تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

احادیثِ نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ

(قسط:۱۶)

حافظ عبیداﷲ

حدیث نمبر 15:
’’(امام ابوبکر بن ابی شیبۃ روایت کرتے ہیں) حسن بن موسیٰ (الاشیب)سے ، وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا شیبان (بن عبدالرحمن التمیمی) نے، اُن سے یحییٰ (بن ابی کثیر الطائی) نے، اُن سے حضرمی بن لاحق نے، اُن سے ابو صالح (ذکوان السمّان) نے ، وہ روایت کرتے ہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے ، آپ فرماتی ہیں کہ نبی کریم e میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی ، آپ نے فرمایا: کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا اے اﷲ کے رسول! آپ نے دجّال کا ذکر جو کیا تھا……(پھر آپ e نے حضرت عائشہ ؓ کو تسلی دیتے ہوئے دجّال کے بارے میں چند باتیں فرمائیں، اسی ضمن میں فرمایا)…… فینطلق ُ حتّیٰ یأتِیَ لُدّاً ، فَیَنزِلُ عیسیٰ ابنُ مریمَ فَیَقتُلَہ…… الی آخر الحدیث۔ پس وہ دجّال بابِ لُدّ کے مقام پر آئے گا تو حضرت عیسیٰ بن مریم i نازل ہوں گے اور اسے قتل کریں گے۔ ‘‘
(المصنف لابن ابی شیبۃ، ح 38629،ج21 ، ص200 ، کتاب الفتن ، دار القبلۃ ۔ جدہ)
یہی حدیث امام احمد بن حنبلؒ نے بھی سلیمان بن داؤداور حرب بن شدّاد کے واسطے سے یحییٰ بن ابی کثیر سے نقل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرمی بن لاحق نے بیان کیا…… الی آخر الحدیث۔ (مسند احمد، ح 24467 ، ج41 ص15 مؤسسۃ الرسالۃ) ۔
راویوں کا تعارف:
الحسن بن موسیٰ الاشیب ابو علي البغدادي
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے : ’’الامام الفقیہ الحافظ الثقۃ‘‘۔ طبرستان، موصل اور حمص کے قاضی رہے۔ امام احمد بن حنبل نے کہا کہ ’’وہ بغداد کے قابل اعتماد لوگوں میں سے ہیں‘‘۔ یحییٰ بن معین نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ ابوحاتم نے علی ابن المدینی سے بھی ان کا ’’ثقہ‘‘ ہونا نقل کیا ہے۔ ابوحاتم، ابن خراش اور صالح بن محمد نے انہیں ’’صدوق‘‘ (سچا) کہا۔ ابن سعد نے ان کے بارے میں کہا : ’’کان ثقۃ صدوقاً في الحدیث‘‘وہ حدیث میں ثقہ اور سچے تھے۔ ابن حِبان نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ ابن سعد اور ابن حِبان کے مطابق ان کی وفات سنہ209ہجری میں ہوئی۔
(الجرح والتعدیل، ج3 ص37 /تاریخ الاسلام، ج5 ص50 /تہذیب التہذیب، ج2 ص 323 /ثقات ابن حِبان، ج8 ص170 /الکاشف، ج1 ص330 /التاریخ الکبیر،ج2 ص306 /تہذیب الکمال، ج6 ص328 /سیر اعلام النبلاء، ج9 ص559)۔
شیبان بن عبدالرحمن التمیمی ابو معاویۃ البصري
