تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

عشق کے قیدی

(قسط:۶)                                      ظفر جی 

دسترخوان
5 فروری ․․․․․ 1953ء ․․․․ موچی گیٹ لاہور․․․!!!
ہم دربار پیر مراد شاہ کے سامنے کھڑے تھے ۔یہاں اچھی خاصی رونق تھی۔چِکَّڑ چھولے… مرغ چھولے…گرم انڈے …گجک… چائے …نئے آنے والے مہاجرین کا سلسہ عروج پر تھا۔چاند پوری ایک ایک ٹھیلے کی زیارت کرتے آگے بڑھتے جا رہے تھے ۔ وہ کہیں سے مُٹّھی بھر چنّے اٹھاتے ، کہیں سے تھوڑی گجک اور کہیں سے ریوڑی پھانکتے ۔ میں مناسب فاصلہ رکھ کر اُن کی تقلید کئے جا رہا تھا۔
” حضور !کہیں جم کے کھانا بھی ہے یا یونہی گائے کی طرح چرنا ہے۔ ” میں نے آواز لگائی۔وہ چلتے چلتے رک کر بولے :
” ہائے کیا یاد دلا دیا ․․․․ اﷲ کا شکرہے کہ جس نے ہمیں پاکستان دیا ․․․․ لُدھیانہ میں ہم گائے ذبح نہیں کر سکتے تھے ․․․․ جب کہ سؤر سرعام بکتا تھا ․․․․․ چلو یار آج گائے کے پائے کھاتے ہیں ۔”
ہم ایک طویل چکّر کاٹ کر شاہ عالمی کے قریب “غوثیہ سری پائے والا” کے پاس جا پہنچے ۔ بابا غوث کو سلام کر کے ہم ریہڑی کے پاس بچھی میلی کچیلی صف پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے ۔
“صاحب !تھوڑی مدد کر دیں ” ایک مفلوک الحال شخص ہمارے سر پر آن کھڑا ہوا۔ اُس کی دائیں کلائی پر بلیڈ، یا اُسترے کا ہلکا سا گھاؤ لگا ہوا تھا۔ جو کسی قدر تازہ دکھائی دیتا تھا۔میں نے جیب سے ایک پائی نکال کر اُسے دینا چاہی تو وہ ہاتھ میں پکڑا پرچہ بڑھاتے ہوئے بولا:
“خیرات نہیں چاہیے صاحب! اخبار پڑھوانا ہے۔ ”
“کمال ہے ․․․ جب پڑھ نہیں سکتے تو کیوں خریدتے ہو اَخبار ؟ ”
” ثواب کا کام ہے صاحب! وہ ہمارے لئے ہی لکھتے ہیں ۔ہم ایک پیسے میں خریدتے ہیں اور ایک آنہ پڑھوائی کا دیتے ہیں ۔” وہ ایک آنہ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔
“رہنے دیجئے ․․․․ بیٹھئے ․․․ میں مفت پڑھ دیتا ہوں۔ ”
” 17 دن باقی ہیں ! حکومت کے لئے کڑا اِمتحان ” میں نے’’ زمیندار‘‘ کی سرخی پڑھی۔
” افسوس یار !”ڈان” اور “سول” پڑھنے والے حکمران اس آتش فشاں سے بے خبر سو رہے ہیں جو چند ہی روز میں پھٹنے والا ہے۔ ” چاند پوری نے کہا۔
اس دوران بابا غوث ڈبل روٹی اور دو لبالب پیالے لے آیا جن میں پائے غوطہ زن تھے ۔ میں اخبار بچھانے لگا تو وہ بولا:
” بیٹا! کھانا کھانے کے لئے “زمیندار” نہیں بچھاتے ․․․ یہ لو انگریجی اخبار !!! ”
میری نظر بابا غوث کے بازو پر پڑی۔ جس پر بھی بلیڈ کا تازہ گھاؤ نمایاں تھا۔
“بابا ․․․․․ بازو پر یہ کٹ کیسا ؟ ”
