جمعۃ المبارک، ۲۳؍ رجب ۱۳۹۸ھ/ ۳۰؍ جون ۱۹۷۸ء، وہاڑی (قسط نمبر۴)
خطاب: مولانا سید ابومعاویہ ابوذر حسنی بخاری رحمتہ اﷲ علیہ
اُمّ المؤمنین سیدہ صفیہ بنت حُیَیِّ بْنِ اخطب سلام اﷲ و رضوانہٗ علیہا:
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک اہلیہ…… جو غزؤ خیبر سات ہجری کے محرم میں قید ہوئیں۔ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، سیدہ صفیہ بنت حُیَیّ بن اخطب اُن کا باپ کافر یہودی، اُن کا پہلا خاوند یہودی، اُن کا دوسرا خاوند یہودی۔ سارا خاندان یہودی، نسل بنی اسرائیل کی، اولاد ہارون علیہ السلام کی، سارا خاندان ویسے ختم ہو گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے جنگ کے اندر اُن کو قیدی بنایا۔ دیکھئے اب کیسے حیلہ بنتا ہے؟ جنگ میں وہ قیدی بنیں، باندی بنیں، ایک صحابی کے حصہ میں آ گئیں۔ مدینہ کو واپسی ہوئی راستے میں باندیاں تقسیم ہوئیں۔ تقسیم کرنا ہی نکاح ہوتا ہے، باندی کا نکاح یوں نہیں ہوتا کہ محفل بنے، یہ دولہا والے ہیں، یہ دلہن والے ہیں۔ نہیں نہیں۔ باندی کو امام، خلیفۃ المسلمین، حاکم وقت، یا جس علاقہ میں جس کمانڈر کے ہاتھوں سے علاقہ فتح ہوا ہو، وہ کمانڈر جب بادشاہ کا نائب ہو کر کسی کو باندی دے دیتا ہے تو یہی باندی کا نکاح ہے۔ تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی باندیاں تقسیم کیں، اُن باندیوں میں وہ بی بی جو تھیں صفیہ بنت حُییّ بن اخطب، وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی ’’دِحْیَہ بن خلیفہ کلبی‘‘ کے حصہ میں آ گئیں۔ اب جو دیکھا صحابہ نے کہ خاندانی عورت، نوجوان، حسینہ، جمیلہ، چلی گئیں دِحْیَہ کلبی کے پاس۔ پتا نہیں کس صحابی کے دل میں آئی۔ عرض کیا یا رسول اﷲ! فرمایا: کیا بات ہے؟ ’’کہ یہ لڑکی تو آپ کے قابل تھی، (یہودی بنی قریظہ و بنی نضیر اور اہلِ خیبر کے سردار کی بیٹی ہے)۔ فرمایا: میں تو تقسیم کر چکا ہوں! دیکھا نبی کو آپ نے؟ خاندانی لڑکی ہے، حسین و جمیل ہے، سردار کی بیوی ہے، سردار کی بیٹی ہے، ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے، کیا دنیا کا کوئی سالار یا کمانڈر ہوتا اس کی نگاہ سے کوئی حسین عورت چھوٹ سکتی تھی؟ وہ سب سے پہلے اپنی فوج کو حکم دیتا کہ تم جاؤ جہنم میں، میرے لیے یہ عورت چن کر لاؤ اور فوراً میرے گھر میں بھیجو۔ لیکن نبی نے فرمایا: ’’نہیں‘‘ عام روٹین ورک میں جو عورت جس کے حصہ میں، جس کی قسمت میں آئے۔ اُس کی بیوی بن کر جائے۔ ’’نفس پرستی یا خواہشِ نفس‘‘ کا کوئی نشان نبی کی زندگی میں نہیں۔ تو کہا: یا رسول اﷲ! وہ تو پھر آپ کے قابل تھی۔ فرمایا: میں تو تقسیم کر چکا ہوں۔ کہنے لگے سجتی تو آپ ہی کے پاس ہے؟ تو حضرت دِحْیَہ کلبی کو طلب فرمایا۔ چنانچہ انھوں نے اسی وقت صفیہ کو لا کر حضور کی خدمت میں پیش کر دیا کہ یا رسول اﷲ! صفیہ آپ کے لیے حاضر ہے۔ آپ نے فرمایا: بہت اچھا میں نے قبول کی تم جاؤ اور اس کی جگہ کوئی دوسری باندی لے لو۔ چنانچہ دحیہ نے صفیہ کے بدلہ میں دوسری باندی حاصل کر لی اور حضور نے قبول کرنے کے بعد وہیں پہ آزاد کیا۔ اب نبی کی بیوی بننا تھی نا؟ اب نبی کی بیوی کا تماشا دیکھے گی دنیا؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس وقت اُن کا پردہ نہیں تھا۔ وہ غلامی اور مجبوری کا وقت تھا۔ وہیں آزاد کیا اور پھر دورانِ سفر میں ہی باقاعدہ نکاح کے بعد اُن کو آزاد کر کے آزاد بیویوں میں شامل کیا، حرم میں شامل کیا۔ اُمّہات المؤمنین میں شامل کیا، اس کے بعد کوئی بتائے نا کہ مرتے دم تک کسی نے اُن کو دیکھا کبھی؟ کہنا مجھے یہ تھا کہ دیکھئے سارے یہودی کافر مر گئے۔ اس کا باپ لڑ کر مرا، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلہ میں، شوہر مر گیا، پہلا شوہر بھی مر چکا تھا، دوسرا سامنے قتل ہوا، سلاّم بن مشکم، کِنانہ ابن ابی الحَقیق، سب کے سب سامنے مرے، کلمہ نہیں پڑھا اور جس کی قسمت میں تھا، اﷲ تعالیٰ اُس کو کیسے نکال کر کے لایا۔ ہارون کی اولاد میں ہے۔ یہودی کی بیٹی ہے، ایک یہودی کی بیوی ہے، پھر دوسرے یہودی کی بیوی ہے، پھر وہ قیدی ہوتی ہے، پھر وہ ایک صحابی کے پاس جاتی ہے، پھر وہ اس سے محفوظ ہے، پھر نبی کے پاس آتی ہے، پھر آزاد ہوتی ہے، پھر اس کا پردہ ہوتا ہے۔ پھر وہ نبی کی بیویوں میں شامل ہوتی ہے پھر وہ حرم میں شامل ہو کر اُمّہات المؤمنین میں ہے اور اب وہ مسلمانوں کی ماں ہے۔ اﷲ کی تقدیر میں تھا کہ یہ عورت ، یہ مسلمان بنے گی،پھر کیسے وہ یہودی رہ سکتی تھی؟ اﷲ تعالیٰ کا علم جو ہے، وہ سب سے زیادہ ہے، سب سے زیادہ وزنی ہے، محیط ہے، جامع ہے۔ اس میں کوئی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے یہ فرمایا:
’’ اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی ‘‘(الحُجرات، آیت: ۳)
نبی علیہ السلام کے جتنے بھی ساتھی ہیں، میں اُن کے دلوں کو جانچ چکا ہوں کہ اُن میں کفر نہیں ہے، منافقت نہیں ہے، دھوکا نہیں ہے۔ اس سے قانون نکل آیا۔ یاد رکھنا، کوئی کتاب والا، کوئی رائٹر، کوئی آتھر (Auther)، کوئی پروفیسر، کوئی لیکچرر بکتا ہے تو بکے، ہمیں کوئی پروا نہیں، اﷲ کے مقابلہ میں ہر چیز ہیچ ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلہ میں ہر چیز ہیچ ہے۔ اﷲ نے فرما دیا کہ میں نے چانچا ہوا ہے کہ یہ پکا مؤمن ہے، جتنا بھی ٹولا ہے اگر چودہ سو برس کے بعد کوئی شخص بکواس کرتا ہے کہ نہیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ میں فلا کا ایمان تھوڑا تھا، تو پوچھو اُس سے تیرے باپ کے پاس ترازو رکھا تھا اﷲ نے؟ تیرے باپ کے گھر میں کوئی نیا کانٹا لگوا دیا تھا روحانی، جس میں لوگوں کے ایمان تُلتے تھے؟اﷲ کو معلوم تھا کہ تیرے باپ کو زیادہ معلوم تھا؟ تیرا اپنا ایمان باقی نہیں ہے، ہمیں تو اﷲ کے ہاں یہ لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ تو صحابہ کے ایمان کو تولتا ہے کھڑے ہو کر۔ اﷲ نے اپنے عدل کے ترازو میں تول دیا کہ اُن کے دلوں کو میں نے جانچا ہوا ہے، اُن کا کفر کا پلڑا خالی ہے، منافقت کا پلڑا خالی ہے اور ایمان کا پلڑا وزنی ہے۔ اُن کے دل میں نہ کفر ہے، نہ شرک ہے، نہ منافقت ہے، نہ ریا ہے، نہ دھوکہ، یہ پکے اور سچے مسلمان ہیں۔ سوائے ایمان کے ان کے دلوں میں اور کچھ نہیں۔ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ (الحجرات، آیت:۳) ان کے لیے پیشگی اعلان کرتا ہوں کہ یہ بخشے ہوئے ہیں اور ان کو بہت بڑا اجر دوں گا جو کسی کو نہیں ملے گا۔ تو صحابہ کے بارے میں یہ عقیدہ یاد رکھیں۔
