تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

احادیثِ نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ

(قسط:۱۵)

حافظ عبیداﷲ

حدیث نمبر 13:
’’(امام مسلم فرماتے ہیں) بیان کیا ہم سے عُبید اللّٰہ بن مُعاذ العنبری نے ، وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا ہمارے والد (مُعاذ بن مُعاذ بن نصر العنبری) نے ، وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا شعبۃ (بن الحجاج) نے ، اُن سے نُعمان بن سالم نے ، وہ کہتے ہیں میں نے یعقوب بن عاصم بن عُروۃ بن مسعود الثقفی کو یہ کہتے سُنا کہ میں نے حضرت عبداللّٰہ بن عمرو ؓسے سنا …… آپ نے کہا کہ اﷲ کے رسول e نے فرمایا…… (آگے دجّال کے خروج کا ذکر ہے، اسی ضمن میں فرمایا) …… فَیَبعَثُ اللّٰہُ عِیسیٰ بنَ مریمَ کأنہ عُروۃ بن مسعود فَیطلُبہ فَیُہلِکہ…… الی آخر الحدیث۔‘‘ پھر اﷲ مریم کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجیں گے ان کاحلیہ (صحابی) عروہ بن مسعود جیسا ہوگا، پس وہ دجال کو ڈھونڈھ کر اسے ہلاک کردیں گے۔
(صحیح مسلم، باب فی خروج الدجّال ومکثہ فی الأرض ونزول عیسیٰ)
راویوں کا تعارف:
عُبید اللّٰہ بن مُعاذ بن مُعاذ بن نصر العنبري البصري (ابو عمرو)
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے : ’’الحافظ الأوحد، الثقۃ‘‘ یکتائے زمانہ (حدیث کے) حافظ اور ثقہ۔ ایک دوسری جگہ انہیں ’’الحافظ الحُجّۃ‘‘ لکھا ہے۔ امام بخاری و امام مسلم اور امام ابوداؤد نے ان سے روایت لی ہے۔ امام ابوداؤد نے کہا کہ : ’’انہیں دس ہزارکے قریب احادیث زبانی یاد تھیں، اور وہ فصیح آدمی تھے‘‘۔ امام ابوحاتم رازی نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ ابن حِبان نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ بتایا ہے۔ ابن قانع نے بھی ان کی ’’توثیق‘‘ کی ہے۔ حافظ ابن حجر نے بھی انہیں ’’ثقہ اور حافظ‘‘ لکھا ہے۔ امام بخاری کے مطابق ا ن کی وفات سنہ237 ہجری میں ہوئی۔
( التاریخ الکبیر للبخاري، ج5 ص401 /الجرح والتعدیل، ج5 ص335 /تہذیب الکمال، ج19 ص158 /تاریخ الاسلام، ج5 ص881 /تہذیب التہذیب، ج7 ص48 /ثقات ابن حِبان، ج8 ص406/الکاشف، ج1 ص686 / تقریب التہذیب، ص374 /سیر اعلام النبلاء، ج11 ص384 وغیرہا من الکتب)
ایک وضاحت: حافظ ابن حجر نے ابن الجنید کے حوالے سے یحییٰ بن معین کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :’’بن سمینۃ وشباب وعبید اللّٰہ بن مُعاذ لیسوا من اصحاب حدیث ولیسوا بشيء‘‘ کہ ’’بن سمینۃ‘‘ اور ’’شباب‘‘ اور ’’عبید اللّٰہ بن معاذ‘‘ اصحاب حدیث میں سے نہیں ہیں اور یہ کچھ بھی نہیں۔ تمنا عمادی صاحب نے بھی اُن ائمہ کے اقوال تو ذکر نہیں کیے جنہوں نے ’’عبید اﷲ بن معاذ‘‘ کی توثیق کی ہے لیکن یحییٰ بن معین کی طرف منسوب اس قول کا ذکر کیا ہے اور پھر اس پر یوں حاشیہ آرائی فرمائی ہے کہ : ’’جو خود کچھ بھی نہیں اس کی حدیث بھی کچھ بھی نہیں‘‘ (انتظارِ مہدی ومسیح، ص213)۔
