تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

عشق کے قیدی

(قسط:۹)

ظفر جی

قسمتِ شہباز و شاہیں
27 فروری ․․․․ 1953 ء ․․․․ کراچی
ہم سویرے سویرے ہی سنٹرل جیل پہنچ گئے ۔چاند پوری نے پہلے تو وَارڈن کو اچھی خاصی تبلیغ کی ، جب وہ ٹس سے مس نہ ہوا تو منّت سماجت کی۔ اس پر بھی دال نہ گلی تو ایک بھاری سی تھیلی جیب سے نکال کر اس کی جب میں گھسیڑی اور کہا:
” پورے 5 روپے کا بھان ہے۔ اب روک کے دکھا۔ ”
وارڈن بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ رات کو گرفتار ہونے والے مولویوں کی پہلی ملاقات اس قدر قیمتی بھی ہوسکتی ہے ۔ پانسو ” ٹیڈی پیسہ” بخشیش لے کر اُس نے جیل کا گیٹ کھول دیا۔سونا اُس دور میں 400 روپے فی تولہ تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہم جیل کے اے کلاس وارڈ میں بیٹھے ماسٹرتاج الدین انصاری صاحب کی بپتا لکھ رہے تھے :
“بھائی ہم تو بسمِ اللّٰہِ مجرٖھا و مُرسٰھا پڑھ کر پولیس کی گاڑیوں میں سوار ہوگئے۔ حکومت سے یہی امید تھی ۔اگر بھاگنا ہوتا تو دفتر کا پچھلا دروازہ کھلا تھا اور پولیس بھی اُدھر موجود نہ تھی، لیکن ایسی اسیری پر سو آزادیاں قربان کہ جس کا تعلق ناموسِ رسالت سے ہو۔جیل یاترا ہمارے لئے نئی بات نہیں۔ ہماری بیشتر زندگی جیل خانوں میں ہی کٹی ہے ۔ہم یہاں کے ادب آداب سے خوب واقف ہیں۔ بلکہ ان جیل خانوں میں مولوی کا آنا بھی باعثِ رحمت ہے۔ ایک مدت کے بعد آج یہاں اذانِ فجر گونجی ہے ۔باجماعت نماز ہوئی ہے ۔باقی رہا جیل افسران کا رویہ !تو ہم جانے پہچانے قیدی ہیں جو پورا ہندوستان گھوم پھر کر واپس جیل میں آ جاتے ہیں ۔اب تک تو اچھا برتاؤ ہوا۔ سونے کو پلنگ مل گئے۔ صبح کے ناشتے میں ڈبل روٹی آگئی۔ چائے آ گئی۔ وہی چائے جس کا ذائقہ کیکر کی مسواک جیسا ہوتا ہے۔ ” انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔
ماسٹر تاج الدین انصاری لدھیانہ کے ایک بہت بڑے رئیس تھے ۔ تقسیم کے وقت لدھیانہ سے پاکستان جانے والے تمام مسلمانوں کو بخیریت پاکستان بھیج کر سب سے آخر میں خودپاکستان آئے ۔ پاکستان تشریف لے آئے تومہاجر کیمپ کے انچارج بنائے گئے۔ اگر نومولود ریاست میں اپنا کاروبار شروع کرتے تو یقیناً کروڑ پتّی ہوتے، لیکن مجلس احراراسلام کے فقیرمنش رہنماؤں سے دوستی ہوئی تو پوری زندگی تحفظ ختم نبوت کے لیے مرزائیت کے خلاف لڑتے ہوئے گزار دی۔ اس جرمِ عظیم اورتحریک آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں پہلے انگریز کی قید و بند برداشت کرتے رہے ۔اب پاکستان کے ناعاقبت اندیش مسلمان حکمرانوں کی قید بھگت رہے تھے۔