اب آپ مجھے ایک بات بتائیں جب بنو تمیم کے بدو جو اسلام کی الف با بھی نہیں جانتے تھے، اﷲ کا اُن کے متعلق یہ فیصلہ ہے کہ یہ بخشے بخشائے ہیں۔ جب اُن کے متعلق یہ اعلان ہے کہ میں نے اُنھیں پیشگی بخش دیا ہے اور اُن کے لیے بڑا عظیم رزق میں نے رکھا ہے، ان کے دلوں کو میں نے جانچ لیا ہے، ان کے متعلق یہ فیصلہ ہے تو جن کو چن کر مکہ سے مدینہ خود لائے، جن کو پیغمبر نے خود اﷲ کی اجازت سے معافیاں دیں، اُن کے لیے بیت المال سے وظائف اور حصص مقرر کیے۔ اور جب مدینہ آئے، آتے ہی حضور کا پرائیویٹ اور پرسنل سیکرٹری بنوا دیا، اُن کے ہاتھوں سے وحی لکھوانا شروع کر دی، اُن کے متعلق اﷲ تعالیٰ (معاذ اﷲ) سوئے ہوئے ہیں کہ پتا نہیں مسلمان ہیں کہ نہیں؟ دیہاتوں کے بدوؤں کے متعلق تو اﷲ کو معلوم ہے جو پتا نہیں پھر آئے یا نہیں آئے اور آئے تو کون سی صف میں بیٹھتے ہوں گے؟ انھوں نے کوئی کارنامہ انجام دیا کہ نہیں دیا؟ پھر آئے یا نہیں آئے؟ کسی جنگ میں اُن کا نام آیا کہ نہیں آیا؟ ہمیں پتا ہی نہیں اور جن کا ڈنکا بج رہا ہے، معاویہ بن ابی سفیان، یزید بن ابی سفیان، ابو سفیان بن حرب، ہند بنتِ عتبہ جن کے ڈنکے بجے، جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی ہیں۔ ابو سفیان رشتے میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھائی ہیں، معاویہ رشتے میں بھتیجے ہیں، ان کے بڑے سوتیلے بھائی جن کے نام پر یزید بن معاویہ کا نام ہے، یزید بن ابی سفیان وہ صحابیٔ رسول ہیں، کاتبِ وحی ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی والدہ بی بی ہند جو اپنی عورتوں کے لشکر کو لے کر وہ غزوۂ اُحد میں کہہ رہی تھیں: نَحْنُ بَنَاتُ الطَّارِقٖ،ہم تو ستاروں کی بیٹیاں ہیں، زمین پر رہنے والی نہیں ہیں۔ گیت یا رَجْز گایا۔ نَحْنُ بَنَاتُ الطَّارِقٖ نَمْشِیْ عَلَی النَّمَارِقٖ۔ہمیں یہ نہ سمجھنا کہ مکے کے ریگستان میں پیدا ہوئی ہیں، ہم نے بھی بادشاہوں کے گھرانے دیکھے ہیں۔ ہمارے پاؤں کے نیچے ریشمی غالیچے روندے جاتے ہیں۔ ہمیں پروا نہیں ہے دنیا کے مال و دولت کی۔ اِنْ تُقْبِلُوْا نُعَانِقٖ اَوْ تَدْبِرُوْا نُفَارِقٖ، اگر تو تم کامیاب ہو کر سامنے آؤ گے تو ہم تمھیں گلے لگائیں گی اور اگر تم نے پیٹھ دکھائی۔ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے لشکر سے مار کھا گئے تو قیامت تک کے لیے تم سے طلاقیں لے کر ہم گھروں کو چلی جائیں گی، یہ وہ بی بی ہند ہیں جو اُحد میں یہ کہتی تھیں اور جب کلمہ پڑھ لیا تو صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے دور کے اندر غزوۂ یرموک میں کھڑے ہو کر فرماتی تھیں۔ مسلمانو! اَیَّہَا الْاِخْوان! اَیَا اَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ……یہ جو سامنے کھڑے ہیں نا، ان کے جسموں کے ٹکڑے اڑا دو، ان کو باقی نہ چھوڑنا، یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمن ہیں، یہ اﷲ کے دشمن ہیں، یہ تمھارے دین کے شمن ہیں۔ اﷲ کے علم اور تقدیر میں تھا کہ ہند اُحد کے موقع تک کافر رہے گی اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ یہ سلوک کرے گی فتح مکہ کے موقع پر وہ مسلمان ہو گی اور پھر اسلام کی خدمت یوں کرے گی۔ ساس ماں ہوتی ہے کہ نہیں، جس طرح اپنی ماں سے نکاح حرام ہے، اسی طرح ساس بھی حرام ہے۔ جس طرح ایک لڑکی کا اپنے باپ سے نکاح حرام ہے، اسی طرح بہو کا اپنے سسر سے نکاح حرام ہے۔ اب دوگنا چوگنا احترام ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رشتہ دار ہیں اس لیے بھی احترام ہے۔ کافر ہوتیں تو بھی شخصی احترام ہوتا۔ اب مسلمان ہیں تو دگنا احترام ہے۔ پھر صحابیہ ہوئیں تو تگنا احترام ہے، پھر جہاد کیا تو چوگنا احترام ہے۔ اﷲ کے علم میں تھا کہ آخر ان کا انجام اسلام پر ہو گا یہ کافر نہیں رہیں گے۔ تو اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں ہمیں ایک اصول اور ضابطہ بتا دیا کہ جو لوگ بھی نبی کے ساتھ شامل ہو گئے، جن کو نبی نے منافق نہیں کہا وہ سوچے مومن اور مغفرت یافتہ ہیں۔ آپ کے دل میں یہ بات آ سکتی ہے کہ یہاں نام تو نہیں بتایا، دیکھیں جو شبہ ہو بڑے سے بڑا، وہ آپ لے آئیں۔ میں اُس شبہ کو ان شاء اﷲ تعالیٰ دلیل سے دور کروں گا بفضلہ تعالیٰ۔ کوئی چیز نہیں یہ سب شیطان کے ڈھکوسلے ہیں۔
تیسرا شبہ درمیان میں سے ابلیس آ کر کہے گا کان میں کہ جناب یہ تو درست ہے لیکن یہاں بھی تو نام نہیں لیا گیا کہ جس طبقہ کا بھی کوئی آدمی ہو گا وہ سارا ہی مسلمان ہو گا۔ یہاں تو ایک ضابطہ دے دیا گیا۔ لیجیے اس کا جواب وہ آیت ہے جو میں نے شروع میں پڑھی تھی۔ اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ معاویہ کے گھرانے کے بارے میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ سورت ممتحنہ اٹھائیسویں پارے کی آیت ہے جو میں نے تلاوت کی۔ تمام دنیا کے علماء کا اتفاق ہے کہ ابو سفیان اور مکہ کے دوسرے اہم کفار کے گھرانوں کے متعلق نازل ہوئی۔ اس کا پس منظر ہے، آپ یاد رکھیں، فتحِ مکہ کے موقع پر بی بی ہند جب کلمہ پڑھنے لگیں تو اس کے متعلق یہ روایت ہے :
وَ رَوَی الْبَیْہَقِیُّ مِنْ طَرِیْقِ یَحْیٰی بْنِ بُکَیْرٍ عَنِ اللَّیْثِ عَنْ یُوْنُسَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ(رضی اللّٰہُ عَنْہَا) اَنَّ ہِنْداً بِنْتَ عُتْبَۃَ قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا کَانَ مِمَّا عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ أَخْبَاءٌ أَوْ خِبَاءٌ(الشَّکُ مِنْ أبِیْ بَکرٍ) أَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ أنْ یَّذِلُّوْا مِنْ أَہْلِ أخْبَائکَ أَوْ خِبَائِکَ ثُمَّ مَا أصْبَحَ الْیَوْمَ عَلٰی ظَہْرِ الْأَرْضِ أہْلُ أَخباءٍ اَحَبَّ اِلِیَّ مِنْ أَنْ أَوْ خِبَاءٍ یَّعِزُّوْا مِنْ أَہْلِ أَخْبَائِکَ أَوْ خِبَائِکَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ أَیْضاً وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ قَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ أَبَا سُفْیَانَ رَجُلٌ شَحِیْحٌ فَہَلْ عَلَیَّ حَرَجٌ أَنْ أَطْعَمَ مِنَ الَّذِیْ لَہُ قَالَ لَاْ بِالْمَعْرُوْفِ۔وَ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ یَحْییَ بْنِ بُکیْرٍ بِنَحْوِہٖ وَ تَقَدَّمَ مَا یَتَعَلَّقُ بِأِسلاْمِ أَبِیْ سُفْیَانَ۔
(البدایہ والنہایہ لابن کثیر رحمۃ اللّٰہ علیہ، ص: ۳۱۹، ج:۴، مکتبہ المعارف، بیروت، مکتبہ النصر، الریاض الطبعۃُ الاولیٰ ۱۳۸۶ھ، ۱۹۶۶ء)
