تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

مظلوم ِمدینہ سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اﷲ عنہ

عبدالمنان معاویہ

جب میں قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں اور آیت قرآنی کے اس حصہ پر پہنچتا ہوں ’’فَسَیَکفِیکَھُمُ اللّٰہ ج وَھُوَ السَّمِیعُ العَلِیمُ‘‘(سورۃ البقرۃ :۱۳۷)جس ترجمہ مفتی تقی عثمانی صاحب یوں کرتے ہیں کہ :۔اب اﷲ تمہاری حمایت میں عنقریب ان سے نمٹ لے گا ،اور وہ ہر بات سننے والا ،ہر بات جاننے والا ہے ۔(آسان ترجمہ قرآن:۹۹)تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے مجھے اٹھا کر چودہ صدیاں پیچھے دھکیل دیا ہے ۔اور میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں کہ آج کا مدینہ منورہ نہیں ہے بلکہ ایک چھوٹی سی بستی ہے عوام کا بے پناہ ہجوم ایک مکان کو گھیرے ہوئے ہے ۔مختلف قسم کی باتیں ہورہی ہیں ،لیکن اسی اثنا میں چند نورانی چہرے بھی نظر آئے جن کے نورانی چہروں کو دیکھ کرجی کرتا تھا بس دیکھتا ہی رہوں اور یہ سماں یہی رک جائے ،کائنات کی نبضیں تھم جائیں اور میں اِن نورانی وجودوں کا دیدار کرتا رہوں ،لیکن اُن نورانی چہروں پر تجسس وپریشانی کے آثار نمایاں تھے ۔اور اِن نورانی چہروں کے ادب واحترام کی وجہ سے میں اُن سے کوئی گفتگو تو نہ کرسکا۔ اُن کے چلے جا نے کے بعد وہا ں لوگوں کی جو بھیڑ تھی، اُن سے میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں؟ کہنے لگے ہم مصر سے آئے ہیں اور ایک مطالبہ لے کر آئے ہیں ،لیکن اُن کے چہروں پر نورانیت نام کی کوئی شئے نہ تھی بلکہ خوشی بھی پھیکی معلوم ہورہی تھی ۔ایک اور جتھا بیٹھا تھا میں اُن کے قریب گیا اور پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں کہنے لگے بصرہ سے ،میں نے کہا کہ کیوں ․؟گویا ہوئے کہ ایک مطالبہ لے کر آئے ہیں ۔کچھ الگ سے لباس میں ملبوس لوگ بھی تھے پھر میں اُن کی طرف بڑھا اور میں نے کہا کہ کہاں سے تشریف لائے ،گھور کر میری طرف دیکھا اور بس کہا عراق ،میں ڈرتے ہوئے کہا خیریت سے آنا ہوا ،کہنے لگے ہمیں آقائے محترم عبداﷲ بن سبا نے بھیجا ہے ،ہم یہاں آئین کے تناظر کی رُو سے خلیفہ وقت کو معزول کرنے کے لیے آئے ہیں ۔میں نے سوچا بندہ یہ ٹیڑھا ہے لیکن سچ بول رہا ہے چلو اسی سے مزید گفت شنید کرتے ہیں ،پھر میں نے پوچھا کہ اس وقت خلیفہ وقت کون ہے ․؟کہنے لگا خلافت پر قابض ہے اصل میں حق وصی رسول ؐ مولا علی علیہ السلام کا ہے ۔میں نے کہا جناب میں نے یہ پوچھا ہے کہ آخر وہ کون ہے ․؟بڑی مشکل سے اُس کی زبان سے بس اتنا ہی نکلا ’’عثمان‘‘ میں نے پھر کہا کہ ’’عثمان ؓ بن عفان‘‘کہنے لگاہاں۔ یہ مبارک نام سنتے ہی میرے دل میں شدید داعیہ پیدا ہوا کہ میں کسی طرح سیدنا ومولانا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی زیارت کرلوں، آخر کار میں اُس بھیڑ سے بچ بچا کر ڈرتے ہوئے آگے بڑھنے میں کامیاب ہوگیا ،کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چھوٹا سا مکان ہے جس کے دروازہ پر کئی نوجوان تلواریں سونتیں کھڑے ہیں ۔