امام ذہبی نے انہیں ’’الامام الحافظ الثقۃ‘‘ لکھا ہے۔ امام احمد بن حنبل نے ان کی تعریف فرمائی اور کہا ’’شیبان ثبت فی کل المشائخ‘‘ شیبان اپنے تمام اساتذہ سے روایت کرنے میں پکے اور قابل اعتماد ہیں۔ یحییٰ بن معین نے ان کے بارے میں کہا ’’ثقۃ فی کل شيء‘‘ وہ ہر چیز میں ثقہ ہیں۔ابو حاتم نے کہا کہ ’’ان کی حدیث لکھ لی جائے‘‘۔ امام نسائی،امام ترمذی، عِجلی، ابوبکر البزار اور ابن سعد نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے ۔ ابن حِبان نے ان کا شمار ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں کیا ہے۔ ساجی نے انہیں ’’صدوق‘‘ (سچا) کہا ہے۔ ابن حبان کے مطابق ان کی وفات سنہ164 ہجری میں ہوئی۔
(تاریخ الاسلام، ج4 ص409/سیر اعلام النبلاء، ج7 ص406 /تہذیب التہذیب، ج4 ص 373 /ثقات ابن حِبان، ج6 ص449 /معرفۃ الثقات للعِجلي،ج1 ص 462 /الکاشف، ج1 ص491 /التاریخ الکبیر،ج4 ص254 /تہذیب الکمال، ج12 ص592 )۔
یحییٰ بن أبي کثیر الطائی أبونصر الیمامی
ایوب سختیانی نے کہا : ’’روئے زمین پر یحییٰ جیسا کوئی نہیں‘‘، اور یہ بھی فرمایا کہ : ’’ ابن شہاب زہری کے بعد اہل مدینہ کی حدیث کا یحییٰ سے بڑا عالم اور کوئی نہیں‘‘۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا: ’’یحییٰ بہت زیادہ پکے لوگوں میں سے ہیں‘‘۔ ابو حاتم کہتے ہیں کہ : ’’ یحییٰ امام ہیں، وہ صرف ثقہ لوگوں سے ہی روایت کرتے ہیں‘‘۔ عِجلی اور ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ امام ذہبی نے انہیں ’’امام، حافظ اور حجت‘‘ کہا ہے۔ ان کی وفات سنہ 129 ہجری یا سنہ132ہجری میں ہوئی۔
(تاریخ الاسلام، ج3 ص556/سیر اعلام النبلاء، ج6 ص27 /تہذیب التہذیب، ج11 ص 268 /ثقات ابن حِبان، ج7 ص591 /معرفۃ الثقات للعِجلي،ج2 ص 357 /الکاشف، ج2 ص373 /التاریخ الکبیر،ج8 ص301 /الجرح والتعدیل، ج9 ص141 )۔
حضرمی بن لاحق التمیمي السعدي
یحییٰ بن معین نے ان کے بارے میں کہا : ’’ان کی روایت لینے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ امام ذہبی نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ عکرمہ بن عمار کہتے ہیں کہ ’’حضرمی بن لاحق فقیہ تھے، میں سنہ 100 ہجری میں ان کے ساتھ مکہ گیا تھا‘‘۔ ان کا تذکرہ مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے۔
(تاریخ الاسلام، ج3 ص223/تہذیب التہذیب، ج2 ص 394 /ثقات ابن حِبان، ج6 ص249 /الکاشف، ج1 ص340 /التاریخ الکبیر،ج3 ص125 /الجرح والتعدیل، ج3 ص302 )۔
ابو صالح ذکوان السمّان:ان کا تعارف پہلے ہوچکا۔
حدیث نمبر 16:
’’(امام طبرانی فرماتے ہیں) ہم سے بیان کیا قاضی احمد بن المعلّٰی دمشقي نے، اُن سے بیان کیا ہشام بن عُمارۃ نے۔ (اسی طرح) ہم سے بیان کیا عبدان بن احمد نے، اُن سے بیان کیا ہشام بن خالد نے (ہشام بن عُمارۃ اور ہشام بن خالد دونوں کہتے ہیں کہ) ہم سے بیان کیا محمد بن شعیب نے ، وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا یزید بن عُبیدۃ نے، اُن سے ابوالأشعث صنعانی نے، انہوں نے روایت کیا حضرت اوس بن اوسؓ سے ، انہوں نے اﷲ کے رسول e سے روایت کیا کہ آپ e نے فرمایا: یَنزِلُ عیسیٰ بنُ مریمَ علیہ السّلام عِند المَنارۃِ البیضاء شرقي دمشق۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے مشرقی حصے میں سفید مینارے کے پاس اتریں گے۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی، ج 1،ص 217 ، مکتبۃ ابن تیمیۃ۔ القاہرۃ)