” خون دے کر آیا ہوں پُتّر !!! ”
” کس کو دے کر آئے ہیں خون ؟” میں بڑبڑایا۔
“تحریک کو ․․․․ ” یہ کہ کر بابا ایک دوسرے گاہک کی طرف متوجہ ہو گیا۔
” میں بتاتا ہوں ․․․․․ باباغوث ختم نبوت کا فارم اپنے خون سے بھر کے آیا ہے ۔․․․ کیوں بابا ؟ ” چاند پوری نے کہا۔
” کیا کرتا پُتّر ․․․ جس دیس کے لئے گھربار چھوڑا ․․․ دو گبھرو پُتّر ذبح کرائے ․․․ اُسے مرزائیوں کے حوالے کر دوں ؟؟ کل رب پوچھے گا کہ غوث محمد ․․․کالی کملی والے ﷺ کے تخت پر قبضہ ہو رہا تھا ․․․ اور تُواپنے نان پاؤ بیچتا رہا ․․․!!! ”
صرف غوث محمد ہی نہیں ہر مسلمان کا یہی جذبہ تھا۔کُل جماعتی مجلسِ عمل تحفظ ختم نبوت تحریک کے لئے رضاکار بھرتی کر رہی تھی۔ کیمپوں کے سامنے عوام کے ٹھٹھ لگے ہوئے تھے ۔لوگ کلائیوں پر گھاؤ لگا کر خون سے فارم پُر کر رہے تھے ۔نمازِ عصر کے بعد جلسے کا آغاز ہوا۔ آج بے حساب حاضری تھی۔ موچی گیٹ بھر گیا تو سڑک کے کنارے لوگوں کے سروں کی قطار نظر آنے لگی۔ تاحدِ نگاہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ کرسیٔ صدارت پرمولانا ابوالحسنات سیّد احمد قادری تشریف فرما تھے ۔ ہم جلسے میں پہنچے تو مجلسِ احراراسلام پاکستان کے بزرگ رہنما ماسٹر تاج الدین انصاری کا خطاب عروج پر تھا:
” ختمِ نبوت کے پروانو !آج سے ہم ملک بھر میں مرزائیوں کے سوشل بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہیں ۔!آئیے اور ہمارا ساتھ دیجئے ۔ اس بیمار وجود کو جسم سے کاٹ پھینکئے جو اُمت کے لئے سرطان بن چکا ہے ۔مجلس اپنا پروگرام بنا چکی ۔۔ہم صف آراء ہو چکے ۔ اب دنیا کی کوئی طاقت ہمیں بڑھنے سے نہیں روک سکتی اور جوبھی ہمارے راستے میں آئے گا ،خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ ہمارا ایمان ہے کہ حق فتح یاب ہوگا اور باطل کو شکست ہو گی۔ان شاء اﷲ ۔اﷲ ہمارے ساتھ ہے ۔محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی امّت ہمارے ساتھ ہے۔ کس کی جرأت ہے کہ ہمارے راستے کی دیوار بنے ۔کون کم بخت ایسا ہے جو اس طوفان کا راستہ روک سکے ؟کون شقی ایسا ہے جو ہماری راہ میں کانٹے بچھائے ؟حکمرانو! ہم عزیمتوں کے خوگرہیں۔ ہتھکڑیاں پہنے ایک عرصہ گزرچکا،بیڑیوں کو زنگ لگ چُکا ۔ہم احرار پھر اُن کی جھنکار سننا چاہتے ہیں ۔پھر وہی زیور پہننا چاہتے ہیں ۔تم نے کیا سمجھا کہ انگریز چلا گیا تو مجلسِ احراراسلام کے سُرخ پوش رضاکاربھی خاموش ہو گئے۔ہم نے ختم نبوت کے تحفظ کے لیے سیاست کو خیربادکہاہے ،مگر اسلام اورختم نبوت کے تحفظ کی خاطرہم ہمہ وقت مستعد اورتیارہیں۔