تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

’’میان دو کریم‘‘ ……ایک انوکھی اور البیلی دُنیا کی سیر

حافظ عابد مسعودڈوگر

حرمین شریفین کی حاضری ہر دل مسلم کی آرزو رہتی ہے۔کون ہے جس کے دل میں یہ آرزو نہ مچلتی ہو؟!حاجی لوگ جب دیار حرم سے واپس لوٹتے ہیں تو جہاں ان کے سامان ِسفرسے قسم قسم کے تحائف برآمد ہوتے ہیں وہیں ان کی زبانوں پر ایمان افروز،تحیر آمیز،دل کش اور یادگارواقعات ہوتے ہیں۔کچھ لوگ زبانی گفتگو کے ذریعے وہاں کی آپ بیتیاں محبت بھرے انداز میں سنارہے ہوتے ہیں ،اوراگر کوئی ادیب اور قلم کا دَھنی دیار حرم سے واپس لوٹے تو اس کے قلم کا بانکپن قابل دِید ہوتا ہے۔یوں بھی دور دراز کے سفر کی روداد سننا ایک قدیم روایت ہے۔ایک وقت تھا جب باہرسے تازہ وارد مسافروں سے نگرنگر کی کہانیاں بصد شوق سنی جاتی تھیں۔حرمین کا سفرتو مسلمان کی آرزوؤں کا سفر ہوتا ہے۔اس کی حکایت سے مستفید ہونے کی خواہش کون نہیں رکھتا؟!عشاق کے لیے یہ فردوس گوش بھی ہے اور معراج تصور بھی۔
اردو کا ادب حرمین کے سفر ناموں سے مالامال ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اردو کا سب سے پہلا سفرنامہ دوسواڑتیس برس قبل مولانا رفیع الدین مراد آبادی نے ۱۲۰۱ھ میں لکھا۔ہندوستان کے اوّلین حج سفرناموں میں برصغیر کی معروف روحانی اور علمی شخصیت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اﷲ(۱۵۵۱ء،۱۶۴۲ء) کاسفرنامہ ’’جذب القلوب الیٰ دیار المحبوب‘‘،حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمہ اﷲ کے ’’فیوض الحرمین‘‘،نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے’’ ترغیب المسالک الیٰ احسن الممالک‘‘،نواب صدیق حسن خان رحمہ اﷲ کے ’’رحلۃ الصدیق الیٰ بیت العتیق‘‘اور بعض دیگر قدیم مصنفین کے سفرنامے ذوق وشوق سے پڑھے گئے۔زمانہ قریب میں ممتاز مفتی کا سفر نامہ’’لبیک ‘‘ بھی بہت پڑھا گیا۔اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی کے ’’مشاہدات حرم ‘‘ شورش کاشمیری مرحوم کا ’’شب جائے کہ من بودم‘‘۔ مولانا سمیع الحق کاسفرنامہ ’’گنبد ِ خضریٰ کے سائے میں‘‘ اور ابھی حال ہی میں مولانا عبدالقیوم حقانی کے متعدد سفر ناموں پر مشتمل کتاب’’کعبہ مرے آگے‘‘خاصے کی چیز ہیں۔اس سلسلہء مروارید میں اب ہمارے دوست مولانا محمداحمد حافظ بھی اپنے سفرنامے’’ میانِ دوکریم‘‘ کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔
عالم دین ، صاحب طرز ادیب مولانا محمداحمدحافظ(مدیر ماہ نامہ ’’وفاق المدارس‘‘ملتان) کو حرمین کے سفر کی سعادت حاصل ہوئی توواپسی میں حرمین شریفین کی متبرک اور مشکبو یادیں بھی لیتے آئے۔ان کی یہ خوب صورت یادیں روزنامہ اسلام کے صفحات میں قسط وار شائع ہو کر اہل دل سے خراج تحسین حاصل کرتی رہیں۔ ہمیں انتظار تھا کہ یہ سفر نامہ کتابی صورت میں شائع ہو۔