عرض ہے کہ یحییٰ بن معین جب کسی کے بارے میں ’’لیس بشيء‘‘ کہیں تو اس کا ہرحال میں یہی مطلب نہیں ہوتا کہ وہ راوی ضعیف اور ناقابل قبول ہے، بلکہ کبھی ان کی مراد یہ بھی ہوتی ہے کہ اس راوی سے بہت زیادہ احادیث مروی نہیں ہیں، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری کے مقدمہ میں لکھا ہے:
’’وذکر ابن القطان الفاسي أن مراد ا بن معین بقولہ فی بعض الروایات لیس بشيء یعني أن احادیثہ قلیلۃ جداً‘‘ ابن القطان نے ذکر کیا ہے کہ بعض روایات کے ضمن میں یحییٰ بن معین کا (کسی راوی کے بارے میں) یہ کہنا کہ ’’یہ کچھ نہیں‘‘ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس راوی کی احادیث کی تعداد بہت قلیل ہے۔
(ہدي الساري مقدمۃ فتح الباري، ج1 ص421)
اس کی مزید وضاحت حافظ ابو محمد عبدالعظیم بن عبدالقوي المنذري (متوفی 656ھ) نے یوں فرمائی ہے:
’’وأما قولہم فلان لیس بشيء، ویقولون مرۃ حدیثہ لیس بشيء ، فہذا یُنظر فیہ: فأن کان الذي قیل فیہ ہذا، قد وَثّقہ غیر ہذا القائل، واحتجّ بہ، فیحتمل أن یکون قولہ محمولاً علی أنہ لیس حدیثہ بشيء یُحتج بہ ، بل یکون حدیثہ عندہ یُکتب للاعتبار وللاستشہاد وغیر ذلک۔ واِن کان الذي قیل فیہ ذلک مشہوراً بالضعف ولم یُوجد من الائمۃ من یحسن أمرہ ، فیکون محمولاً علی أن حدیثہ لیس بشيء یُحتجّ بہ ولا یُعتبر بہ ولا یستشہد بہ ویلتحق ہذا بالمتروک‘‘ جب کوئی (ائمہ جرح وتعدیل میں سے) یہ کہے کہ ’’فلاں کچھ نہیں‘‘ یا ’’فلاں کی حدیث کچھ نہیں‘‘ ، تو یہاں غور کرنا ہوگا۔ اگر یہ بات کہنے والے کے علاوہ دوسرے ائمہ نے اس راوی کی توثیق کی ہے اور اسے حجت تسلیم کیا ہے تو اس صورت میں ’’کچھ نہیں‘‘ کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ بات کہنے والے امام کے نزدیک اس راوی کی حدیث بطور شاہد ومتابع کے تو لکھی جاسکتی ہے لیکن حجت نہیں بن سکتی (یعنی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ راوی ضعیف یا ناقابل اعتبار ہے۔ناقل)۔ اور اگر وہ راوی جس کے بارے میں کسی امام نے یہ بات کہی ہے ایسا ہے کہ اس کا ضعیف ہونا مشہور ہے اور ائمہ میں سے کسی نے بھی اس کا ذکر اچھائی کے ساتھ نہیں کیا ، تو اس صورت میں ’’کچھ نہیں‘‘ کا مطلب یہ ہوگا کہ اس راوی کی روایت نہ حجت بن سکتی ہے اور نہ ہی بطور شواہد و متابعات کے ہی پیش کی جاسکتی ہے۔
(جواب الحافظ المنذري عن اسئلۃ فی الجرح والتعدیل، ص86 طبع حلب)
اور ’’عبید اللّٰہ بن معاذ العنبري‘‘ کی تحسین وتوثیق یحییٰ بن معین کے علاوہ دوسرے ائمہ سے ثابت ہے، نیز ائمہ نے انہیں حجت بھی تسلیم کیا ہے ، یوں ان کے بارے میں ابن معین کا یہ کہنا کہ ’’وہ اصحاب حدیث میں سے نہیں اور وہ کچھ نہیں‘‘ کا یہی مطلب ہے کہ ان سے بہت زیادہ احادیث مروی نہیں یا ابن معین کے نزدیک ان کی حدیث بطور متابع وشاہد کے تو لکھی جاسکتی ہے بطور حجت نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ جرح ’’مفسر‘‘ نہیں ۔