” سیاسی گرفتاری کے سبب فی الحال تو جیل کیA کلاس وارڈ میّسر آئی ہے ۔میز کرسی چارپائی سب کچھ مہیّا ہے۔ کافی کھلا کمرہ ہے۔ ماشاء اﷲ دوپلنگ اور چھت والا پنکھا بھی ہے۔ یہ وہی کمرہ ہے جہاں کبھی مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر تحریک خلافت کی پاداش میں قید رکھے گئے تھے۔ فرق بس اتنا ہے کہ پنجرے وہی ہیں، اسیر بدل گئے ہیں ۔پہلے یہاں انگریز کے باغی رکھے جاتے تھے اور اب ذُریّتِ انگریز کے باغی قید ہیں۔باقی جس زندان میں حضرت عطاء اﷲ شاہ بخاری جیسے زندہ دل موجود ہوں۔ صاحبزادہ فیض الحسن جیسے خوش مزاج سجادہ نشیں تشریف فرماء ہوں۔ شمسی صاحب جیسا سراپا ہنگام نوجوان موجود ہو اور ہمارے جیسے بذلہ سنج موجود ہوں وہاں اسیری چیز ہی کیا ہے ! ”
ہے اسیری اعتبار افزاء جو ہو فطرت بلند                                     قطرۂ نیساں سے ہوتی ہے صدف میں ارجمند
مُشکِ ازفر چیز کیا ہے اک لہو کی بوند ہے                                            مُشک ہو جاتی ہے ہو کے نافۂ آہو میں بند
ہم ماسٹر صاحب کی بپتا لکھ رہے تھے کہ جیل سپریٹنڈنٹ ادھر آ نکلا۔ اس کے ہاتھ میں ڈنڈے کی بجائے تسبیح تھی۔ اس نے کمرے میں جھانک کر پوچھا:
” پیر صاحب کہاں تشریف فرما ہیں ؟”
ماسٹر صاحب نے اشارے سے ساتھ والے کمرے کا بتایا۔
” کون سے پیر صاحب؟” چاند پوری نے حیرت سے پوچھا
” اپنے مولانا عبدالحامد بدایونی صاحب۔ جیل سپریٹنڈنٹ کا پورا خاندان ان کا مرید ہے۔ ” ماسٹر صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
“کمال ہے ،پِیر صاحب جیل میں اور مُریدجیل کا سپریٹنڈنٹ ہے ،ابھی تک یہ گستاخ جل کے بھسم نہیں ہوا! ”
اتنی دیر میں وارڈن نے آکر اطلاع دی کہ سپریٹنڈنٹ صاحب دوسرے کمرے میں بلا رہے ہیں۔ ہم بدایونی صاحب کے کمرے میں چلے آئے ۔ جیل سپریٹنڈنٹ پیر صاحب کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھا تھا۔
“میرے لائق کوئی خدمت ہو تو حکم کیجئے ، رہائی کے علاوہ۔ ” سپریٹنڈنٹ نے کہا۔
“ہم رہائی چاہتے بھی نہیں ۔” پیر صاحب نے کہا۔ “اگر ہو سکے تو ہمارے لئے ایک الگ کچن بنوا دیجئے اور کچا رَاشن دے دیجئے۔ ہم اپنا کھانا خود پکائیں گے۔ جیل کا کھانا ہمارے مزاج کا نہیں ہے۔ ”
ٹھیک نصف گھنٹے بعد جب ہم جیل خانے سے باہر آ رہے تھے تو مستری اور مزدور اِینٹ، سیمنٹ لئے جیل کے سامنے کھڑے تھے ۔ پیر صاحب کی کرامات کا ظہور ہو چکا تھا۔ہم شہر کی صورتحال جاننے کے لئے صدر کی جانب روانہ ہوگئے ۔شہر بھر میں ہڑتال تھی اور تمام مارکیٹیں اور ٹرانسپورٹ بندتھی۔بند رروڈ پر عوام کا ایک بحر بیکراں موجزن تھا۔ یہ جمعیت علماء اسلام کا جلوس تھا جو صدر کی طرف روانہ تھا۔ ہم جلوس کو چیرتے بمشکل سیون ڈیز تک پہنچے ۔ سامنے جامع کلاتھ کی طرف سے جمعیت علماء پاکستان کا جلوس چلا آ رہا تھا۔ سیون ڈیز سے ہم صدر کی طرف گھومے تو اِدارہ تحفظِ حقوق شیعہ کا جلوس ایمپریس مارکیٹ کے سامنے کھڑا تھا۔ عوام پرجوش تھے اور پولیس پریشان۔تقریباً چھے سات ہزار نفوس یہاں جمع تھے ۔ پولیس کی صرف چھے گاڑیاں اور ایک ٹرک جلوس کا راستہ روکے ہوئے تھے ۔ ایک پولیس انسپکٹر وائرلیس پر کمشنر کراچی اے ٹی نقوی کو صورتحال بتا رہا تھا۔
“سر ہجوم بڑھ رہا ہے، ہمارے پاس فورس بہت کم ہے ․․․․ اوور!”
