خطاب: مولانا سید ابومعاویہ ابوذر حسنی بخاری رحمتہ اﷲ علیہ قسط نمبر۳
جمعۃ المبارک، ۲۳؍ رجب ۱۳۹۸ھ/ ۳۰؍ جون ۱۹۷۸ء، وہاڑی
تورات اور انجیل میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نشانیاں:
کیونکہ آپ کی نشانی تورات اور انجیل میں یہ آئی تھی کہ لَاْ یُمِلُّہُ السُّؤَالُ، کہ کوئی کتنا مانگے، پیسہ مانگے، نقد مانگے، کپڑا مانگے، غلّہ مانگے، اناج مانگے، جانور مانگے، زمین مانگے اور آپ سے کوئی مسئلہ پوچھے، ایک پوچھے، سو پوچھے آپ تنگ نہیں ہوں گے۔ یہ نشانی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچائی کی پچھلی کتابوں میں آئی تھی۔ چنانچہ عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ یہودیوں کے استاد تھے۔ بہت بڑے شیخ الحدیث اور مفسر تھے، تورات پڑھاتے تھے۔ یہودی علماء میں سے تھے۔ مدینہ منوّرہ سے باہر اُن کا مدرسہ تھا جس کا نام ’’بیت المِدْراس‘‘ تھا۔ وہ آئے اور تورات اُن کے ہاتھ میں تھی اوراپنا ایک آدمی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بھیج کر سوال کرایا اور خود دروازے کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ وہ سوال کرتا جاتا تھا، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم جواب دیتے تھے اور عبداﷲ بن سلام دروازے کے پیچھے سے اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی تورات کو پڑھتے جاتے تھے۔ اس میں نشانیاں لکھی ہوئی تھیں کہ ان کا چہرہ ایسا ہو گا، اُن کی چھاتی پر بال زیادہ ہوں گے، ناف تک بالوں کی ایک لمبی لکیر ہو گی، ان کے سر کا دَور بڑا ہو گا، ان کے پاؤں کی ہتھیلیاں اُٹھی ہوئی ہوں گی۔ اُن کے ناک کا بانسا لمبا ہو گا، اُن کے ہاتھ کی ہتھیلیاں چوڑی اور نرم ہوں گی، ان کا رنگ نہ اتنا گورا ہو گا کہ آنکھیں چندھیا جائیں نہ ایسا گندمی ہو گا کہ لوگ اسے سانولا کہیں۔ چمکتا ہوا دودھیا رنگ ہو گا۔ ان کی زلفیں ہوں گی۔ ان کے شانے چوڑے ہوں گے۔ بائیں طرف مُہرِ نبوّت ہو گی۔ ابراہیم علیہ السلام سے حُلیہ ملتا ہو گا۔ آنکھوں میں سرخ ڈورے ہوں گے۔ سرمہ نہیں لگا ہوا ہو گا لیکن لوگ سمجھیں گے سرمہ لگایا ہوا ہے، قدرتی آنکھیں سرمگیں ہوں گی۔ یہ سب نشانیاں لکھی ہوئی تھیں اور بھی بتایا تھا کہ وہ سخی ہو گا جو بھی مانگے گا وہ لوگوں کو دے گا اور جتنا اُس سے پوچھا جائے گا، دین کے بارے میں اس کو تنگ دلی کبھی نہیں ہو گی۔ تو حضرت عبداﷲ بن سلام چھپے سنتے رہے، اس یہودی نے جو کچھ نہ کہنا تھا وہ بھی کہہ دیا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ آنکھیں جھکا لیں اور چپ چاپ بیٹھے رہے اور کتنی مدت گزر گئی آخر عبداﷲ بن سلام سے صبر نہیں ہوا، دروازہ کھول کر پیچھے سے آ کر کہنے لگے اَشْہَدُ اَنْ لَّاْ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ میں صرف اس انتظار میں تھا۔ میں نے سب نشانیاں پکّی پا لیں۔ میں دیکھتا رہا ہوں آج تک۔ خاندان آپ کا وہی ہے جو تورات میں لکھا ہے، حلیہ آپ کا وہی ہے۔ دادا آپ کے وہی ہیں۔ مشابہت آپ کی پوری موجود ہے۔ ابراہیم کی نسل سے آپ ہیں۔ جو باتیں لکھی ہیں وہ سب پوری ہو رہی ہیں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جو ایک دفعہ اس کا کلمہ پڑھ لے گا وہ جلدی سے مرتد نہیں ہو گا (اِلَّا یہ کہ کوئی ازلی بدبخت یا منافق)، یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ لوگ جتنے بھی اُس کے ساتھ آئیں گے، اکثر غرباء میں سے ہوں اور یہ بھی لکھا ہے کہ اُس کی سلطنت عرب کی حدود تک پھیل جائے گی۔ شام کی حدوں تک چلی جائے گی۔ سب نشانیاں پوری ہو گئی تھیں۔ آخری بات میں یہ دیکھنا چاہتا تھا آپ کے اخلاق میں سے کہ اگر ہم اس کو زیادہ تنگ کریں گے تو وہ گالی تو نہیں دے گا۔ بس یہ مجھے دیکھنا تھا۔ اگر آپ کوئی سخت لفظ آ ج کہہ دیتے۔ اتنا ہی فرما دیتے جاؤ دفع ہو جاؤ مجھے صبح سے تنگ کیا ہوا ہے، جان میری کھا لی۔ تو میں سمجھتا کہ آپ نبی نہیں۔ جب آپ اس پر بھی چپ ہو گئے کہ میرا بھیجا ہوا آدمی گھنٹوں سے آپ کو تنگ کر رہا ہے اور آپ نے ایک لفظ بھی اُس کو نہیں فرمایا کہ تم خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو۔ تو میں نے یقین کر لیا کہ اب حق کو چھپانا دوزخ میں جانے کے برابر ہے۔ اب مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ یہ میرے پاس تورات ہے اور یہ حلیہ اور آپ کی نشانیاں لکھی ہیں۔ آج کے بعد میں گواہی دیتا ہوں کہ موسیٰ اپنے وقت میں سچے تھے۔ عیسیٰ اپنے وقت میں سچے نبی تھے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سے پہلے بھی سب نبی سچے تھے اور آپ کا قرآن سچا ہے اور آپ سچے ہیں۔ عبداﷲ بن سلام یہودی بزرگ یوں مسلمان صحابی ہوئے۔
تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نشانیوں میں سے یہ نشانی تھی کہ آپ سوال سے تنگ دل نہیں ہوتے اور یہ معمولی بات نہیں۔ آپ دکانداروں سے پوچھیں۔ دکاندار کہتے ہیں جی کہ جو گاہک سے لڑ پڑا، وہ دکانداری کے قابل نہیں۔ اگر دکان داری بغیر صبر کے نہیں ہو سکتی ۔ نبوّت تو سب سے اعلیٰ منصب ہے، کافر بھی آئے گا، بدترین مرتد بھی آئے گا۔ علانیہ زانی بھی آئے گا، شرابی، ڈکیت، چور، قاتل، خائن، غاصب اور رشوت خور بھی آئے گا، دنیا کا ظالم سے ظالم بھی آئے گا سب کے ساتھ یوں بولنا پڑے گا جیسے اپنا عزیز ہو۔ اُن کو متاثر کیسے کیا جائے گا؟ اگر دنیا کا کاروبار بغیر اخلاق اور شرافت کے چل نہیں سکتا تو ساری کائنات میں اﷲ تعالیٰ کا کاروبار کیسے چلے گا بغیر اخلاق کے۔ اس کے لیے پتھر کا کلیجہ اور پہاڑ کا جگر چاہیے تھا وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے عطاء فرمایا تھا۔
