تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

معارف الحدیث

مولانامحمد منظور نعمانی رحمتہ اﷲ علیہ
شرم و حیا: شرم وحیا ایک ایسا اہم فطری اور بنیادی و صف ہے جس کو انسان کی سیرت سازی میں بہت زیادہ وخل ہے یہی وہ وصف اور خلق ہے جو آدمی کو بہت سے برے کاموں اور بری باتوں سے روکتا اور فواحش و منکرات سے اس کوبچاتا ہے اور اچھے اور شریفانہ کاموں کے لیے آمادہ کرتا ہے الغرض شرم و حیا انسان کی بہت سی خوبیوں کی جڑ بنیاد اور فواحش و منکرات سے اس کی محافظ ہے۔ اسی لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم و تربیت میں اس پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔
اس سلسلہ کے آپ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھیے اور اس وصف کو اپنے اندر پیدا کرنے اور ترقی دینے کی کوشش کیجئے:
عَنْ زَیْدِ بْنِ طَلْحَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اِنَّ لِکُلِّ دِیْنٍ خُلُفاً وَخُلُقُ الْاِ سْلَامِ الْحَیَاءُ۔ رَواہ مَالکٌ مُرسلاٍ وَرَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ وَالبیہقی فی شعب الایمانِ عَنْ اَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ۔
ترجمہ: زید بن طلحہ سے روایت ہے وہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہر دین کا کوئی امتیازی و صف ہوتا ہے اور دین اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے۔
(مؤطا امام مالک۔ سنن ابن ماجہ وشعب الایمان للبیہقی)
تشریح: مطلب یہ ہے کہ ہر دین اور ہر شریعت میں اخلاق انسانی کے کسی خاص پہلو پر نسبتاً زیادہ زور دیا جاتا ہے اور انسانی زندگی میں اسی کو نمایا اور غالب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم اور شریعت میں رحمدلی اور عفوو درگزر پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے (یہاں تک کہ مسیحی تعلیمات کا مطالعہ کرنیوالے کو صاف محسوس ہوتا ہے کہ رحمدلی اور عفو و درگزر ہی گویا ان کی شریعت کا مرکزی نقطہ اور ان کی تعلیم کی روح ہے اسی طرح اسلام یعنی حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اور تعلیم میں حیا پر خاص زور دیا گیا ہے۔
یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں حیا کا مفہوم بہت وسیع ہے ہمارے عرف اور محاورہ میں تو حیا کا تقاضا اتنا ہی سمجھا جاتا ہے کہ آدمی فواحش سے بچے یعنی شرمناک باتیں اور شرمناک کام کرنے سے پرہیز کرے لیکن قرآن و حدیث کے استعمالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حیاطبیعت انسانی کی اس کیفیت کا نام ہے کہ ہر نامناسب بات اور ناپسندیدہ کام سے اس کو انقباض اور اس کے ارتکاب سے اذیت ہو، پھر قرآن و حدیث ہی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حیا کا تعلق صرف اپنے انباء جنس ہی سے نہیں ہے بلکہ حیا کا سب سے زیادہ مستحق وہ خالق و مالک ہے جس نے بندہ کو وجود بخشا اور جس کی پروردگاری سے وہ ہر آن حصہ پارہا ہے اور جس کی نگاہ سے اس کا کوئی عمل اور کوئی حال چھپا نہیں ہے۔ اس کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ شرم و حیا کرنیوالے انسانوں کو سب سے زیادہ شرم و حیا اپنے ماں باپ کی اور اپنے بڑوں اور محسنوں کی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ سب بڑوں سے بڑا اور سب محسنوں کا محسن ہے لہٰذا بندہ کو سب سے زیادہ شرم و حیا اسی کی ہونی چاہیے اور اس حیا کا تقاضا یہ ہوگا کہ جو کام اور جو بات بھی اﷲ تعالیٰ کی مرضی اور اس کے حکم کے خلاف ہو آدمی کی طبیعت اس سے خود انقباض اور اذیت محسوس کرے اور اس سے باز رہے اور جب بندہ کا یہ حال ہو جائے تو اس کی زندگی جیسی پاک اور اس کی سیرت جیسی پسندیدہ اور اﷲ کی مرضی کے مطابق ہوگی ظاہر ہے۔
