تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

عشق کے قیدی

(قسط:۱۲)

ظفر جی

سرکاری قربانی
4 مارچ 1953ء ․․․․ لاہور !!!
تشدّد کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔بعد اَز نمازِ ظہر مسجد وزیر خان لاہورسے پرامن رضاکاروں کا ایک جلوس نکلا۔ شرکائے جلوس پنجاب کے دُور دراز علاقوں سے آئے ہوئے دیہاتی قسم کے لوگ تھے ، جو ختمِ نبوت کی کال پر تن من وارنے لاہور چلے آئے تھے ۔تقریباً ایک ہزار جاں نثاروں کا یہ جلوس چوک دالگراں سے ہوتا ہوا لاہور ریلوے اسٹیشن کی طرف جانا چاہتا تھا۔ ان کے گلے میں پھولوں کے ہار تھے اور زبان پر لا الہ الا اﷲ کا وِرد۔چوک دلگراں میں سٹّی پولیس اور بارڈر پولیس کی بھاری جمعیت تیار کھڑی تھی۔ سٹی مجسٹریٹ سید حسنات احمد ، ڈی ایس پی سیّد فردوس شاہ ، اور ملک خان بہادر سپریٹنڈنٹ بارڈر پولیس نے جلوس کا راستہ روکا اور انہیں فوری طور پر منتشر ہونے کو کہا۔ لیکن ذوقِ براھیمی سے سرشار اِن دیوانوں کے پاس حکومتی بت خانوں سے ٹکرانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا:
یہ دور اپنے براھیم کی تلاش میں ہے

Cصنم کدہ ہے جہاں ، لا الہ الا اﷲ
÷ پُرغرور پولیس نے آخر رَومن اکھاڑا سجا ہی لیا۔پہلے آنسو گیس کے گولے چھوڑے ۔پھر لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ یہ لوگ اپنی جگہ پر نہایت ثابت قدمی سے جمے رہے ۔ پولیس ان کی امن پسندی کو دیکھ کر اور شیر ہو گئی ۔سو ایک ایک بندے پر تین تین پولیس والے مسلط ہو کر تشددکی انتہاکرنے لگے ۔ غرض یہ کہ پولیس مسلسل رُوئی کی طرح انہیں دُھنکتی رہی اور ان کا عشق کمالِ ضبط سے ان کی چمڑیاں ادھڑواتا رہا۔
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند

Cبہار ہو کے خزاں ، لا الہ الا اﷲ
[ تشدّد کرنے والوں کے ہاتھ تھک کرشل ہو گئے، معطر جسموں سے پُھوٹنے والی لہو کی دھاروں سے قانون کی وردیاں رنگین ہو گئیں، لیکن یہ عشقِ محمدﷺ کے دیوانے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے ۔ پولیس زخمیوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر ٹرکوں میں پھینکنے لگی۔ سڑک پر ہر طرف جاں نثارانِ ختمِ نبوت کا خون پھیلا ہوا تھا۔ڈی ایس پی فردوس شاہ نے آج کھل کر درندگی دِکھائی۔ ایک بوڑھے مجاہد پر ڈنڈے برساتے ہوئے اُس نے اسے زور کی ٹھوکر ماری۔ بزرگ کے ہاتھوں میں چاندی کے غلاف میں لپٹی حمائل شریف تھی۔ فردوس شاہ کی ٹھوکر سے کتابُ اﷲ چاندی کے خول سے نکلی اور ورق ورق ہو کر قریبی نالے میں جا گری۔یکّی دروازے کا ایک نوجوان محمد شریف عرف کاکا دُور سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ کاکا موٹر مکینک تھا اور چوک دالگراں کی ایک ورکشاپ میں ملازم ۔ اُس روز بازار بند تھا اور وہ ورکشاپ کے تھڑے پر محض تماشا دیکھنے بیٹھ گیا تھا۔عصر تک فضاء کچھ پرامن ہوئی تو کاکا تھڑے سے اٹھ کر اِدھر چلا آیا اور نالے میں اتر کر قرآن کے مقدس اوراق سمیٹنے لگا۔وہ اپنے کام میں منہمک تھا کہ اوپر سے آواز آئی۔