جس ملک میں مرزائی حاکم ہوں اور مسلمان غلام وہاں احرارخاموش نہیں بیٹھ سکتے ۔تمہارے جیل خانے اورپھانسی گھاٹ ہمارے لیے نئے نہیں ہیں۔ہمیں قید خانوں میں رہنا منظور ہے ،لیکن رسول اﷲﷺ کی ختمِ نبوت پر کوئی سمجھوتا پہلے کبھی گوارا تھا ،نہ اب ہمیں منظورہے نہیں ۔ہم تاجِ نبوت کی خاطر ہر کڑی سن کڑی آزمائش کے لیے تیار ہیں ․․․․ تیّار ہیں ․․․․ تیّار ہیں :
تو ذرا چھیڑ تودے تشنۂ مضراب ہے ساز

Iنغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
Á رات گئے جلسہ ختم ہوا تو بھوک سے انتڑیاں سکڑ رہی تھیں۔ ہم بھوک مٹانے سداکراں بازار کی طرف چلے گئے۔ یہاں ایک طرف کھلے میدان میں بہت بڑا خیمہ اورقناتیں لگا کر ہوٹل بنایا گیا تھا۔ دُور دُور تک اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
”یہ ہوٹل شاید نیا کھلا ہے ․․․․ آؤ ذرا اِس کا ذائقہ بھی چکھتے ہیں۔” چاند پوری نے کہا۔
“خوشبو تو لاجواب ہے ․․․ دیکھیں پکوان کیسا ہو ”
پنڈال کے اندر بہت سے لوگ کھانا تناول کر رہے تھے ۔ ہم بھی ایک دستر خوان پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے ۔
ایک خشخشی داڑھی والا نوجوان ہماری طرف آیا اور بولا:
” جناب آپ اس طرف تشریف لے آئیں ․․․․ شرفاء کے لئے وہاں کرسیاں لگائی گئی ہیں۔”
چاند پوری پھڑک کر بولے “کمال کرتے ہو صاحب! ہوٹل میں شرفاء اور غرباء کی تقسیم ؟”
“یہ ہوٹل نہیں جناب !مرزا کلیم بیگ کا احمدی دسترخوان ہے ․․․․ فی سبیل اﷲ۔ ”
چاند پوری ایک دم کھڑے ہو گئے اور کہا :
“آپ کو پہلے بتانا چاہیے تھا ․․․ اﷲ کا شکر ہے ہم نے کچھ کھا پی نہیں لیا ․․․․”
” کیا ہو گیا حضرت !ہم بھی اُسی رسولﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں ․․․․․․ آپ کی طرح نماز ادا کرتے ہیں ․․․․․․ قرآن و حدیث پڑھتے ہیں ۔”
” مسلیمۂ کذاب کی امت بھی یہ سارے افعال انجام دیتی تھی ․․․․ شکریہ ہم چلتے ہیں ․․․ ”
” چلیں آپ کی نظر میں ہم کافر ہی سہی ․․․․ مذہبِ انسانیت کا رشتہ تو ہے ․․․․ آخر ہندو مشرک کا پکا ہوا حلوہ بھی تو مسلمان کھا لیتے تھے ․․․ یہ تو پھر بھی حلال پکوان ہے ․․․ غیراحمدی قصاب سے گوشت لاتے ہیں ہم ۔”
” بات حلال حرام کی نہیں مرزا صاحب! اصول کی ہے ․․․․ قادیانیوں نے اسلام کے مقابلے میں ایک ڈپلی کیٹ مذہب ایجاد کیا ہے ․․․․ دن دیہاڑے ڈاکہ مار کر ختم نبوت کا تالہ توڑا ہے ․․․․ اور بجائے اپنے اس فعل پر شرمندہ ہونے کے فخر کرتے ہیں ․․․․․ گوشت بھلے حلال جانور کا ہو ․․․․ ذبیحہ بے شک مسلمان کے ہاتھ کا ہو ․․․․ لیکن جب وہ کسی نبوت کے ڈاکو کے دسترخوان پر سجتا ہے تو ازخود حرام ہو جاتا ہے ․․․․ ”
