حبیب الرحمن بٹالوی
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بے شک اﷲ تکبر کرنے والے اور بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا [النساء:۳۶]، تکبر کرنے والے کا برا ٹھکانہ ہے [النحل:۲۹]‘‘ حدیث قدسی ہے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ :’’بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے۔ جو کوئی ان دونوں میں میرا مقابلہ کرے گا، میں اس کو جہنم میں پھینکوں گا‘‘۔ رسولِ پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس آدمی کے د ل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہوگا جنت میں نہیں جائے گا‘‘ قارئین کرام! جو لوگ ’’میں اور میرا‘‘ ان دو لفظوں سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں دنیا کے مصائب بھی ان سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں اور دو طرح سے دیکھنے سے چیزیں چھوٹی نظرآتی ہیں۔ ایک دور سے، دوسرے غرور سے، متکبر آدمی کا ادنیٰ نشان یہ ہے کہ غصہ ضبط نہ کرسکے ۔ تکبر کا مطلب ہے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھنا کہ میرے جیسا عقلمند اور کوئی نہیں۔ دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا انتہائی قبیح عادت ہے۔ مغرور آدمی دوسروں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ کھڑے ہو کر اس کا استقبال کریں۔ یا مجھے پہلے سلام کریں۔ بڑا آدمی اگر کوئی نصیحت کی بات کرے تو ناک بھی چڑھانا، توجہ ہی نہ دینا کہاں کی انسانیت ہے۔ جب آدمی میں خوئے تسلیم ہی نہیں ہوگی۔ غلطی کو غلطی ماننے کا حوصلہ ہی نہیں ہوگا تو غرور اور تکبر کے سبب ایسے آدمی پر دینی اور دنیاوی سعادتوں کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ درحقیقت مغرور آدمی، غرور میں اندھا ہوجاتا ہے حالانکہ اسے سوچنا چاہیے کہ اس کی اصلیت کیا ہے؟ اس کی ابتدا پانی کا ایک گندا قطرہ ہے۔ اور انتہا یہ کہ کیڑے مکوڑے اس کی لاش کو کھاجائیں گے۔ اور زندگی کی حالت یہ ہے کہ نجاست ،غلاظت اور بول و براز سے اس کا پیٹ بھرا ہوا ہے۔ بیماریاں اس کے ساتھ ہیں۔ بھوک پیاس کا محتاج ہے۔ ذراسی تکلیف سے بے کار ہوجاتا ہے۔ نفع حاصل کرنا چاہتا ہے، نقصان ہوجاتا ہے۔ کوئی عضو بے کار ہو جائے، ازالہ نہیں کرسکتا۔ دماغ کی دھاگے سے بھی باریک ایک رگ اگر اﷲ تعالیٰ ہلادے تو گلیوں، بازاروں میں ننگا پھرتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں پاگل ہے۔ ایسا ناچیز انسان جب خدائی لہجے میں بات کرتے ہوئے کہتا ہے اوئے کڑملی! اوئے ودو! کہاں مرگئے ہو؟ اور پھر جب وہ مغرور انسان اس کڑملی، ودو کے سر کا پٹکا (اس کی عزت) اتار کر اپنے جوتے صاف کرتے ہوئے کہتا ہے ’’پرے دفع ہو‘‘ تو اس وقت ایسے ذلیل اور ناکارہ انسان کو یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ آخر اسے بھی موت نے ایک دن ڈھیر کردینا ہے اور اسے بھی ایک دن اﷲ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے اس برے عمل (غرور) کا جواب دینا ہے۔ اس دن اس کے ساتھ کیا گزرے گی؟
اور عزیزانِ محترم! جو لوگ غرور کے برعکس، دولت ، عزت، شہرت، علم و عمل کا سرمایہ یا بہت بڑا عہدہ رکھنے کے باوجود، عجز و انکساری اختیار کرتے ہیں، دنیا میں بھی ان کی عزت کی جاتی ہے اور آخرت میں بھی وہ لوگ کامیاب وکامران ٹھہریں گے۔
ایک مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ نماز میں امام بنے اور سلام پھیر کرکہنے لگے کہ صاحبو! اپنے لیے کوئی اور امام تلاش کر لو، میں امامت کے لائق نہیں ہوں کیونکہ اس وقت میرے دل میں یہ بڑائی پیدا ہوئی کہ چونکہ میرے برابر ساری جماعت میں کوئی شخص نہ تھا اس لیے مجھے امام بنایا گیا۔
حضرت عطاء سلمی رحمتہ اﷲ علیہ باوجود نہایت درجہ پرہیز گار اور عابد و زاہد ہونے کے جب کبھی تیز ہوا چلیتی یا بادل گرجتا تو یوں فرمایا کرتے کہ مجھ گنہگار اور بد نصیب کی وجہ سے یہاں کے لوگوں پر مصیبت نازل ہوتی ہے۔ پس اگر عطاء نہ رہے تو لوگوں کو ان مصیبتوں سے نجات مل جائے۔
میرے عزیزو! عاجزی اﷲ تعالیٰ کو پسند ہے۔ عاجزی اور انکساری انسانی زندگی کے زیور ہیں۔ خوبصورتی کے ساتھ یہ امارت پر سجتے ہیں۔ او رتکبر کرنے والا شخص تواضع سے محروم رہتا ہے۔ وہ حسد اور غصے کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ ہمیشہ بڑائی کے غرّہ میں مست رہتا ہے۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے۔ اسی لیے وہ کسی بھی نصیحت سے بہرہ مند نہیں ہوتا۔ اپنے آپ کوبڑا ثابت کرنے کی کوشش کرنا سب سے بڑی نادانی ہے۔
خود کو جو سمجھتا ہے دانا، وہ بڑا ناداں ہے اس کی نادانی کی یہی بڑی پہچان ہے
ء ء ء