راویوں کا تعارف
قاضي احمد بن المعلٰی بن یزید الدمشقي (ابو بکر)
یہ قاضی ابو زُرعۃ محمد بن عثمان کے نائب تھے۔ امام نسائی نے ان کے بارے میں کہا کہ : ’’ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ حافظ ابن حجر نے انہیں ’’صدوق‘‘ (سچا) کہا ہے۔ ان کی وفات رمضان سنہ286 ہجری میں ہوئی۔ان کا تذکرہ اِن کتب میں موجود ہے۔
(تاریخ الاسلام، ج6 ص694/تہذیب التہذیب، ج1 ص 80 /تقریب التہذیب، ج1 ص84 /الکاشف، ج1 ص203 /تہذیب الکمال،ج1 ص485 /تاریخ دمشق لابن عساکر، ج6 ص19)۔
عبداللّٰہ (المعروف بعبدان) بن أحمد بن موسیٰ بن زیاد الأہوازي (ابو محمد)
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے: ’’الحافظ الحجّۃ العلّامۃ‘‘ (حدیث کے حافظ، حجت اور علامہ)۔ خطیب بغدادی لکھتے ہیں : ’’کان أحد الحفاظ الأثبات‘‘ (وہ حدیث کے مضبوط حفاظ میں سے تھے)۔ امام حاکم کہتے ہیں کہ میں نے ابو علی الحافظ کہ یہ کہتے سنا کہ : ’’میں نے حدیث کے چار امام دیکھے ہیں، نیشاپور میں ابراہیم بن ابی طالب اور ابن خزیمۃ، مصرمیں امام نسائی، اور اہواز میں عبدان، انہیں ایک لاکھ احادیث یاد تھیں، میں نے اُن سے زیادہ اچھے حافظے والا نہیں دیکھا‘‘۔ ان کی وفات 136ہجری یا 137 ہجری میں ہوئی۔
(تاریخ الاسلام، ج7 ص104/تاریخ بغداد، ج11 ص 16 /تاریخ دمشق، ج27 ص51 / تذکرۃ الحفاظ، ج2 ص688 /سیر اعلام النبلاء، ج14 ص168 )۔
ہشام بن عمارۃ (أو بن عَمّار) بن نُصَیر ابوالولید الدمشقي
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے : ’’الامام الحافظ العلّامۃ المُقرِيء ، عالِم أہل الشام‘‘ (امام، حدیث کے حافظ، علامہ، قرآن پڑھانے والے قاری، اہل شام کے عالم)۔ایک مقام پر انہیں ‘‘شیخ الاسلام‘‘ کہا نیز ایک جگہ لکھا: ’’قلتُ: ہشام جلیل القدر بَعِید الصِّیت‘‘ (میں کہتا ہوں کہ ہشام بلند مرتبے والے تھے اوردور دور تک ان کا چرچا تھا‘‘۔ یحییٰ بن معین نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ امام نسائی نے کہا کہ : ’’ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ دار قطنی نے کہا : ’’صدوق کبیر المحل‘‘ (سچے اور بڑے مقام والے ہیں)۔ ابوحاتم رازی نے انہیں ’’صدوق‘‘ (سچا) کہا۔ عِجلی نے انہیں ’’ثقۃ صدوق‘‘ (ثقہ اور سچے) کہا۔ ابن حبان نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں انہیں ’’صدوق‘‘ (سچے) لکھا ہے۔ احمد بن ابی الحواری نے کہا :’’جس شہر میں ہشام بن عمار جیسے محدث موجود ہوں وہاں اگر میں حدیث بیان کروں تو میری داڑھی کاٹ دی جائے‘‘ (یعنی ہشام کے ہوتے ہوئے میرا حدیث بیان کرنا بہت معیوب ہے)۔ انہوں نے سنہ245 ہجری میں وفات پائی۔
(تاریخ الاسلام، ج5 ص1272/معرفۃ الثقات للعجلي، ج2 ص 333 /تاریخ دمشق، ج74 ص32 / تذکرۃ الحفاظ، ج2 ص451 /سیر اعلام النبلاء، ج11 ص420 / الجرح والتعدیل، ج9 ص66 /تہذیب التہذیب، ج11 ص51 /تقریب التتہذیب،ص573 /ثقات ابن حِبان، ج9 ص233)۔