مُعاذ بن مُعاذ بن نصر العنبري
یہ ’’عبید اﷲ بن معاذ‘‘ کے والد ہیں، یہ بصرہ کے قاضی تھے، امام ذہبی نے انہیں ’’الامام الحافظ‘‘ کہاہے۔ امام احمد بن حنبل نے کہا کہ : ’’معاذ قرۃ عین في الحدیث‘‘ معاذ حدیث میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ۔ ایک اور مقام پر فرمایا: ’’الیہ المنتہیٰ في التثبت في البصرۃ، ما رأیتُ أحداً أعقل منہ‘‘ بصرہ میں حدیث کی پختگی ان پر ختم ہے، میں نے ان سے زیادہ عقل والا نہیں دیکھا۔ ابو حاتم اور یحییٰ بن معین نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ امام نسائی نے انہیں ’’ثقہ اور ثبت‘‘ کہا۔ یحییٰ القطّان نے کہا کہ ’’معاذ بن معاذ سے زیادہ حدیث میں پختگی رکھنے والا نہ بصرہ میں ہے نہ کوفہ میں اور نہ ہی حجاز میں‘‘ ۔ ابن سعد نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ ابن حبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ ان کے بیٹے عبید اﷲ بن معاذ کے مطابق آپ کی وفات سنہ196ھ میں ہوئی۔
( التاریخ الکبیر للبخاري، ج7 ص365 /الجرح والتعدیل، ج8 ص248 /تاریخ الاسلام، ج4 ص1209 /سیر اعلام النبلاء، ج9 ص54 /تہذیب التہذیب، ج10 ص194 /ثقات ابن حِبان، ج7 ص482)۔
شُعبۃ بن الحجّاج بن الورد الواسطي (ابو بسطام)
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے : ’’الامام الحافظ ، أمیر المؤمنین في الحدیث‘‘ امام ، حافظ، اور حدیث میں مؤمنین کے سردار۔ امام احمد بن حنبل سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’شعبہ کے زمانے میں علمِ حدیث میں اُن سے اچھا تو کیا اُن جیسا بھی کوئی نہ تھا‘‘۔ نیز امام احمد نے فرمایا : ’’علم رجال میں تو شعبہ اکیلے ایک امت تھے‘‘۔ حماد بن زید نے انہیں ’’حدیث کا شہسوار‘‘ کہا۔ ابوالولید الطیالسی کہتے ہیں کہ مجھ سے حماد بن سلمۃ نے کہا : ’’اگر حدیث حاصل کرنا چاہتے ہو تو شعبہ کو لازم پکڑ لو‘‘۔ سفیان ثوری کہا کرتے تھے کہ ’’شعبہ حدیث میں مومنوں کے سردار ہیں‘‘۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ ’’اگر شعبہ نہ ہوتے تو عراق میں حدیث کو کوئی نہ جانتا‘‘۔ یزید بن زریع کہتے ہیں ’’شعبہ حدیث میں نہایت سچے لوگوں میں سے تھے‘‘۔ یحییٰ القطّان کہتے ہیں کہ ’’میں نے حدیث میں شعبہ سے اچھا کوئی نہیں دیکھا‘‘۔ امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ جب شعبہ کا انتقال ہوا تو سفیان بن عیینہ نے کہا : ’’مات الحدیث‘‘ گویا کہ آج حدیث کی موت ہوگئی۔ ابن سعد نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ عِجلی نے کہا کہ ’’وہ حدیث میں ثقہ اور ثبت تھے، البتہ اسماء الرجال میں کبھی غلطی کرجاتے تھے‘‘۔ ابن حِبان نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ امام حاکم نے انہیں ’’اماموں کے امام‘‘ کہا۔ انہوں نے سنہ160ہجری میں وفات پائی۔