تھوڑا عرصہ قبل اطلاع ملی کہ یہ سفر نامہ ’’میانِ دوکریم ‘‘کے نام سے شائع ہو گیا ہے۔ہم روز نامہ اسلام میں بہت سی قسطیں پڑھ نہیں سکے تھے،اس لیے کتاب کی اشاعت کا اشتیاق بھی کافی تھا۔ جلد کتاب حاصل کی ، ظاہری اور معنوی خوبیوں سے آراستہ یہ کتاب کئی دن تک ہمارے سرہانے رکھی رہی۔کتاب کیا ہے ،مصنف نے اپنا خون ِجگر ودِیعت ِ مژگاں کیا ہے۔ایسی مرصع مگر سبک تحریر عرصے بعد پڑھنے کو ملی۔جذبات کا ایک وفور ہے۔آدمی تھوڑی دیر پڑھتا ہے ،چندلحظہ آنکھیں بند کرکے تحریر کا لطف لیتا ہے ،اپنے آپ کو اس مقدس دیار میں محسوس کرنے لگتا ہے،پھر پڑھنا شروع کردیتاہے۔لگتا ہے کہ حافظ صاحب نے جملوں کی تراش میں بھی خاصی محنت سے کام لیا ہے۔بعضے بعضے جملوں کی دمک دیدنی ہے۔لگتا ہے موتی پروئے ہیں۔کتاب کا نام ’’میان ِ دوکریم‘‘علامہ اقبال کے اس شعر سے ماخوذ ہے:
یارب توکریمی و رسول تو کریم                         صدشکر کہ ہستیم ’’میانِ دو کریم‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم دوکریم آقاؤں کے درمیان ہیں،اور یہی بات گنہ گار اُمتیوں کے لیے بہت بڑاسہارا ہے۔
’’میان دوکریم ‘‘ نے مصنف کے وژن اور شگفتگی بیان کو حرم کے سفرناموں میں ممتاز حیثیت دلا دی ہے ۔ انہوں نے جذبے اور فکر کو باہم دگر آمیخت کرکے لطف وانبساط کی ایک البیلی دنیا بسائی ہے۔ آغاز ہی دیکھیے،میانِ دوکریم کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’ کعبے کی محبت تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے…… اس کی دِید کے لیے دِل ہر آن مچلتا رہتا ہے……کون ہے جِسے حرمین شریفین حاضری کی آرزو نہ ہو…… کتنے ہی دل گرفتہ ہیں جو حرمین میں حاضری کے لیے تڑپتے رہتے ہیں، البتہ وہاں جانا نصیب سے ہی ہوتا ہے…… بُلاوا آتا ہے تو بات بنتی ہے…… برسوں گزر گئے اِس بلاوے کے انتظار میں……خواجہ غلام فرید رحمہ اﷲ کے اَلفاظ میں:
مساگ ملیندے دَا گزرگیا ڈینہہ سارا                             سنگار کریندے دَا گزر گیا ڈینہہ سارا
کجلہ پایم سُرخی لایم کیتم یار وَسارا                            کانگ اوڈیندیں عمر وہانڑی آیا نہ یار پیار
^ شاید درد و فِراق کی یہ گھڑیاں مزید طویل ہوجاتیں……کہ ایک دن سچ مُچ بلاوا آگیا…… دوستوں نے کہا رَختِ سفر باندھ لو……اور بصد ذوق وشوق چلو…… پہلے تو یقین نہ آتا تھا…… تُو کجاومن کُجا؟…… مگر پاسپورٹ پر لگے ویزے کو جھٹلانا ممکن نہ تھا……لگتا تھا کہ آہیں رنگ لے آئی ہیں اور وہ اَن دیکھی ہستی مائل بہ لطف وکرم ہے……‘‘
مکہ مکرمہ میں پہلی مرتبہ حاضری ہوتی ہے تو طرح طرح کے جذبات دل ودماغ میں امڈ رہے ہوتے ہیں،حافظ صاحب کی اس وقت کیا کیفیت ہوئی ؟ذرا ملاحظہ فرمائیے……