“اگر یہ لوگ پرامن احتجاج کرتے ہیں تو اُن کو کرنے دو ․․․․ اوور! ”
” سر !یہ لوگ گرفتاریاں دینا چاہتے ہیں ․․․․ اوور ! ” انسپکٹر نے کہا۔
“ٹھیک ہے جو گرفتاری دینا چاہتا ہے۔اسے گرفتار کر لو ․․․․اوور”
“لیکن سر! ہمارے پاس گاڑیاں صرف تین ہیں اور یہاں چھے سات ہزار آدمی کھڑے ہیں۔ مزید لوگ بھی آ رہے ہیں۔”
“باری باری سب کو بٹھا کر جیل خانے چھوڑ آؤ ․․․․ اوور ”
ہجوم جو پہلے ہی بے تاب کھڑا تھا ، پولیس گاڑیوں پر ٹوٹ پڑا۔ پل بھر میں چھے موبائل وین اور ایک ٹرک کھچاکھچ بھر چکے تھے ۔یہ سب لوگ جیل جانا چاہتے تھے ۔جیل انتظامیہ ایک ساتھ اتنے قیدی سنبھالنے کو تیار نہ تھی۔ قید کرنے کے لئے اچھی خاصی ضابطے کی کاروائی کرنا پڑتی ہے ۔ انسپکٹر نے ایک بار پھر اے ۔ٹی ۔نقوی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا ” ٹھیک ہے۔ بغیر اندراج کے اندر جانے دو۔”
اس پر ہجوم تمام رکاوٹوں کو توڑتا جیل خانے میں گھس گیا۔ انوکھا منظر تھا کہ ہر کوئی عشق کا قیدی بننا چاہتاتھا۔بڑے تو بڑے بچّے تک گھروں سے اسیری کے لئے تیّار ہو کر آئے تھے ۔ پہلے دِن چار ہزار مسلمانوں نے خود کو گرفتاری کے لئے پیش کیا۔ کراچی سینٹر جیل کسی ریلوے پلیٹ فارم کا منظر پیش کرنے لگی۔ ہر شخص یہاں اپنے لئے ایک مناسب پنجرے کی تلاش میں تھا ، جہاں قید ہو کر وہ ختمِ نبوت کے اسیروں میں اپنا نام لکھوا سکے ۔
ہر کسی کی تربیّت کرتی نہیں قدرت مگر

Wکم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام و قفس سے بہرہ مند
M شہپرِ زاغ و زغن دربندِ قید و صید نیست

Mایں سعادت قسمتِ شہباز و شاہیں کردہ اند
9 28 فروری ․․․․ 1953 ․․․․ کراچی
دُوسرے دِن شہر پھر بند ہوا۔آج پولیس کے دوٹرک تین لاریاں اور آٹھ ویگنیں آئی ہوئی تھیں۔صبح نو بجے جلوسوں کی آمد شروع ہوئی۔تھوڑی ہی دیر میں ایمپریس مارکیٹ سے لے کر ڈرگ روڈ تک سر ہی سر نظر آنے لگے ۔ ڈرگ روڈ شاہراہِ فیصل کا پرانا نام ہے ۔ لوگ گرفتاری دینے کے لئے ٹرکوں اور لاریوں پر چڑھ گئے ۔ ہر شخص کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح گرفتار ہو کر جیل پہنچنے میں کامیاب ہو جائے ۔پولیس قیدیوں کو لے کر سینٹر جیل پہنچی تو ایک نئی مصیبت کھڑی ہو گئی۔ جیل سپرینٹنڈنٹ نے قیدیوں کو لینے سے صاف انکار کر دیا۔ جیل کا گیٹ بند کر کے تالہ لگا دیا گیا۔
” انسپکٹر صاحب! یقین کریں، ہمارے پاس بالکل گنجائش نہیں ہے ۔” جیلر نے کہا۔
” سر! آپ انہیں جیل کے احاطے میں بٹھا دیں۔” پولیس انسپکٹر نے منّت کی۔
” بھائی احاطے میں کیسے بٹھا دوں۔ اتنے لوگوں کا کھانا کون پورا کرے گا؟”
“لیکن میں ان کو کہاں لے کر جاؤں ؟” انسپکٹر نے بے چارگی سے کہا۔
“یہ آپ کمشنر صاحب سے پوچھو۔ جنہوں نے گرفتاری کے احکامات دیے ہیں۔”
انسپکٹر وائرلیس پر کمشنر کراچی اے ۔ ٹی۔ نقوی سے رابطہ کرنے لگا۔
” ایچ کیو وَن ․․․ ایچ کیو وَن ․․․․ سر جیلر صاحب قیدیوں کو ایکسپٹ نہیں کر رہے ․․․․اووَر ۔!”