“اوئے کاکا ․․․․․ کی کرداں ایں نالے وِچ ؟ ”
(ارے کاکا نالے میں کیاکررہے ہو؟)
اُس نے چونک کر اوپر دیکھا تو مولوی سلیم بنیرے پر کھڑا مسواک چبا رہا تھا۔
” مولوی صاب! ایدھر ویکھو۔ مقدّس اوراق، گندے نالے وِچ ۔”
(مولوی صاحب! ادھر دیکھیں ۔گندے نالے میں مقدس اوراق ہیں۔)
” توبہ توبہ ․․․ اے کِس نے سُٹّے نیں ؟” مولوی نے کہا۔
(توبہ توبہ!یہ کس نے پھینکے ہیں۔)
” ڈی ایس پی فردوس شاہ نے میرے سامنے قرآن شریف نُوں ٹھوکر ماری ۔ ” کاکے نے تڑک کر کہا۔
(ڈی ایس پی فردوس شاہ نے میرے سامنے قرآن شریف کو ٹھوکرماری۔)
“استغفراﷲ ․․․․ لے آ، پُتّر ۔اوراق مجھے پکڑا دے ” مولوی سلیم گھٹنوں کے بل نالے پر جُھک گیا۔
(استغفراﷲ!بیٹا! لاؤ،اوراق مجھے پکڑادو۔)
کاکا نے اوراق اکٹھے کر کے مولوی سلیم کو پکڑائے اور واپس ورکشاپ کی طرف جانے لگا۔
“توں ․․․․ کتھّے چلیاایں؟ میرے نال آ۔ ایہ کوئی چھوٹی موٹی گل نئیں اے․․․․ پبلک کو نُوں دسدے آں ۔”
(تم کہاں چلے ہو؟آؤ میرے ساتھ آؤ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔لوگوں کو بتاتے ہیں۔)
مولوی سلیم کاکے کو ہمراہ لئے سیدھا بیرون دہلی دروازہ پہنچا۔ یہاں کوئی دو اڑھائی سو کا مجمع کھڑا تھا۔ اُس نے جاتے ہی شور کیا ” بھائی او ․․․․ ایدھر ویکھو ․․․․ ظلم ہو گیا ظلم ․․․․ فردوس شاہ ڈی ایس پی نے قرآن پاک نوُں ٹھوکر ماری تے گندے نالے وِچ سُٹ دِتّا۔ ایہہ ویکھو ․․․․ کاکا گواہ ہے۔ استغفراﷲ ! ”
(ادھردیکھیں۔ظلم ہوگیا؂فردوس شاہ ڈی ایس پی نے قرآن پاک کو ٹھوکرماری اوراسے گندے نالے میں پھینک دیا۔یہ دیکھیں کاکا گواہ ہے۔)
یہ سن کر ایک مجمع اس کے گرد ہو گیا۔مولوی سلیم یہ جلوس لے کر مسجد وزیر خان پہنچا۔ مسجد کے قریب ہی انہیں ایک تھانیدار آتا دکھائی دیا۔ جس کے ہمراہ چند سپاہی بھی تھے ۔ یہ لوگ بے فکری سے جارہے تھے اور اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ختمِ نبوت کے امن پسند رضاکار اُن کے درپے آزار بھی ہو سکتے ہیں۔مجمع نے نعرہ لگایا: ” پنجاب پولیس ․․․ مردہ باد ․․․ بارڈر پولیس مردہ باد۔”پولیس والے پہلے تو ٹھٹکے ، پھر مجمع کے تیور دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور دوڑ کر ایک قریبی فلیٹ میں جا گھسے ، اور اندر سے گیٹ بند کر لیا۔ فلیٹ کے گرد مجمع بڑھنے لگا۔ کھڑکی سے جب بھی کوئی سپاہی سر نکالتا تو نیچے کھڑا مجمع زور زور سے نعرے لگاتا ” پنجاب پولیس مردہ باد !!!”ڈی ایس پی فردوس شاہ تھانہ سول لائن میں بیٹھا چمپی کرا رہا تھا کہ فون بج اُٹھا :
“یس ․․․․ فردوس شاہ !”
