہوچکے تھے اور میری عمر قریباً بارہ سال کی ہوچکی تھی ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ہمارے ضلع مراد آباد کے اس وقت کے انگریز کلکٹر نے جو کسی خوش گمانی کی بنا پر میرے والد ماجد کا بہت قدر شناس تھا ایک ملاقات میں والد صاحب سے ان کی اولاد کے بارے میں پوچھا، والد ماجد نے بتایا کہ خدا کے دیے ہوئے میرے پانچ لڑکے ہیں اس نے تعلیم کے بارے میں دریافت کیا تو اسے یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی کہ ان میں سے کسی ایک نے بھی انگریزی تعلیم حاصل نہیں کی ہے اور نہ کوئی اب انگریزی پڑھ رہا ہے۔ اس وقت میری عمر اور تعلیم کی منزل ایسی تھی کہ میرے ہی بارے میں اس طرح کا فیصلہ کیا جاسکتا تھا کلکٹر نے اصرار سے کہا کہ کل ہی اس بچہ کو مقامی ہائی اسکول میں بھیج دیا جائے اور ساتھ ہی کہا کہ میں ہیڈماسٹر سے کہہ دوں گا کہ وہ پانچ سال میں انٹرنس کرادے اور والد صاحب سے کہا کہ پھر میں اس کو نائب تحصیلداری دے دوں گا، اس زمانہ میں نائب تحصیلداری بڑی چیز تھی پہلی ترقی کر کے آدمی تحصیلدار ہوجاتا تھا اور اس کے بعد ڈپٹی کلکٹر ہوجاتا تھا بس یہی ہندوستانیوں کی معراج تھی۔ اس سے آگے کلکٹر اور کمشنر تو صرف انگریز ہوتے تھے۔ تو کلکٹر نے والد صاحب کو بہت اصرار کے ساتھ یہ مشورہ دیا۔ والد صاحب نے گھر آکر یہ قصہ سنایا اور ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کردیا کہ انھوں نے اس کی بات ماننے کا فیصلہ نہیں کیا لیکن ان کے بعض ملنے والوں کی اور گھر کے بھی بعض لوگوں کی رائے یہ ہوئی کہ اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے اور مجھے اسکول میں ضرور داخل کردیا جائے چنانچہ بعض لوگوں نے والد صاحب کو اس کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی طرح راضی نہیں ہوئے ان کا آخری جواب یہ تھا کہ ’’مجھے اﷲ تعالیٰ سے پوری امید ہے کہ اپنی زندگی میں اپنی اولاد سے مجھے کچھ لینے کی ضرورت نہ ہوگی انشاء اﷲ ہمیشہ ان کو کھلاتا اور دیتا رہو گا، ہاں مرنے کے بعد قبر میں مجھے ضرورت ہوگی اس لیے میں تو ان کو وہی تعلیم دلانے کی کوشش کروں گا جس سے مجھے قبر میں اور اس کے بعد کچھ ملتا رہے الغرض انھوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔
مجھے یاد ہے کہ اس وقت والد صاحب کے اس فیصلہ کا مجھے بڑا رنج اور صدمہ ہوا تھا جس کی ایک وجہ تو یہی تھی کہ میں سوچتا تھا کہ اگر مجھے اسکول میں داخل کردیا گیا تو تھوڑے دنوں کے بعد میں نائب تحصیلدار اور پھر تحصیلدار اور ا س کے بعد ڈپٹی کلکٹر بن جاؤں گا، اور دوسری اس سے بھی بڑی وجہ یہ تھی کہ مجھے کرکٹ کھیلنے کا بے حد شوق تھا حالانکہ قریباً روزانہ پٹائی ہوتی تھی، لیکن کھیل نہیں چھوٹتا تھا مجھے امید تھی کہ اسکول میں داخلہ کے بعد مجھے اس کی بھی آزادی مل جائے گی۔ لیکن والد ماجد رحمتہ اﷲ علیہ نے قطعی فیصلہ سنادیا کہ وہ مجھے انگریزی پڑھنے کے لیے اسکول میں داخل نہیں کریں گے۔
اس واقعہ کے بعد بھی غالباً کئی سال تک میرا وہی چکر چلتا رہا کہ پڑھنے کے ارادہ کے بغیر پڑھتا رہا مدرسہ جاتا آتا رہا اور ہر سال مدرسہ کی تبدیلی ہوتی رہی اور نئے سرے سے میری میزان شروع ہوتی رہی۔