” کتنے لوگ ہیں یہاں․․․․ اووَر! ” کمشنر صاحب نے پوچھا۔
” سر یہاں تو تقریباًتین سو کے لگ بھگ ہیں،لیکن صدر میں ایک لاکھ آدمی کھڑا ہے ․․․․ اوور!”
” تمہارے پاس کتنے ٹرک ہیں !”
“سر !فی الحال دو ٹرک اور تین لاریاں ہیں!”
“ایسا کرو انہیں لاریوں میں بٹھاؤ اور کراچی سے دس کلومیٹر دُور چھوڑ کر آ جاؤ !”
“کہاں چھوڑ کے آنا ہے سر !”
“کراچی سے دُور چھوڑ آؤ ، کہیں بھی ․․․ اوور !!!”
“اوکے سر ! اووَر اینڈ آؤٹ۔”
اس کے بعد انسپکٹر لاریوں میں بیٹھے ہوئے مستانوں سے مخاطب ہوا:
“سنو! آپ سب کو حیدر آباد جیل بھیجنے کا آڈر ملا ہے۔ اگر کوئی واپس جانا چاہتا ہے تو ابھی اُتر جائے۔”
کوئی ایک شخص بھی لاریوں سے نیچے اترنے پہ آمادہ نہ ہوا۔
عاشقوں کا قافلہ انجانی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ پولیس وین بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ دو گھنٹے کی مسافت کے بعد یہ قافلہ کراچی سے تقریباً آٹھ دس کلومیٹر دُور ایک ویرانے میں جا کر رُک گیا۔
“سب لوگ نیچے آ جاؤ بھائی۔” پولیس والے نے کہا۔
“کیا حیدر آباد آگیا ؟ “ایک بزرگ نے پوچھا۔
” حیدرآباد کا آرڈر کینسل ہو گیا ہے ۔اب یہیں اُترو ۔”
“لیکن تم نے تو حیدر آباد جیل لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔ ” قیدیوں نے شور کیا۔
” حیدر آباد جیل میں گنجائش نہیں ہے بابا جی! جلدی کرو ،ہم نے باقی قیدیوں کو بھی لے کر آنا ہے۔ ”
قیدی اطمینان سے نیچے اترنے لگے ۔یہاں دُور دُور تک کوئی آبادی نہ تھی۔ ہر طرف ٹیلے ، کھائیاں ، صحراء، تھوہر اور کانٹے دار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔لاریاں قیدیوں کو اِس ویرانے میں اتار کر واپس چلی گئیں۔لوگ اس بے آب و گیاہ صحرا کو چیرتے واپس کراچی کی طرف ہو لئے۔ ان میں ستر اَسی سالہ بوڑھے بھی تھے اور سات آٹھ سال کے بچّے بھی۔ عام دیہاڑی دار مزدور بھی تھے اور متموّل لوگ بھی۔ بریلوی بھی تھے ، اہلحدیث بھی ، دیوبند ی بھی اور شیعہ بھی، لیکن اس وقت یہ سب اس راہِ عشق کے مسافر تھے ،جس کے کانٹے بھی پھول معلوم ہوتے ہیں۔سارا دِن کراچی کی پولیس قیدیوں کو لاریوں اور ٹرکوں میں ڈال کر کراچی سے باہر ویرانوں میں چھوڑتی رہی اور سارا دن عشق کے مسافر پیدل چل کے واپس کراچی پہنچتے رہے ۔پولیس کا رویّہ قیدیوں کے ساتھ دوستانہ تھا اور قیدی بھی کسی سے الجھ نہیں رہے تھے ۔ ہر کوئی اپنی اپنی ذمّہ داری نبھا رہا تھا۔ تحریکِ ختمِ نبوت کے پروانوں کی تربیّت کا بنیادی جزو ہی برداشت اور قربانی تھا۔