میں نے وہاں کھڑے ایک نوجوان سے پوچھا کہ یہ خوبروکون ہیں جو تلواریں سونتیں کھڑے ہیں کہنے لگا ،ایک حسن بن علی ،دوسرا حسین بن علی ،تیسر اا بن طلحہ ،چوتھا ا بن زبیر،وچند دیگر صحابہ کرام ؓ کے فرزندہیں، رضی اﷲ عنہم اجمعین ۔واہ واہ کیا نوجوانوں تھے ،یوں لگتا تھا جیسے جنت کے شہزادے دنیا میں آگئے ہوں ،خوبصورت چہرے ،معصومیت سے پُر ،لیکن ہوشیار باش۔جب کہ عراق ،بصرہ اور مصر سے آئے ہوئے لوگوں کے چہروں پر غم کے آثار نمایاں تھے اور اُن کی روحانی ذریت کے چہروں پہ آج بھی آثارِ غم نمایاں نظر آتے ہیں شاید بنت ِ علی ؓ بی بی زینب رضی اﷲ عنہا کی بد دعا کا اثر ہے کہ تم روؤ زیادہ اور ہنسو کم ۔خیر اس قصہ کو یہاں ہی رہنے دیتے ہیں۔
پھر ایک شخص مجمع عام میں آیا جو اُن میں سے نہ لگتا تھا ،میں نے مجمع کے ایک فرد سے اُس کے بارے میں استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ سابق یہودی عالم حضرت عبد اﷲ بن سلام ؓ ہیں ،اچھا تو یہ ہیں سیدنا عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ جن کے اسلام لانے کا واقعہ میں یہود کا اولاً تعریف کرنا جب اُن کے اسلام قبول کرنے کا پتہ چلا تو برائی کرنا ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا ۔ انہوں نے مجمع کو اپنی جانب متوجہ کیا جب سب لوگ اُن کی طرف متوجہ ہوئے توفرمانے لگے :’’ لوگو! حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے قتل کا خیال دل سے نکال دو،اﷲ کی قسم جو کوئی آپ کو قتل کرے گا تو وہ شخص کوڑھی ہوجائے گا ،اور اﷲ کی قسم شمشیر الہٰی اب تک نیام میں ہے اگر تم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو شہید کردیا تو اﷲ تعالیٰ اپنی تلوار بے نیام کردے گا ،اور مسلمانوں میں باہمی ہمیشہ خون ریزی ہوتی رہے گی ۔یاد رکھو! ایک نبی کو اگر قتل کردیا جائے تو اس کے بدلہ ستر (۷۰)ہزار اور ایک خلیفہ کے بدلے پنیتیس(۳۵)ہزار لوگ قتل کئے جاتے ہیں۔اس کے بعد مشکل سے ہی باہمی اتحاد ممکن ہوتا ہے ۔
حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ کی اس تقریر سے ایک تجسس اور ایک طرح کا اطمینان حاصل ہوا،تجسس تو یہ ہوا کہ یہ لوگ یہاں قتل وغارت کی نیت سے تو نہیں آئے بلکہ اِن کے کچھ مطالبات ہیں جن کے منوانے کے لئے بطور احتجاج یہاں جمع ہیں ،ہمارے ہاں بھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اسلام آباد کا گھیراؤ کرلیتے ہیں یہاں تک کہ فوجی حکمران بھی گھبرا کر بات مان لیتے ہیں تو یہ بھی اپنے مطالبات کے منوانے کی خاطر یہاں جمع ہیں اور اطمینان اس لئے ہوا کہ حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ ایک بزرگ صحابی رسول ؓ ہیں اُن کی پُر اثر بات ضرور ان کے دلوں پر اثر انداز ہوگی اور یہ کوئی اوچھی حرکت نہیں کریں گے ۔