پھر ۳۸ھ کی بات ہے جس کو اب باون سال گزر چکے ہیں اس وقت میری عمر پندرہ سال کی ہوچکی تھی والد صاحب کو معلوم ہوا کہ فلاں مدرسہ میں ایک نئے پنجابی استاذ آئے ہیں اور وہ بہت توجہ سے پڑھاتے ہیں والد صاحب نے مجھے ان کے پاس بھیجنے کا فیصلہ فرمالیا، میں ایک حکیم صاحب کا تعارفی خط لے کر ان کے پاس بھیج دیا گیا۔ یہ مولانا مفتی محمد نعیم صاحب لدھیانوی تھے، (جواب مغربی پاکستان میں ہیں اور میرے خاص محسن استادوں میں ہیں) انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کب سے پڑھ رہا ہوں۔ میں نے بتایاکہ میں اتنے دنوں سے اس طرح پڑھ رہا ہوں۔ اب میں کچھ سمجھدار ہو چکا تھا۔ انھوں نے مجھ سے باتیں کیں تو اندازہ کیا کہ میں غبی اور کند ذہن بھی نہیں ہوں اس سے انھوں نے سمجھ لیا کہ میرا اتنا وقت صرف اس لیے برباد ہوا اور ہورہا ہے کہ میں نے خود پڑھنے کا ارادہ نہیں کیا ہے۔ بلکہ صرف جبراً پڑھ رہا ہوں۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے بتادیا کہ واقعہ بالکل یہی ہے، اﷲ تعالیٰ ان کو بہتر سے بہترجزاعطا فرمائے اور ان کے درجے بلند فرمائے۔ انھوں نے بڑی شفقت اور بے تکلفی سے فرمایا کہ بھئی اب تم خود ہی اپنے بارے میں فیصلہ کرو! اگر اب بھی تمہارا ارادہ پڑھنے کا نہ ہو تو ہمیں صاف بتادو ہم خود تمہارے والد صاحب سے مل کر انھیں سمجھائیں گے کہ وہ تمہارا وقت برباد نہ کریں، کسی اور لائن میں لگائیں۔
اور اگر تمہارا ارادہ پڑھنے کا ہو تو پھر ہم تمہیں پڑھائیں گے اور انشاء اﷲ تم بہت جلدی پڑھ لو گے، اس وقت اﷲ نے میرے دل میں ڈالا اور میں نے ان سے کہا کہ اچھا! ان شاء اﷲ اب میں پڑھوں گا ۔ انھوں نے مجھے اس طرح پڑھانا شروع کیا کہ میزان کے چند صفحات مقرر کرکے فرمایا کہ ان کو غور سے دیکھ لو اور ان کا مضمون یاد کر لو، جو بات سمجھ میں نہ آئے مجھے سے پوچھ لو دوسرے اسباق سے فارغ ہو کر میں تمہاری جانچ کر لوں گا۔ اس طرح انھوں نے ۸،۱۰؍ دن میں میری میزان منشعب ختم کرادی اور میں نے اب سمجھا کہ میزان منشعب میں کیا ہے پھر اسی طرح مہینے دو مہینے میں پنج گنج اور نحو میر ختم کرادی میں درمیان سال میں ان کے پاس گیا تھا اور شعبان تک انھوں نے علم الصیغہ اور ہدایۃ النحو تک پہنچادیا اب میں جی لگا کر اور اپنے ارادہ سے پڑھنے لگا لیکن اس کے بعد مولانا مفتی محمد نعیم صاحب سنبھل تشریف نہیں لائے اور مجھے پڑھنے کے لیے سنبھل سے باہر بھیج دیا گیا اس کے بعد چار سال میں تمام متوسطات میں نے پوری کر لیں، اس وقت ہمارے مدرسوں میں منطق و فلسفہ کا بہت زور تھا اس لیے میں نے سب سے زیادہ کتابیں منطق فلسفہ کی پڑھیں اور اب اس کے اظہار میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اﷲ کے فضل وکرم سے میں اپنے ساتھیوں میں ممتاز رہتا تھا۔
یہاں تک میں نے جن اساتذہ سے پڑھا تھا وہ سب اسی دارالعلوم دیوبند کے تعلیم یافتہ اور فیض یافتہ تھے اس لیے میرا ذہن بالکل دیوبندی تھا اور آگے کی تعلیم میں دارالعلوم ہی میں حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