مرزا کلیم منہ دیکھتے رہ گئے اور ہم پنڈال چھوڑ کر باہر آ گئے ۔رات 1 بجے ہم بابا غوث کی ریڑھی پر پہنچے ۔
“بابا دو پیالے سری پائے دینا۔ ” چاند پوری نے آرڈر دیا۔
“پُت! سری پائے تو ختم ہو گئے ․․․․ چکڑ چھولے آ بس۔ ” بابا نے عاجزی سے کہا۔
“ٹھیک ہے ․․․․ وہی لے آؤ۔”
” احمدی دسترخوان کی خوشبو یہاں تک آ رہی ہے ۔” میں نے ٹھنڈی ڈبل روٹی توڑتے ہوئے کہا۔
چاند پوری ایک ٹھنڈی سانس لے کربولے :
” جدید دور کے یہ مسیلمے پہلے دسترخوان پر بٹھاتے ہیں ․․․․ پھر شادی نوکری اور اچھے مستقبل کا جھانسہ دیتے ہیں ․․․․ پھر مرزا قادیانی کی مسیحیت کا قائل کرتے ہیں ․․․․ پھر مہدویت کی دلدل میں اتارتے ہیں ․․․․ اور جب بندہ گلے گلے تک دھنس جاتا ہے تو مرزا کی نبوت کا اقرار کرا کے نبی ﷺ کی محبت بھی چھین لیتے ہیں ․․․․ جو ایک گنہگار ترین مسلمان کی آخری پونجی ہے ۔ اس لئے قسطوں میں ایمان لٹوانے سے بہتر ہے بندہ غوث محمد کے حلال چکڑ چھولے ہی کھا لے !! ”
سیّد کے آنسو
16 فروری ۔۔۔۔ 1953ء ۔۔۔۔ لاہور
پورے شہر میں ہُو کا عالم تھا۔ایسی ہڑتال کہ ہنستا بستا لاہور شہرِ خموشاں کا منظر پیش کرنے لگا۔دکانیں ، منڈیاں،ریڑھیاں،ٹھیلے سب اُلٹے پڑے تھے ۔آج وزیرِ اعظم کی لاہور آمد کا امکان تھا۔ صرف ایک رات پہلے مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے چند علماء منڈیوں کے ٹھیکیداروں سے ملے اور ایک دن کے لئے کاروبار بند رکھنے کی درخواست کی۔ تاکہ تحریکِ ختم نبوت کا پیغام حکومت کے کانوں تک پہنچایا جا سکے ۔عصر کے بعد ہم ’’زمیندار‘‘ کے ایڈیٹر مولانا اخترعلی خان کی گاڑی میں بیٹھ کر شہر کے حالات دیکھنے نکلے ۔علامّہ مظفرعلی شمسی اور جناب ماسٹر تاج الدین انصاری ہمراہ تھے ۔بہار کی آمد آمد تھی۔آسمان پر بسنت کی پتنگوں کا راج تھا اور شہر میں ختمِ نبوت کے پروانوں کا۔
بیرونِ دہلی گیٹ سے ابھرتی ہوئی کسی نعت خوان کی مترنّم آواز ماحول کو مزید پرکیف بنا رہی تھی۔
دُنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا

Uمیں لبھ کے لے آواں کتھوں سوہنا تیرے نال دا
= شہر میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے جلوس نظر آئے ۔ مولانا اخترعلی خان گاڑی روکتے اور انہیں جلد سے جلد جلسہ گاہ پہنچنے کی تاکید کرتے۔ سِول لائن پہنچے تو ڈی اے وی اسلامیہ کالج کے سامنے کچھ کشیدگی نظر آئی۔ مولانا صاحب کار روک کر ہارن بجانے لگے ۔ایک پولیس آفیسر بھاگتا ہوا ہماری گاڑی کے قریب آیا۔