” کہاں ہو میرے شیر ؟” آئی جی کی کال تھی۔
“سر ․․․ وردی پہ خون گر گیا تھا ․․․ سوچا بدل لوں۔ ”
” مبارک ہو !گورنر صاحب نے آپ کو اَور ڈی ایس پی خان بہادر کو دو دو مربع زمین انعام میں بخشی ہے۔ میرے سامنے پڑا ہے الاٹمنٹ آرڈر ! ”
فردوس شاہ کے ہاتھ سے کریڈل گرتے گرتے بچا۔ وہ بمشکل اتنا ہی کہہ سکا ” سس ․․․․ سر ․․․ آپ کی عنایت سرر ! ”
“اچھا مٹھائی بعد میں کھائیں گے تم سے۔ابھی ایسا کرو فوراً مسجد وزیر خان پہنچو۔ خبر آئی ہے کہ شرپسندوں نے کچھ پولیس والوں کو بندی بنا لیا ہے۔آئی نو یُو آر اَے بریو مین ۔پھر بھی دو تین سپاہی ساتھ لے لینا ۔”
” ڈونٹ وَری سر ․․․․ فردوس شاہ کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہے ۔
ڈرائیور ! جیپ ریڈی کرو ․․․․ فوراً ۔ ”
فردوس شاہ تین سپاہیوں کو لے کر مسجد وزیر خان کے سامنے اترا تو لوگ فلیٹ پر پتھراؤ کر رہے تھے ۔ وہ دھونس جمانے کے لئے جیپ کا ہارن بجانے لگا۔لوگ اُدھر متوجہ ہوئے تو کسی نے نعرہ لگا دیا۔
” وہ رہا فردوس شاہ ․․․․․ اسی بدبخت نے قرآن کو ٹھوکر ماری تھی ! ”
بپھرا ہوا مجمع اُدھر دوڑا اور فردوس شاہ کے ریوالور نکالنے سے پہلے ہی اسے دبوچ کر ٹھوکروں پہ لے لیا۔ ہر شخص اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہا تھا۔ لوگوں نے دکانوں کی چھپریوں سے بانس نکال لئے ۔ مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے سیدھی ضرب لگانا ممکن نہ تھا۔ لوگوں نے بانسوں سے چوک چوک کر فردوس شاہ کا قیمہ بنا دیا۔دو گھنٹے بعد فردوس شاہ کی سربریدہ لاش اسی گندے نالے میں پڑی تھی ،جہاں اس بدبخت نے قرآن کو ٹھوکر لگا کر پھینکا تھا۔مولوی سلیم کے ہاتھ ڈی ایس پی کا پستول لگا۔ جو اُس نے کمالِ سخاوت سے کاکا کو تحفے میں دے دیا۔نصف گھنٹے بعد مولوی سلیم آئی جی آفس میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔اورآئی جی سے کہہ رہاتھا کہ
” ․․․ تے باقی رہ گیا آلۂ قتل ․․․ او تہانوں شریف کاکا توں مل جانڑاں ․․․․ اﷲ اﷲ خیر صلا”
(…اورباقی رہا آلۂ قتل،وہ آپ کو شریف کاکا سے مل جائے گا۔)
آئی جی نے مولوی سلیم کو ستائشی نظروں سے دیکھا اور گورنر غلام محمد کو فون گھمایا:
“سر! مبارک ہو، قربانی ہو گئی۔ اس مولوی ڈھکن کو چھوٹا موٹا بکرا کہا تھا۔ اس نے تو پورا بیل کاٹ مارا۔ فردوس شاہ اِز کِلڈ بائی اینگری موب ۔ ”
” فون پر ایسی باتیں نہیں کرتے ․․․․ ڈیڈ باڈی لے کر فوراً تھانہ سول لائن پہنچو ۔میں جنرل اعظم کو لے کر پہنچتا ہوں اور ہاں لینڈ الاٹمنٹ پیپرز’’ شہید‘‘ کی بیوہ تک ضرور پہنچا دینا !”