ترجمہ: ’’امام بیہقی رحمۃ اﷲ علیہ نے یحییٰ بن بُکیر کے طریق سے روایت کی ہے۔ وہ لیث سے وہ یونس سے وہ ابن شہاب زُہری سے وہ عروہ بن زبیر سے وہ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں، سیدہ فرماتی ہیں کہ تحقیق ہند بنت عتبہ رضی اﷲ عنہا نے (فتح مکہ کے موقع پر اسلام لانے کے بعد نبی کریم علیہ السلام کی خدمت میں) عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول! روئے زمین پر جتنے بھی خیمہ نشین (خاندان) آباد ہیں اُن میں سے آپ کے گھرانے والوں سے زیادہ مجھے کسی اور کے متعلق یہ بات پسند نہ تھی کہ وہ دنیا میں ’’ذلیل و پامال‘‘ ہو کے رہ جائیں، لیکن پھر (اسلام لانے اور آپ کو نبی و رسول مان لینے کے بعد) آج روئے زمین پر بسنے والوں سے زیادہ مجھے کسی اور کے متعلق یہ بات پسند نہیں رہی کہ وہ ہمیشہ کے لیے بلند اور باعزت ہو کر کے جیئیں۔ تو اس پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ہاں اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے یقینا تمھارے گھرانے والوں کے متعلق بھی میری یہی خواہش اور دعا ہے کہ وہ بلند و باعزت ہو کر جیتے رہیں۔ ہند نے پھر عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول! (میرا شوہر) ابو سفیان بخیل آدمی ہے۔ اگر میں اس کے مال میں سے (بلا اِجازت) کچھ لے کر کھا پی لیا کروں تو کیا مجھ پر کوئی (شرعی) تنگی اور پابندی تو نہیں ہے؟ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’نہیں! بلا استحقاق نہیں۔ بلکہ اجازت کے ساتھ بہتر طریقہ سے لے لیا کرو۔‘‘
کہنے لگیں ’’یا رسولاﷲ! آپ وہ شخص ہیں کہ جب میں آپ کو پہلے دیکھتی تھی…… یہ لفظ ہیں…… ’’تو میرا جی چاہتا تھا کہ آپ اور آپ کی آل اولاد (اتنی ذلیل ہو) معاذ اﷲ کہ دنیا قیامت تک اُسے یاد رکھے۔‘‘ کھل کر کہا۔ معاذ اﷲ۔ حوصلہ سے سننے کی بات ہے کہ آپ کو دیکھ کر میرا دل چاہتا تھا کہ آپ (معاذ اﷲ) نقل کفر کفر نہ باشد، کفر کے دور کا کلمہ ہے۔ آپ اور آپ کی آل اولاد۔ یہ لفظ لکھا ہے۔ ذلیل ہو اور ساری کائنات میں اُس سے بڑھ کر اور کوئی ذلیل نہ ہو لیکن آج آپ کے اثر کی وجہ سے میں کہتی ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اتنا آپ کو معزز کر دے، آپ کی آل اولاد کو کہ دنیا اُس کو دیکھے اور اس کے تصور میں نہ آئے اتنی آپ کی اور آپ کی آل اولاد کی عزت ہو۔ تو پتا ہے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے آگے کیا فرمایا؟ لوگ سمجھتے نہیں کہ ہم کیوں چیخ رہے ہیں؟ فرمایا: نَعَمْ أَیْضاً لَّکُمْ، ہاں خدا کی قسم! تمھارے متعلق بھی میرا یہی نظریہ ہے کہ تم بھی پھر دنیا میں اتنے معزز ہو جاؤ کہ دنیا دیکھتی رہ جائے، تمھاری عزت کو پھر کوئی مٹا نہ سکے۔ تو فرمایا نَعَمْ أَیْضاً بِأَنْفُسِکُمْ، تمھارے وجود کے متعلق اور تمھارے خاندان کے متعلق میرا بھی یہی نظریہ ہے۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم جن کی عزت چاہتے ہوں، ہم چند لپاٹیے، کَن میلیے، ذاکر پھاکر، گپوڑ باز، بکواسی کھَپِیوں کی وجہ سے یہ کہہ دیں کہ اُن کی عزت نہ کریں، ایسی کی تیسی۔ ایسی بکواس کرنے والوں کی، دنیا اُلٹ جائے، ہم اُن کا نام عزت سے لینے پر مجبور ہیں۔ پیغمبر جن کے متعلق یہ تمنا کر کے جائیں کہ اُن کی عزت ہو دنیا میں، کوئی اُن کو ذلیل کر سکتا ہے؟ دیکھ لو اُن کو جتنی گالیاں مل رہی ہیں اﷲ کے فضل سے ہر دور میں اُن کا نام لینے والے ہمارے جیسے گنہ گار پیدا ہوتے رہیں گے۔ یہ ہے اس کا پس منظر۔ یہ واقعہ حدیث کا تھا، قرآن کا تو نہیں تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کو قرآن میں سند عطا فرمائی۔ مہر لگا دی تا کہ یہ بات پختہ ہو جائے۔ صرف حدیث کی یا جنگ کے دور کی بات نہ رہے، آیت آ گئی۔
عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ الَّذِیْن عَادَیْتُمْ مُّنْہُمْ مَوَدَّۃً وَاللّٰہُ قَدِیْرٌ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْم۔(ممتحنہ:۷،پ:۲۸ )
یہ معاملہ بہت نزدیک آ لگا ہے کہ اﷲ تمھارے اور اُن لوگوں کے درمیان جن سے تم دشمنی کرتے رہے ہو، دلی محبت ڈال دیں۔ اور اﷲ ہر چیز پر قابو یافتہ ہیں اور اﷲ بہت پردہ پوش اور بڑے مہربان ہیں۔
اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم، اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھیو! یاد رکھنا۔ بڑی جلدی وہ زمانہ نزدیک آ رہا ہے فتحِ مکہ کے بعد، کہ تم لوگ اور وہ خاندان، وہ ابو سفیان، وہ یزید بن ابی سفیان، وہ ہند بنت عتبہ، وہ معاویہ بن ابی سفیان، وہ جویریہ بنت ابی سفیان، وہ سارا جن کے اور تمھارے درمیان کھلی بغاوت اور دشمنی تھی، اﷲ کا یہ فیصلہ ہے کہ عنقریب تمھاری ان سے ایسی محبت کر دے گا کہ دنیا دیکھے گی۔ عَسَی اللّٰہُ ، بڑا نزدیک ہے کہ اﷲ تعالیٰ یہ معاملہ کریں۔ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ الَّذِیْن عَادَیْتُمْ مِّنْہُمْ مَوَدَّۃً، کہ تمھارے اور اُن لوگوں کے درمیان جو کافروں میں سے تمھارے دشمن تھے فتح مکہ کے چند گھنٹوں کے بعد تمھارے درمیان ایسی دوستی اور محبت، دل کی محبت پیدا کر دے گا کہ دنیا دیکھے گی اور اب تم حیران ہو گے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ فرمایا کہ تم کو اﷲ کے متعلق کوئی شک ہے کہ اس کی قدرت میں کوئی کمی ہے؟ وَاللّٰہُ قَدِیْرٌ، میں اﷲ ہوں اور میں کہتا ہوں کہ اس دشمنی کو ختم کر کے دوستی پیدا کروں گا، وہ ابو سفیان جو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی شکل نہیں دیکھ سکتا تھا، تم دیکھو گے کہ یہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام پر قربان ہو گا اور وہ ہند جو ساس بھی ہے، رشتہ دار بھی ہے، یہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی جوتیوں میں آ کر بیٹھے گی اور وہ یزید اور معاویہ جو بھاگتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارے اسلام کا ہمارے ماں باپ کو پتا چل گیا تو کہیں ہمیں قتل نہ کر دیں، یہ رسول کے غلام بنیں گے۔ یہ سارا خاندان مسلمان ہو گا اور ایسا ہی ہوا۔
سیدہ اُمّ معاویہ ہند بنت عتبہ رضی اﷲ عنہا کے قبولِ اسلام
اور اس کی قوت و پختگی کے لیے فتحِ مکہ کے دوران عجیب اور انقلاب انگیز اسباب و محرکات
اس سلسلہ میں حدیث و سیرت اور تاریخ کے دفاتر جو حقیقت بیان کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام مجدد مأتہِ عاشرہ، علامہ ابن حَجر ہَیْتَمی مکی شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کے الفاظ میں سنیے۔ وہ فرماتے ہیں کہ:
اِذْ مِنْ جُمْلَۃِ الحَامِلِ لَہَا عَلَیْہِ أَنَّ مَکَّۃَ لَمَّا فُتِحَتْ دَخَلَتِ المَسْجِدَ الْحَرَامَ لَیْلاً فرَأَتِ الصَّحَابۃَ قَدْ مَلَؤُہُ وَ أَنَّہُمْ عَلٰی غَایَۃٍ مِّنَ الاِجتِہادِ فی الصَّلٰوۃِ وَ قِرَآءَ ۃِ الْقْرأٰنِ والطَّوَافِ وَالذِّکْرِ وَ غَیْرَ ذالِکَ مِنَ العِبَاداتِ فَقَالَتْ وَ للّٰہِ مَا رَأَیْتُ اللّٰہَ عُبِدَ حَقَّ عِبَادَتِہٖ فِیْ ہٰذآ الْمَسْجِدِ قَبْلَ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃِ وَاللّٰہِ اِنْ بَاتُوْا اِلَّا مُصَلِّیْنَ قِیَاماً وَّ رُکُوْعاً وَّ سُجُوْداً فَاطْمَأَنَّتْ اِلَی الاِسْلَامِ لٰکِنَّہَا خَشِیَتْ اِنْ جَاءَ تْ اِلَی النَّبِیِّ صلّی اللّٰہُ علَیْہِ وَ سَلَّمَ أَنْ یُّؤَبِّخَہَا عَلٰی مَا فَعَلَتْہُ مِنَ الْمُثْلَۃِ القَبِیْحۃِ بِعَمِّہٖ حَمْزۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَجَاءَ تْ اِلَیْہِ مَعَ رَجُلٍ مِّنْ قَوْمِہَا فَوَجَدَتْ عِنْدَہُ مِنَ الرَّحْبِ والسَّعَۃِ وَ العَفْوِ والصَّفْحِ مَا لَمْ یَخْطُرْ بِبَالِہَا۔ (تطہیر الجنان، ص:۹)
ترجمہ: ’’سیدنا حضرت ابو سفیان رضی اﷲ عنہ کے متعلق حضور علیہ السلام سے اُن کی غیبوبت میں روزینہ اور وظیفہ حاصل کرنے کی خصوصی اجازت حاصل کرنے کا واقعہ سیدہ اُمّ معاویہ ’’ہند‘‘ بنت عتبہ رضی اﷲ عنہا کے اسلام کی پختگی پر دلیل اور گواہ ہے۔ کیونکہ سیدہ ہند کو اسلام پر آمادہ کرنے کے مختلف اسباب و محرکات میں سے یہ خاص واقعہ بھی ہے کہ جب مکہ مکرمہ فتح ہو گیا۔ تو ہند رات کے وقت مسجد حرام میں داخل ہوئیں۔ تو انھوں نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو اس حال میں دیکھا کہ اُن کے لشکر نے مسجدِ حرام (صحن کعبہ) کو (اپنی خلاف توقع تعداد) سے بھر رکھا ہے اور یہ دیکھا کہ وہ انتہائی توجہ اور اور جدوجہد کے ساتھ نماز اور تلاوتِ قرآن کریم اور طواف کعبہ اور ذکرِ الٰہی جیسی مختلف عبادات میں مشغول ہیں۔ تو (صحابہ کی اﷲ کی ذات میں فنائیت و محویت دیکھ کر) بولیں، اﷲ کی قسم! میں نے اس مسجد میں آج کی رات سے پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ اﷲ کی عبادت کا اس طرح حق ادا کیا گیا ہو، اﷲ کی قسم! اصحاب رسول نے ساری رات نمازیں پڑھتے ہوئے، قیام اور رکوع اور سجود کے سوا اور کسی کام میں نہیں گزاری۔ سو (اس عجیب اور انقلاب انگیز مشاہدہ کے بعد) ہند اسلام کی طرف سے بالکل مطمئن ہو گئیں۔ لیکن وہ اس بات سے ڈر رہی تھی کہ اگر وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس گئیں تو آپ ہند کو اپنے چچا سید الشہداء حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے جسم مبارک کا ناک کان ہونٹ کاٹ کر اور کلیجہ نکال کر چبانے وغیرہ کی صورت میں بدترین مُثلہ کرنے اور حلیہ بگاڑنے کے ناقابلِ بیان و برداشت عمل کی بنا پر سخت ڈانٹ ڈپٹ اور زجر و قہر کریں گے۔ چنانچہ ہند (اسی خیال، تذبذب اور خوف کی حالت میں ہی اُمیدِ عفو و کرم لیے ہوئے) اپنے خاندان کے ایک آدمی کے ہمراہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ کی بارگاہ میں ایسی پذیرائی و حوصلہ مندی اور درگزر کا وہ نظارہ دیکھا جس کا تصور بھی اُن کے دل میں کبھی نہیں گزرا تھا۔
ظہر کے وقت صفا کی چوٹی پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور کعبہ کی زیارت کر رہے تھے۔ عمر ابن خطاب حفاظت کے لیے تلوار پاس لے کر بیٹھے تھے، فتحِ مکہ کے دن۔ تو دیکھا کہ بی بی ہند آ رہی ہیں۔ فرمایا کہ کون آ رہا ہے؟ عرض کیا کہ ہند بنت عتبہ یا رسول اﷲ۔ یہ ہند آ رہی ہے۔
سیدہ ہند کا قبولِ اسلام:
کہنے لگے یہ کیسے آ رہی ہے؟ یہاں اس کا کیا کام؟ جانتے تو تھے کہ یہ کون ہے؟ ساس بھی ہے۔ تو فرمایا: یا رسول اﷲ! میں ابھی پوچھتا ہوں۔ تو سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کھڑے ہوئے کہ کیسے آ رہی ہو؟ اس نے کہا کلمہ پڑھنے کے لیے آ رہی ہوں۔ وہ ہند جس کا غرور نہیں ٹوٹتا تھا۔ اب اﷲ کا حکم پورا ہونے لگا۔ کہنے لگے کلمہ پڑھنے کے لیے آرہی ہو؟ کہنے لگیں، بالکل! کلمہ پڑھنے کے لیے آ رہی ہوں، عاجز ہو گئی ہوں، ہر طرف سے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین نے مجھے عاجز کر دیا۔ کہیں بھی تو میرے خدا میرے کام نہیں آئے، یہ فقرہ ہے آگے، وہ سننے کے قابل ہے۔ وہ ہوا کیا تھا، وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی کرامت اور معجزہ ہے۔ وہ بھی آپ کو بتا دوں، صفا کی چوٹی پر آنے سے پہلے رات کو چکر لگایا کعبہ کے صحن کا جائزہ لیا، صحابہ کا لشکر تھا۔ کیمپ لگے ہوئے تھے دور تک دس ہزار صحابہ کے لیے اور کعبہ کے کوٹھے کے اندر جس طرف گئی ہیں کوئی پڑھ رہا ہے ، لَاْ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَریْمْکوئی پڑھ رہا ہے ،أَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی النَّبِیِّ الاُمّیِ وَ اَزْوَاجِہٖ کوئی پڑھ رہا ہے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ تمام صحابہ اپنے ذکر و اشغال میں مشغول، کوئی سجدہ میں ہے، کوئی رکوع میں ہے، کوئی قرآن کی تلاوت کر رہا ہے، مبہوت ہو گئیں کہ کیا یہ میری قوم ہے؟ یہ وہی قوم ہے جو بیٹیوں سے عشق کرتی تھی، جو بھتیجیوں کے ساتھ غزلیں گاتی تھی، جو شرابیں پی کر للکارتے تھے، بڑکیں مارتے تھے، ننگے طواف کرتے تھے، یہ وہ قوم ہے، اس میں انقلاب کیسے ہو گیا؟ یہ کس نے اس کو دیوانہ بنا دیا؟ پاگل ہو گئیں بی بی ہند، ساری رات یہ پر نور منظر دیکھ کے حضور علیہ السلام کے دست حق پرست پر کفر سے توبہ کی، بیعت کر کے صبح کو جب گھر میں گئیں تو خود بیان کرتی ہیں بی بی ہند کہ اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا جو بت تھا ہتھوڑا لیا اور مارا اُس کے سر پر اور کہنے لگیں: کُنَّا مِنْکَ فِیْ غُرُوْرٍ، تیرا بیڑا غرق، تم نے ہمیں دھوکے میں رکھا۔ اگر تو سچا ہوتا تو آج محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے ساتھیوں کا قبضہ کیسے ہو گیا مکہ پر؟ کیا کیا باتیں سناؤں۔ کُنَّا مِنْکَ فِیْ غُرُوْرٍ، ہم تو تیری وجہ سے دھوکے میں رہے۔ میرا شوہر، میرا باپ سب کہتے تھے کہ یہ کام آئیں گے۔ تونے کام آنا ہوتا تو آج محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کا قبضہ کیسے ہو گیا مکہ پر؟ سچا تو پھر وہ ہے جس کو ہم نے نکال دیا اور ہم کہتے تھے کہ وہ پھر یہاں گھُس نہیں سکے گا۔ آج ہم اُس کے رحم و کرم پر ہیں۔ پہلے توبہ کی نیت کی، پھر صفا کی چوٹی پر آئیں۔ کہنے لگیں یا رسول اﷲ! اسلام کے لیے آئی ہوں۔ فرمایا: اچھا اسلام کے لیے آئی ہو، کہنے لگیں: ’’بیعت کر لیں‘‘ فرمایا: کہ میں نے تو آج تک کسی غیر محرم کو ہاتھ نہیں لگایا۔ حالانکہ ساس ہے، لیکن پیغمبر علیہ السلام کی زندگی کا اس سے آپ اندازہ کریں، فرمانے لگے کہ میں عورت کے ہاتھ کو ہاتھ نہیں لگایا کرتا۔ تو لکھا ہے سیرت اور تاریخ کی بعض کتابوں میں ایک بہت بڑا پیالہ تھا۔ کَانَ قَدحٌ کَبِیْرٌ۔ وہ پانی سے بھرا ہوا رکھا تھا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے عمر ابن خطاب رضی اﷲ عنہ سے فرمایا کہ تم میری طرف سے بیعت لو۔ الفاظ کہلاتے جاؤ۔ میں تصدیق کرتا جاؤں گا۔
(جاری ہے)