( التاریخ الکبیر للبخاري، ج4 ص244 /الجرح والتعدیل، ج4 ص369 /تہذیب الکمال، ج12 ص479 /سیر اعلام النبلاء، ج7 ص202 /تہذیب التہذیب، ج4 ص338 /ثقات ابن حِبان، ج6 ص446 /معرفۃ الثقات للعجلي،ج2 ص456 /الکاشف، ج1 ص485)۔
نعمان بن سالم الطائفي
اسحاق بن منصورنے یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے نعمان بن سالم کو ’’ثقہ‘‘ کہا۔ ابوحاتم رازی نے انہیں ’’ثقۃ صالح الحدیث‘‘ (ثقہ اور اچھی حدیث والے )کہا۔ امام نسائی نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔
( التاریخ الکبیر للبخاري، ج8 ص77 /الجرح والتعدیل، ج8 ص445 /تاریخ الاسلام، ج3 ص331 /تہذیب الکمال، ج29 ص448 /تہذیب التہذیب، ج10 ص453 /ثقات ابن حِبان، ج7 ص531 )۔
تمنائی دھوکہ
تمنا عمادی صاحب نے نعمان بن سالم کے بارے میں اپنی وہی پرانی مشہور زمانہ منطق دہرائی ہے کہ :
’’یہ بالکل مجہول ہیں، نہ ان کا سال ولادت معلوم اور نہ سال وفات، نہ نسب معلوم، نہ یہ معلوم کہ کس قبیلے سے تھے……پھر جرح وتعدیل کے قابل بھی کسی نے ان کو نہ سمجھا‘‘
(انتظارِ مہدی ومسیح، ص213)
افسوس عمادی صاحب نے یہاں بھی غلط بیانی سے کام لیاکہ ’’کسی نے انہیں جرح وتعدیل کے قابل نہیں سمجھا‘‘۔ جہاں تک ان کی ’’تعدیل ‘‘ کا تعلق ہے تو اگر یحییٰ بن معین، ابوحاتم رازی، امام نسائی اور ابن حبان کا نعمان بن سالم کو ’’ثقہ‘‘ کہنا تعدیل نہیں تو پھر نہ جانے عمادی صاحب کے ’’فنِ رجال‘‘ میں تعدیل کس چیز کا نام ہے۔جہاں تک اُن پر جرح کی بات ہے تو ہم عمادی صاحب کے ساتھ متفق ہیں کہ کسی نے بھی نعمان بن سالم کو جرح کے قابل نہیں سمجھا۔
باقی یہ ’’تمنائی علم رجال‘‘ کا قانون ہوگا کہ جس راوی کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کتب رجال میں نہ لکھی ہو ، اگرچہ ائمہ نے اسے ثقہ لکھا ہو وہ راوی مجہول اور ناقابل اعتبار کہلائے گا، حقیقی اور اصلی علم رجال کا یہ اصول ہرگز نہیں۔
یعقوب بن عاصم بن عروۃ بن مسعود الثقفي الطائفي
یہ ’’نافع بن عاصم الثقفي‘‘(جو کہ ثقہ تابعی تھے) کے بھائی ہیں، اور جیسا کہ نسبت سے ظاہر ہے ان کا تعلق قبیلہ بنی ثقیف سے تھا اور طائف کے رہنے والے حجازی تھے، ابن حِبان نے ان کا شمار ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں کیا ہے، ان کا ذکر مندرجہ ذیل کتب میں ہے اور کسی نے بھی ان پر کسی قسم کی کوئی جرح نہیں کی۔
( التاریخ الکبیر للبخاري، ج8 ص388 /الجرح والتعدیل، ج9 ص211 /تاریخ الاسلام، ج2 ص1189 /تہذیب الکمال، ج32 ص339 /تہذیب التہذیب، ج11 ص389 /ثقات ابن حِبان، ج5 ص552 /التکمیل فی الجرح والتعدیل لابن کثیر الدمشقي، ج2 ص409 /الکاشف، ج3 ص394 )۔
تمنائی مغالطہ