فائدہ: ہشام کے بارے میں ابوحاتم رازی سے یہ منقول ہے کہ آخری عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے حافظہ کی کمزوری کے سبب کبھی تلقین قبول کرتے تھے ، لیکن ابوحاتم نے وہیں انہیں ’’صدوق‘‘ (سچے) بھی کہا ہے، لہٰذا یہ بات ہشام کی توثیق کے لئے مضر نہیں۔
بعض لوگ ہشام کے بارے میں یہ بات نقل کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ یہ معاوضہ لے کر حدیث بیان کیا کرتے تھے ۔ اگرچہ یہ کسی نے نہیں کہا کہ وہ معاوضہ لے کر جھوٹی حدیثیں بیان کیا کرتے تھے اور نہ ہی کسی نے انہیں ’’ضعیف‘‘ یا ’’ناقابل اعتبار‘‘ کہا ہے، لیکن امام ذہبی نے ہشام کے ترجمہ میں بڑی عمدہ بات لکھی ہے:
’’وبکل حال کلام الأقران بعضہم في بعض یُحتمل، وطَیّہ أولیٰ من بثِّہ اِلا أن یتّفق المتعاصرون علیٰ جرح شیخ، فیُعتمد قولہم‘‘ بہرحال برابر کے لوگوں کا ایک دوسرے کے بارے میں کلام کرنا اس میں بہت سے احتمال ہوسکتے ہیں، اس لئے ایسے کلام کو پھیلانے کے بجائے لپیٹنا زیادہ اچھا ہوتا ہے، ہاں اگر تمام ہم عصر کسی کے مجروح ہونے پر متفق ہوں تو پھر ان کی بات کا اعتبار ہوگا۔ (سیر اعلام النبلاء، ج11 ص432)
اور ہشام تمام ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک ’’ثقہ‘‘ اور ’’سچے‘‘ ہیں ، نیز امام طبرانی نے یہ روایت دو طریق سے روایت کی ہے اور دوسرے طریق میں ہشام بن عمارۃ کی جگہ ہشام بن خالد ہیں جن کا تعارف آگے آرہاہے۔
ہشام بن خالد الأزرق ابومروان الدمشقي القرشي
ابوحاتم نے انہیں ’’صدوق‘‘ (سچا) کہا۔ ابوزرعۃ دمشقی نے ان کا ذکر دمشق کے مفتیوں میں کیا ہے۔ ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں بیان کیا ہے۔ مسلمۃ نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ امام ذہبی نے الکاشف میں انہیں ’’ثقہ‘‘ اور حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں ’’صدوق‘‘ (سچا) کہا ہے۔ ان کی وفات سنہ249 ہجری میں ہوئی۔
(تاریخ الاسلام، ج5 ص1272/تاریخ دمشق، ج74 ص8 / الجرح والتعدیل، ج9 ص57 /تہذیب الکمال، ج30 ص198 /تہذیب التہذیب، ج11 ص37 /تقریب التہذیب،ص572 /ثقات ابن حِبان، ج9 ص233 /الکاشف ج2 ص336)۔
محمد بن شعیب بن شابور القرشي الأموي (ابو عبداللّٰہ)
امام ذہبی نے ان کا تعارف ان الفاظ کے ساتھ کرایا ہے : ’’الاِمام المُحدِّث، العالم الصادق‘‘ امام، محدث اور سچے عالم۔ امام احمد بن حنبل نے ان کے بارے میں کہا : ’’ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، وہ عقل والے تھے، اور ان کے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتا‘‘۔ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ عبداﷲ بن مبارک نے محمد بن شعیب سے روایت کرتے ہوئے یوں فرمایا: ’’أخبرنا الثقۃ من أہل العلم محمد بن شعیب‘‘( ہمیں اہل علم میں سے ایک ثقہ محمد بن شعیب نے خبردی)۔ دُحیم نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ عجلی اور ابن حبان نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا۔ حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں انہیں ’’صدوق‘‘ (سچا) لکھا۔ دُحیم کہتے ہیں کہ محمد بن شعیب نے کہا کہ ’’میں سنہ116 ہجری میں پیدا ہوا تھا‘‘ ۔ ان کی وفات 200ہجری کے قریب ہوئی۔
