حکیم سروسہارن پوری رحمتہ اﷲ علیہ
وہ کون سی منزل تھی، کل رات جہاں میں تھا ہر چیز ہی بسمل تھی، کل رات جہاں میں تھا
کس شان کی محفل تھی، کل رات جہاں میں تھا کونین کا حاصل تھی، کل رات جہاں میں تھا
ذروں کی جبینوں پر تاروں کا گماں گزرا ہر شے مہ کامل تھی، کل رات جہاں میں تھا
اک دید حیراں تھا، ہر عضوِ بدن اپنا کیا چیز مقابل تھی، کل رات جہاں میں تھا
خود دل کا دھڑکنا بھی جب دل پہ گراں گزرے وہ کیفیتِ دل تھی، کل رات جہاں میں تھا
آنکھوں سے کہا جائے، آنکھوں سے سنا جائے وہ صورتِ محفل تھی، کل رات جہاں میں تھا
الفاظ معانی سے محروم نظر آئے ہاں بات بھی مشکل تھی، کل رات جہاں میں تھا
دریائے محبت کی طغیانی کا کیا کہنا ہر موج ہی ساحل تھی، کل رات جہاں میں تھا
ہر نقشِ کفِ پا پر سجدوں کا مزا آیا عرفان کی منزل تھی ، کل رات جہاں میں تھا
اس آئینہ خانے میں ہر ایک ادا ان کی آپ اپنے پہ مائلِ تھی، کل رات جہاں میں تھا
اس کیفِ حضوری میں ، اس عالم نوری میں ہر شے مجھے حاصل تھی ، کل رات جہاں میں تھا
(مطبوعہ:ماہنامہ’’ فیض الاسلام‘‘ راولپنڈی)