عمادی صاحب کو جب یعقوب بن عاصم الثقفی کے بارے میں کسی قسم کی کوئی جرح نہ ملی تو انہوں نے حسب عادت یہ بیان جاری کردیا کہ :
’’اسی طرح ایک حدیث اور صرف مسلم میں ہے جو حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص کی طرف منسوب ہے، جس کو ایک مجہول الحال یعقوب بن عاصم بن عروہ بن مسعود روایت کرتے ہیں، نہ جن کا وطن معلوم ہے نہ سال ولادت ووفات کا کہیں ذکر ہے، نہ کوئی ان پر جرح کرتا ہے نہ ان کی تعدیل کرتا ہے، چونکہ ان کی حدیث مسلم میں ہے اس لئے مسلم کا بھرم رکھنے کے لئے صرف ابن حبان نے ان کا ذکر ثقات میں کردیا ہے‘‘۔
(انتظارِ مہدی ومسیح، ص 212)
عمادی صاحب نے پہلا مغالطہ تو یہ دیا کہ یہ حدیث صرف مسلم میں ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، یہ حدیث مندرجہ ذیل کتب میں بھی با سند موجود ہے:
( مسند احمد: حدیث نمبر 6555 ، ج11 ص113 مؤسسۃ الرسالۃ /صحیح ابن حِبان: حدیث نمبر 7353، ج16 ص350 مؤسسۃ الرسالۃ /المستدرک للحاکم: حدیث نمبر 8632 و8654 ج4 ص586 و 594 دار الکتب العلمیۃ بیروت /السنن الکبریٰ للنسائي: حدیث نمبر 11565، ج10 ص316 مؤسسۃ الرسالۃ /شعب الایمان للبیہقي: حدیث نمبر 345، ج1 ص530 مکتبۃ الرشد، السعودیۃ)۔
عمادی صاحب نے دوسری غلط بیانی یہ کی ہے کہ یعقوب بن عاصم کا وطن معلوم نہیں، جبکہ تمام کتابوں میں انہیں ’’ثقفي اور طائفي‘‘ لکھا ہے، یعنی ان کا تعلق قبیلہ بنی ثقیف سے تھا اور طائف کے رہنے والے تھے، اسی وجہ سے انہیں ’’حجازي‘‘ بھی لکھا ہے۔ نیز جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا کہ یہ ’’نافع بن عاصم بن عروۃ بن مسعود الثقفي الطائفي‘‘ کے بھائی ہیں اور کتب رجال میں جہاں ’’نافع بن عاصم‘‘ کا ذکر ہے اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ملتا ہے کہ یہ ’’یعقوب بن عاصم‘‘ کے بھائی ہیں (مثلاً دیکھیں: الجرح والتعدیل،ج8 ص454 /تہذیب التہذیب، ج10 ص405 /التاریخ الکبیرللبخاري، ج8 ص84)، لہٰذا عمادی صاحب کا ’’یعقوب بن عاصم‘‘ کو مجہول لکھنا بھی صریح مغالطہ ہے۔
رہی عمادی صاحب کی یہ منطق کہ چونکہ ان کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات کسی نے نہیں لکھی لہٰذا یہ مجہول ہیں۔ تو ہم اس کے جواب میں صرف یہی عرض کریں گے کہ :
جنھیں ہو جھوٹ کو سچ کر دکھانا

9انھیں سچوں کو جھٹلانا پڑے گا
حدیث نمبر 14:
’’(امام اسحاق بن راہویہ روایت کرتے ہیں) خبر دی ہمیں (مغیرہ بن سلمۃ) المخزومی نے، اُن سے بیان کیا عبدالواحد بن زیاد نے، اُن سے بیان کیا عاصم بن کُلیب نے، وہ کہتے ہیں مجھ سے بیان کیا میرے والد (کلیب) نے، وہ کہتے ہیں میں کوفہ کی مسجد میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب ایک آدمی آیا ……(اور اُس نے حضرت ابوہریرہؓ سے حضرت عیسیٰ بن مریمi کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے اس کے جواب میں رسول اﷲ e کی یہ حدیث بیان کی جس میں یہ بھی ذکر ہے )…… فَیَنزِلُ عیسیٰ بن مریم …… پھر حضرت عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے…… الی آخر الحدیث۔‘‘