(تاریخ الاسلام، ج4 ص1195/معرفۃ الثقات للعجلي، ج2 ص 241 /ثقات ابن حِبان، ج9 ص50 /ثقات ابن شاہین، ص292 /التاریخ الکبیر، ج1 ص113 / تہذیب الکمال، ج25 ص370 /سیر اعلام النبلاء، ج19 ص376 / الجرح والتعدیل، ج7 ص286 /تہذیب التہذیب، ج9 ص222 /تقریب التہذیب،ص483)۔
یزید بن عبیدۃ السکونی (ابن ابي المہاجر) الشامي
یحییٰ بن معین نے ان کے بارے میں کہا : ’’ماکان بہ بأس صدوق‘‘ (ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں، سچے ہیں)۔ دُحیم نے کہا : ’’یہ ثقہ ہیں اور دمشق کے شیوخ میں سے ہیں‘‘۔ ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ امام ذہبی نے بھی الکاشف میں انہیں ’’ثقہ‘‘ لکھا ہے۔ان کا تذکرہ مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے۔
(تاریخ الاسلام، ج3 ص1014/ثقات ابن حِبان، ج7 ص616 /التاریخ الکبیر، ج8 ص348 / تہذیب الکمال، ج32 ص207 /سیر اعلام النبلاء، ج6 ص307 / الجرح والتعدیل، ج9 ص279 /تہذیب التہذیب، ج11 ص350 /الکاشف، ج2،ص388 /تاریخ دمشق، ج65 ص313)۔
أبو الأشعث الصنعانی (شراحیل أو شُرَحبِیل)
عِجلی نے لکھا کہ ’’تابعي ثقۃ‘‘ (وہ ثقہ تابعی ہیں)۔ ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ امام ذہبی نے الکاشف میں اور حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں انہیں ’’ثقہ‘‘ لکھا ہے۔ ان کا تذکرہ مندرجہ ذیل کتب میں ملتا ہے۔
(تاریخ الاسلام، ج2 ص1190/معرفۃ الثقات للعجلي، ج2 ص 282 /ثقات ابن حِبان، ج4 ص365 /التاریخ الکبیر، ج4 ص255 / تہذیب الکمال، ج12 ص408 /سیر اعلام النبلاء، ج4 ص357 / الجرح والتعدیل، ج4 ص337 /تہذیب التہذیب، ج4 ص319 /الکاشف، ج1 ص482 /تقریب التہذیب،ص264 /تاریخ دمشق، ج22 ص438)۔
حضرت أوس بن أوس الثقفي (رضي اللّٰہ عنہ)
حافظ ابن حجر ’’الاصابۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : ’’سنن کی چاروں کتابوں (سنن ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ اور سنن نسائی) میں شامی راویوں کے واسطے سے اِن سے صحیح احادیث روایت کی گئی ہیں، یحییٰ بن معین سے نقل کیا گیا ہے کہ أوس بن أوس الثقفي او ر ’’أوس بن أبي أوس الثقفي‘‘ ایک ہی شخصیت ہیں، امام ابوداؤد اور خطیب بغدادی کی بھی یہی رائے ہے۔ (لیکن حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ) تحقیقی بات یہی ہے کہ أوس بن أوس اور أوس بن أبي أوس دونوں الگ الگ صحابہ ہیں ، جس نے ان دونوں کو ایک سمجھا ہے اسے غلطی لگی ہے۔ أوس بن أبي أوس کا نام أوس بن حذیفۃہے‘‘ (جن کا ذکر حافظ ابن حجر نے الگ سے کیا ہے۔ناقل)۔حضرت أوس بن أوس ؓ کا ذکراِن کتب میں موجود ہے:
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج1 ص284 و ص297 /أسد الغابۃفي معرفۃ الصحابۃ، ج1 ص312 /الاستیعاب في أسماء الأصحاب، ج1 ص79 /معجم الصحابۃ للبغوي، ج1 ص72 /معجم الصحابۃ لابن قانع، ج1 ص26 /الجرح والتعدیل، ج2 ص303 /تہذیب الکمال، ج3 ص387 /تہذیب الأسماء واللغات للنووي، ج1 ص129 /تہذیب التہذیب، ج1 ص381 /الوافي بالوفیات، ج9 ص251)۔
حدیث نمبر 17:
مسند احمدؒ وغیرہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود t سے مروی ایک طویل حدیث شریف موجود ہے جس کا ابتدائی حصہ مع سند یہ ہے :۔
’’حدّثنا ہُشَیمٌ أنا العوّام عن جَبلَۃِ بن سُحیم عن مُؤثِرٍبن عَفَازَۃَ عن ابن مسعود عن النبیe قال: لقیتُ لیلۃ أسريَ بي ابراہیم موسیٰ وعیسیٰ ، قال: فتذاکروا أمر الساعۃ ، فَرَدُّوا أمرہم الی ابراہیم، فقال: لا علم لي بہا، فرَدُّواالأمر الی موسیٰ ، فقال : لا علم لي بہا، فَرَدُّوا الأمر الی عیسیٰ فقال: أمّا وجبتُہا فلا یعلمہا أحد الا اللّٰہ، ذلک وفیما عہد الي ربي عزوجل أن الدجَّال خارج، قال: ومعي قضیبان، فاذا رآني یذوب کما یذوب الرصاص، قال: فیہلکہ اللّٰہ، حتی أن الحجر والشجر یقول : یا مسلم، ان تحتي کافراً، فتعال فاقتلہ…… الخ‘‘ ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن مسعود t روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم e نے فرمایا کہ معراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ o کے ساتھ ہوئی، تو قیامت کا ذکر چل نکلا(یعنی یہ گفتگو چل نکلی کہ قیامت کب آئے گی) پہلے حضرت ابراہیم u سے دریافت کیاگیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے علم نہیں، حضرت موسیٰ u نے بھی لاعلمی کا اظہار فرمایا، حضرت عیسیٰ u کی طرف بات آئی تو آپ نے فرمایا: اس کا ٹھیک وقت تو صرف اﷲ کو معلوم ہے ، البتہ میرے ساتھ میرے رب کا ایک عہد ہے کہ قیامت سے پہلے دجّال نکلے گا ، اس وقت میرے پاس دو چھڑیاں یا دو تیز تلواریں ہوں گی (قضیب کا معنی چھڑی بھی ہوتا ہے اور کاٹنے والی تلوار بھی) پس جب (دجّال) مجھے دیکھے گا تو اس طرح پگھلنے لگے گا جیسے سیسہ پگھل جاتا ہے پس اﷲ اسے ہلاک کردے گا (یعنی میں اسے قتل کردوں گا) ، یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی پکاریں گے کہ اے مسلمان! میرے نیچے کافر ہے آؤ اسے قتل کردو…… الی آخر الحدیث۔
(مسند احمد بن حنبل، حدیث نمبر 3556 ، جلد6، صفحہ 19، مؤسسۃ الرسالۃ)
نیز یہی روایت مستدرک حاکم وغیرہ میں بھی ہے وہاں الفاظ ہیں کہ حضرت عیسیٰu نے فرمایا کہ :فأہبط فأقتلہ میں اتروں گا اور دجّال کو قتل کردوں گا ۔
(المستدرک للحاکم، حدیث نمبر 3448،جلد 2، صفحہ 416 اور حدیث نمبر 8502 ،جلد 4، صفحہ 534 طبع دار الکتب العلمیۃ بیروت، امام ذہبیؒ نے تلخیص المستدرک میں ان دونوں روایات کو صحیح فرمایا ہے، نیز حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری جلد13صفحہ 89 پر یہ روایت ذکر کی ہے)۔
اس حدیث شریف میں صراحت کے ساتھ بیان ہوگیا کہ دجّال کو قتل کرنے کے لئے عیسیٰ u نے نازل ہونا ہے ۔