(اس حدیث کو امام مالک رحمہ اﷲ نے موطا میں زید بن طلحہ تابعی سے مرسلاً روایت کیا یہ (یعنی ان صحابی کا ذکرنہیں کیا جن سے یہ حدیث زید بن طلحہ کو پہنچی تھی) لیکن ابن ماجہ اور بیہقی نے اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دو صحابیوں حضرت انس رضی اﷲ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے)۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَاَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّعَلیٰ رَجُلٍ مِنَ الاَنْصَارِ وَ ھُوَ یَعِظُ اَخَاہُ فِی الْحَیَاءِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعْہُ فَاِنَّ الْحَیَا ءَ مِنَ الاِیْمانِ۔ (رواہ البخاری و مسلم)
ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا گذر انصار میں سے ایک شخص پر ہوا، اور وہ اس وقت اپنے بھائی کو حیا کے بارہ میں کچھ نصیحت و ملامت کر رہا تھا۔ تو آپ نے اس سے فرمایا کہ: اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ حیا تو ایمان کا جز یا ایمان کا پھل ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انصار میں سے کوئی صاحب تھے جن کو اﷲ تعالیٰ نے شرم و حیا کا و صف خاص طور سے عطا فرمایا تھا جس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے معاملات میں نرم ہوں گے، سخت گیری کے ساتھ لوگوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ بھی نہ کرتے ہوں گے اور بہت سے موقعوں پر اسی شرم و حیا کی وجہ سے کھل کر باتیں بھی نہ کر پاتے ہوں گے جیسا کہ اہل حیا کا عموماً حال ہوتا ہے اور ان کے کوئی بھائی تھے جو ان کی اس حالت اور روش کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک دن یہ بھائی ان صاحبِ حیا بھائی کو اس پر ملامت اور سرزنش کر رہے تھے کہ تم اس قدر شرم و حیا کیوں کرتے ہو، اسی حالت میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ان دونوں بھائیوں پر گزر ہوا اور آپ نے ان کی باتیں سن کر ملامت و نصیحت کرنے والے بھائی سے ارشاد فرمایا کہ اپنے ان بھائی کو ان کے حال پر چھوڑ دو ان کا یہ حال تو بڑا مبارک حال ہے، شرم و حیا تو ایمان کی ایک شاخ یا ایمان کا پھل ہے اگر اس کی وجہ سے بالفرض دنیا کے مفادات کچھ فوت بھی ہوتے ہوں تو آخرت کے درجے بے انتہا بڑھتے ہیں۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْحَیَا ءُ مِنَ الاِ یمَانِ وَالاِ یمانُ فِی الجنَّۃِ وَالبَذَا ءُ مِنَ الجَفَاءِ وَالجَفَاءُ فِی النَّارِ۔ (رواہ احمد والترمذی)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: حیا ایمان کی ایک شاخ ہے (یا ایمان کا ثمرہ ہے) اور ایمان کا مقام جنت ہے اور بے حیائی و بے شرمی بدکاری میں سے ہے اور بدی دو زخ میں لے جانے والی ہے۔ (مسند احمد، جامع ترمذی)
تشریح: اس حدیث میں اور اس سے پہلی حدیث میں بھی جو ’’الحیاء من الایمان‘‘ فرمایا گیا ہے بظاہر اس کا مطلب یہی ہے کہ شرم و حیا شجر ایمان کی خاص شاخ یا اس کا ثمرہ ہے صحیحین کی ایک دوسری حدیث میں(جو کتاب الایمان میں گذر چکی ہے) فرمایا گیا ہے ’’وَالحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الایمَان‘‘ (اور حیا ایمان ہی کی ایک شاخ ہے )بہر حال حیا اور ایمان میں یک خاص نسبت اور خاص رشتہ ہے اور یہ سب اسی کی تعبیریں ہیں اور اسی کی ایک تعبیر وہ بھی ہے جو اس سے بعد والی حدیث میں آرہی ہے۔
عَنِ ابن عُمَرَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسلَّمَ قَالَ اِنَّ الْحَیَاءَ وَالاِیْمَانَ قُرَنَاءُ جمِیْعاً فَاِذا رُفِعَ اَحَدُ ھُمَا رُفِعَ الاخَرُ۔ (ررواہ البیہقی فی سعب الایمان)
ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: حیا اورایمان یہ دونوں ہمیشہ ساتھ اور اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔
تشریح: مطلب یہ ہے کہ ایمان اور حیا میں ایسا گہرا تعلق ہے کہ اگر کسی آدمی یا کسی قوم میں سے ان دونوں میں سے ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھ جائے گا الغرض کسی شخص یا جماعت میں حیاء اور ایمان یا تو دونوں ہوں گے یا دونوں میں سے ایک بھی نہ ہوگا۔
عَنَ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْحَیَاءُ لَا یَاتِیْ اِلَّا بِخَیْر۔
(رواہ البخاری ومسلم)
ترجمہ :حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حیا صرف خیر ہی کو لاتی ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح: بعض اوقات سرسری نظر میں یہ شبہ ہوتا ہے کہ شرم و حیا کی وجہ سے آدمی کو کبھی کبھی نقصان بھی پہنچ جاتا ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اسی شبہ کا ازالہ فرمایا ہے اور آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ شرم و حیا کے نتیجہ میں کبھی کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ بلکہ ہمیشہ نفع ہی ہوتا ہے حتیٰ کہ جن مواقع پر ایک عام آدمی کو عامیانہ نقطہ نظرسے نقصان کا شبہ ہوتا ہے وہاں بھی اگر ایمانی اور اسلامی وسیع نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بجائے نقصان کے نفع ہی نفع نظر آئے گا۔
یہاں بعض لوگوں کو ایک اور بھی شبہ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ شرم وحیا کی زیادتی بعض اوقات دینی فرائض ادا کرنے سے بھی رکاوٹ بن جاتی ہے، مثلاً جس آدمی میں شرم و حیا کا مادہ زیادہ ہو وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فرائض ادا کرنے اور اﷲ کے بندوں کو نصیحت کرنے اور مجرموں کو سزا دینے جیسے اعلیٰ دینی کاموں میں بھی ڈھیلا اور کمزور ہوتا ہے۔ لیکن یہ شبہ دراصل ایک مغالطہ پر مبنی ہے انسان کی طبیعت کی جو کیفیت اس قسم کے کاموں کے انجام دینے میں رکاوٹ بنتی ہے وہ دراصل حیا نہیں ہوتی بلکہ وہ اس آدمی کی ایک فطری اور طبعی کمزوری ہوتی ہے لوگ ناواقفی سے اس میں اور حیا میں فرق نہیں کرپاتے۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالقَالَ رَسوُلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِمَّا اَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَامِ النُّبُوَّۃ الاُوْلیٰ اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنُعْ مَاشِئْتَ۔ (رواہ البخاری)
ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگلی نبوت کی باتوں میں سے لوگوں نے جو کچھ پایا ہے اس میں سے ایک یہ مقولہ بھی ہے کہ ’’جب تم میں شرم و حیا نہ ہو، تو پھر جو چاہو کرو‘‘۔
(صحیح بخاری)
تشریح: انبیائے سابقین کی پوری تعلیمات اگرچہ محفوظ نہیں رہیں لیکن ان کی کچھ سچی پکی باتیں ضرب المثل کی طرح ایسی مقبول عام اور مشہور عام ہوگئیں کہ سیکڑوں ہزاروں برس گزرنے پر بھی وہ محفوظ اور زباں زد خلائق رہیں، انھیں میں سے ایک تعلیم یہ بھی ہے جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ تک بطور ضرب المثل لوگوں کی زبان پر چڑھی ہوئی تھی ’’اِذَالَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَاشِئْتَ‘‘ جس کو فارسی میں کہا جاتا ہے ’’بے حیا باش دہرچہ خواہی کن‘‘ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہوسلم نے اس حدیث میں تصدیق فرمائی کہ یہ حکیمانہ اور نا صحانہ مقولہ اگلی نبوت کی تعلیمات میں سے ہے۔
(مطبوعہ: معارف الحدیث، ج:۶، ص:۲۸۵……۲۹۰)

یٔ یٔ یٔ یٔ

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.