(مسند اسحاق بن راہویہ، حدیث نمبر 262، ج1 ص288 ، مکتبۃ الایمان ، المدینۃ)

راویوں کا تعارف:
مغیرۃ بن سلمۃ المخزومي القرشي البصري (ابو ہشام)
علی بن المدینی نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا، نیز فرمایا : ’’مارأیتُ قرشیاً أفضل منہ ولا أشد تواضعاً‘‘ میں نے اُن سے بہتر اور ان سے زیادہ متواضع قریشی نہیں دیکھا‘‘۔ یعقوب بن شیبۃ، ابن الجنید اور نسائی نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ ابن قانع نے انہیں ’’ثقہ اور مامون‘‘ کہا ہے۔ ابن حِبان نے بھی ان کا شمار ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں کیا ہے۔ امام بخاری نے ان کی وفات سنہ200 ہجری میں بتائی ہے۔
(التاریخ الکبیر للبخاري، ج7 ص326 /الجرح والتعدیل، ج8 ص223 /تاریخ الاسلام، ج4 ص1215 /تہذیب التہذیب، ج10 ص 261 /ثقات ابن حِبان، ج9 ص169)۔
عبدالواحد بن زیاد العبدي البصري (ابو بِشر)
عثمان دارمی نے یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے کہ آپ نے کہا : ’’عبدالواحد ثقہ ہیں‘‘۔ ابن سعد کہتے ہیں کہ : ’’وہ ثقہ اور کثیر الحدیث ‘‘ تھے۔ ابوزرعۃ اور ابوحاتم رازی نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ ’’ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ امام ابوداؤو، عِجلی، دار قطنی اور ابن حِبان سب نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ : ’’اجمعوا لا خلاف بینہم أن عبدالواحد بن زیاد ثقۃ ثبت‘‘ تمام علماء رجال اس بات پر متفق ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ عبدالواحد بن زیاد ثقہ اور ثبت ہیں۔ ابن القطان الفاسی کہتے ہیں کہ ’’وہ ثقہ ہیں ‘‘۔ امام بخاری کے مطابق ان کی وفات سنہ179 ہجری اور امام احمد بن حنبل وغیرہ کے مطابق سنہ177 ہجری میں ہوئی۔
(الجرح والتعدیل، ج6 ص20 /تاریخ الاسلام، ج4 ص685 /تہذیب التہذیب، ج6 ص 434 /ثقات ابن حِبان، ج7 ص123 /معرفۃ الثقات للعِجلی، ج2 ص107 /الکاشف، ج1 ص672 /تاریخ عثمان الدارمي عن یحییٰ بن معین، ص52 دار المأمون للتراث۔دمشق)۔
ایک اہم وضاحت: یہاں ایک سوال ہو سکتا ہے کہ امام عثمان بن سعید الدارمی کے حوالے سے بیان ہوا کہ یحییٰ بن معین نے ’’عبدالواحد بن زیاد‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ : ’وہ ثقہ ہیں‘‘، لیکن امام عُقیلی(متوفی 322ھ) نے کتاب الضعفاء میں اور ان کے بعد امام ذہبی نے بھی میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ : ’’قال عثمان بن سعید سألتُ یحییٰ عن عبدالواحد بن زیاد فقال: لیس بشيء‘‘ عثمان بن سعید (دارمی) کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین سے عبدالواحد بن زیاد کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا : وہ کچھ بھی نہیں ۔