’’گاڑی اب شہر مکہ میں داخل ہوگئی تھی،جوں جوں حرم مکی قریب آرہا تھا ازدحام بڑھ رہا تھا، سڑکوں پر لمبی لمبی کوچیں اور فٹ پاتھ پر انسانوں کا ہجوم…… ڈرائیور کو قدم قدم پر ایک جھٹکے کے ساتھ بریک لگانا پڑرہی تھی…… اور ہر جھٹکے پر دل کی نبض ڈوب ڈوب جاتی تھی۔ ایک مجرم کھینچ کے لے آیا گیا تھا اور اب اُسے پروردگارِ عالم کے دربار میں حاضری کا مرحلہ درپیش تھا۔غالباً عشاء کی نماز ہوچکی تھی جب ہی تو لوگ اَنبوہ دراَنبوہ نکلے چلے آرہے تھے۔ گاڑی دِھیرے دِھیرے چل رہی تھی…… اچانک ہی موڑ کاٹتے ہوئے کعبۃ اﷲ کے مینار نظر پڑے،ان میناروں سے پھوٹنے والی روشنیوں سے دل پر نرم سی پھوارپڑ گئی…… زباں سے اَﷲ پاک کا شکر جاری ہوگیا…… اللھم لک الحمد ولک الشکر……‘‘
کعبۃ اﷲ کے سامنے پہلی حاضری بھی انسان کی داخلی دنیا میں ایک عجیب وغریب کیفیات پیدا کردیتی ہے۔یہ زندگی بھر کا انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔دیکھیے تو یہ کیفیت الفاظ کے روپ میں کیسی لگتی ہے؟
’’شُست!…… دیکھو کعبۃ اﷲ کا سامنا کرنے سے پہلے اپنے د ل کو ٹٹول لو!…… کوئی اندر سے پکارا تھا…… دیکھ بھال لو کہیں دل میں کوئی بت خانہ تو نہیں سجاہوا…… شرک اور نافرمانی کی آلودگی تو نہیں…… تمہارے جسم کے ساتھ ساتھ دل بھی پوری طرح حاضر ہے؟……اور وہ جو دماغ میں طرح طرح کے فتور ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں،کہیں تکبر اور رِیا کے مجسّمے ہیں،کہیں بغض وکینہ کے جھنڈے گڑے ہوئے ہیں ……کہیں عُجب اورانانیت کے ببول اُگے ہوئے ہیں……ان سب کو نکال باہر کرو اپنی ہستی کو نیستی میں بدل دو……بھول جا ؤ کہ تم بھی کوئی ’شے‘ ہو……سمجھ لو……میں اجنبی،میں بے نشاں……میں پابہ گِل……نہ رفعتِ مقام ہے،نہ شہرتِ دوام ہے……یہ لوحِ دِل !یہ لوحِ دِل!……نہ اس پہ کسی غیر کا نقش ہے ……نہ اس پہ کسی غیر کا نام ہے……دیکھ لو یہ بڑے ادب کا مقام ہے…… یہاں معمولی لغزش سے بھی راندۂ درگاہ ہوجاؤگے…… ظاہری لغزشوں پر سزا ہے…… مگر باطنی لغزشوں سے مردود ہوجاؤگے۔ انہی خیالوں میں گم تھا، قدم لڑکھڑا رہے تھے، بس پھر یہ ہوا کہ:
’’جو ہیبت سے رُکے مجرم تو رحمت نے کہا ہنس کر                          چلے آؤ چلے آؤ یہ گھر رحمان کا گھر ہے‘‘
حرم مکی میں ائمہ کی تلاوت زائرین کے دلوں کو ایک عجیب ایمانی کیفیت سے روشناس کرتی ہے۔جی چاہتا ہے کہ دلوں کواہتزاز ومسرت سے روشناس کرنے والی تلاوت تادیر جاری رہے۔حافظ صاحب نے اس کا نقشہ کچھ یوں کھینچاہے:
’’اَﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان کے دلوں میں حرمین شریفین کی جو محبت رکھ دی ہے اس نے وہاں کی ہر چیز کو محبوب بنادیا ہے……اَﷲ تعالیٰ نے ائمہ حرمین میں بھی ایک خاص جذب رکھا ہے، لوگوں کے قلوب ان کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں، لاکھوں لوگ پانچوں وقت اِن کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہیں…… جہری نمازوں میں تو کیف و سرور کا اور ہی عالم ہوتا ہے، ان ائمہ کرام کی دل کش قراء ت، حرف وصوت کا آہنگ، حرم کامقدس ماحول، بہترین ساؤنڈ سسٹم جو دل کی دھڑکنیں بھی سُن لیتا…… سب سے بڑی بات یہ کہ جس کے سامنے بیت اﷲ شریف کا پر جلال چہرہ ہو اس کی حضوری، رقّتِ قلبی اور سوزِ دل کا کیا عالم ہوگا؟اس پاکیزہ اور مقدس ماحول میں جب بیت اﷲ کے سامنے کھڑے ہوکر ائمہ کرام کلام اﷲ کی قراء ت کرتے ہیں اور ان کی آواز پورے زیروبم کے ساتھ ہوا کے دوش پر پھیلتی ہے تو سننے والوں کے دل ہیبت حق سے پگھل پگھل جاتے ہیں‘‘