فرماتے ہیں وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا،اگر خود صبر کر جاتے لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ، آپ خود باہر تشریف لاتے۔ پھر یہ قانون اور آداب کے مطابق آپ سے ملاقات کرتے تو یہ اُن کے لیے بہتر ہوتا اور آپ کے لیے بھی آسانی ہوتی لیکن یہ تو مجھے معلوم ہے کہ آپ تو شرم کے مارے بولیں گے نہیں۔ صحابہ کی روایت ہے کہ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ حَیِیّاً سِتِّیراً، کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اتنے حیا دار تھے جس کا انداز ہ کوئی نہیں۔ بے حد پردہ پوش تھے۔ دوسری روایت میں آتا ہے : کَانَ أَحیٰی مِنَ الْعَذْراءِ فِیْ خِدْرِہَا،حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیا اتنی تھی کہ یکدم آنکھیں اُٹھا کر کسی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کرتے تھے۔ بات کوئی کرتا تھا۔ آپ کی آنکھیں شرم سے جھک جاتی تھیں۔ میں نے زندگی میں بہت کم آدمی ایسے دیکھے ہیں بعض علماء کو دیکھا کہ جب اُن کے چہرہ پر نظر کی، اُن کی آنکھیں نیچی ہو گئیں۔ یہ سنّتِ رسول میں نے کہیں کہیں دیکھی۔ دو تین بزرگوں میں تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی عادت شریفہ فطری تھی۔ یہ جان بوجھ کر نہیں۔ فطرتی تھی کہ جہاں کوئی صحابی بات کرتے تھے وہ آپ کی آنکھوں میں آنکھ ڈالنے لگتے تھے، آپ کی آنکھیں خودبخود نیچی ہو جاتی تھیں۔ شرمیلے اتنے تھے تو صحابہ نے روایت کی ہے کَانَ أَحیٰی مِنَ الْعَذْراءِ فِیْ خِدْرِہَا،کہ کنواری بچی جس کو خاوند اور منگنی کے لفظ کا بھی پتا نہ ہو، جیسے وہ اپنے ماں باپ کے پاس، اپنے گھر میں شرمیلی ہوتی ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اُس سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ یہ ترمذی کی روایت ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اُس کنواری بیٹی سے جو گھر میں اپنے کمرے کے اندر بیٹھی ہو۔ پردوں کے اندر، چادروں میں لپٹی ہوئی، اپنے غیر محرم نہیں، محرم رشتہ داروں سے بھی شرم کرتی ہو۔ بعض ہوتی ہیں جو سامنے نہیں آتیں۔ وہ کہتی ہیں ٹھیک ہے کہ میرا اس سے کوئی پردہ نہیں لیکن میری طبیعت نہیں چاہتی کہ میں لڑکے کے سامنے جاؤں۔ ایسی شرمیلی بھی خاندانی لڑکیاں ہوتی ہیں۔ آج کل کی بات میں نہیں کرتا۔اب تو جن کا کوئی رشتہ نہ ہو تو زیادہ دوستی اُس سے ہو جاتی ہے اور جن سے رشتہ ہو، اُن سے برقع پہن کر پردہ ہوتا ہے۔ بازار میں بھی، گھر میں بھی منہ لپیٹ کے کسی نے کہا کہ تمھارا چچا آیا ہے، کہنے لگی کہ بھاڑ میں جائے۔ مجھے میری چادر دینا ذرا لپیٹ کر میں روٹیاں پکا لوں، چچا سے تو پردہ لیکن خاوند کے دوست کے ساتھ دوستی ہے۔ یہ خدا کا عذاب آیا ہوا ہے بھائی! تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تو صفت یہ بیان کی گئی کہ آپ شرم کی وجہ سے کہنا کچھ نہیں چاہتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ سے صبر نہ ہو سکا، انھوں نے کہا کہ تم آج نرم پڑو گے تو یہ تو گھر کا دروازہ توڑ دیں گے۔ یہ تو آئیں گے ہر وقت، ان کو تو آنا ہی آنا ہے۔ ضابطہ بن گیا کہ آئندہ سے کوئی شخص ان اوقات میں آ کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا دروازہ نہیں کھٹکھٹائے گا۔ کوئی شخص آپ کی محفل میں آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ جن صحابہ کو جس جس جگہ پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم روز بٹھاتے ہیں، وہیں پر وہ لوگ بیٹھیں گے۔ دوسرا کوئی آگے نہیں بڑھے گا۔ کسی کو خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرمائیں کہ تم آگے آ جاؤ تو وہ آگے آئے گا۔ کوئی شخص حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے اونچی آواز سے نہیں بولے گا۔ کوئی شخص اب یا محمد کہہ کر نہیں پکارے گا۔ یا رسو ل اﷲ، یا نبی اﷲ کہہ کر پکارے گا۔ چنانچہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام کی تو کیا مجال ہے، کسی شخص کو پھر جرأت نہیں ہوئی کہ یا محمد کہہ کر بلائے، سوائے کافروں کے۔ کافروں نے تو بلایا کیونکہ انھیں تو ابھی ادب نہیں تھا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی حالت پھر یہی تھی کہ جب بلاتے تھے ’’یا رسول ﷲ‘‘ ’’یا نبی اﷲ‘‘ اے اﷲ کے رسول، اے اﷲ کے نبی۔ اس کے سوا کوئی نہیں بلاتا تھا اور تفسیروں میں آپ پڑھ لیجیے۔ تمام کتابوں میں لکھا ہوا ہے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر ابن خطاب رضی اﷲ عنہ جن کا قد و قامت، جن کا وجود بہت نمایاں تھا، جن کی آواز پورے محلہ سے باہر نکل کر پونے میل تک چلی جاتی تھی، وہ فاروقِ اعظم حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی محفل میں اس طرح چپ بیٹھے ہوئے ہوتے تھے جیسے معصوم بچہ اور حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ کوئی بات ہوئی، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا۔ حضرت عمر نے جواب دیا۔ تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم دو قدم کے فاصلہ پر حضرت عمر ابن خطاب کی بات سمجھ نہیں سکے۔ فرمایا: مَا سَمِعْتُ، میں نے سنا نہیں۔ ذرا اونچی کہو۔ کون عمر؟ جن کی آواز ایک میل تک جایا کرتی تھی۔ پھر بولے۔ حضرت صدیق اکبر تو بولتے ہی نہیں تھے وہ تو کَأَنَّہُ عَمُوْدٌ مِّنَ الْخَشَبِ،جیسے لکڑی کا ستون ہوتا ہے۔ یوں ہو گئے۔ فارقِ اعظم رضی اﷲ عنہ کی حالت یہ تھی کہ بولتے تھے تو اتنا کہ خود یہ مشکل سنتے تھے۔ وہ عمر ابن خطاب جن کی آواز کے دھڑکے سے لشکر ہل جاتے تھے۔ تو فرمایا: ’’بھائی میں نے نہیں سنا۔‘‘ تو تیسرے صحابی نے عرض کیا : ’’یا رسول اﷲ‘‘ عمر یوں فرماتے ہیں، تو فرمایا ہاں، میں نے سنا۔ تو اب دیکھئے ایک بات اس میں سے نکلی۔ آپ ذرا غور کریں، اگر یہ آہستہ بولنا عمر ابن خطاب کا تکلف ہوتا، تصنع ہوتا، یا خلافِ ادب ہوتا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم روک دیتے۔ فرماتے اونچی کیوں نہیں بولتے؟ پہلے بولتے تھے اب کیا ہے؟ تو پھر وہ آگے سے جواب دیتے کہ یا رسول اﷲ! آپ ہی نے تو آیت سنائی تھی۔ یہ مناظرہ کی ضرورت پڑتی، معلوم ہوا کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک عمر کا اب اتنا آہستہ بولنا ہی ضروری تھا کہ تمھاری آواز اب پاس بیٹھے ہوئے بھی مجھے نہ سنائی دے، یہ تو منظور ہے لیکن اتنی اونچی آواز کہ لوگ جس کو سن کر یہ سمجھیں کہ حضور علیہ السلام کے ساتھیوں کے یہاں اُن کا ادب ہی نہیں، یوں بولتے ہیں جیسے بچے کو بڑا ڈانٹتا ہے یہ برداشت نہیں۔ یہ برداشت ہے کہ جس عمر کی آواز محلہ سنتا تھا، آدھا مدینہ سنتا تھا، اُس کی آواز دو فٹ سے نہ سنی جائے، یہ منظور ہے لیکن اُسی عمر کی آواز نبی کی محفل میں اتنی اونچی برداشت نہیں، نہ خدا کو نہ خدا کے رسول کو کہ جن کے بولنے کی وجہ سے یہ سمجھا جائے کہ یہ ادب کے خلاف ہے۔ یہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد حالات پیدا ہوئے۔ اسی سورت کے اندر دیکھئے ضمن میں یہ بھی آپ کو معلومات ہو گئیں۔
اُن صحابہ کو جن کی ابھی نئی نئی ایمان کی حالت تھی، کمزوری تھی اُن میں ادب سے واقف نہیں تھے۔ انھی کی بات کرتے کرتے آگے فرماتے ہیں کہ ایسا نہ سمجھو کہ یہ نئے ہیں یا کمزور ہیں تو یہ مسلمان ہی نہیں، صرف ابوبکر ہی مسلمان ہیں، صرف عمر، عثمان، علی ہی مسلمان ہیں، نہیں نہیں! ہیں یہ بھی مسلمان۔ اور ابوبکر و عمر تو بہت بڑے درجے کے مسلمان ہیں لیکن کہیں اُمّت والے آگے یہ نہیں سمجھیں کہ دیکھو جی لاعلمی کی وجہ سے حضور علیہ السلام کا پورا ادب نہ کر سکے تو کلمہ ہی ختم ہو گیا، ایمان ہی ختم ہو گیا، نہیں بالکل نہیں۔ ایسا نہیں ہے، ہاں۔
’’ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی ‘‘(الحُجرات: ۳)
’’یہ ایسے لوگ ہیں کہ اﷲ ان کے دلوں کو تقویٰ کے لیے پرکھ چکا ہے۔‘‘
اﷲ فرماتے ہیں ایسی بات نہیں ہے۔ ہیں یہ نئے نئے، کل پختہ ہو جائیں گے۔ یہ ابوبکر و عمر و عثمان و علی کے درجہ کے لوگ تو نہیں لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے یا آئندہ آنے والا یہ خیال کر بیٹھے کہ یہ مسلمان ہی نہیں تھے تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ دھوکے میں ہے، اﷲ تعالیٰ ابوبکر و عمر کو جیسے امتحان میں آزما چکا ہے ان نئے لوگوں کو بھی اﷲ تعالیٰ اندر سے جانتا ہے کہ یہ پکے مسلمان ہیں۔ اُولٰئِکَ یہ وہ لوگ ہیں الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی، کہ جن کے دلوں کو نیکی اور تقویٰ کے لیے اﷲ تعالیٰ آزما چکا ہے۔
’’ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ ‘‘ (الحجرات، آیت:۳)
’’ان کے لیے کھلی بخشش ہے اور بڑا بدلہ ہے۔ ‘‘
سورت انفال کے اندر اور طرح آیا، یہاں اور طرح آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کو پیشگی بخشش کا پروانہ دے دیا ہے، ابھی وہ دنیا میں موجود ہیں کہ حضور علیہ السلام پر آیت نازل ہو رہی ہے۔ ابھی انھوں نے وفات نہیں پائی، قبروں میں نہیں گئے، اُن کے حساب کتاب کی نوبت نہیں آئی اور نہ آئے گی۔ یاد رکھنا صحابہ کا حساب کتاب نہیں ہو گا۔ بس یہی حساب کتاب ہو گا کہ آگئے ہو؟ جی حاضر ہیں! جاؤ تمہیں معاف کیا ہوا ہے۔ جاؤ تم پیشگی پاس ہو، جاؤ تمھارے ’’قائدِ اعظم‘‘ تمھارے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہوں گے۔تم اُن کے پیچھے پیچھے جاؤ۔ تم سے پہلے دنیا کا کوئی فرد جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کا کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا۔ دیکھ لیجیے کبھی کسی اور مسلمان کو کہا گیا ہے؟ ساری اُمّت پڑی ہوئی ہے، بڑے بڑے اولیاء اﷲ، قطب، غوث جن کی نیکی کی قسمیں کھائی جا سکتی ہیں۔ ایک آدمی کے متعلق بھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ وہ بے حساب جنت میں چلا جائے گا۔ ہاں ترمذی اور بخاری میں ایک روایت آتی ہے کہ صحابہ کرام کے علاوہ ستر ہزار آدمی ایسے آئیں گے کہ اﷲ تعالیٰ جن کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے بے حساب بخش دیں گے۔ ان میں کون کون ہو گا؟ یہ اﷲ جانے، اُس کا رسول جانے۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔
صحابہ کی محفل ایک میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرما رہے تھے، تو صحابہ تو اس میں ہیں ہی لیکن وہ ایک بات تھی، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے ایسے آدمی ہوں گے جو بے حساب جنت میں جائیں گے تو یکدم حضرت عُکاشہ بن مِحصَن رضی اﷲ عنہ کھڑے ہوئے۔ بنو اسد میں سے تھے۔ بڑے عجیب بزرگ ہیں۔ فلسطین کے علاقہ میں زیادہ رہے۔ غالباً وفات بھی اُدھر ہی ہوئی۔ عُکاشہ بھی نام ہے، عُکّاشہ بھی، دونوں ٹھیک ہیں۔ عکّاشہ بن مِحصَن اسدی (محصن ’’ص‘‘ کے ساتھ) کھڑے ہوئے اور کہا: ’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اُدْعُ لِیْ اَنْ اَکُوْنَ مِنْہُمْ ‘‘ یا رسول اﷲ! آپ نے فرمایا ہے کہ ستر ہزار آدمی بے حساب جنت میں جائیں گے، میرے لیے دعا فرمائیے مجھے خدا اُن میں سے کر دے۔ آپ نے وحی کا اشارہ پا کر فرمایا:’’ أَنْتَ مِنْہُمْ‘‘ تم اُنھی میں سے ہو۔ اتنے میں دوسرے صحابی کو کچھ خیال آیا کہا:’’ یا رسول اللّٰہِ وَ لِیَ؟‘‘کہ حضور میرے لیے بھی، تو فرمایا:’’ سَبَقَکَ عُکَاشَۃُ، کہ نہیں تم بیٹھ جاؤ عکاشہ کی بازی جیتی گئی۔ وہ جیت گیا ۔وہ بات کیا تھی؟ بتانا یہ تھا کہ کھڑکی کھلی ہوئی تھی رحمت کی، بارش ہونی تھی، قطرہ اُنھی پر پڑنا تھا۔ کیامطلب؟ کہ اور مسلمان جنت میں نہیں جائیں گے؟ مطلب یہ کہ عکاشہ بن محصن کی بازی زیادہ جیتی گئی کہ اُس کا نام آ گیا اوروں کا نام نہیں بتایا کہ صحابہ تو مجموعی طور پر ویسے ہی بخشے بخشائے ہیں لیکن عکاشہ کو خیال ہوا پتا نہیں میرا کیا مقام ہو گا؟ اُس دن بتا دیا کہ تم تو پہلے ہی بخشے ہوئے ہو، تمھیں تو بخشوانے کی ضرورت ہی نہیں اور دوسرے نے کہا تو فرمایا: ’’نہیں‘‘ اب وہ بازی جیت گیا۔ اب اُس کی ریس نہ کرو۔ بس اُس نے کہہ دیا تو بے حساب ہی جنت میں جائے گا۔ حالانکہ سارے صحابہ جنت میں جائیں گے اور بے حساب ہی جائیں گے۔ جو اُن کا حساب ہے وہ یہی کچھ ہو گا کہ تم نے نمازیں پڑھیں، تم نے روزے رکھے، تم نے جہاد کیا، تم نے میری وجہ سے اپنی ہڈیاں تڑوائیں، ہجرت کی، گھر بار چھوڑا، بیوی بچوں کی ذلت برداشت کی، قحط برداشت کیا، بھوک افلاس برداشت کیا۔ تم پیدا کہیں ہوئے لاشیں تمھاری کہاں دفن تھیں، میں جانتا ہوں کہ تم نے میری خاطر کیا۔ میرے رسول کی خاطر کیا، جاؤ تم کو معاف کیا۔ ہو گا یہی کچھ۔ تو بعض کو اتنا بھی نہیں کہا جائے گا۔ اُن کو بے حساب کہہ دیا۔ ویسے صحابی مجموعی طور سے اُمّت کے مقابلہ میں بے حساب جنت میں جائیں گے۔ وَکُلاً وَعَدَ اللّٰہُ الحُسنیٰ