ایک پھیرے کے دوران جب پولیس قیدیوں کو ویرانے میں اتارنے لگی تو اُن میں ایک ننھا منا سا بچّہ بھی تھا۔ سفید قمیص میں ملبوس ،یہ پھول سا بچّہ جانے کب چپکے سے لاری میں سوار ہوگیا اور اب ویرانے میں کھڑا مسلسل “تاج و تختِ ختمِ نبوت ․․․․زندہ باد” کے نعرے لگا رہا تھا۔ پولیس افسر انسپکٹر شجاع بلوچستان کا رہنے والا اور بال بچّے دار آدمی تھا۔ جب سب قیدی اُتر چکے تو اُس ننّھے بچے کو دیکھ کر شجاع کا دل پسیجا ، اُس نے ڈرائیور کو لاری روکنے کا کہا۔
” آؤ بیٹا!میں تمہیں گھر چھوڑ آؤں ۔” انسپکٹر لاری سے نیچے اتر آیا۔
” نہیں، میں ساتھیوں کے ساتھ پیدل ہی آؤں گا۔ ” بچّے نے جواب دیا۔
“لیکن بیٹا تم اتنا پیدل نہیں چل سکو گے۔آجاؤ میرے ساتھ۔”
“کبھی نہیں، میری ماں نے مجھے ناموسِ رسالت ﷺ پر قربان ہونے کے لئے بھیجا ہے۔ ”
بالآخر انسپکٹر نے ڈرائیور کو لاری بڑھانے کا حکم دے دیا۔ابھی وہ بمشکل نصف کلومیٹر ہی چلے تھے کہ انسپکٹر کو پھر بچّے کا خیال آ گیا۔ اس نے ڈرائیور کو گاڑی واپس موڑنے کا حکم دیا۔ انسانی ہمدردی ، اسلامی جذبہ یا پدرانہ شفقت تھی کہ انسپکٹر شجاع ایک بار پھر بچّے کی منّت زاری کر رہا تھا۔
“بیٹا میرے ساتھ آ جاؤ، دیکھو ضِد نہیں کرتے۔ ”
ساتھی رضاکاروں نے بھی بچّے کو سمجھایا کہ لاری میں بیٹھ جاؤ ، تمھاری حاضری ہو گئی، لیکن وہ نہ مانا اور تنک کر بولا :”آپ لوگ زیادہ ایمان والے ہو اور مجھے کمزور سمجھتے ہو۔ میں ہرگز نہیں جاؤں گا ! ”
آخر درماندہ دل انسپکٹر ہار گیا اور عشق کا یہ ننھا پھول جیت گیا۔
کیا تمازت ، دھوپ کیسی ، اور کہاں کی حدتیں

Mان کا دامن تھام لو پھر حشر تک سایہ بہت
خیبرمیل
29 فروری ․․․․ 1953
ہم خیبرمیل پر بیٹھ کر لاہور کے لئے روانہ ہوئے ۔
“خیبر میل وہ گاڑی ہے جو اس پاک دھرتی پر 1947ء سے چل رہی ہے ” چاند پوری نے بتایا۔
” اور مزے کی بات یہ ہے کہ نہ تو آج تک وقت پر آئی ہے ، نہ ہی وقت پر پہنچ پائی ہے۔ ” میں نے کہا۔
“یہ گاڑی کا نہیں ․․․․ ریلوے انتظامیہ کا قصور ہے ۔”
“70 سال سے انتظامیہ بھی تو نہیں بدلی۔ باپ فوت ہوا تو بیٹا بیٹھ گیا ۔بیٹا فوت ہوا تو پوتا بیٹھ گیا۔ ”
اندرون سندھ تک تو کوئی خاص رش نہ تھا ، لیکن جونہی پنجاب شروع ہوا، ایک میلے کا سا سماں بندھ گیا۔ہر طرف ختم نبوت کے سبز جھنڈوں اور بینروں کی بہار تھی۔ کیا شہر اور کیا گاؤں ہر طرف ایک جوش اور ولوہ دکھائیی دے رہا تھا۔ صبح چھے بجے ہم رحیم یارخان پہنچ گئے ۔یہاں 15 منٹ کا سٹاپ تھا۔
چاند پوری اخبار کی تلاش میں نکلے اور کچھ دیر بعد ’’نوائے وقت‘‘ لے کر لوٹے ۔
” ایک کاپی ’’زمیندار‘‘ کی بھی لے آتے؂بِک گیا تھا کیا ؟ ”
” بکا نہیں بند ہو گیا ہے ۔’’زمیندار‘‘ بند۔’’ آزاد‘‘ بند۔’’ چٹان‘‘ بند۔’’ احسان بند‘‘۔ ہر وہ اخبار جو ختمِ نبوت کی بات چھاپتا تھا، سرکار نے بند کر دیا ہے ! ”