مصنف قاری کی بھی انگلی پکڑے پکڑے ساتھ لیے چلتے ہیں ،ابھی مدینہ منورہ کی حاضری رہتی ہے ،طلب وشوق کو مہمیز لگانے والی آوازیں جب کانوں میں پڑتی ہیں تورہوار خیال مدینہ شریف کی گلیوں میں پہنچ جاتا ہے،آپ نے دیکھا ہوگا بلکہ سنا ہوگا لاری اڈوں پر کنڈیکٹر لوگ مختلف شہروں کی آوازیں لگاتے ہیں ،آپ تصور کیجیے کوئی شخص مدینہ مدینہ کی آواز لگائے تو آپ کے دل کی کیا کیفیت ہوگی ؟ذراملاحظہ کیجیے……
’’ یہیں سے مدینہ منورہ جانے کے لیے بھی گاڑیاں ملتی تھیں اور’ مدینہ‘ کی بھی آواز لگتی…… انداز کچھ یوں ہوتا ……’’ مدینہ مدینہ ، مدینہ مدینہ ، مدی ی ی ی ی ی نہ‘‘ …… پہلے تو پکارنے والا مدینہ مدینہ پکارتا اور پھر طویل لَے اور بلند آواز میں’’ مدی ی ی ی ی نہ‘‘ کچھ اس اَدَا سے کہتا کہ دل کھنچ کے رہ جاتا، لگتا پکارنے والے نے دِل کو مٹھی میں لے کر بھینچ لیا ہے، کان تو اس آواز کی سماعت سے لذت اندوز ہوتے ہی تھے مگر دل میں ایک عجیب والہانہ پن دَرآتا……روح کے تار ساز بن کے بجنے لگتے ، یہ تصوّر ہی اِتنا کیف آورتھا کہ اب مدینہ منورہ کی حاضری قریب ہے ۔‘‘
مصنف مدینہ منورہ پہنچنے والے ہیں،پہلی پہلی حاضری ہے،دل دَھڑک رہا ہے ،گنبد خضریٰ اچانک کسی وقت نظرآنے والاہے،تب زائر پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے؟سنیے……
’’ زباں پر درود جاری تھا کہ دِل زور سے دَھڑکنے لگا …… کہ ابھی کسی وقت بلند و بالا عمارتوں کی اوٹ سے گنبد خضریٰ نظر آنے والا تھا…… آنکھ تو جیسے جھپکنا بھول گئی تھی…… پھر اَچانک ہی مسجد نبوی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے مینار اور اُمتیوں کے دِلوں کی دھڑکن گنبد خضریٰ پر نظر پڑی…… لے بھئی !……
ڈھونڈتی تھی گنبد خضریٰ کو تُو                              دیکھ وہ ہے اے نگاہِ بے قرار
آنکھوں نے اپنی بوندیں ٹپکا دیں اوردل شکر نعمت سے لبریز ہوگیاکہ اَﷲ رب العالمین نے آج یہاں تک پہنچنے کی توفیق عطا فرما دی،اس میں اپنا کیا زور تھا ،یہ محض اس ذاتِ باری تعالیٰ کی عطا تھی۔‘‘
مدینہ منورہ میں ایک ایسی شے ہے جسے دیکھنے کے لیے ہرعاشق کی آنکیں تڑپتی رہتی ہیں۔جی چاہتا اس کی تصویر ہمیشہ آنکھوں میں بسی رہے۔جی ہاں وہ گنبد خضری ٰ ہے ،دیکھیے تو کیا نقشہ کھینچا ہے……
’’گنبد خضریٰ ……قبۃ الخضراء……شعور کی آنکھ کھلنے سے بھی پہلے نہاں خانہء دل میں نقش ہوجا نے والی ایک جاں فزا تصویر!……
نبوت ورسالت کا سرِ نہاں ……گنبدِ خضریٰ!