(الضعفاء للعقیلي، ج3 ص55، دار الکتب العلمیۃ بیروت /میزان الاعتدال، ج2 ص672، دار المعرفۃ)
تو عرض ہے کہ عُقیلی کو یہاں وہم ہوا ہے، اور امام ذہبی نے بھی عُقیلی سے ہی یہ بات میزان الاعتدال میں نقل کردی،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عثمان الدارمی نے یحییٰ بن معین سے یہ بات ’’عبدالواحد بن زیاد‘‘ کے بارے میں نہیں بلکہ ’’عبدالواحد بن زید‘‘ کے بارے میں نقل کی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ہم عثمان بن سعید الدارمی کی ’’تاریخ دارمی‘‘ دیکھتے ہیں تو اس میں جہاں ’’عبدالواحد بن زیاد‘‘ کا ذکر ہے وہاں یحییٰ بن سعید سے یہی نقل کیا ہے کہ ’’عبدالواحد ثقۃ‘‘ عبدالواحد ثقہ ہیں (دیکھیں: تاریخ عثمان الدارمي عن یحییٰ بن معین، ص52 ، راوی نمبر52 دار المأمون للتراث۔دمشق) لیکن اس کے بعد جہاں ’’عبدالواحد بن زید‘‘ کا ذکر آتا ہے وہاں الفاظ یہ ہیں : ’’وسألتہ عن عبدالواحد بن زید، فقال: لیس بشيء‘‘ کہ میں نے یحییٰ بن معین سے عبدالواحد بن زید کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: وہ کچھ نہیں (دیکھیں : تاریخ عثمان الدارمي عن یحییٰ بن معین، ص148 ، راوی نمبر 506)۔
امام ابن ابی حاتم نے بھی ’’الجرح والتعدیل‘‘ میں جب ’’عبدالواحد بن زید‘‘ کا تعارف کروایا ہے تو یحییٰ بن معین کی یہ بات نقل کی ہے کہ ’’وہ کچھ نہیں‘‘، اور اس کے بعد ’’عبدالواحد بن زیاد‘‘ کے ترجمہ میں یحییٰ بن معین سے یہی نقل کیا ہے کہ ’’عبدالواحد ثقہ ہیں‘‘۔ (الجرح والتعدیل، ج6 صفحۃ 20 – 21) ۔
نیز خود امام ذہبی نے میزان الااعتدال میں اسی جگہ ’’عبدالواحد بن زیاد‘‘ کے ترجمہ میں یحییٰ بن معین سے ان کی توثیق بھی بایں الفاظ نقل کی ہے ’’ورویٰ عثمان ایضاً عن یحییٰ : ثقۃ، وقال : لیس بہ بأس‘‘ عثمان (دارمی) نے یحییٰ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ وہ (عبدالواحد بن زیاد) ثقہ ہیں، نیز انہوں نے کہا کہ : ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے بعد امام ذہبی نے اگلے راوی ’’عبدالواحد بن زیدبصري‘‘ کے ترجمہ میں پھر عثمان دارمی کے حوالے سے یحییٰ بن معین کی وہی بات نقل کی ہے کہ : ’’لیس بشيء‘‘ (وہ کچھ بھی نہیں)۔
(میزان الاعتدال، ج2 ص672 – 673)
عاصم بن کُلیب بن شہاب الجرمي الکوفي
امام احمد سے منقول ہے کہ آپ نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ یحییٰ بن معین اور امام نسائی نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ ابوحاتم نے انہیں ’’صالح‘‘ (یعنی اچھی حدیث والا) کہا۔ امام ابوداؤد نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ’’وہ عبادت گزار لوگوں میں سے ہیں‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا ’’وہ اہل کوفہ میں سب سے افضل ہیں‘‘۔ ابن حِبان، عِجلی اور ابن شاہین نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ احمد بن صالح نے بھی انہیں ’’ثقہ اور ثبت‘‘ کہا۔ ابن سعد نے کہا کہ ’’وہ ثقہ ہیں اور حجت ہیں‘‘۔ ان کی وفات سنہ137ہجری میں ہوئی۔