ایک دیہاتی بزرگ پلیٹ فارم پر لوئی لپیٹ کر کھڑے تھے ۔ ہماری بات چیت سن کر پاس چلے آئے ۔
” کتھوں آ رہے او پائی جی ؟”
(کہاں سے آرہے ہو،بھائی)
” کراچی سے ․․․․ ”
” کی حالات نیں دارلحکومت دے ۔مجلس والیاں دی کوئی خیر خبر ؟”
(کراچی کے کیاحالات ہیں،مجلس عمل کی کوئی خبر؟)
” مجلس عمل کی قیادت تو گرفتار ہو چُکی بابا۔آپ کو نہیں معلوم ؟ ”
” نئیں پُتّر! اخبار وچ تے نئیں آیا ۔ ایتھے وی سب نوں پھڑ لیا۔”
(نہیں بیٹا! اخبارمیں تو نہیں آیا۔یہاں بھی سب کو پکڑ لیا ہے۔)
“حالات بہت خراب ہیں بابا۔”
” آہو ،مسلم لیگیاں پہلے اسلام دے ناں تے مسلماناں نوں گھروں کڈھیا، تے ہن اسلام دے ناں تے اندر کر ریے نیں ۔ ”
(جی ہاں!مسلم لیگیوں نے پہلے اسلام کے نام پر مسلمانوں کو بے گھرکیااوراب اسلام ہی کے نام پر جیلوں میں ڈال رہے ہیں۔)
” اندھیر نگری ہے بابا ․․․․ اندھیر نگری !”
” آہو تے ہور کی ۔ پہلے بابے قائد اعظم نوں بنیرے لایا ۔فیر لیاقت علی خان دا کنڈا کڈھیا، تے ہن مُلک دا بیڑہ غرق کرن دا پروگرام ایں ۔پہلے مسلم لیگ سی ۔ہن مرزائی لیگ بن گئی اے ”
(ہاں تو اورکیا۔پہلے قائداعظم کو کنارے لگایا،پھر لیاقت علی خان کا کانٹانکالا اوراب ملک کو تباہ کرنے کا پروگرام ہے۔پہلے مسلم لیگ تھی ،اب مرزائی لیگ ہے۔)
کراچی میں مجلس کے رہنماؤں کی گرفتاری خفیہ رکھی گئی تھی۔ یہاں تک کہ اخبارات کو بھی خبر نہ مل سکی۔ ٹیلی فون ضرور کھڑکائے گئے ،لیکن یہ آلہ بھی ان دنوں خاص خاص دفاتر میں ہی بجتا تھا۔ اگلے دن پنجاب بھر میں گرفتاریوں کی لہر چل نکلی۔ جگہ جگہ چھاپے پڑے تو عوام کو پتا چلا کہ تحریکِ ختم نبوت کا کڑا مرحلہ “ڈائریکٹ ایکشن” شروع ہو چکا ہے ۔چاند پوری نے اخبار میری گود میں پھینکا اور پڑھنے کا حکم نامہ جاری کیا ۔
” لاہور میں سرظفراﷲ خان کا جنازہ ”
” کیا ! ․․․․ فوت ہو گئے ؟ ” وہ ایک دم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے ۔
” نہیں جناب! دیال سنگھ کالج لاہور کے طلباء نے کل لاہور میں سرظفراﷲ خان کا ایک علامتی جنازہ نکالا۔ اس موقع پر احمدی اور غیر احمدی طلباکے بیچ شدید پتھراؤ ہوا۔ متعدد طلبازخمی ۔”
انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر سیٹ سے پشت لگا لی۔
“قُلفی والا ․․․․․ ٹھنڈی قلفی ․․․․ چائے والا ․․․․ گرم چائے ۔․․․” پلیٹ فارم پر صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔
” اور کوئی خبر ؟ ” انہوں نے پوچھا۔
” قلفی کتنے کی ہے ؟ ” میں نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر پوچھا۔