میں نے اپنے والد صاحب کے بارے میں ابھی بتایا تھا کہ ان کے عقائد کچھ دوسری طرح کے تھے ان کو ہمارے اکابر دیوبند سے بہت بُعد تھا، لیکن نہ معلوم کس طرح ان کے دل میں یہ بات اﷲ نے بٹھادی تھی کہ حدیث دیوبند والے ہی اچھی پڑھاتے ہیں اس لیے جب میں نے ان سے یہ عرض کیا کہ میں اب حدیث شریف پڑھنے کے لیے دارالعلوم دیوبند جانا چاہتا ہوں، تو انھوں نے مجھے اجازت دیدی جب یہ بات عام طور سے مشہور ہوئی کہ میں پڑھنے کے لیے دیوبند جاؤں گا تو والد صاحب کے گیارھویں شریف، بارھویں شریف اور عرسوں کی محفلوں والے یار ان طریقت نے ان سے کہا کہ صوفی جی کیا غضب ہے! سنا ہے آپ کا لڑکا دیوبند پڑھنے جائے گا؟ تو وہ صرف یہ فرما دیتے کہ مجھے یقین ہے کہ وہ میرے ہی راستہ پر رہے گا، الغرض انھوں نے اپنی رائے نہیں بدلی اور میں شوال ۴۳ھ میں دارالعلوم آکر داخل ہوگیا، میں یہاں صرف دو سال باقاعدہ طالب علم کی حیثیت سے رہا پہلے سال مشکوٰۃ شریف اور ہدایہ اخیرین وغیرہ چند کتابیں پڑھیں اور اگلے سال دورہ!
میں یہاں کے زمانہ قیام کا اس وقت کا صرف ایک واقعہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں جس کا تعلق میرے والد ماجد رحمتہ اﷲ علیہ سے ہے یہ مکان جس میں حضرت شیخ الاسلام مدنی رحمتہ اﷲ علیہ کا قیام تھا اور اب حضرت کے گھر کے لوگوں کا قیام ہے ہمارے زمانہ طالب علمی میں اس میں مطبع قاسمی او رکتب خانہ قاسمی تھا، جن بیچارے طالب علموں کو مدرسہ میں حجرہ نہیں مل سکتا تھا ان کو اس کے ایک خستہ سے کمرے میں رہنے کی اجازت دیدے جاتی تھی، میں انھی بیچارے کسمپرس طالب علموں میں سے ایک تھا دونوں سال میرا قیام اسی میں رہا پہلے سال ربیع الاوّل کا مہینہ تھا اور خوب یاد ہے چودھویں تاریخ تھی اور اتفاق سے جمعہ کا دن تھا۔ عشاء کی جماعت کا وقت قریب تھا میں اسی مطبع قاسمی میں بیٹھا وضو کر رہا تھا کہ اچانک والد ماجد رحمتہ اﷲ علیہ مطبع قاسمی کا پتہ پوچھتے ہوئے تشریف لے آئے پہلے سے کوئی اطلاع نہ تھی وہم وگمان بھی نہ تھا لیکن میرا ذہن منتقل ہوا کہ یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے ان ہی تاریخوں میں پیران کلیر کا عرس ہوتا ہے یہ وہاں عرس میں تشریف لائے ہوں گے۔ ان کی پیران کلیر میں عرس میں حاضری کبھی قضا نہیں ہوتی تھی چنانچہ دریافت کرنے پر یہی بتایا کہ میں کلیر شریف عرس میں آیا ہوا تھا خیال ہوا کہ دیوبند قریب ہی ہے اس لیے وہاں سے فارغ ہو کر آگیا ہوں میں نے عرض کیا کہ عشاء کی جماعت کا وقت ہوچکا ہے وہ باوضو تھے ہم لوگوں کے ساتھ فوراً ہی مسجد تشریف لے آئے۔ اس زمانہ میں حوض وہاں تھا جہاں اس وقت مسجد کے صحن کا آخری حصہ ہے، اور چونکہ مسجد میں تنگی ہوتی تھی اس لیے حوض کو لکڑی کے تختوں سے پاٹ دیا گیا تھا اس پر بھی کئی صفیں ہوتی تھی۔ ہم لوگ ایسے وقت مسجد میں داخل ہوئے کہ نماز شروع ہوچکی تھی ہمیں آخری صفوں میں حوض پر جگہ ملی، چودھویں رات کی چاندنی کھلی ہوئی تھی اور جمعہ کا دن ہونے کی وجہ سے عام طور سے تمام طلبہ صاف سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ جب رکوع یا سجدے کا وقت ہوتا تو ہم لوگوں کو جو حوض کے اوپر بلندی پر کھڑے تھے ایسا معلوم ہوتا جیسے آسمان سے اترے ہوئے فرشتوں کی صفیں ہیں مجھے خوب یاد ہے بڑا ہی نورانی منظر تھا میں والد صاحب کے بالکل برابر میں کھڑا تھا میں نے محسوس کیا کہ والد صاحب پر اس منظر کا کچھ خاص اثر پڑ رہا ہے، نماز سے فارغ ہو کر ہم لوگ اپنی قیام گاہ یعنی مطبع قاسمی میں آگئے۔ والد صاحب کی باتوں سے میرے اس احساس کی تصدیق ہوگئی کہ وہ دارالعلوم کی نماز کے اس منظر سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔
صبح کو فجر کی نماز کے بعد حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی کا اِسی مسجد میں قرآن مجید کا درس ہوتا تھا وہ اگرچہ دارالعلوم کے بڑے علماء میں سے نہیں تھے عمر بھی کم تھی لیکن اپنی صلاحیت اور قابلیت کی وجہ سے ممتاز سمجھے جاتے تھے اور طلبہ میں مقبول اور محبوب تھے اس زمانہ میں تر جمۂ قرآن دارالعلوم کے نصاب میں داخل نہیں تھا، مولانا کا یہ درس گویا پرائیویٹ اور ان کے ذاتی ذوق و شوق کا نتیجہ تھا، بڑی وسیع نظر اور خوب بولتے تھے ، واقعہ یہ ہے کہ درس قرآن کا حق ادا فرماتے طلبہ کی بہت بڑی تعداد پابندی سے شرکت کرتی تھی بڑا علمی نفع ہوتا تھا میں نے موقع نکال کر مولانا کے کان میں اس دن عرض کردیا کہ میرے والد صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں، وہ عرس اور قوالی کے دلدادگان میں سے ہیں ان کے عقائد و خیالات اس طرح کے ہیں ہمارے بزرگوں کے بارے میں انھیں سخت بد گمانیاں ہیں اور نا واقفی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان دیوبند والوں کو تصوف او ربزرگانِ دین سے کوئی تعلق نہیں میرا مقصد یہ تھا کہ آج کے درس میں اس کا لحاظ فرما لیا جائے حسن اتفاق سے اس دن سورہ یوسف کا وہ مقام زیر درس تھا جہاں یہ ذکر آتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے (غلہ وغیرہ لانے کے لیے)جب اپنے صاحبزادوں کو مصر کے لیے رخصت کیا اور چھوٹے صاحبزادے حضرت یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی بن یامین کو بھی ان کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی تو اس وقت یہ ہدایت بھی فرمائی کہ تم سب مصر میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا (یِا بُنَیَّی لَا تَدْ خُلُوْامِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوْا مِنْ اَبْواَبٍ مُتَفَرِّقَۃٍ) جس کا مقصد اکثر مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ دیکھنے والوں کی نظر نہ لگے تو آخر میں یہ بھی فرمایا تھا (وَمَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ مِنْ شَئٍْی اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَ کَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ) مولانا کاندھلوی نے ان آیات پر تقریر کرتے ہوئے توکل کی حقیقت اور توکل اور اسباب کے تعلق پر بھی خوب روشنی ڈالی اور اس دن عارف رومی کے اشعار بھی اس سلسلے میں سنائے اس کے علاوہ بھی کئی مضامین تصوف و معرفت ہی سے متعلق مولانا نے اس دن کے درس میں ایسے بیان فرمائے جو والد ماجد رحمتہ اﷲ علیہ کے بہت ہی حسب حال تھے اس درس سے بھی والد صاحب بہت متاثر ہوئے۔ رات کی نماز میں انھوں نے جو منظر دیکھا تھا اور جو نورانی کیفیات اس مجمع میں انھوں نے محسوس کیں اور پھر صبح کے درس میں جو کچھ سنا اس سے ان کا ذہن ہمارے اکابر او رہماری جماعت کے بارے میں بہت کچھ بدل گیا۔ درس سے فارغ ہو کر جب ہم لوگ اٹھے تو والد صاحب نے فرمایا کہ میں یہاں کے بزرگوں کے مزارات پر جانا چاہتا ہوں، ہم لوگ ان کو قبرستان لے گئے، وہ پہلے حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ کے مزار پر مراقب ہو کر بیٹھے اور دیر تک بیٹھے رہے اس کے بعد حضرت نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ کے مزار پر مراقب ہو کر بیٹھے اور بہت دیر تک بیٹھے اور ان کے چہرے کے رنگ سے ہم محسوس کرتے رہے کہ ان پر کوئی خاص اثر پڑ رہا ہے وہاں سے واپسی پر فرمایا کہ ان حضرات کا مقام بہت ہی بلند ہے اس کے بعد ہم لوگوں سے