گہری سازش:
مسجد وزیر خان، سول ہسپتال کا منظر پیش کرنے لگی۔ہر طرف زخمی پڑے کراہ رہے تھے۔ ڈاکٹر اِدھر اُدھر بھاگے پھرتے تھے ۔ لاہور کے بے شمار طبیب ، ڈاکٹرز ، حکماء اور کمپاؤڈرز حضرات کرفیو کے باوجود اپنا سامان اٹھائے ادھر چلے آئے تھے ۔حق و باطل کی اس کش مکش میں ہر کوئی اپنا اپنا حصّہ ڈال رہا تھا۔ ریاست ہڈیاں توڑ رہی تھی اور یہ پوری دلجمعی سے انہیں جوڑنے میں مگن تھے ۔ ریاست کے سر پر خون سوار تھا اور یہاں خون دینے والوں کا تانتا بندھا تھا۔مولانا خلیل قادری اور دوسرے زعماء خود ایک ایک زخمی کی نگرانی کر رہے تھے ۔ اسی دوران کسی نے آ کر بتایا کہ مسجد کے دروازے پر ڈی ایس پی فردوس شاہ کا خون کر دیا گیا ہے ۔مولانا نیازی دوڑے دوڑے دروازے پر چلے آئے ۔ مشتعل ہجوم فردوس شاہ کی لاش گھسیٹ کر لے جا چکا تھا۔
” کس نے شہید کیا ڈی ایس پی کو ؟ کون تھے یہ لوگ ؟ ” مولانا نے باہر نکلتے ہی پوچھا۔
“ہم نہیں جانتے حضرت !مولوی سلیم ان کی قیادت کر رہا تھا۔ اُسی نے بھڑکایا سب کو۔” باہر کھڑے ایک شخص نے کہا۔
مولانا کے چہرے پر دُکھ کا سایہ آ کر لہرا گیا۔
“بہت برا ہوا ۔ایک کلمہ گو کا خون اور وہ بھی مسجد کے دروازے پر! استغفراﷲ !
مولانا نے اندر جاکر علماء کمیٹی کو صورتحال سے آگاہ کیا۔
“یہ ساری واردات حکومت نے خوب سوچ سمجھ کر کرائی ہے۔ “مولانا بہاء الحق قاسمی نے کہا۔
” ہمیں انتہائی سمجھ داری اور سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔”
” لیکن حکومت نے یہ قتل کیوں کرایا ؟” مولانا خلیل نے پوچھا۔
“دولتانہ وزارت کو تشّدد کرنے کا بہانہ چاہئے تھا جو آج اسے مل گیا” قاسمی صاحب ؒنے کہا۔
” اس کا مطلب ہے کہ ہماری پرامن تحریک میں غدّار شامل کئے جا چکے ہیں ۔ ”
” سو فیصد ․․․ تحریک سے وابستہ کوئی مسلمان ایسی حرکت کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔فردوس شاہ کا قتل تحریکِ مقدس کی سفید چادر پر ایک بدنماء داغ ہے جو قادیانیوں اورقادیانی نواز انتظامیہ نے لگایا ہے۔ اس کا مقصد ایک پرامن مذہبی تحریک کو سفاک اور خون آشام بنانا ہے ۔”
“آج بعد نماز عشاء میں اپنی تقریر میں حکومت کی یہ سازش طشت از بام کروں گا۔ ہمیں شرپسندوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔” مولانا نیازی نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
__________
تھانہ سول لائن کے سامنے ایمبولینس آکر رُکی۔دو سپاہیوں نے سٹریچر پر دھری سفید چادر میں لپٹی لاش نکالی اور تھانے کے لان میں آکر رکھ دی۔تھوڑی ہی دیر بعد آئی جی پنجاب انور علی ، ڈی آئی جی ، اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ، تھانہ سول لائن پہنچ گئے ۔خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار بھی لاش کے آس پاس مکھیوں کی طرح بھنبھنانے لگے ۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد دو فوجی گاڑیاں تھانہ کے سامنے آکر رکیں۔ ایک میں سے جنرل اعظم خان اور دوسری سے دیگر فوجی افسران اترے ۔تھانے کے سامنے کھڑی گارڈ نے بندوقیں کھڑکا کر سلام کیا۔ جنرل اعظم خان بھاری قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے ادھر آئے جہاں پولیس کی “قربانی” ان کا انتظار کر رہی تھی۔
” کیا ہوا ؟” انہوں نے آتے ہی رعب دار آواز سے پوچھا۔