(الجرح والتعدیل، ج6 ص349 /تاریخ الاسلام، ج3 ص674 /تہذیب التہذیب، ج5 ص 55 /ثقات ابن حِبان، ج7 ص256 /معرفۃ الثقات للعِجلی، ج2 ص10 /الکاشف، ج1 ص521 /التاریخ الکبیر،ج6 ص487 /تاریخ اسماء الثقات لابن شاہین، ص220)۔
فائدہ: عاصم بن کلیب کے بارے میں بعض لوگوں نے کہا ہے وہ مرجئی تھے، لیکن حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں ابوعبیدالآجری کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے امام ابوداؤد سجستانی سے پوچھا: ’’کیا عاصم بن کلیب مرجئی ہیں؟‘‘ تو امام ابودؤد نے فرمایا ’’لا أدري‘‘ میں نہیں جانتا۔ جس سے معلو م ہوتا ہے کہ ان کی طرف مرجئی ہونے کی نسبت یقینی نہیں، بہرحال مرجئی ہونا راوی کی وثاقت کے منافی نہیں ۔ اسی طرح کتب رجال میں عاصم بن کلیب کے بارے میں علی ابن المدینی کا یہ قول بھی ملتا ہے کہ آپ نے فرمایا : ’’لا یُحتج بہ اذا انفرد‘‘ جب وہ کسی حدیث کوبیا ن کرنے میں اکیلے ہوں (یعنی ان کے علاوہ اور کوئی وہ حدیث بیان نہ کرتا ہو) تو وہ حجت نہیں۔ اگرچہ ابن المدینی نے انہیں مطلقاً ضعیف یا ناقابل اعتبار نہیں فرمایا، لیکن ہماری زیر بحث حدیث وہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کررہے ہیں جس میں نزولِ عیسیٰ u کا ذکر ہے اور یہ بات حضرت ابوہریرہؓ سے بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی روایت کی ہے جس میں سے کچھ احادیث ہم نے بھی ذکر کیں۔ اس طرح وہ یہ بات روایت کرنے میں اکیلے نہیں۔
کلیب بن شہاب الجرمي
ابن مندۃ، ابو نعیم اور ابن عبد البر نے انہیں صحابہ میں شمار کیا ہے۔ لیکن ابوحاتم رازی، امام بخاری، ابوزُرعۃ، ابن سعد اور ابن حبان نے انہیں تابعین میں شمار کیا ہے۔ ابوزُرعۃ نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا ہے۔ ابن سعد کہتے ہیں کہ ’’وہ ثقہ ہیں ، اور میں نے دیکھا ہے کہ ائمہ حدیث ان کی حدیث کو اچھا سمجھتے اوراس سے حجت پکڑتے ہیں‘‘۔ عجلی اور ابن حبان نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔
(الجرح والتعدیل، ج7 ص167 /تاریخ الاسلام، ج2 ص992 /تہذیب التہذیب، ج8 ص 445 /ثقات ابن حِبان، ج3 ص356 /معرفۃ الثقات للعِجلی، ج2 ص228 /الکاشف، ج2 ص159 /التاریخ الکبیر،ج7 ص229 /معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم، ج5 ص2396 /الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب، ج2 ص185 دار الفکر بیروت /أسد الغابۃ، ج4 ص470 دار الکتب العلمیۃ بیروت /الاصابۃ ، ج9 ص368 دار ہجر، القاہرۃ)۔
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.