رحمت،رافت ،عطوفت،شفاعت اور جودوکرم کا اِک نشاں ……گنبد خضریٰ!
غنچہء دل کے لیے وجہِ نمو،بے قراریوں کے لیے وجہ ِ سکوں……گنبدِخضریٰ!
ایک ایسا غنچہء شگفتہ جس کا جمال اور جس کی آب وتاب آنکھوں کی بصارت کے لیے سرمہء حیات ہے۔
ایک ایسا محل،ہوائیں جب اس کا طواف کرکے اپنی راہ لیتی ہیں تو راستے بھر مشک وعنبر ایسی خوشبوئیں بکھیرتی چلی جاتی ہیں۔
اذا ھبت الاریاح من نحو طیبۃ                                      اھاج فؤادی طیبہا وھبوبہا
وہ آبگینہ رنگ گنبد جس کے محیط میں شاہِ دوسَرا،سیّدالا ُمہ ،سیّدالخلائق،خیرالعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم آرام فرما ہیں۔جب تھکے ماندے ،زمانے بھر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے شکستہ پامسافر مدینے میں داخل ہوتے ہیں تو گنبدِ خضریٰ کی صرف ایک جھلک دیکھ لینے سے ہی ان کی ساری تھکن کافور ہوجاتی ہے……‘‘
آخرایک دن واپسی بھی ہے،مدینہ چھوڑ نے کا خیال ہی کتنا اندوہ انگیز ہوتا ہے،اس کا کچھ اندازہ وہی کرسکتے ہیں جنہیں اس مرحلے سے گذرنا پڑتا ہے،اس مرحلے کو حافظ صاحب نے یوں نبھایا ہے……
’’آج مدینہ طیبہ میں ہمارا آخری دن تھا،مدینہ شریف چھوڑنے کا خیال ہی اتنا اندوہ انگیز تھا کہ جیسے دل پر چھریاں چل رہی ہوں۔سامان سمیٹ کر نیچے پہنچایا جا چکا تھا۔باری باری گاڑیوں میں بیٹھے اور مطارالمدینہ روانہ ہوگئے ،راستے بھر مڑمڑ کر دیکھنے کی کوشش کی کہ مسجدنبوی مینار کہیں سے نظر آجائیں ،مگر روشنیاں تو نظرآتی رہیں،میناروں کی جھلک دِکھائی نہیں پڑی۔ یہ خیال کرکے ہی ہول اُٹھ رہے تھے کہ اب ہمیں کراچی جیسے شہر نا پُرساں میں واپس چلے جانا ہے، جہاں زندگی کا ایک ایک لمحہ ڈر خوف، کرب اور اذیت کا شکار رہتا ہے۔ کچھ اِنتظار کرنے اور سامان وغیرہ بک کرانے جیسے امور کی تکمیل تک ہمیں باہر لاؤنج میں رکنا پڑا،پھر اندر بلالیا گیا۔ جہاں ہمارے پاسپورٹوں پر خروج کی مہر لگادی گئی……اس پر امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن عبدالعزیز قرشی اُموی رحمۃ اﷲ علیہ کے وہ الفاظ یاد آگئے…… جو اِنہوں نے مدینہ منورہ سے رخصت ہوتے ہوئے کہے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز مدینہ منورہ سے رخصت ہوئے تو آنکھوں ڈُبڈبا گئیں،اپنے غلام سے فرمایا:
’’مزاحم! میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ہم بھی ان لوگوں میں سے نہ ہوں جنہیں مدینہ منورہ نکال پھینکتا ہے؟!‘‘