راویوں کا تعارف:
ہُشیم بن بشیر ابن القاسم بن دینار السلمي الواسطي أبومعاویۃ
امام مالک ؒ نے فرمایا : ’’عراق میں اِس واسطی (یعنی ہشیم) سے زیادہ اچھی حدیث والا کوئی نہیں’’۔ حماد بن زید نے فرمایا: ’’میں نے محدثین میں ہشیم سے زیادہ شریف النفس نہیں دیکھا’’۔ اسحاق زیادی فرماتے ہیں کہ : ’’میں نے خواب میں نبی کریم e کی زیارت کی آپ e نے مجھے فرمایا کہ : ہشیم سے (حدیثیں) سُنا کرو، وہ بہت اچھا آدمی ہے ‘‘۔ عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں کہ: ’’ہشیم حدیث یادکرنے میں سفیان ثوری سے بڑھ کر تھے ‘‘۔ یحییٰ بن معین اور ابن مہدی نے فرمایا: ’’ہشیم تو قلعہ میں بند ہیں (یعنی محفوظ ہیں) ، وہ سفیان اور شعبہ سے زیادہ پکّے ہیں‘‘ ۔ ابن المبارک نے فرمایا :’’ ہشیم کے حافظہ پر زمانہ کا کوئی اثر نہیں ہوا‘‘ (یعنی آخری عمر تک ان کا حافظہ درست رہا) ۔ ابن عمّار نے کہا : ’’جب ہشیم اور ابی عوانہ کی روایت میں اختلاف ہوجائے تو بات ہشیم کی معتبر ہوگی کیونکہ اس میں غلطی کا احتمال نہیں‘‘ ۔ عِجلی نے فرمایا :’’ ہشیم واسطی ثقہ ہیں لیکن وہ کبھی تدلیس کرتے تھے ‘‘(یعنی روایت بیان کرتے ہوئے ’’عن‘‘ کے ساتھ بیان کرتے تھے) ۔ امام ابو حاتم رازی نے فرمایا :’’ ہشیم ثقہ ہیں اور ابوعوانہ سے بڑے حافظہ والے ہیں‘‘ ۔ ابن سعد نے فرمایا: ’’ہشیم ثقہ ہیں ، بہت زیادہ حدیث والے ہیں ، ہاں وہ تدلیس کرتے ہیں ، پس جس حدیث میں وہ صراحت کردیں کہ یہ میں نے فلاں سے سنی ہے یا فلاں نے مجھے خبر دی ہے تو وہ حدیث بلاشبہ حجت ہوگی‘‘ ۔ ابراہیم الحربی کہتے ہیں کہ :’’ حفاظ حدیث چار تھے اور ہشیم ان سب کے استاذتھے‘‘ ۔ حسین بن حسن المروزی فرماتے ہیں کہ : ’’میں نے ہشیم سے زیادہ اﷲ کا ذکر کرنے والا اور کوئی نہیں دیکھا‘‘ ۔ابوحاتم (رازی) نے فرمایا:’’ ہشیم کی نیکی، سچائی اور امانت داری کے بارے میں کوئی سوال ہی نہیں اٹھ سکتا ۔ ابن حِبان نے ہشیم کو ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے‘‘ ۔ حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں انہیں ’’ثقہ اور ثبت‘‘ لکھا۔ ان کی ولادت سنہ104 ہجری اور وفات سنہ183 ہجری میں ہوئی۔
(تہذیب التہذیب، ج11 ص50 /تاریخ الاسلام، ج4 ص992/معرفۃ الثقات للعجلي، ج2 ص 242 /ثقات ابن حِبان، ج7 ص587 /التاریخ الکبیر، ج8 ص242 / تہذیب الکمال، ج30 ص272 /سیر اعلام النبلاء، ج8 ص287 /تذکرۃ الحفاظ، ج1 ص182 / الجرح والتعدیل، ج9 ص115 /الکاشف، ج2 ص338 /تقریب التہذیب،ص574 /الوافي بالوفیات، ج27 ص216)۔
وضاحت : ہماری پیش کردہ روایت میں ہُشیم نے اپنے استاد ’’العوّام‘‘ سے ’’أخبرنا‘‘ کے ساتھ روایت کی ہے لہٰذا یہاں تدلیس کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔
العوام بن حوشب بن یزید بن الحارث الشیبانی ابوعیسیٰ الواسطي