“اک پائی دِیاں دو ۔ ”
(ایک پائی کی دو۔)
” ایک پائی نکالئے گا ۔” میں نے قلفی پکڑتے ہوئے چاند پوری سے کہا۔
“یار !تم مجھے پائی پائی کا محتاج کر کے چھوڑو گے۔ فروری میں کون کھاتا ہے قلفیاں ؟ ” انہوں نے ہاکر کو پائی کا سکّہ پکڑاتے ہوئے کہا۔
“پچھلے اسٹیشن سے جو پکوڑے کھائے تھے ،وہ گرمی کر رہے ہیں۔ ”
“اب اگلے اسٹیشن پر سردی نہ دُور کرنے لگ جانا۔ پڑھو آگے ۔ ”
” لاہور( نامہ نگار) نارتھ ویسٹرن ریلوے ورکشاپ میں ایک احمدی نے ایک غیر احمدی کے سر میں قُلفی مار کے، اوہ سوری،سریا مار کے شدید زخمی کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق احمدی کو کئی روز سے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ احمدی روپوش۔ پولیس ملزم کا سراغ لگا رہی ہے۔ ”
“پولیس تو صدیوں سے سراغ ہی لگا رہی ہے ۔چھپ گیا ہوگا ۔ربوہ میں جا کر۔ آگے پڑھئے ۔”
“لاہور میں رات بھر جلسے ۔احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں۔ ”
“ماشاء اﷲ! لاہور ابھی تک چٹان بن کر کھڑا ہے ․․․․ اور کچھ ؟”
” ساہیوال میں غیر احمدیوں نے دو احمدی مبلغین کے منہ کالے کر دیے ۔ ”
“پہلے سفید تھے!اچھا ․․․․ اورکچھ ؟ ”
” لاہور میں ایک غیر احمدی دوکاندار نے ایک احمدی عورت کو آٹا فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔”
” گھٹیا خبر ․․․․․ اور کچھ ؟”
“سنّت نگر کے ایک پرائمری سکول میں ایک احمدی بچّے کو چند غیر احمدی بچّوں نے گھیر لیا ․․․․ تھپڑ مارے ․․․․ اور مرزائیت مردہ بادکے نعرے لگائے ۔ ”
” اندازہ کرو یار! اگر یہی حالات رہے تو مسلم اور غیر مسلم کی اصطلاح ختم ہو جائے گی۔ احمدی اور غیر احمدی ہی رہ جائے گا۔ ”
” ویسے حیرت ہے کہ ملک میں ابھی تک کوئی بڑا فساد یا تشدّد کا واقعہ نہیں ہوا۔ ” میں نے کہا۔
” تین سال تک علماء نے عوام کی تربیّت کی ہے۔ تب اُن کو سڑکوں پر لے کے نکلے ہیں ۔ورنہ آج قادیانیوں کے محلوں سے دھواں نہ اٹھ رہا ہوتا۔ ”
ملتان اسٹیشن پر چاند پوری اترے ، اور واپسی پرحضرت امیرشریعت کے فرزند مولانا سید ابوذر بخاری کا اخبارسہ روزہ’’ مزدور” لے کر پلٹے ۔
” بری خبر ․․․․ مولانا محمد علی جالندھری گرفتار ․․․․ اﷲ رحم کرے ! ”
انہوں نے اخبار کھولتے ہوئے کہا۔
” اس کا مطلب ہے ملتان میں بھی تحریک زوروں پر ہے۔ ” میں نے کہا۔
’’ جی بالکل، ملتان نے تو پہلا خون پیش کیا ہے۔ اس تحریک میں تقریباً سال بھر پہلے کا واقعہ ہے۔ 19؍ جولائی 1952ء اسی ملتان شہر میں ختم نبوت کے پر امن جلوس کو خاک وخون میں تڑپایا گیا تھا …… پندرہ منٹ میں 70 گولیاں چلائی گئیں۔ جس سے 6 افراد شہید ہوئے اور 15 زخمی۔ اس واقعہ پر کمال کی نظم لکھی تھی ایک شاعر نے اور وہ نظم ہر جلسے میں پڑھی جاتی تھی …… سناؤں ؟‘‘