پھر اچانک مجھے مکان کی چھت پر ایک شخص نظر آیا ،درمیانہ قد ،رنگ سُرخ وسفید ،گھنی داڑھی ،شانے چوڑے ،پنڈلیاں بھری ہوئی ،سر کے بال گھنے ،دانت چمکدار وخوبصورت ،سبحان اﷲ کیا خوبصورت شخص ہے ،اﷲ تعالیٰ نے اسے کتنا حسین بنایا ہے ،ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک شور اٹھا اور تما م لوگ اُن کی طرف متوجہ ہوگئے اور انہوں نے جب بھانپ لیا کہ اب سب میری جانب متوجہ ہیں تو گویا ہوئے کہ :’’ لوگو! میری دس خصلتیں اﷲ کے پاس محفوظ ہیں ۔(۱) میں اسلام لانے میں چوتھا شخص ہوں ۔(۲) رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کا نکاح میرے ساتھ فرمایا۔(۳) میں کبھی گانے بجانے میں شریک نہیں ہوا۔(۴)لہو و لعب میں منہمک ومشغول نہیں ہوا۔( ۵) کبھی بدی وبرائی کرنے کی خواہش بھی میرے دل میں پیدا نہیں ہوئی ۔(۶) جس ہاتھ سے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ زندگی بھر اس ہاتھ کا بھی احترام کیا۔(۷)اسلام لانے کے بعد میں ہر جمعہ کے دن ایک غلام آزاد کیا ،اگر ایک جمعہ نہ کرسکا توبعد میں کیا ۔(۸)میں نے اسلام لانے سے قبل اور بعد کبھی زنا نہیں کیا ۔(۹)زمانہ جاہلیت وقبول اسلام کے بعد کبھی چوری نہیں کی ۔(۱۰) حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے موافق میں نے قرآن جمع کیا ۔(یعنی لغت ِ قریش پر کروایا اور تما م بلاد اسلامیہ میں نشر کروایا)
اُن کی باتیں تمام لوگ بڑے انہماک سے سُن رہے تھے ،انہوں نے اتنا کہا اور چھت سے اُتر گئے بعد میں پتہ چلا کہ یہ ’’داماد رسول ؐ،امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ وارضاہ ‘‘ تھے ۔اُن کی اس گفتگو کے بعد بھی یہی لگتا تھا کہ شاید حالات اب معمول پر آجائیں لیکن اچانک بھگدڑ مچ گئی کچھ لوگوں نے تیر اندازی شروع کردی ،سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ زخمی ہوگئے ،کچھ لوگ دوسری جانب بھاگ رہے تھے ،شورش برپا ہوچکی تھی ،کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے چیخ وپکار انتہا ء کو تھی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی ،چند لمحے اسی کیفیت میں گذرے اور ایک شور سے ،ایک دلخراش آواز سے ،کلیجہ پھٹنے کو آگیا جیسے کسی نے مجھے جھنجھور کر رکھ دیا اور مجھے تخیلات کی وادی سے ،اس سارے منظر سے اٹھا کر باہر پھینک دیا ،جیسے کسی نے سوئے ہوئے کو جگا دیا ،ایسی دل گداز صدا تھی ، وہ آواز تھی کہ ……امیر المومنین سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اﷲ عنہ کو شہید کردیا گیا ۔
امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے بغیر کسی جرم کے، قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کردیا گیا۔ اِس مظلوم مدینہ کا لہو قرآن کریم کی جس آیت مبارکہ پر گر اوہ یہی عظیم الشان آیت تھی جو آج بھی امام برحق کے خونِ ناحق کی شاہد ِناطق ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَسَیَکفِیکَھُمُ اللّٰہ ج وَھُوَ السَّمِیعُ العَلِیمُ

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.