“نعیم الدین کیا مسئلہ ہے ؟ سڑک کیوں بلاک ہے ؟؟ ” مولانا اختر نے دریافت کیا۔
” حضرت !ڈی اے وی کالج کی چھت سے کچھ لڑکوں نے مظاہرین پر پتھراؤ کیا ہے ․․․ ہم صورتحال کو کنٹرول کر رہے ہیں ”
” ایک منٹ ․․․․ میں سمجھاتا ہوں ۔” یہ کہہ کر علّامہ شمسی گاڑی سے اتر کر مظاہرین کی طرف گئے اور انہیں متوجہ کر کے کہا:
“حضرات! ․․․․ میری بات سنیں۔ آپ لوگ ختمِ نبوت کے مبارک کام کے لئے آئے ہیں۔ فساد کے لئے نہیں۔”
“ہم نے فساد نہیں کیا حضرت !․․․․ کالج کی چھت سے ہم پر پتھراؤ ہوا ہے۔ ” لڑکوں نے کہا۔
“انہیں اپنا کام کرنے دو ․․․ اور تم اپنا کام کرو ․․․ سب لوگ جلسے میں پہنچو ․․․ ابھی فوراً ․․ ” شمسی صاحب ہدایات دے واپس آگئے ۔
” کالج سے کون پتھراؤ کر رہا ہے ؟؟” میں نے پوچھا۔
” قادیانی ․․․․․ ڈی اے وی پنجاب کا سب سے بڑا کالج ہے ․․․․اور یہاں مکمل طور پر مرزائی قابض ہیں ۔”
” تو مسلمانوں کے بچّے کیوں نہیں پڑھتے یہاں ؟ ” میں نے پوچھا۔
” پابندی ہے ․․․․ صرف مرزائی ہی داخلہ لے سکتا ہے یہاں ۔”
” کمال ہے ․․․․ اس ظلم پر تو سرسیّد جیسا روشن خیال بھی چیخ اٹھتا! ”
شمسی صاحب واپس پلٹے تو ہم نے شہر کا ایک لمبا چکّر لگایااور گھوم کر واپس بیرونِ دہلی گیٹ پہنچ گئے ۔یہاں انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور امیرِ شریعت سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کا روح پرور خطاب اپنے جوبن پر تھا :
” مرزا بشیرالدین محمود! 1952گزر گیا ہے ۔آ دیکھ! بخاری آج بھی تیرے سامنے چٹان کی طرح کھڑا ہے ۔ الحمدﷲ !!!اُنیس سو باون تیرا تھا ۔ 53 میرا ہے !!!قادیانی تخت اُلٹا جا رہا ہے ۔ انشاء اﷲ یہ تخت اب نہیں رہے گا۔تم کذاب نبی کے بیٹے ہو ۔ تو میں صادق نبیﷺ کا نواسہ پردے سے باہر آؤ ۔ اردو ، پنجابی ، فارسی ہر زبان میں مجھ سے بحث کر لو ۔یہ جھگڑا آج ہی ختم ہو جائے ۔تم موٹر پر بیٹھ کے آؤ۔ میں ننگے پاؤں آؤں گا ۔تم ریشم وحریر اورپرنیاں پہن کر آؤ ۔ میں کھدّر پہن کے آؤں گا ۔تم مزعفر،کباب ،یاقوتی اور پلومر کی ٹانک وائن[شراب] چڑھا کر آؤ ۔میں جو کی روٹی کھا کر آؤں گا۔ تُم اپنے ابّا کی ’’سُنّت‘‘ پوری کرو۔میں اپنے نانا کی سنّت پوری کروں گا۔”
نعرۂ تکبیر ۔ اﷲ اکبر !!!تاج وتخت ختمِ نبوت زندہ باد !!!! امیرِ شریعت زندہ باد !!!
لاہور کے درودیواراِن فلک شگاف نعروں سے گونج رہے تھے ۔اس دوران سٹیج کی داہنی طرف مولانا اختر علی خان ایک ضعیفُ العمر شخص کو سہارا دے کر سٹیج کی طرف آتے دکھائیی دیے ۔ امیرِ شریعتؒ نے تقریر اَدھوری چھوڑی ،سٹیج سے اُترے اور اس بزرگ کے استقبال کو دوڑے ․․․․ !!!!”
