پروفیسر محمد حمزہ نعیم
پوچھا یہ این جی اوز کیا ہوتا ؟ کہا خیراتی ادارے، انگریزی لفظ ہے ’’نان گورنمنٹل آرگینائزیشن‘‘۔ یہ ادارے ضرورت مندوں کے کام آتے ہیں۔ غریبوں یتیموں کی مالی مدد کرتے ہیں اور اسیطرح بہت سے بے روز گار لوگوں کے روزگار کا بندوبست کرتے ہیں، ورنہ آج کے مہذب معاشرے میں کون کسی کے کام آتا ہے۔ ایک کتاب میں پڑھا کہ ایک یورپی ملک میں ایک نوجوان لڑی سڑک کنارے ہاتھ پھیلائے بیٹھی تھی، پوچھنے پر اس نے بتایا کہ مغربی معاشرے میں ہر مرد عورت اپنی ضرورت کے لیے خود کماتا ہے۔ مرد عورت چاہے خاوند بیوی ہوں، انھیں ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھانا پڑتا۔ ہر عورت آزاد ہے خود مختار ہے خود کماتی ہے کسی کی محتاجی اس کو نہیں کرنا پڑتی۔ یہاں تک کہ بیٹی جب بالغ ہوجاتی ہے تو اسے اپنا خرچ خود برداشت کرنا ہوتا ہے۔ اس لڑکی نے یہ بھی بتایا کہ اس کے باپ نے اسے گھر سے نکال دیا ہے کہ اب میرے گھر میں رہنا ہے تو کرایہ لے کر آؤ۔ اسی طرح کئی مواقع پر دیکھا اور سنا گیا کہ بیوی نے خاوند سے ادھار لیا اور کئی بار جب خاوند کے پاس نقد رقم نہیں تھی تو اس نے بیوی سے قرض لے کر ضرورت پوری کی اور دوسرے وقت قرض واپس ادا کردیا۔
دوسرا منظر: خاتم المعصومین سید محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا خَیْرُالنَّاسِ مَنْ ینفَعُ النّاسَ۔ بہتر انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو نفع پہنچائے۔ خود اﷲ پاک نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تربیت یافتگاں کی تعریف میں اپنی ازلی ابدی کتاب قرآن مجید میں مدح فرمائی۔ یُوثرون علی انفسہم ولو کان بھم خصاصۃ ……اصحاب محمد علیہ و علیہم السلام اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود ان کو شدید ضرورت ہو۔ ہر موقع پر تربیت محمدی کے یہ مناظر سامنے آتے رہے۔ غزوۂ احد کا واقعہ تو بے حد مشہور ہے کہ نزع کے عالم میں ایک زخمی مجاہد نے پانی مانگا۔ پانی پیش کیا گیا تو اس نے لینے سے انکار کردیا کیونکہ اس کے کان میں ایک اور جان بہ لب زخمی کی آواز پڑ چکی تھی پانی والا ادھر بڑھا تو تیسری آواز نے اس دوسرے پیاسے کو بھی ایثار کا دامن تھما دیا، اس نے کہا کسی دوسرے پیاسے بھائی سے پہلے میں کیسے پانی پی سکتا ہوں۔ پانی والا ادھر بڑھا تو وہ جنت کے چشمہ سلبیل پر پہنچ چکا تھا وہ واپس دوسرے اور پھر پہلے کی طرف آیا مگر وہ دونوں بھی چشمہ ایثار سے سیراب ہو کر اپنے رب کریم کے ہاں سرخرو ہوچکے تھے۔ مواخاۃ مدینہ کے موقع پر ہر انصاری نے اپنے مہاجر بھائی کی مدد مالی اخلاقی بلکہ ہر طور اس طرح کی کہ قیامت تک ماں جائے بھائی والی قربت و محبت کہیں پیچھے رہ گئی۔ آج کی مہذب این جی اوز کی بجائے اسلام اور اہل اسلام سراپا اصل این جی اوز ہیں جھوٹ، حرام، رشوت، سود، لوٹ مار، قتل و غارت، بد کاری یہ سب مہذب معاشروں میں موجود ہیں۔ جو کوئی اﷲ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا وہ چاہے کتنا ہی نیک نفس بنتا پھرے، سفید لباس میں بہ ظاہر مہذب معاشرہ ہوگا مگر امن،سلامتی، ایثار، دوسروں کے کام آنا، تمام انسانوں کو ایک برادری سمجھنا ممکن ہی نہیں۔ یہ سب صفاتِ عالیہ خاتم المعصومین سید محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لائے ہوئے مقدس دین اسلام میں موجود ہیں۔ اس کا نام اسلام ہے جس کا معنی سلامتی ہی سلامتی ہے اﷲ رسول اور آخرت پر ایمان ہے جس کا نتیجہ امن ہی امن ہے۔ آج اگر اسلام کے دعویداروں میں صفاتِ عالیہ موجود نہیں تو اس کا مطلب ہے مدعی کا دعویٰ غلط ہے۔ اہل اسلام جب عرب سے نکلے تو ان میں سے ہر ایک خیرالناس تھا ہر کوئی یوثرون کا مثالی نمونہ تھا، ہر بندۂ مومن اپنی جگہ این جی اوز تھا بلکہ ہر کوئی نیکی اور خدمت میں دوسرے سے بڑھنے میں کوشاں تھا۔ غزوہ تبوک کو دیکھیے فاروق اعظم، صدیق اکبر سے بڑھنے کی تمنا کررہے ہیں اور صدیق اپنے گھر میں کچھ بھی چھوڑ کر نہیں آئے۔ عثمان غنی اتنا مال لائے ہیں کہ مَاَضَرَّ عُثمانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْیَومِ کا کامل اکمل اخروی سرٹیفیکٹ لے چکے ہیں یہ صرف دو تین یا چند ایک کی بات نہیں تھی۔ اصحاب محمد علیہ و علیہم السلام سارے ایسے ہی تھے۔ پھر خالق دو عالم نے اعلان کردیا کہ اب یہی اصحابِ محمد علیہم الرضوان معیار حق بن چکے ہیں۔ اب افراد ہوں یا معاشرہ، این جی اوز ہوں یا مخیر افراد، یہی مقد سین واحد نمونہ ہیں، جو کوئی ان جیسا بنے گا وہی کامران و نیک نام، اس نیک بخت معاشرے میں عورتیں گھروں میں آزاد رہ کر مسلم قوم کے بچوں کو اسلامی عالمی معیار کا لائق صد فخر سپوت بنانے کی ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔ مردوں کی طرح بازاروں میں مشینی کل پرزہ نہیں ہوتیں۔ ان کا باپ بھائی ان سے کرایہ نہیں مانگتا۔ ان کا شریک حیات محنت کر کے حلال کماتا ہے اور محبت اور خلوص کی چاشنی دے کر بیوی بچوں کے ساتھ مل کر کھاتا ہے۔