امام احمد بن حنبل نے فرمایا : وہ ثقہ ہیں ثقہ ہیں (دو بار ثقہ فرمایا) ۔ ابن معین اور ابوزُرعہ دونوں نے فرمایا: وہ ثقہ ہیں ۔ ابوحاتم (رازی) نے فرمایا : وہ نیک ہیں اور (ان کی روایت لینے میں) کوئی حرج نہیں ۔ عِجلی نے فرمایا : وہ ثقہ ، ثبت اور صالح ہیں ۔ ابن سعد نے بھی انہیں ثقہ کہا ۔ امام حاکم نے بھی ثقہ کہا ہے ۔ حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں انہیں ’’ثقہ اور ثبت‘‘ لکھا ہے۔ ان کی وفات سنہ148 ہجری میں ہوئی۔
(تہذیب التہذیب، ج8 ص163 /تاریخ الاسلام، ج3 ص947/معرفۃ الثقات للعجلي، ج2 ص 195 /ثقات ابن حِبان، ج7 ص298 /التاریخ الکبیر، ج7 ص67 / تہذیب الکمال، ج22 ص427 /سیر اعلام النبلاء، ج6 ص354 / الجرح والتعدیل، ج7 ص22 /الکاشف، ج2 ص100 /تقریب التہذیب،ص433)۔
جَبَلۃ بن سُحیم التیمی أبوسویرۃ (ویُقال ابو سریرۃ) الکوفي
امام شعبہ اور امام ثوری کے نزدیک یہ ثقہ تھے ۔ امام یحییٰ نے فرمایا : ’’جبلہ ثقہ ہیں‘‘۔ امام احمد بن حنبل کے بیٹے عبداﷲ نے بھی اپنے والد سے یہی نقل کیا ہے ۔ عِجلی اور نسائی نے بھی کہا : ’’یہ ثقہ ہیں‘‘ ۔ ابوحاتم نے کہا : ’’ثقہ اور صالح الحدیث‘‘ ہیں ۔ یعقوب بن سفیان نے بھی کہا : ’’کوفی اور ثقہ‘‘ ہیں ۔ امام ذہبی نے الکاشف میں انہیں ’’ثقہ‘‘ لکھا ہے۔ بقول ابن حِبان ان کی وفات اموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے دورِ حکومت (105ھ – 125ھ) کے دوران ہوئی۔
(تہذیب التہذیب، ج2 ص61 /تاریخ الاسلام، ج3 ص386/معرفۃ الثقات للعجلي، ج1 ص 265 /ثقات ابن حِبان، ج4 ص109 /التاریخ الکبیر، ج2 ص219 / تہذیب الکمال، ج4 ص498 /تذکرۃ الحفاظ، ج5 ص315 / الجرح والتعدیل، ج2 ص508 /الکاشف، ج1 ص289 )۔
مؤثر بن عفازۃ الشیباني ابو المثنٰی الکوفي
ابن حِبان نے انہیں ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ ان سے تابعین کی ایک جماعت نے روایت کی ہے ۔ امام بخاری نے تاریخ کبیر میں ان کا تذکرہ کیا ہے ۔ امام مسلم نے الکنیٰ والأسماء میں ان کا ذکر کیا ہے ۔ امام عِجلی نے لکھا : ’’من أصحاب عبداللّٰہ ثقۃ‘‘ (یہ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کے اصحاب میں سے ہیں اور ثقہ ہیں)۔ امام ذہبی نے الکاشف میں انہیں ’’ثقہ‘‘ لکھا۔ حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں لکھا کہ ’’رویٰ عنہ جماعۃ من التابعین‘‘ (ان سے تابعین کی ایک جماعت نے روایت کی ہے۔ اور تقریب التہذیب میں انہیں ’’مقبول‘‘ (قابل قبول) لکھا ۔
(تہذیب التہذیب، ج10 ص331 /معرفۃ الثقات للعجلي، ج2 ص 303 /ثقات ابن حِبان، ج5 ص463 /التاریخ الکبیر، ج8 ص63 / تہذیب الکمال، ج29 ص15 /تقریب التہذیب، ص549 / الجرح والتعدیل، ج8 ص429 /الکاشف، ج2 ص300 )۔
فائدہ : کسی نے بھی ’’مؤثر بن عفازۃ‘‘ پر کسی قسم کی کوئی جرح نہیں کی ، بعض کتابوں میں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ مجہول راوی ہیں جو کہ ایک بے اصل بات ہے ، اوپر ہم نے معتبر ائمہ حدیث وجرح وتعدیل کے حوالے پیش کردیے ہیں جنہوں نے ’’مؤثر بن عفازۃ‘‘ کا ذکر کیا ہے اور انہیں ثقہ بھی لکھا ہے ۔
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.