” جی جی ․․․ ضرور ․․․ ” میں نے کہا۔
چاند پوری پُورے ترنّم سے نظم پڑھنے لگے :
ملتان کے شہیدو ۔ ملتان کے ستارو
ملتان تُم پہ قُرباں
ملتان تم پہ نازاں
مسرور ہو گئی ہیں، ملتان کی فضائیں
پرنور ہو گئی ہیں، ملتان کی فضائیں
ملتان مسکرایا
ملتان جگمگایا
ملتان جھومتا ہے
ملتان چومتا ہے
نقشِ قدم تمہارے ملتان کے دلارو
ملتان کے شہیدو ملتان کے ستارو
” واہ ․․․ سبحان اﷲ ․․․․ نظم بھی خوب ہے اور آپ کا ترنّم بھی قابلِ داد ”
” آداب ․․․․ آداب ! ” چاند پوری کھِل اُٹھے ۔
” لکھی کس نے تھی اتنی خوبصورت نظم ؟”
” لاہور کا ایک مست حال شاعر ہے ․․․․ ساغر صدیقی ! ”
” ساغر صدیقی ؟ “واہ ․․․․ سبحان اﷲ ! ”
” یہ سچّے رب کی عطاء ہے بھائی !جو بات بڑے بڑے عالی دماغ نہ سمجھ سکے۔ رب تعالیٰ نے ایک خانماں برباد ، مست حال شاعر کو سمجھا دی۔ خوش نصیب ہے ،وہ شخص، جو ختمِ نبوت کے کام میں کہیں نہ کہیں استعمال ہو گیا اور انتہائی بدنصیب ہے وہ انسان، جو اِس تحریک کے سامنے پتھر کا بُت بن کر کھڑا ہو گیا۔ ”
خیبر میل ہمیشہ کی طرح لیٹ ہو گئی ۔تقریباً مغرب کا وقت تھا اور ٹرین ساہیوال میں کھڑی تھی۔نوجوانوں کی ایک ٹولی ٹرین کے ڈبّے میں سوار ہوئی اور ہر طرف نعروں کا شور مچ گیا۔تاج و تخت ختم نبوت ․․․․ زندہ باد ۔مولانا شفیع اوکاڑوی ․․․․ زندہ باد ۔نوجوانوں ہی کی زبانی ہمیں معلوم ہوا کہ مولانامحمد شفیع اوکاڑوی بھی اسیر ہو چکے ہیں۔ان کو ساہیوال جیل میں رکھا گیا تھا۔ اب یہ لوگ تحریک میں شامل ہونے کے لئے لاہور جا رہے تھے ۔چاند پوری گاڑی سے اترے اور کچھ ہی دیر بعد “ڈان”اخبار بغل میں دبائے واپس آئے ۔
” یہ کیا ؟ اب آپ ڈان پڑھیں گے ؟ یہ تو حکومتی اخبار ہے۔ ”
” جب پانی کا بہاؤ اُلٹا ہو تو کبھی کبھی چپّو چھوڑ کر لہروں کا مشاہدہ بھی کرنا چاہیے۔ ”
” وہ تو ٹھیک ہے ،لیکن کم از کم اخبار تو سیدھا پکڑ لیجئے ۔”
گاڑی ابھی چلی نہ تھی کہ ریڈ (Raid)ہو گیا۔ ایک پولیس پارٹی بوگی میں داخل ہوئی اور شور کیا :
” چلو باہر نکلو، مولبی لوگ سب باہر نکلو، جلدی ! ”
نوجوانوں کی ٹولی نعرے لگاتے ہوئے گاڑی سے نیچے اترنے لگی۔
ایک پولیس والا تیر کی طرح ہمارے پاس آیا اور بولا:
“سُنا نہیں، مولوی لوگ، نیچے اترو سب۔ ”
چاند پوری چشمے سے جھانکتے ہوئے بولے ۔
” پروفیسر آفتاب چاند پوری ․․․․ کچھ ہم سے کہا آپ نے ؟؟ ”
” نہیں، نہیں، سر آپ بیٹھیں ۔ہم تو مولویوں کو اتار رہے تھے۔ لاہور میں ہنگامے شروع ہو گئے ہیں۔”
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.