تو اس آیت کے اندر جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں، جو آیت میں نے شروع میں تلاوت کی اس کے ساتھ تعلق جوڑ دوں گا۔ وہ یہ ہے فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ہیں کہ جن کے دلوں کو میں نے جانچ لیا ہے کہ ان کے اندر اسلام ہے تو اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے جتنے صحابہ دیکھئے، اس میں بنو تمیم کے وہ دیہاتی بھی آ گئے۔ اس میں جو مسجد میں موجود تھے وہ بھی آ گئے۔ جو مدینہ میں رہتے تھے وہ بھی آ گئے، جو باہر تھے سب آ گئے۔ کہ جتنے بھی نبی پر ایمان لانے والے ہیں۔ منافقوں کو چھوڑ کر، مکہ کے مشرکوں کو چھوڑ کر، بہروپیوں کو چھوڑ کر، یہ سب وہ لوگ ہیں کہ جن کے دلوں کو اﷲ نے جانچا ہوا ہے پہلے سے، کیونکہ اﷲ کو تو تقدیر کا پتا ہے۔ آپ باغ لگاتے ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ یہ پودا جو ہے لنگڑے آم کا ہے، اس میں دسہری نہیں نکل سکتا، آپ نے دسہری کا جو بوٹا لگایا ہے تو اس میں سے زمّرد نہیں نکل سکتا۔ آپ کو معلوم ہے نا یہ ہو کیسے سکتا ہے ، جو بوٹا لگایا جائے گا اندر سے ویسے ہی نکلے گی گٹھلی اس کی، اور رنگ بھی ویسا ہی ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ نے دنیا کا باغ لگایا، وہ عالم الغیب ہے۔ ہم عالم الغیب نہیں۔ ہمیں صرف تجربہ ہے، ہم نے تھوڑا سا پڑھا ہے، تو ہم کہہ دیتے ہیں اپنے خیال کی وجہ سے کہ آج جو ہم کہتے ہیں وہی کچھ ہو گا۔ اﷲ تو عالم الغیب والشہادۃ ہے۔ اُن کا فیصلہ یہی ہے کہ جس کو انھوں نے مؤمن پیدا کیا وہ دس ہزار سال کے بعد بھی پیدا ہو گا تو مؤمن ہی ہو گا۔ تو صحابہ کرام کے متعلق اﷲ تعالیٰ کو معلوم تھا قیامت سے پہلے، ازل سے ابد تک کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معلوم ہے کہ فلاں فلاں آدمی جو پیدا ہو گا فلاں گھر میں، کافروں کے گھر میں، وہ مسلمان پیدا ہو گا۔ اب قیامت آ جائے، جب بھی وہ پیدا ہو گا مسلمان ہی ہو گا۔ ابوجہل کے متعلق اﷲ کا یہ علم تھا کہ یہ کافر ہی رہے گا۔ وہ کافر رہا اور ابو جہل کا بیٹا عِکرِمَہ مسلمان ہو گیا۔ عبداﷲ بن اُبی منافق رہا۔ عبداﷲ بن اُبی کے بیٹے کا نام بھی عبداﷲ ہے، وہ صحابی ہو گیا۔ اب یہ کسی کے اختیار میں ہے؟ سارا خیبر یہودی رہا۔ بنو قَیْنقاع، بنو نضیر، یہ سب یہودی رہے لیکن ’’عبداﷲ بن سلام‘‘ یہ مسلمان ہو گئے۔ ان کے بیٹے ’’یوسف بن عبداﷲ بن سلام‘‘ مسلمان ہو گئے اور دس پندرہ یہودی عالم جو تھے وہ مسلمان ہو گئے، ایک بی بی تھیں وہ مسلمان ہو کر باندی بن کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں ۔ ’’ریحانہ بنت شمعون‘‘ ایک مہینہ یا تین مہینے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکاح میں بھی رہیں۔ وہ مسلمان ہو گئیں اور ام المؤمنین بن گئیں۔ اور پھر جلد ہی اُن کی وفات ہو گئی۔ جاری ہے