فرمایا کہ یہاں کے استادوں میں جو اﷲ والے ہوں مجھے ان کے پاس لے چلو ہم سب سے پہلے حضرت میاں صاحب یعنی حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کی خدمت میں پہنچے حضرت میاں صاحب کی زیارت و ملاقات سے بھی والد صاحب بہت متاثر ہوئے اس کے بعد حضرت شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ اور حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کی زیارت کی ان حضرات کی زیارت سے بھی بہت متاثر ہوئے اور ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ ہر وقت ذکر میں مشغول اور صاحب نسبت ہیں۔ الغرض ہمارے اکابر اور ہماری جماعت کے بارے میں ان کو جو بدگمانیاں ہمیشہ سے تھیں وہ غالباً اسی دن ختم ہوگئیں اور اس کے بعد توان پر اﷲ تعالیٰ کا بہت ہی بڑا فضل ہوا لیکن اس وقت میرا مقصد اپنی طالب علمی کے کچھ واقعات سنانا ہے اپنے والد صاحب کی سوانح عمری بیان کرنا مقصود نہیں ہے، مگر جب ان کا ذکر آگیا ہے تو ان کی ایک بات اور سنادینا مناسب سمجھتا ہوں، ان شاء اﷲ آپ بھائیوں کو اس سے بھی نفع ہوگا، غالباً ۵۴ھ میں یعنی اب سے ۳۵،۳۶؍سال پہلے میرے والد صاحب کو حج نصیب ہوا، واپسی پر مجھ سے تنہائی میں فرمایا کہ میں تیرے لیے کوئی چیز نہیں لایا میں نے ایک دعا تیرے واسطے کی ہے اور وہ یہ کہ تیرے پاس کبھی دولت نہ ہو اور تجھے کبھی تنگی اور تکلیف نہ ہو، اور مجھے امید ہے کہ ان شاء اﷲ یہ قبول ہوگی۔ اس بات کو ۳۵،۳۶ سال ہوگئے ہیں آپ کے سامنے اس بات کا اظہار بہتر سمجھتا ہوں کہ اب تک اﷲ تعالیٰ کا معاملہ میرے ساتھ بالکل یہی ہے میرے پاس دولت کبھی نہیں ہوئی اور الحمدﷲ زندگی کی ان تکلیفوں سے مجھے کبھی واسطہ نہیں پڑا جو افلاس اور تنگی کی وجہ سے اﷲ کے بندوں کو ہوتی ہیں مالک کے فضل و کرم سے میری زندگی بڑی راحت اور عافیت کے ساتھ گزرتی ہے مجھے یقین ہے کہ اگر بالفرض میں ڈپٹی کلکٹر ہوتا اور میری تنخواہ ہزار یا اس سے بھی اوپر ہوتی تو زندگی کی وہ راحتیں مجھے نصیب نہ ہوتیں جو اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے نصیب ہیں۔
میرے عزیز بھائیو! خدا گواہ ہے کہ میرے پاس کوئی ہنر اور کمال نہیں ہے بس وہی ہے جو اسی دارالعلوم سے اور یہاں کے اپنے اساتذہ سے نصیب ہوا ہے۔ میں نے ابھی ذکر کیا تھا کہ جب میری عربی تعلیم شروع ہوئی تو میرے اندر اس کا کوئی داعیہ اور شوق نہیں تھا اور بعد میں جب ارادہ کے ساتھ اور جی لگا کر پڑھنا شروع کیا واقعہ یہ ہے کہ اس وقت بھی خدا طلبی اور آخرت کی کامیابی کا واضح تصور مجھے نصیب نہیں تھا لیکن الحمدﷲ جب دارالعلوم میں حاضری ہوئی تو یہ نعمت بھی کسی درجہ میں یہاں کی برکت سے نصیب ہوگئی تھی، مگر جیسا کہ میں نے بتایا تھا میرے والد ماجد نے مجھے صرف اسی نیت سے دینی تعلیم کے راستہ پر لگایا تھا کہ ان کو قبر میں اور اس کے بعد کی آخرت کی منزلوں میں اس سے فائدہ پہنچے، مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ میرے والد ماجد رحمتہ اﷲ علیہ کے اس عمل کو ضرور قبول فرمائے گا یہ ان کی ایک قربانی تھی اور انھوں نے گویا مجھے اﷲ کی نذر کیاتھا، اور دین کے لیے واقف کیا تھا میں یاد کرتا ہوں ایک دن وہ تھا جب والد صاحب نے کلکٹر کے کہنے کے باوجود مجھے انگریزی پڑھانے سے انکار کردیا تھا اور مجھے اپنی نادانی سے بڑا رنج اور صدمہ ہوا تھا اور میں سمجھتا تھا کہ میرا