” کون ہیں یہ بزرگ ؟؟ ” میں نے چاند پوری سے دریافت کیا۔
” مولانا ظفر علی خان ․․․․’’ زمیندار‘‘ اخبار کے مالک اورمدیراعلیٰٰ ․․․․․․ مولاناظفرعلی خان اورامیرشریعت 1920ء میں چلنے والی تحریکِ خلافت سے رفیق تھے ،مولانا مجلس احراراسلام کے تاسیسی اجلاس(1930 )میں بھی شامل رہے ،مگربعدازاں سیاسی راستے جُدا ہو گئے تھے۔ ”
” لیکن’’ زمیندار‘‘ تو تحریک ختم نبوت کامکمل ساتھ دے رہا ہے۔ ” میں نے حیرت کا اظہار کیا۔
” ہاں وہ تو ہے ․․․․ لیکن ظفر علی خان اور حضرت بخاری کے بیچ تحریک مسجد شہید گنج (1935)واقعہ کے بعد مخاصمت تھی جو آج دُور ہو گئی۔ الحمد ﷲ ! ”
امیر شریعت نے مولاناکا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیا، ماتھا چوما ،سینے سے لگایا اور سہارا دے سٹیج پرلے لائے ۔بخاری صاحب کی فرمائش پر مولانا ظفر علی خان مائک پر آئے اور کپکپاتے لہجے میں اپنے ان اشعارمیں احوالِ دِل سنایا:
زکوٰۃ اچھی ، حج اچھا ، روزہ اچھا ، نماز اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہء یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
امیرِ شریعت نے ڈائس پر آکر مجمع سے خود نعرے لگوائے ۔ “تحریک خلافت کا شہسوار… مولانا ظفرعلی خان زندہ باد !!تحریکِ آزادی کا بے باک سالار… مولانا ظفر علی خان …زندہ باد !!!مرزائیت کے سر پر کاری وار… مولانا ظفر علی خان …زندہ باد !!!!مجمع میں شاید ہی کوئی آنکھ ہو جو پُرنم نہ ہوئی ہو۔شاہ صاحب دوبارہ تقریر کرنے لگے تو فضاء میں سائرن کی گونج سنائی دی۔وہ تقریر روک کر کھڑے ہو گئے۔پورا مجمع مُڑ کر شاہراہ کی طرف دیکھنے لگا، جہاں سے ہُوٹر بجاتی سرکاری گاڑیوں کا ایک قافلہ گزررہاتھا۔ وزیرِ اعظم سرگودھا میں شکار کھیل کر واپس آ رہے تھے ۔ مجمع میں سے کسی نے کہا:
” خواجہ صاحب لاہور پہنچ گئے ہیں”
شاہ صاحب پر وجدانی کیفیّت طاری ہوگئی۔ انہوں نے اپنی ٹوپی سر سے اتاری اور گرجے :
” سُنو… سُنو… سُنو… چھوڑو ساری باتیں …لاہور والو …!!!!! کوئی ہے؟؟؟ کوئی ہے جو میری یہ ٹوپی خواجہ ناظم الدین کے پاس لے جائے؟؟”
مجمع سے سسکیوں کی آوازیں آنے لگیں۔
” ہاں… ہاں …جاؤ میری یہ ٹوپی خواجہ ناظم الدین کے قدموں میں ڈال دو ۔یہ ٹوپی آج تک کسی کے سامنے نہیں جھُک۔ کسی انگریز کے سامنے کسی لارڈ کے سامنے نہیں جھکی ۔جاؤ اسے خواجہ کے قدموں میں ڈال دو ۔جاؤ جاؤ اسے بتا دو ۔ہم تیرے سیاسی حریف نہیں ہیں ۔ہم تیرے رقیب نہیں ہیں۔ ہم الیکشن نہیں لڑیں گے ۔تُجھ سے اقتدار نہیں چھینیں گے ۔ !!!!ہاں …ہاں …جاؤ … میری یہ ٹوپی اس کے قدموں میں ڈال کر یہ بھی کہو کہ سرکاری خزانے میں اگر سؤروں کا کوئی ریوڑ ہے تو بخاری وہ ریوڑ بھی چرانے کو تیار ہے ،مگر شرط صرف یہ ہے کہ تم سرورِ کونین فداہ ابی و اُمی ﷺ کی ختم رسالت کا قانون بنا دو،تاکہ کوئی میرے آقا ﷺ کی توہین نہ کر سکے ۔آپ ﷺکی دستارِ ختمِ نبوت پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے ۔”
شاہ صاحب بول رہے تھے اور مجمع بے قابو ہو کر دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔
جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.