تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

مجلس احرارِ اسلام ، محاسبۂ قادیانیت اور دعوت اسلام

سید محمد کفیل بخاری

۱۱،۱۲؍ ربیع الاوّل کو مجلس احرار اسلام کے زیر اہتمام چناب نگر میں ۳۹؍ویں سالانہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس منعقد ہورہی ہے۔ جس میں معروف علماء و مشائخ، دانش ور، صحافی، سکالرز، مختلف مکاتب فکر کے رہنما اور عوام شریک ہو رہے ہیں۔ ذیل کی تحریر میں احرار، تحفظ ختم نبوت اور قادیانیوں کو دعوت اسلام کی مناسبت سے مجھے چند معروضات پیش کرنی ہیں۔
ٍ مجلس احرار اسلام اتحاد امت کی داعی جماعت ہے۔ ۲۹؍دسمبر ۱۹۲۹ء کو قائم ہونے والی یہ جماعت آج اپنی عمر عزیز کے ۸۷؍سال مکمل کر رہی ہے۔ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مفکر احرار چودھری افضل حق، مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور مولانا مظہر علی اظہر جیسے عظیم رہنما مجلس کے بانیوں میں شامل تھے۔ پھر شیخ حسام الدین، ماسٹر تاج الدین انصاری، شورش کاشمیری اور صاحبزادہ سید فیض الحسن بھی قافلۂ حریت میں شامل ہو گئے۔ اس طرح یہ جماعت تمام مسالک کی نمائندہ جماعت بن گئی۔ جس میں علماء کے علاوہ ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے۔ انگریز سامراج سے ملک کی آزادی، مسلمانوں کے عقائد و ایمان کا تحفظ، دعوتِ اسلام اور خدمتِ خلق جماعت کے بنیادی مقاصد قرار دیے گئے۔ چنانچہ ان مقاصد کے حصول کے لیے اکابر احرار نے سر دھڑ کی بازی لگا دی، قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں، درجنوں تحریکوں کی قیادت کی، سیاست کے میدان میں پوری قوت سے اترے، ۱۹۳۶ء اور ۱۹۴ء کے انتخابات میں حصہ لیا اور مجلس احرار اسلام پنجاب میں ایک بڑی سیاسی قو ت کے طور پر ابھری۔
اسلام کے خلاف استعمار کا سب سے بڑا فتنہ قادیانیت ہے۔ اس فتنے کے محاسبہ و تعاقب، تردید و مذمت اور اس کے شکار لوگوں کو اسلام کی دعوت کو احرار نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ محدث العصر علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اﷲ نے سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کو ’’امیر شریعت‘‘ منتخب کر کے مجلس احرار اسلام کو تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر سرگرم کیا تھا۔ الحمد ﷲ احرار نے اس محاذ پر جدوجہد کا حق ادا کیا۔۔ اکتوبر ۱۹۳۴ء کی ’’احرار تبلیغ کانفرنس‘‘ قادیان سے لے کر ۱۲؍ربیع الاوّل ۱۴۳۸ھ ؍دسمبر ۲۰۱۶ء کو چناب نگر میں منعقد ہونے والی تحفظ ختم نبوت کانفرنس وجلوس دعوتِ اسلام تک ۸۷ سالہ تحریکی سفر میں احرار کارکنوں اور قائدین نے جس استقامت اور جرأت وایثار کا مظاہرہ کیا‘ وہ اُن کے لیے توشۂ آخرت ہے۔ خصوصاً تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر ۱۹۳۴ء (قادیان) ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء (پاکستان) میں برپا ہونے والی تحاریک مقدس تحفظ ختم نبوت، احرار کی جدوجہد کا حاصل ہیں۔ اس وقت پاکستان میں دینی کام کے حوالے سے جو صورتحال ہے ‘وہ نہایت اہم ہے۔ دینی حلقوں کو اس کامکمل ادراک کرتے ہوئے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ پُر امن آئینی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ پورا مغرب عالمی طاغوت کی قیادت میں اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف متحد ہے۔ ہمیں اس خوف ناک امتحان وآزمائش میں سرخرو ہونا ہے۔ دعوت وتبلیغ کے کام کو مزید بہتر اور منظم کرنا ہے، جو نقصان ہوچکا اُسے یاد رکھنا اور جو بچ گیا اسے باقی رکھنے کی تدبیر وحکمت اختیار کرنا سب سے اہم کام ہے۔ اگر ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہوگئے تو ان شاء اﷲ مستقبل میں اپنے اہداف ضرور حاصل کرلیں گے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی ورسول سیدنا محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو ایمان والوں کے لیے تاقیامت بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگانا اور غیر مسلموں خصوصاً قادیانیوں کو حکمت وموعظت حسنہ کے ساتھ اسلام کی دعوت دینا اور انہیں جنت کے راستے پر گامزن کرنا ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں غیر مسلموں، خصوصاً قادیانیوں کو دعوت اسلام کے نہایت حوصلہ افزا نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ الحمد ﷲ ہماری تھوڑی سی کوشش سے کئی پیدائشی قادیانی مسلمان ہوئے اور مزید محنت جاری ہے۔ اکتوبر ۲۰۱۶ء کو ایوانِ احرار لاہور میں منعقدہ ایک ماہ کے دورۂ تربیت المبلغین میں علماء و مبلغین کی اسی نہج پر تربیت کی گئی۔ شرکا کو دعوت کے قرآنی و نبوی اسلوب، داعی کے اوصاف اور دعوت کے طریقہ کار سے روشناس کرایا گیا۔ موجودہ حالات میں ہمیں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ ،دین کی دعوت اور خدمتِ خلق کے کام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لینا چاہیے۔
گزشتہ دنوں اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت پاکستان کی سندھ اسمبلی نے قبول اسلام کے خلاف قانون پاس کیا ہے۔ یہ ایک شرمناک حرکت ہے جو مسلمان کہلانے والے ارکان اسمبلی نے کی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کسی کا محتاج ہے نہ اس کا دین۔ سندھ اسمبلی کے ارکان صرف اسی بات پر ہی غور کر لیں کہ آج اسلام قبول کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد مغرب کے لوگوں کی ہے۔ کسی کو جبراً اسلام میں داخل کرنے کاتو خود اسلام بھی مخالف ہے لیکن اپنی مرضی سے قبول کرنے والوں کو مسلمانوں کی طرف سے روکنا یقینا مغر ب کا ایجنڈہ ہے۔ کیونکہ مغرب خود فروغ اسلام سے پریشان ہے۔ ہمیں سندھ اسمبلی کے ارکان پر بھی دعوت و اصلاح کی محنت کرنی چاہیے اور انھیں تنہانہیں چھوڑنا چاہیے۔ اسلام کی دعوت، فروغ اور نشرواشاعت کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی، اسلام ہی باقی رہنے والا زندہ دین ہے۔
مجلس احرار اسلام ۱۱،۱۲؍ ربیع الاوّل کو چناب نگر میں یہی فریضہ ادا کرنے کی ایک ادنیٰ سے کوشش اور محنت کرتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں دنیاوی خواہشات سے پاک ہو کر صرف اپنی رضا اور آخرت میں حصولِ فلاح کے لیے جدوجہد کی توفیق عطاء فرمائے، ہمیں اس راستے میں قبول فرمائے اور پیارے وطن پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور امن وسلامتی کا گہوارہ بنائے۔
ء ء ء

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.