مستقبل تاریک ہوگیا اور اب میرا حال یہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہی دن میرے لیے سب سے زیادہ مبارک دن تھا جب والد صاحب رحمتہ اﷲ علیہ نے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ وہ اپنی آخرت بنانے کے لیے مجھے صرف دینی تعلیم دلائیں گے[ میں اﷲ کے ایسے بہت سے بندوں سے واقف ہوں جنھوں نے صرف انگریزی تعلیم حاصل کی اور ایک دن بھی ہمارے کسی دارالعلوم میں طالب علم بن کے نہیں رہے لیکن ان پر کسی اور راستہ سے اﷲ تعالیٰ کا فضل ہوا اور ان کی دینی حالت خود میرے لیے باعث رشک ہے اور میں ان کو اﷲ کے مقبول بندوں میں سے سمجھتا ہوں لیکن اپنے بارہ میں میرا اندازہ یہی ہے کہ اگر مجھے انگریزی تعلیم دلائی جاتی تو شاید میرا تعلق دین سے اور اﷲ رسول سے برائے نام ہی ہوتا۔] مجھے جب قرآن شریف کی تلاوت نصیب ہوتی ہے اور جب حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں اور کچھ سمجھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کیا ارشاد فرما رہے ہیں اور رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کیا ہدایت فرمائی تو میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے جو کسی بندہ کو حاصل ہوسکتی ہے اور زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی اس کے برابر قیمتی نہیں اور والد ماجد کے اس فیصلہ کے صدقہ میں یہ مجھے نصیب ہوئی ہے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے والد ماجد نے سب سے بڑا احسان مجھ پر یہی فرمایا، انھوں نے میرے لیے مکان بھی چھوڑ ا جو آج بڑی قیمت کا ہے اور اس کے علاوہ خاصی جائیداد بھی چھوڑی جس میں سے بہت کچھ فروخت کر چکا ہوں۔اور اب بھی کچھ باقی ہے لیکن اس سب سے بڑا احسان ان کا مجھ پر یہی ہے کہ انھوں نے مجھے وہ دینی تعلیم دلائی جو دراصل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی قیمتی میراث ہے اﷲ تعالیٰ ان کے اس عمل اور اس احسان کا صلہ قبر میں اور آخرت میں ان کو اپنی شان عالی کے مطابق عطا فرمائے۔
میرے عزیز بھائیو! آ پ میں سے بہت سے وہ ہوں گے جن کے والدین نے میرے والد کی طرح اپنی اور ان کی آخرت بنانے کے لیے سوچ سمجھ کے دینی تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا ہوگا، لیکن خود ان کا ذہن اس بارے میں صاف نہ ہوگا، جیسا کہ ایک عرصہ تک خود میرا حال تھا اور کچھ آپ میں وہ ہوں گے جنھوں نے خاندانی رواج کے طور پر یا حالات کے تقاضے سے یا دنیوی تعلیم حاصل نہ کرسکنے کی مجبوری سے دینی تعلیم کا یہ راستہ اختیار کر لیا ہوگا۔ لیکن میں آپ کا مخلص بھائی ہوں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ اس علم دین کی قدروقیمت کو اور اپنے مقام اور اپنی حقیقت کو سمجھئے۔ آپ جو چیز حاصل کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں وہ تمام انبیاء علیہم السلام کا ترکہ اور خاتم الانبیا صلی اﷲ علیہ وسلم کا ورثہ ہے۔ اگر اﷲ تعالیٰ اخلاص نصیب فرمائے اور نیت اور عمل صحیح ہو تو آپ سے اور ہم سے بڑا دولت مند اور خوش نصیب کوئی نہیں آپ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مشن کے علمبردار اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سپاہی اور لشکری ہیں۔ اگرآپ اس حقیقت کو اور اپنے مقام کو سمجھ لیں تو پھر آپ کو کسی دنیوی اعزاز اور عہدہ کی طمع نہ ہوگی او راہل دنیا اور دولت مندوں کی شاندار کوٹھیاں اور موٹریں دیکھ کے آپ کو کوٹھی اور موٹر نہ ہونے کی حسرت نہ ہوگی پھر آپ کا احساس اور اذعان یہ ہوگا کہ قرآن مجید کی ایک چھوٹی سی سورت بلکہ ایک آیت اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک حدیث جس کا آپ کو علم ہے وہ ان کوٹھیوں اور موٹروں سے ہزاروں درجہ زیادہ قیمتی ہے۔ ہمیں اپنے قصوروں اور کوتاہیوں اور گناہوں کے لحاظ سے تو اپنے کو سب سے کمتر سمجھنا چاہیے لیکن علم نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم اور ورثہ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت سے برتر اور بالاتر سمجھنا چاہیے اور اس نعمت پر خدا کا بے حد شکر ادا کرنا چاہیے۔
بخدا میں کچھ نہیں ہوں، نہایت گنہگار بندہ ہوں، لیکن اﷲ تعالیٰ نے یہ چیز محض اپنے فضل سے کسی درجہ میں نصیب فرمادی ہے کہ جو تھوڑا سا علم اس دارالعلوم کے صدقہ میں اور اس کے فیض یافتہ اپنے استاذوں کے صدقہ میں حاصل ہوگیا ہے۔ اس کو اس دنیا کی سب سے بڑی دولت سمجھتا ہوں۔
میرے بھائیو! یہی ہمارے بزرگوں کا خاص ترکہ اور ورثہ ہے اﷲ تعالیٰ آپ سب کو نصیب فرمائے! اس کے لیے میں آپ کو تین باتوں کی نصیحت کرتا ہوں۔
اوّل یہ کہ اپنے مقام اور مقصد کو سمجھئے اور اگر اب تک نیت اور مقصد کے بارے میں ذہن صاف نہیں تھا تو اب اپنے دل کے رخ کو صحیح کر لیجئے تنہائیوں میں بیٹھ بیٹھ کر سوچا کیجئے کہ آپ یہاں کیوں آئے ہیں اور آپ کون ہیں۔ اور جو علم آپ حاصل کر رہے ہیں وہ کتنی عظیم دولت اورنعمت ہے۔ یہ آپ کے لیے بہترین مراقبہ ہے۔
دوسری بات یہ کہ دل لگا کر اور پوری توجہ سے پڑھیے یہ علم دین کی قدر اور عظمت کا حق ہے۔ اس کے بغیر کسی کو نہ کچھ آیا ہے نہ آئے گا نہ ملا ہے نہ ملے گا۔
تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ جو علم آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں اپنی زندگی اور اپنا عمل بھی اس کے مطابق بنائیے، تقویٰ اختیار کیجئے تقوے کے ساتھ علم نور ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا علم میراثِ نبوت ہے اور تقوے کے بغیر علم ظلمت ہے اور سراسروبال ہی۔
میرے عزیز بھائیو! اﷲ تعالیٰ نے علم کی اور دین کی جو دولت ہمارے اکابر حضرت نانوتوی رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت گنگوہی رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت تھانوی رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت کشمیری رحمتہ اﷲ علیہ اور حضرت مولانا مدنی رحمتہ اﷲ علیہ کو عطا فرمائی تھی وہ اس کے خزانہ میں اب بھی بھر پور موجود ہے یہ دارالعلوم اس کادروازہ ہے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس دروازہ تک پہنچا دیا ہے۔ اگرآپ اخلاص نیت او رمحنت و تقویٰ کی شرطوں کے ساتھ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو میں اﷲ تعالیٰ کی کریمی پر یقین کر کے قسم کھا کے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کو آپ کی استعداد اور استحقاق کے مطابق وہی دولت ضرور عطا فرمائے گا اور قبر اور آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی آپ کو اس کا ذائقہ حاصل ہوگا۔
وَاٰخِرُدَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمِیْنْ

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.