’’میان دوکریم ‘‘ محض جسم وجاں کا سفر نہیں روحانی سفر بھی ہے۔ قاری خود کو مکہ ومدینہ کی گلیوں میں چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔یہ سفر نامہ محض جذبات کااظہار نہیں بلکہ معلومات کا خزینہ بھی ہے ۔بیت اﷲ کی تعمیراتی تاریخ،حرم مکی کی توسیعات،تعمیراتی جمالیات کا مشاہدہ،حرمین شریفین کی لائبریوں کا تذکرہ۔حطیم،حجر اسود،میزابِ رحمت،ملتزم،مستجار،رکن یمانی،مقام ابراہیم،زمزم،صفا،مروہ،جنۃ المعلیٰ،جبل ابوقبیس کے متعلق تاریخی معلومات۔اسی طرح مدینہ منورہ کی مساجد،باغات،مکتبوں،مسجد نبوی میں تاریخی اسطوانات، محرابوں کا ذکرخصوصیت کا حامل ہے،مصنف نے بعض ایسی معلومات بھی بہم پہنچائی ہیں جن کی طرف عام مصنفین کا ذہن نہیں جاتا،مثلاً مسجد نبوی کی قبلے والی دیوارپر شاہکارخطاطی کی گئی ہے ، اور یہ دنیا بھر میں خطاطی کا اس قدر طویل وعریض واحدنمونہ ہے جو تقریباً ایک سو ساٹھ برس قدیم ہے۔یہ خلافت عثمانیہ کے دور کی یادگار ہے۔ اس شاہکار فن پارے کو معرض وجود میں لانے والا کون تھا؟ یہ اسی کتاب میں معلوم ہوگا۔ ائمہ حرمین شیخ ابراہیم الشریم،شیخ علی عبدالرحمٰن حذیفی، شیخ عواد جہنی،شیخ ماہر المعیقلی،شیخ عبدالمحسن قاسم،شیخ صالح آل طالب ……جن کی قرا ء ت زائرین حرم کے کانوں سے ہوتی ہوئی سیدھادِل میں جاگزیں ہوتی ہے، کا تفصیلی تعارف بھی کتاب کا حصہ ہے۔قدیم تاریخی نوعیت تصویریں بھی کتاب کا حصہ ہیں۔کتاب میں ایک تصویر ایسی ہے جس میں مدینہ منورہ کی فصیل پر خلافت عثمانیہ کا پرچم لہرارہا ہے۔آخر میں دوسو اڑتیس سال قبل مولانا رفیع الدین کے قلم سے لکھاگیا سفرنامہ حرمین بھی شامل ہے۔
کتاب کو ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے،اورہر باب کاعنوان کوئی نہ کوئی خوب صورت سا مصرعہ ہے ۔ کتاب کا گیٹ اپ شاندار ہے ،طباعت بہترین،کاغذ بھی اعلیٰ نسل لگایا ہے ،ورنہ آج کل یارلوگ بک پیپر پہ کتا ب چھاپ کر پیسے کھرے کررہے ہیں۔ ’’میان دوکریم ‘‘ اردو ادب میں ایک بیش بہا اضافہ ہے۔ایسا شستہ ورفتہ اسلوب دنوں بعد پڑھنے کو ملا۔اﷲ کرے زور قلم اور زیادہ۔
ناشر: سنابل پبلی کیشنز، کراچی مکتبہ: الخلیج سلام مارکیٹ بنوری ٹاؤن کراچی 0332-2139797
اور ادارہ اشاعت الخیر، بیرون بوہڑ گیٹ ملتان:0300-7301239 سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.