تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

معارف الحدیث

مولانا محمد منظور نعمانی رحمتہ اﷲ علیہ

مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت و سَرپرستی:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلسَّا عِیْ عَلَی الْاَ رْمَلَۃِ وَا الْمِسْکِیْنِ کَا لْمُجَاہِدِ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاَحْسِبُہٗ قَالَ کَالْقَائِمِ لَایَفْتَرُّوَ کَا لصَّائِمِ لَایُفْطِرُ [رواہ، البخاری ومسلم]
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بیچاری بے شوہر والی عورت یا کسی مسکین حاجت مند کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا بندہ (اﷲ کے نزدیک اور اجرو ثواب میں) راہِ خدا میں جہاد کرنے والے بندے کے مثل ہے۔ اور میرا گمان ہے کہ یہ بھی فرمایا تھا کہ: اس قائم اللیل (یعنی شب بیدار) بندے کی طرح ہے جو (عبادت اور شب خیزی میں) سستی نہ کرتا ہو،ا ور اس صائم الدہر بندے کی طرح ہے جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہو کبھی ناغہ نہ کرتا ہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح: ہر شخص جو دین کی کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے، جانتا ہے کہ راہ خدا میں جہاد و جانبازی بلند ترین عمل ہے اسی طرح کسی بندے کا یہ حال کہ اس کی راتیں عبادت میں کٹتی ہوں اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتا ہو، بڑا ہی قابل رشک حال ہے۔ لیکن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ اﷲ کے نزدیک یہی درجہ اور مقام ان لوگوں کا بھی ہے جو کسی حاجت مند مسکین یا کسی ایسی لاوارث عورت کی خدمت واعانت کے لیے جس کے سرپر شوہر کا سایہ نہ ہو دوڑ دھوپ کریں، جس کی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خود محنت کر کے کمائیں اور ان پر خرچ کریں اور یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو ان کی خبر گیری اور اعانت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کریں۔ بلاشبہ وہ بندے بڑے محروم ہیں جو اس حدیث کے علم میں آجانے کے بعد بھی اس سعادت سے محروم رہیں۔
عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَاوَکَا فِلُ الْیَتِیْم لَہٗ اَوْلِغَیْرِہٖ فِی الْجَنَّۃِ ھٰکَذَا وَاَشَارَبِالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطیٰ وَفَرَّجَ بَیْنَھُمَا شَیْئًا۔ (رواہ البخاری)
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میں اور اپنے یا پرائے یتیم کی کفالت کرنے والا آدمی جنت میں اس طرح (قریب قریب) ہوں گے اور آپ نے اپنی انگشتِ شہادت اور بیچ والی انگلی سے اشارہ کر کے بتلایا اور ان کے درمیان تھوڑی سی کشادگی رکھی۔ (صحیح بخاری)
تشریح: مطلب یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ والی انگلی اور اس کے برابر کی بیچ والی انگلی اس طرح اٹھا کر کہ ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا بتلایا کہ جتنا تھوڑا سا فاصلہ اور فرق تم میری ان دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہو بس اتنا ہی فاصلہ اور فرق جنت میں میرے اور اس مرد مومن کے مقام میں ہوگا جو اﷲ کے لیے اس دنیا میں کسی یتیم کی کفالت اور پرورش کا بوجھ اٹھائے خواہ وہ یتیم اس کا اپنا ہو (جیسے پوتا یا بھتیجا وغیرہ) یا پرایا ہو یعنی جس کے ساتھ رشتہ داری وغیرہ کا کوئی خاص تعلق نہ ہو۔
اﷲ تعالیٰ ان حقیقتوں پر یقن نصیب فرمائے اور وہ سعادت میسر فرمائے جس کی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان ارشادات میں ترغیب دی ہے۔
عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ قَبَضَ یَتِیْمًا مِنْ بَیْنِ الْمُسْلِمِیْن اِلٰی طَعَامِہٖ وَشَرَابِہٖ اَدْخَلَہٗ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ اَلْبَتَّۃَ اِلَّا اَن یَّکُوْنَ قَدْ عَمِلَ ذَنْبًالَا یُغْفَرْ۔ (رواہ الترمذی)
ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اﷲ کے جس بندے نے مسلمانوں میں سے کسی یتیم بچے کو لے لیا اور اپنے کھانے پینے میں شریک کر لیا تو اﷲ تعالیٰ اس کو ضرور بالضرور جنت میں داخل کرے گا۔ الا یہ کہ اس نے کوئی ایسا جرم کیا ہو جو قابل معافی ہو۔
تشریح: اس حدیث سے صراحۃً معلوم ہوا کہ یتیم کی کفالت و پرورش پر داخلہ جنت کی قطعی بشارت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ آدمی کسی ایسے سخت گناہ کا مرتکب نہ ہو جو اﷲ کے نزدیک ناقابل معافی ہو (جیسے شرک و کفر اور خون ناحق وغیرہ) دراصل یہ شرط اس طرح کی تمام تبشیری حدیثوں میں بطور قاعدہ کلیہ کے اس کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَن مَّسَحَ رَأسَ یَتِیْمٍ لَمْ لَیمسَعْہُ اِلَّا لِلّٰہِ کَانَ لَہٗ بِکُلِ شَعْرَۃٍ یَمُرُّ عَلَیْھَا یَدُہٗ حَسَنَاتٌ وَمَنْ، اَحْسَنَ اِلیٰ یَتِیْمَۃٍ اَو یَتِیْمٍ عِنْدَہٗ کُنْتُ اَنَا وَھُوَفِی الْجَنَّۃِ کَھَا تَیْنَ وَقَرْنَ بَیْنَ اِصْبَعَیْہِ۔ (رواہ احمد والترمذی)
ترجمہ: حضرت ابوامامہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ’’جس شخص نے کسی یتیم کے سر پر صرف اﷲ کے لیے ہاتھ پھیرا تو سر کے جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پڑا تو ہر ہر بال کے حساب سے اس کی نیکیاں ثابت ہوں گی اور جس نے اپنے پاس رہنے والی کسی یتیم بچی یا یتیم بچے کے ساتھ بہتر سلوک کیا تو میں اور وہ آدمی جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح قریب قریب ہوں گے اور آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر بتایا اور دکھایا (کہ ان دو انگلیوں کی طرح بالکل پاس پاس ہوں گے)۔ [مسند احمد، جامع ترمذی]
تشریح: اس حدیث سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ یتیموں کے ساتھ حسن سلوک پر جو روح پرور بشارت اس حدیث میں سنائی گئی ہے وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ یہ حسن سلوک خالصاً لوجہ اﷲ ہو۔ اس کو بھی قاعدہ کلیہ کی طرح اس طرح کی تمام ترغیبی اور تبشیری حدیثوں میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرُ بَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُحسَنُ اِلَیْہِ وَشَرُّ بَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُسَاءُ اِلَیْہِ۔ (رواہ ابن ماجہ)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مسلمانوں کے گھرانوں میں بہترین وہ گھرانہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔ [سنن ابن ماجہ]
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَجُلًا شَکَا اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَسْوَ ۃَ قَلْبِہٖ قَالَ اِمْسَحْ رَأسَ الْیَتِیْمِ وَاَطْعِمِ الْمِسْکِیْنَ۔ (رواہ احمد)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اپنی قساوت قلبی اور سخت دلی کی شکایت کی۔آپ نے فرمایا کہ ’’یتیموں کے سر پر (پیار کا ) ہاتھ پھیرا کرو اور مسکینوں حاجت مندوں کو کھانا کھلایا کرو۔
تشریح: یتیموں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرنا او رمسکینوں ، حاجت مندوں کو کھانا کھلانا دراصل وہ اعمال ہیں جو دل کی درد مندی اور ترحم کے جذبہ سے صادر ہوتے ہیں لیکن اگر کسی کا دل درد مندی اور جذبہ ترحم سے خالی ہو اور اس کے بجائے اس میں قساوت ہو۔ تو اس کا علاج یہ ہے کہ وہ عزم اور قوتِ ارادی سے کام لے کر یہ اعمال کرے، انشاء اﷲ اس کے دل کی قساوت درد مندی سے بدل جائے گی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اسی طریق علاج کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔
(مطبوعہ: معارف الحدیث، ج:۶، ص:۱۰۴……۱۰۹)

یٔ یٔ یٔ یٔ

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.