پروفیسر خالد شبیر احمد
ہم سے بچھڑ کے کھو گئے وکیل شاہ جی ملک عدم کے ہوگئے وکیل شاہ جی
داماد تھے وہ امیر شریعت کے طرحدار چہرہ تھا ضَوفشاں تو گفتار ضوفشار
شاداب تھے وہ مثل گل، سرسبز مثلِ برگ در فراق و ہجر کھلا ہم پہ بعد مرگ
دنیائے پارسائی میں یکتا تھے بے مثال ان کے شعور و شوق میں تھا بوذری کمال
حرفوں میں ان کے چاندنی سوز و گداز کی ہر ایک بات خوب تھی اس پاکباز کی
ہر دل کو ان کی بھاگئی ہاں خوبیٔ کردار دل میں اترتی دیکھی ان کی نرمیٔ گفتار
وہ ترجمانِ درد تھے، خود آگہی کی شان غیرت میں تھے وہ منفرد عزت کی آن بان
ان کے خیال و فکر میں قوسِ قزح کے رنگ اور زیست ان کی ساری ہی تھی فقر کی ترنگ
شبنم سا ان کا لہجہ تھا، حرف ان کے باوضو ہیں جن کی پارسائی کے اب چرچے چار ُسو
ذوقِ نمو میں ان کے کرن آفتاب کی رختِ بدن سے آتی تھی خوشبو گلاب کی
رقصاں ہے گرچہ دل میں میرے ان کی ہر ادا کانوں میں رس نہ گھولے گی پر ان کی اب صدا
وہ انتہائے شوق میں جاں سے گذر گئے ڈھونڈھے ہے ان کو جی مرا جانے کدھر گئے
خالدؔ کہوں میں کیا کہ وہ کامل نظر بھی تھے دنیائے آگہی کے وہ شمس و قمر بھی تھے
ء ء ء