” خود ہی دیکھ لیجئے ۔” یہ کہتے ہوئے آئی جی نے لاش پر سے سفید چادر سرکا دی۔
” اوہ ․․․․ گاڈ ․․․․ ہُو اِز دِس ؟” جنرل نے ہونٹ سکیڑتے ہوئے پوچھا۔
“ون آف دی موسٹ برِلّی اَنٹ ڈی ایس پی آف مائی ڈیپارٹمنٹ سیّد فردوس شاہ۔ کچھ دیر پہلے شرپسندوں نے بھرے بازار میں اس کا قیمہ بنا دیا اور فوج کھڑی تماشا دیکھتی رہی ۔شاید اسی کو کہتے ہیں ․․․ ایڈ ٹو سوَل پاور ! ”
جنرل اعظم خان کچھ دیر سوچتے رہے پھر کیپ سیدھی کرتے ہوئے بولے: ” لیکن یہ سب کچھ ہوا کیسے ؟ ”
” دہشت گردوں آج نے ہمارے کچھ سپاہی بندی بنا لئے تھے۔ فردوس شاہ چھڑانے گئے تو ․․․ ”
“آپ نے ملٹری کو اِنفارم کیا ؟ ․․․․ اباؤٹ ہوسٹیجز ؟ ” جنرل نے آئی جی کی بات کاٹی۔
” آئی ڈونٹ نو ۔ہاؤ ٹو اِنفارم دی ملٹری۔ اندورنِ شہر دہشت گردوں کا راج ہے اور آپ کی ملٹری بیرونِ شہر مورچے سنبھالے بیٹھی ہے ․․․ فار وَٹ؟ ”
“امن و امان قائم رکھنا پولیس کی ذمّہ داری ہے ۔جہاں حالات آپ کے بس سے باہر ہوں، وہاں فوج کو اِنفارم کیجئے ! ”
“ہم پہلے ہی آپ سے کہہ چکے ہیں کہ حالات ہمارے بس سے باہر ہیں۔ وائے یُو ڈَونٹ انڈرسٹینڈ جنرل ․․․․ ناؤ کم اَپ اِن دی فرنٹ اینڈ ٹیک اووَر دِی چارج! ”
” پلیز ڈونٹ ٹرائی ٹُو ٹِیچ مِی مائی ڈیوٹی۔فوج وہی کچھ کر رہی ہے جو اُسے کرنا چاہیے ! ”
“فوج ہمارے مرنے کا انتظار کر رہی ہے اور کچھ نہیں ! ” آئی جی نے بھی تیوریاں چڑھا لیں۔
” سر! گورنر صاحب کا فون! ” ایک محرر نے آ کر مملکت کے دو بڑے ستونوں کو ٹکرانے سے بچایا۔
آئی جی ،جنرل صاحب کو گھورتے ہوئے اندر چلے گئے ۔ جنرل اعظم اپنے ساتھ ساتھ آئے ہوئے آفیسرز کو لے کر ایک کونے میں جا کھڑے ہوئے ۔تھوڑی دیر بعد آء جی واپس آئے تو جنرل صاحب کو مخاطب کئے بغیر کہا ” گورنر صاحب نے پورے شہر میں مارشل لاء لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو اختیار ہے کہ وہ جب چاہے گولی چلانے کا آرڈر دے سکتا ہے۔ ”
” میری طرف سے آرڈر ہی سمجھئے ! ” ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اطمینان سے کہا۔
“لیکن گولی چلائے گا کون؟ ” آئی جی نے کہا۔
” بارڈر پولیس ․․․․․ آپ لوگ صرف ڈیڈ باڈیز غائب کرنا ! ” میجسٹریٹ بولا۔
آئی جی نے ایک ایس پی کو بلا کر کہا:
” جمشید ڈبّہ تیار کراؤ۔ فردوس شاہ کی لاش کو اُس کے گاؤں بھجواؤ ۔ قومی پرچم میں لپیٹ کر ۔چھ سات جوان بھی ساتھ لے لو سلامی کے لئے۔کوئیک ․․․․ ارجنٹ !”
اس کے بعد لاہور کی تمام پولیس چوکیوں پر آئی جی کا یہ وائرلیس میسیج سنا گیا:
” آل پوزیشنز ․․․․ ایچ کیُو وَن ․․․․ شہر بھر میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے۔ فوراً گشت شروع کیا جائے جو شخص دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتا نظر آئے۔ اُسے اُڑا دیا جائے۔ سُستی کرنے والے اور مِس فائر کرنے والے اہلکار کو خفیہ پولیس خود اُڑائے گی۔ “دن کے ساڑھے گیارہ بجے آئی جی کا وائیرلیس بول اُٹھا:
“ایچ کیو ون ․․․․ دالگراں پوسٹ اووَر! ”
“یس ․․․․ بولو ․․․ دالگراں ! ” آئی جی نے کہا۔
” انسپکٹر آغا سلطان احمد سر ․․․․․ یہاں چوک دلگراں میں لاٹھی چارج کے دوران ایک بچّہ ہلاک ہو گیا ۹۸ہے سر ”
” کتنی عمر ہے ؟ ”
“تقریباً 12 سال سر”
” ڈیڈ باڈی غائب کر دو فوراً ․․․․ اوور اینڈ آؤٹ ! ” (جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.